بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد مسلک بدلنا


سوال

ہم حنفی مسلک پر چلتے ہیں، لیکن میرے چچا نے چچی کو طلاق دی ہے، پہلے دوبار دی ہے، یعنی صرف دوبار کہا کہ میں نے تمہیں طلاق دی ۔ میں نے تمہیں طلاق دی۔  اور اب انہوں نے تین بار کہا ہے، اہل حدیث کے مطابق کل ملا کر پانچ ہوئی ہیں اور چار باقی ہیں، یعنی ان کے مطابق طلاق نہیں ہوئی۔  اور چچا چچی ساتھ رہ رہے ہیں تو اب آپ یہ بتائیں کیا یہ درست ہے؟ اور مسلک بدل سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے لے کر آج تک امت کا اجماع ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہی جملہ سے دی جائیں یا الگ الگ جملہ سے دی جائیں یا مختلف اوقات میں دی جائیں بہر صورت تین طلاق ہی واقع ہوتی ہیں اس پر تمام مسالک کے ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) کا اجماع اور فتوی ہے اور یہی بات خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے سمجھی تھی اور اسی کے مطابق عمل کرتے رہے، نیز امام بخاری و دیگر محدثین رحمہم اللہ کا مسلک بھی یہی تھا۔  نیز اسی کے مطابق سعودی عرب کے سرکاری دارالافتاء سے اجماعی فتویٰ تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکا ہے۔ تمام معتبر اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں،  لہٰذا اب اس کے خلاف کسی کے فتویٰ دینے کا اعتبار نہیں ہے، نیز طلاق دینے کےبعد کسی  کے فتوی دینے سے یہ طلاقیں واپس نہیں ہوسکتیں۔ اور طلاق دینےوالے  کے مسلک سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، ایسا  شخص اپنی بیوی سے رجوع نہیں کرسسکتا، بہر صورت تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔

ایک جملہ سے تین طلاق کے وقوع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ  صحیح البخاري (٢/٧٩١) اور سنن أبي داؤد، باب اللعان(١/٣٢٤) میں مذکور ہے:

 "عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم".( ابو داؤد).

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے: 

"عن انس رضي الله عنه: كان عمر رضي الله عنه إذا أتي برجل قد طلق إمرأته ثلاثاً في مجلس أوجعه ضرباً و فرق بينهما". (باب من كره أن يطلق الرجل إمرأته ثلاثاً ٤/١١).

خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے: 

"عن معاوية ابن أبي يحي قال: جاء رجل إلى عثمان فقال: إني طلقت امرأتي مائةً؛ قال: ثلاث تحرمها عليك و سبعة و تسعون عدوان". ( باب ماجاء يطلق إمرأته مائة و ألف في قول واحد ٤/١٣).

خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف عبد الرزاق"میں مذکور ہے: 

"عن شريك بن أبي نمر قال: جاء رجل إلى علي رضي الله عنه فقال: إني طلقت إمرأتي عدد العرفج؛ قال: تأخذ من العرفج ثلاثاً و تدع سائره". (باب الطلق ثلاثاً ٦/٣٠٦).

تفسیر "الجامع لأحکام القرآن" للقرطبي میں امت کا اجماع منقول ہے:

"قال علمائنا: و اتفق ائمة الفتوي على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة". (١/٦٩٢)

"مسلم شریف "کی شرح "الجامع الصحيح" للنووي میں ہے:

 "و قد اختلف العلماء فيمن قال لإمرأته: "أنت طالق ثلاثاً" فقال الشافعي و مالك و أبو حنيفة و أحمد و جماهير العلماء من السلف و الخلف: يقع الثلاث". (١/٤٧٨ ط: قديمي)

وفي التَّتَارْخَانِيَّة:

" حُكِيَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ خَطَبَ إلَى رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ ابْنَتَهُ فِي عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ الْجُوزَجَانِيِّ فَأَبَى إلَّا أَنْ يَتْرُكَ مَذْهَبَهُ فَيَقْرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ الِانْحِطَاطِ وَنَحْوُ ذَلِكَ فَأَجَابَهُ فَزَوَّجَهُ؟ فَقَالَ الشَّيْخُ بَعْدَمَا سُئِلَ عَنْ هَذِهِ وَأَطْرَقَ رَأْسَهُ: النِّكَاحُ جَائِزٌ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْهِ أَنْ يَذْهَبَ إيمَانُهُ وَقْتَ النَّزْعِ؛ لِأَنَّهُ اسْتَخَفَّ بِمَذْهَبِهِ الَّذِي هُوَ حَقٌّ عِنْدَهُ وَتَرَكَهُ لِأَجْلِ جِيفَةٍ مُنْتِنَةٍ". (شامی 4/80، کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں