بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گاؤں میں پہلے سے جمعہ ہورہا ہو وہاں جمعہ پڑھیں یا ظہر؟


سوال

میں ایک گاؤں میں رہتاہوں اوروہاں جمعہ کی شرائط موجودنہیں ،لیکن وہاں پہلے سے جمعہ شروع ہواہے،اب میں وہاں کے پیش امام کے پیچھے جمعہ کی نماز ادا کروں  یاظہرکے نماز گھرمیں ادا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے، قصبہ اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا قصبہ اور بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا درست ہے۔

            فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القستاني: تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات". (كتاب الصلاة، باب الجمعة ۲/ ۱۳۸ ط:سعيد)

            بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی تین یا چار ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، لہذا اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگا۔

            امداد الفتاوی میں ہے:

’’اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں‘‘۔ (امداد الفتاوی ۱/ ۴۱۸ ط:دارالعلوم)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے‘‘۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند ۱/ ۲۹۴ ط:دارالاشاعت)

            لہذا جس بستی کی آبادی تین چار ہزار افراد سے کم ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر نہ ہوں تو وہاں جمعہ ادا کرنا درست نہیں، لیکن اگر وہاں کافی عرصہ سے جمعہ پڑھا جارہا ہو اور جمعہ بند کرنے کی صورت میں فتنہ و فساد اور انتشار کاخوف ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کو فقہی مسئلہ سے مطلع کرکے جمعہ بند کرنے کی کوشش کی جائے، اگر اس کے باوجود فتنہ کا اندیشہ ہو تو جمعہ پڑھنے دیا جائےاور امام کے پیچھے جمعہ کی نماز ادا کریں، اپنی ظہر کی نماز نہ پڑھیں۔

            کفایت المفتی میں ہے:

’’اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں‘‘۔ (کتاب الصلاۃ، پانچواں باب ۳/ ۱۸۷ ط: دارالاشاعت)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں