ایک دوست نے مجھے بتایاکہ ایک حدیث کے مطابق اونٹ کا پیشاب پینا ٹھیک ہے، جس کو میرا دل تسلیم نہیں کرتا.
ایک حدیث جس کو ’’حدیثِ عرنیین‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس میں مذکور ہے کہ ’’عرینہ‘‘ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ میں آئے، انہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی، بیمار ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیماری کے علاج کے لیے اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز کیا تھا، یہ لوگ صدقات (بیت المال) کے اونٹوں کے پاس چرا گاہ میں چلے گئے اور رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو شہید کرکے اونٹ ہنکا کر لے گئے، ان کا تعاقب کیا گیا، اور پکڑنے کے بعد انہیں سزاءً قتل کیا گیا، ہاتھ پیر بھی کاٹے گئے، وغیرہ وغیرہ۔
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ اونٹ کا پیشاب پینے کو جائز کہتے ہیں جب کہ فقہاءِ احناف کے نزدیک اونٹ سمیت تمام جانوروں کا پیشاب انسان کے پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور اس کا پینا ناجائز ہے؛ کیوں کہ دیگر صحیح احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تاہم ’’حدیثِ عرنیین‘‘ میں نبی کریم ﷺ نے ’’عرینہ‘‘ کے لوگوں کو جو اونٹ کا پیشاب پینا تجویز کیا تھا اس کی مختلف توجیہات ہیں:
1- رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کا پیشاب پینا تجویز نہیں فرمایا تھا، بلکہ استعمال کا ذکر فرمایا تھا، اور یہ خارجی استعمال بھی ہوسکتاہے، بعض راویوں نے اونٹ کے پیشاب کے استعمال کا مطلب پینا سمجھا تو بعض روایات میں پینے کا ذکر کردیا یا اس قبیلے کے لوگوں نے سمجھا کہ پینا مراد ہے اور انہوں اونٹ کا پیشاب پیا بھی۔
2- اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اونٹ کا پیشاب پینے کا ہی فرمایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی بتادیا گیا تھا کہ ان کی شفا اس کے علاوہ نہیں ہے، اور اگر واقعۃً ایسی اضطراری صورتِ حال پیش آجائے یعنی کوئی جائز، حلال دوا نہ ہو اور مرض ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان دین دار ماہر ڈاکٹر یقینی طور پر کہیں کہ فلاں (ناپاک/ ممنوعہ) چیز میں شفا یقینی ہے، تو شدید ضرورت کی حالت میں اس علاج کی گنجائش ہوتی ہے۔ اسی طرح حالتِ اضطرار میں شریعت نے مردار کے استعمال کی بھی بقدرِ ضرورت استعمال کی اجازت دی ہے۔ یعنی یہ اجازت عام حالات کے اعتبار سے نہیں ہے، جیسا کہ اگر شراب کے علاوہ کچھ کھانے یا پینے کا نہ ہو اور جان جانے کا قوی اندیشہ ہو تو جان بچانے کے لیے بقدر ضرورت شراب پینے کی اجازت ہوجاتی ہے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3 / 154):
" وقال أبو حنيفة والشافعي وأبو يوسف وأبو ثور وآخرون كثيرون: الأبوال كلها نجسة إلا ما عفي عنه، وأجابوا عنه بأن ما في حديث العرنيين قد كان للضرورة، فليس فيه دليل على أنه يباح في غير حال الضرورة؛ لأن ثمة أشياء أبيحت في الضرورات ولم تبح في غيرها، كما في لبس الحرير؛ فإنه حرام على الرجال وقد أبيح لبسه في الحرب أو للحكة أو لشدة البرد إذا لم يجد غيره، وله أمثال كثيرة في الشرع، والجواب المقنع في ذلك أنه عليه الصلاة والسلام، عرف بطريق الوحي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جائز عند التيقن بحصول الشفاء، كتناول الميتة في المخصمة، والخمر عند العطش، وإساغة اللقمة، وإنما لايباح ما لايستيقن حصول الشفاء به. وقال ابن حزم: صح يقيناً أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما أمرهم بذلك على سبيل التداوي من السقم الذي كان أصابه، وأنهم صحت أجسامهم بذلك، والتداوي منزلة ضرورة. وقد قال عز وجل: {إلا ما اضطررتم إليه} (الأنعام: 119) فما اضطر المرء إليه فهو غير محرم عليه من المآكل والمشارب. وقال شمس الائمة: حديث أنس رضي الله تعالى عنه، قد رواه قتادة عنه أنه رخص لهم في شرب ألبان الإبل. ولم يذكر الأبوال، وإنما ذكره في رواية حميد الطويل عنه، والحديث حكاية حال، فإذا دار بين أن يكون حجةً أو لايكون حجةً سقط الاحتجاج به، ثم نقول: خصهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك لأنه عرف من طريق الوحي أن شفاءهم فيه ولايوجد مثله في زماننا، وهو كما خص الزبير رضي الله تعالى عنه بلبس الحرير لحكة كانت به، أو للقمل، فإنه كان كثير القمل، أو لأنهم كانوا كفاراً في علم الله تعالى ورسوله عليه السلام علم من طريق الوحي أنهم يموتون على الردة، ولايبعد أن يكون شفاء الكافر بالنجس. انتهى. فإن قلت: هل لأبوال الإبل تأثير في الاستشفاء حتى أمرهم صلى الله عليه وسلم بذلك؟ قلت: قد كانت إبله صلى الله عليه وسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الإبل التي ترعى ذلك وألبانها تدخل في علاج نوع من أنواع الاستشفاء، فإذا كان كذلك كان الأمر في هذا أنه عليه الصلاة والسلام عرف من طريق الوحي كون هذه للشفاء، وعرف أيضاً مرضهم الذي تزيله هذه الأبوال، فأمرهم لذلك، ولايوجد هذا في زماننا، حتى إذا فرضنا أن أحداً عرف مرض شخص بقوة العلم، وعرف أنه لايزيله إلا بتناول المحرم، يباح له حينئذ أن يتناوله، كما يباح شرب الخمر عند العطش الشديد، وتناول الميتة عند المخمصة، وأيضاً التمسك بعموم قوله صلى الله عليه وسلم: (استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه) أولى؛ لأنه ظاهر في تناول جميع الأبوال، فيجب اجتنابها لهذا الوعيد، والحديث رواه أبو هريرة وصححه ابن خزيمة وغيره مرفوعاً".
فتوی نمبر : 144012201206
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن