کیا اوٹنی کا پیشاب پینا جائز ہے؟ اور اگر ہے تو کون سی حدیث سے ثابت ہے؟ حدیث کا مکمل حوالہ دیں!
اونٹنی کا پیشاب ناپاک ہے، اور اس کا پینا جائز نہیں ہے; اس لیے کہ حدیثِ مبارک میں ہے: پیشاب سے بچو ، اس لیے عموماً عذابِ قبر اس وجہ سے ہوتا ہے۔ اس میں اونٹ اور غیر اونٹ کا فرق نہیں ہے۔
سنن الدارقطني (1 / 233):
"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه»".
باقی جس حدیث میں اونٹ کا پیشاب پینے کا ذکر ہے وہ حدیث درج ذیل ہے:
"عن أنس بن مالك، قال: قدم أناس من عكل أو عرينة، فاجتووا المدينة، «فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم، بلقاح، وأن يشربوا من أبوالها وألبانها»، فانطلقوا، فلما صحوا، قتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم، واستاقوا النعم، فجاء الخبر في أول النهار، فبعث في آثارهم، فلما ارتفع النهار جيء بهم، «فأمر فقطع أيديهم وأرجلهم، وسمرت أعينهم، وألقوا في الحرة، يستسقون فلايسقون». قال أبو قلابة: «فهؤلاء سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»". (صحيح البخاري. 1 / 56، رقم الحدیث : 233، 1501، 4192)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ آئے، مگر وہ مدینہ میں بیمار ہوگئے، تو آپ ﷺ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں میں لے جانے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ لوگ ان کا پیشاب اور ان کا دودھ پئیں، چنانچہ وہ (جنگل میں) چلے گئے اور ایسا ہی کیا، جب تن دُرست ہو گئے، تو نبی ﷺ کے چراوہے کو قتل کر ڈالا اور جانوروں کو ہانک لے گئے، ابتدا دن ہی میں (یہ) خبر نبی ﷺ کے پاس آئی، چناں چہ آپ ﷺ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے اور دن چڑھے وہ (گرفتار کر کے) لائے گئے، آپ ﷺ نے حکم دیا تو ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور گرم سنگلاخ وادی میں ڈال دیے گئے، پانی مانگتے تھے تو انہیں پانی نہیں پلایا جاتا تھا۔ ابوقلابہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے چوری کی اور قتل کیا اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے اور اللہ اس کے رسول سے لڑے۔
اس حدیث کی توجیہ درج ذیل ہے :
1۔ آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان لوگوں کی شفا اونٹی کے پیشاب میں منحصر ہے، اس کے علاوہ ان کی شفا ممکن نہیں ہے تو یہ لوگ مضطر کے حکم میں ہوگئے تھے، اور حالتِ اضطرار میں نجس استعمال کی گنجائش ہوجاتی ہے۔
2۔ آپ ﷺ نے ان کو پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھا، اور اس جملہ میں تضمین تھی، اصل جملہ یوں تھا ”اشربوا من ألبانها واستنشقوا أو واضمدوا من أبوالها“ یعنی اونٹنیوں کے دودھ سے پیئو اور ان کے پیشاب سے چھڑکاؤ کرو یا لیپ کرلو۔
3۔ بعض شراحِ حدیث فرماتے ہیں یہ حدیث دیگر عمومات سے منسوخ ہے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3 / 154):
"وَقَالَ أَبُو حنيفَة وَالشَّافِعِيّ وَأَبُو يُوسُف وَأَبُو ثَوْر وَآخَرُونَ كَثِيرُونَ: الأبوال كلهَا نَجِسَة إلاَّ مَا عُفيَ عَنهُ، وَأَجَابُوا عَنهُ بِأَن مَا فِي حَدِيث العرنيين قدكَانَ للضَّرُورَة، فَلَيْسَ فِيهِ دَلِيل على أَنه يُبَاح فِي غير حَال الضَّرُورَة؛ لِأَن ثمَّة أَشْيَاء أبيحت فِي الضرورات وَلم تبح فِي غَيرهَا، كَمَا فِي لبس الْحَرِير، فَإِنَّهُ حرَام على الرِّجَال وَقد أبيح لبسه فِي الْحَرْب أَو للحكة أَو لشدَّة الْبرد إِذا لم يجد غَيره، وَله أَمْثَال كَثِيرَة فِي الشَّرْع، وَالْجَوَاب الْمقنع فِي ذَلِك أَنه عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، عرف بطرِيق الْوَحْي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جَائِز عِنْد التيقن بِحُصُول الشِّفَاء، كتناول الْميتَة فِي المخصمة، وَالْخمر عِنْد الْعَطش، وإساغة اللُّقْمَة، وَإِنَّمَا لَايُبَاح مَا لَايستيقن حُصُول الشِّفَاء بِهِ.
وَقَالَ ابْن حزم: صَحَّ يَقِيناً أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِنَّمَا أَمرهم بذلك على سَبِيل التَّدَاوِي من السقم الَّذِي كَانَ أَصَابَهُ، وَأَنَّهُمْ صحت أجسامهم بذلك، والتداوي منزلَة ضَرُورَة. وَقد قَالَ عز وَجل: {إلاَّ مَا اضطررتم إِلَيْهِ} [الْأَنْعَام: 119] فَمَا اضْطر الْمَرْء إِلَيْهِ فَهُوَ غير محرم عَلَيْهِ من المآكل والمشارب.
وَقَالَ شمس الأئمة: حَدِيث أنس رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ قد رَوَاهُ قَتَادَة عَنهُ أَنه رخص لَهُم فِي شرب ألبان الْإِبِل، وَلم يذكر الأبوال، وَإِنَّمَا ذكره فِي رِوَايَة حميد الطَّوِيل عَنهُ، والْحَدِيث حِكَايَة حَال، فَإِذا دَار بَين أَن يكون حجَّة أَو لَايكون حجَّة سقط الِاحْتِجَاج بِهِ، ثمَّ نقُول: خصهم رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بذلك؛ لِأَنَّهُ عرف من طَرِيق الْوَحْي أَن شفاءهم فِيهِ وَلَايُوجد مثله فِي زَمَاننَا، وَهُوَ كَمَا خص الزبير رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ بِلبْس الْحَرِير لحكة كَانَت بِهِ، أَو للقمل، فَإِنَّهُ كَانَ كثير الْقمل، أَو لأَنهم كَانُوا كفَّارًا فِي علم الله تَعَالَى وَرَسُوله عَلَيْهِ السَّلَام علم من طَرِيق الْوَحْي أَنهم يموتون على الرِّدَّة، ولايبعد أَن يكون شِفَاء الْكَافِر بِالنَّجسِ. انْتهى.
فَإِن قلت: هَل لأبوال الْإِبِل تَأْثِير فِي الِاسْتِشْفَاء حَتَّى أَمرهم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بذلك؟ قلت: قد كَانَت إبله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الْإِبِل الَّتِي ترعى ذَلِك وَأَلْبَانهَا تدخل فِي علاج نوع من أَنْوَاع الِاسْتِشْفَاء، فَإِذا كَانَ كَذَلِك كَانَ الْأَمر فِي هَذَا أَنه عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام عرف من طَرِيق الْوَحْي كَون هَذِه للشفاء، وَعرف أَيْضاً مرضهم الَّذِي تزيله هَذِه الأبوال، فَأَمرهمْ لذَلِك، وَلَايُوجد هَذَا فِي زَمَاننَا، حَتَّى إِذا فَرضنَا أَن أحداً عرف مرض شخص بِقُوَّة الْعلم، وَعرف أَنه لَايُزِيلهُ إلاَّ بتناول الْمحرم، يُبَاح لَهُ حِينَئِذٍ أَن يتَنَاوَلهُ، كَمَا يُبَاح شرب الْخمر عِنْد الْعَطش الشَّديد، وَتَنَاول الْميتَة عِنْد المخمصة، وَأَيْضًا التَّمَسُّك بِعُمُوم قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (استنزهوا من الْبَوْل فَإِن عَامَّة عَذَاب الْقَبْر مِنْهُ) أولى؛ لِأَنَّهُ ظَاهر فِي تنَاول جَمِيع الأبوال، فَيجب اجتنابها لهَذَا الْوَعيد، والْحَدِيث رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة، وَصَححهُ ابْن خُزَيْمَة وَغَيره مَرْفُوعاً". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200091
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن