بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تیجہ، چالیسواں، اور برسی کا حکم / کیا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تیجہ ، چالیسواں اور برسی کے قائل تھے؟


سوال

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تو تیجہ،چالیسواں اور برسی کرنے کے قائل تھے ۔ تو اگر یہ بدعت ہیں تو حاجی صاحب معاذاللہ بدعتی ٹھہرے۔ اور اگر آپ کہیں کہ وہ اسے ضروری یا دین کا حصہ نہیں سمجھتے تھے تو آج بھی کچھ لوگ صرف اس لیے برسی کرتے ہیں کہ برسی کے لفظ سے دن یاد رہ جاتا ہے اور کچھ ایصال ثواب ہوجاتا ہے۔ وہ بھی اسے دین کا حصہ یا ضروری نہیں خیال کرتے۔ تو ان کے اس فعل کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

ایصالِ ثواب ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے،  لیکن اس کے لیے تیسرے دن، اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً  ثابت نہیں ہے، نیز موجودہ زمانہ میں تیجہ ، چالیسواں اور برسی یا عرس میں اور بھی کئی مفاسد پائے جاتے ہیں لہذا  یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ  مروجہ   تیجہ، چالیسواں اور برسی کے قائل نہیں تھے،  اس کی دلیل  مستند حوالہ  کے ساتھ لکھ کر بھیجیں اس کے بعد اس کا جواب دیا جائے گا۔   باقی ان  کی طرف  منسوب ایک رسالہ "رسالہ فیصلہ ہفتہ مسئلہ " سے اہلِ  بدعت استدال کرتے ہیں ، لیکن انہوں نے خود  میلاد سے متعلق یہ وضاحت کی ہے کہ" نفسِ ذکر مندوب اور قیود بدعت ہیں" ۔  نیز  یہ امر محقق ہے  کہ کسی کلام  کا وہی مطلب معتبر ہوگا جو لکھنے والا خود بیان کرےیا ، اگر وہ خود بیان نہ کرے تو  اس کے خواص ومقربین جو مطلب بیان کریں وہی معتبر ہوتا ہے۔  حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

"رسالہ  ہفت مسئلہ میں۔۔۔۔۔۔ اب رہے تین مسئلے قیود مجلسِ مولود کے اور قیود ایصالِ ثواب کے اور عرس بزرگانِ دین کا کرنا،  سو اس میں وہ(امداد اللہ مہاجر مکی) لکھتے ہیں کہ دراصل یہ مباح ہیں۔ اگر ان کو سنت یا ضروری جانے تو بدعت و تعدی حدود اللہ تعالیٰ اور گناہ ہے اور بدون اس کے کرنے میں وہ اباحت لکھتے ہیں، ہم لوگ منع کرتے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ ان کو رسوم اہلِ زمانہ سے خبر نہیں کہ یہ لوگ ان قیود کو ضروری جانتے ہیں؛ لہٰذا باعتبارِ اصل کے مباح لکھتے ہیں ا ور ہم لوگوں کو عادتِ عوام سے محقق ہوگیا ہے کہ یہ لوگ ضروری اور سنت جانتے ہیں۔ لہٰذا ہم بدعت کہتے ہیں" (فتاوی رشیدیہ ، کتاب البدعات، 409، 428، ط: سعید)

احسن الفتاوی کی دسویں جلد میں  "فیصلہ ہفت مسئلہ کی وضاحت" کے عنوان کے تحت  متعلقہ مسئلہ کی مکمل وضاحت ہے، اس کا مطالعہ کرلیجیے۔ (10/44)

 نیز مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” فقہی مسائل کے واسطے چار قسم کی دلیل ہوتی ہیں،کتاب، سنت ، اجماع اور قیاسِ مجتہدین، اگر کسی ولی برگزیدہ کا کوئی قول یا عمل ایسا ثابت ہو جس کے لیے چاروں دلیلوں میں سے کوئی دلیل نہ ہو تو ان ولی کے ساتھ حسنِ ظن کی وجہ سے ان کے اس قول وعمل کے لیے محملِ حسن تجویز کیا جائے، یہ نہیں ہوگا کہ اس قول وعمل کو اصل قرار دے کر ادلہٴ شرعیہ کو نظرانداز کردیا جائے"(فتاوی محمودیہ 21/207)

اگر کوئی شخص دن اور تاریخ کی تخصیص نہیں کرتا اور نہ ہی وہاں ایسا عرف ہے، اور اس کو لازم اور ضروری نہیں سمجھتا ،   بلکہ کبھی ایک آد ھ بار کرلیتا ہے تو اس کی گنجائش ہوگی، لیکن آج کل ایسا ہوتا نہیں ہے،  بلکہ عوام الناس نے ان دنوں کی تعیین کی ہوئی ہے، اور پھر ہر سال اس کا اہتمام خود اس کی تعیین کی دلیل ہے، پھر اس میں بسا اوقات مخلوط اجتماعات ہوتے ہیں، اور بسا اوقات پیسے دے کر قرآن خوانی کرائی جاتی ہے یہ سب امور ناجائز ہیں، لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں