شپنگ کمپنی اپنے کنٹینرز لوگوں کو ان کے سامان کی فراہمی کے لیے کرائے پر دیتی ہے، شپنگ کمپنی کے اپنے کینٹینرز بھی ہوتے ہیں، کمپنی کو بعض اوقات مزید کنٹینرز کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ دوسروں کے کنٹینرز متعین اجرت کے عوض کرایہ پر لیتی ہےاور ماہانہ کرایہ ادا کرتی ہے۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص ہے جو انویسٹر سے نقد سرمایہ لیکر شپنگ کمپنی کے ذریعے سے اپنے انویسٹر کے لیے کنٹینر خریدتا ہے، پھر انھیں لوگوں کے کینٹینرز شپنگ کمپنی کو کرایہ پر دیتا ہے، وہ شخص جو انویسٹر اور شپنگ کمپنی کے درمیان رابطہ کی خدمات سر انجام دیتا ہے، وہ کبھی شپنگ کمپنی سے کبھی سرمایہ دار سے کبھی دونوں سے ماہانہ مستقل بنیادوں پر حلال طریقے سے اس کا معاوضہ/ بدل / منافع وصول کرنا چاہتا ہے۔
ہمارے سامنے بھی اس کی کچھ صورتیں ممکن ہیں، لیکن ان کا شرعی تجزیہ اور جائز حل مطلوب ہے۔
1۔زید جو کہ انویسٹر ہے اس نے عمرکو کنٹینرز 10 ہزار روپے کرایہ کے عوض دئے اور عمر نے یہی کنٹینرز شپنگ کمپنی کو 12 ہزار روپے کرایہ کے عوض میں دے دیے، حالانکہ دوسرے اجارہ کی صورت میں ضروری ہے شئی میں کوئی مستقل معتد بہ اضافہ ہو تو دوسرا اجارہ کا کرایہ پہلےاجارہ سے زیادہ ہو سکتا ہے، جب کہ اس صورت میں کنٹینرز میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ کنٹینر جیسے پہلے تھے اس میں بغیر کسی تغیر اور تبدل کے دوسرے اجارے میں دیے ہیں، کیا یہ صورت جائز ہے؟
2۔ عمر نے زید سے کنٹینرز مضاربت پر لئےاور کہا کہ میں انہیں شپنگ کمپنی کو کرایہ پر دوں گا، اس سے جوکرایہ حاصل ہو گااس میں سے دس فیصد میرا اور بقیہ 90 فیصد زید کا ہو گا۔
احناف کے نزدیک مال مضاربت نقد ہونا ضروری ہے، جب کہ تعامل الناس اور ابتلاء عام کی وجہ سے مسلک حنابلہ پر عمل کرتے ہوئےمال مضاربت کے عین ہونے کی صورت میں گنجائش دی جا سکتی ہے؟
3۔یا مسئولہ صورت میں عمر کو زید کے لیے عامل قرار دیا جائے ، کیونکہ کنٹینرز کو کرایہ پر دینے کے لیے عمر کی محنت شامل ہے، اس کی محنت کا عوض ملنا چاہیے، مسئولہ صورت میں عمر کی اجرت مجہول ہے ، یہ جہالت مضاربت و شراکت میں تو جائز ہے لیکن اجارے میں اجرت کو متعین ہونا ضروری ہے، لہذا کیاعقد اجارہ کو صحیح کرنے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے کہ ابتدا کچھ متعین اجرت بطور اجیر کے طے کر لی جائے اور مزید اس کے لئے کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا کچھ متعین فیصد بھی اس کی اجرت کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ جہالت دور ہو جائے؟
4۔عمر چونکہ زید اور شپنگ کمپنی دونوں کی جانب سے خدمات انجام دیتا ہے، مثلا کرایہ کی رقم زید کو پہچانا ، کبھی نقدی کی صورت میں کبھی آن لائن ٹرانسفر کی صورت میں، اسی طرح عمر کی جانب سے کمپنی کو بروقت کرایہ کی مد میں رقم دینے پر آمادہ کرنا، شپنگ کمپنی کی جانب سے تاخیر کی صورت میں زید کو تسلی اور اطمینان دلانا کہ کاروبار ہےاور ادائیگیوں میں تاخیر ہو جانا کاروبار کا حصہ ہے، اس بات کا اطمینان کہ آپ کو کرایہ پورا ملے گا، اسی طرح بعض اوقات کنٹینرز کے کرایہ کا حساب رکھنا پڑتا ہے، تو کیا ان تمام خدمات یا بعض خدمات کی انجام دہی کے عوض عمر کا دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے اجرت کا تقاضہ کرنا جائز ہے؟
اجرت کا متعین ہونا ہی ضروری ہےیا کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد اجرت کے طور پر بھی طے کر لینا جائز ہے؟
1۔ صورت مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ پہلی صورت میں سائل کے لئے کنٹینر ز کو آگے زائد کرایہ کے عوض دینا درست نہیں، کیونکہ کسی چیز کو آگے زائد کرایہ پر دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس چیز میں کوئی اضافہ ہو ،یا خلاف جنس کے ساتھ کرایہ پر دے، لہذا پہلی صورت جائز نہیں ہے۔
2۔ دوسری صورت میں اس معاملے کو مضاربت نہیں قرار دیا جا سکتا، کیونکہ مضاربت میں راس المال کا نقدی ہونا ضروری ہے، لہذا اس معاملے کو مضاربت نہیں کہہ سکتے، رہی بات تعامل اور ابتلاء عام کی وجہ سے مذھب غیر پر عمل کرنے کی گنجائش دینا یہ بھی درست نہیں ، کیونکہ مذھب غیر پر عمل کرنا اس وقت جائز ہے جب ضرورتِ شدیدہ ہو (جس کے لیے شرعاً اضطرار کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے)اور اپنے مذہب پر عمل کرنے میں حرج و مشقت لازم آتی ہو تو ایسی صورت میں کسی دوسرے امام کے مذہب پر عمل کیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ دوسرے مذہب پر عمل کرنا خواہش نفس اور رخصت کو تلاش کرنے کی بنا پر نہ ہو اور نہ ہی تلفیق سے کام لیا جاتا ہو، اور ذکر کردہ مسئلہ میں ضرورت بھی نہیں ، کیونکہ اس کی جائز اور متبادل صورتیں موجود ہیں۔
3۔ذکر کردہ تیسری صورت میں اگر عمر کو زید کے لئے ملازم قرار دیا جائےاوراس کے لیے اجرت کی ایک خاص مقدار بطور اجیر طے کر لی جائےاور اس کے علاوہ کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کامتعین فیصد کمیشن کے طور پر طے کر لیا جائےتو یہ بھی تنخواہ کے تابع بن کر جائز ہو جائے گا۔
4۔ نیز سوال میں ذکر کردہ چوتھی صورت کا تعلق بروکری اور کمیشن ایجنٹ سے ہےاور دلال/ کمیشن ایجنٹ کی دو حیثیتیں ہیں، ایک تو یہ ہے وہ ایسا کمیشن ایجنٹ ہو جو صرف خریدنے والے یا بیچنے والے کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کا وکیل بنتا ہے اور خود اس کی طرف سے عقد کرتا ہے، اس صورت میں وہ صرف اسی سے کمیشن لے سکتا ہے جس کا وہ وکیل ہو، دوسرے سے نہیں لے سکتا، کیوں کہ عاقد (عقد کرنے والا) ہونے کی وجہ سے اس نے دوسرے فریق کی ترجمانی نہیں کی، بلکہ دوسرے فریق کے ساتھ بذاتِ خود عقد (سودا) کیا ہے تو اس صورت میں دلال/ کمیشن ایجنٹ دوسرے فریق سے کمیشن/ بروکری لینے کا حق دار نہیں ہوگا۔
اور دلال/ کمیشن ایجنٹ کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ دونوں پارٹیوں (خریدار اور بیچنے والے) میں سے کسی کا وکیل نہ بنے، بلکہ دونوں جانب یعنی بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے درمیان سودا کروانے کے لیے خدمات انجام دے اور دونوں کے درمیان رابطہ کرانے کے عمل کی اجرت لے تو اس صورت میں دلال/ کمیشن ایجنٹ کا دونوں پارٹیوں (خریدار اور بیچنے والے) سے کمیشن/ بروکری لینا جائز ہوگا۔
لہذا ذکر کردہ چوتھی صورت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر سائل دونوں پارٹیوں کے لئے کام کرے تو دونوں سے اجرت لے سکتا ہے، لیکن اگر ایک کے نمائندہ کے طور پر کام کرے تو ایسی صورت میں دوسرے سے اجرت لینا جائز نہیں ہو گا، نیز چاہے ایک سے کمیشن لے یا دونوں سے لے ، دونوں صورتوں میں ہر ماہ کمیشن نہیں لے سکے گا، بلکہ جس جس وقت وہ دونوں کے درمیان اجارہ کا معاملہ کرے گا اس وقت اجرت کا مستحق ہو گا، مثلا ایک سال کے لئے کنٹینر کے اجارے کا معاملہ ہوا تو پھر معاملہ کے وقت سے طے شدہ متعین اجرت ملے گی، اس کے بعد ہر ماہ (کمیشن) اجرت نہیں ملے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب فيما إذا ارتحل إلى غير مذهبه
(قوله: ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر) أي إذا كان ارتحاله لا لغرض محمود شرعًا، لما في التتارخانية: حكي أن رجلا من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، ويرفع يديه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعدما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النكاح جائز ولكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حق عنده وتركه لأجل جيفة منتنة، ولو أن رجلا برئ من مذهبه باجتهاد وضح له كان محمودا مأجورًا.
أما انتقال غيره من غير دليل بل لما يرغب من عرض الدنيا وشهوتها فهو المذموم الآثم المستوجب للتأديب والتعزير لارتكابه المنكر في الدين واستخفافه بدينه ومذهبه اهـ ملخصًا..................
يدل لذلك ما في القنية رامزا لبعض كتب المذهب: ليس للعامي أن يتحول من مذهب إلى مذهب، ويستوي فيه الحنفي والشافعي اهـ. وسيأتي إن شاء الله تعالى تمام ذلك في فصل القبول من الشهادات."
( كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:80، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
(قوله: وشرطها إلخ) هذا على أنواع: بعضها شرط الانعقاد، وبعضها شرط النفاذ، وبعضها شرط الصحة، وبعضها شرط اللزوم، وتفصيلها مستوفى في البدائع ولخصه ط عن الهندية. (قوله: كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله: بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقداً منها فلو كانت كيلياً أو وزنياً أو عددياً متقارباً فالشرط بيان القدر والصفة وكذا مكان الإيفاء لو له حمل ومؤنة عنده، وإلا فلايحتاج إليه كبيان الأجل، ولو كانت ثياباً أو عروضاً فالشرط بيان الأجل والقدر والصفة لو غير مشار إليها، ولو كانت حيوانا فلا يجوز إلا أن يكون معينا بحر ملخصاً."
(كتاب الإجارة، ج:6، ص:5، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج."
(كتاب الاجارة، الباب السابع في إجارة المستأجر، ج:4، ص:425، ط:رشيدية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما شرائطها الصحيحة فكثيرة كذا في النهاية. (منها) أن يكون رأس المال دراهم أو دنانير عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وعند محمد - رحمه الله تعالى - أو فلوسا رائجة ... (ومنها) أن يكون رأس المال معلوما عند العقد حتى لا يقعان في المنازعة في الثاني والعلم به إما بالتسمية أو بالإشارة ... (ومنها) أن يكون رأس المال عينا لا دينا فالمضاربة بالديون لا تجوز... (ومنها) أن يكون المال مسلما إلى المضارب لا يد لرب المال فيه فإن شرطا أن يعمل رب المال مع المضارب تفسد المضاربة... (ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط...(ومنها) أن يكون المشروط للمضارب مشروطا من الربح لا من رأس المال."
(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسير المضاربة، ج:4، ص:285، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"و أما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."
(کتاب البیوع، ج: 4، 560، ط: سعید)
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
"(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟(الجواب) : نعم وفي فوائد صاحب المحيط الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب ثم قال ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ومثله في الفصولين وشرح التنوير للعلائي من البيع."
(کتاب البیوع، ج: 1، ص: 247، ط:دار المعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144605100628
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن