بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سماعِ موتی کے قائل ہیں


سوال

سماعِ  موتیٰ  سے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا کیاعقیدہ ہے ؟بعض لوگ سماع کا انکار کرکے اپنے آپ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جانب منسوب کرتے ہیں!

جواب

اس مسئلہ کے دو پہلو ہیں : ایک   انبیاءِ کرام  علیہم السلام کا  سماع اور  ان کی حیات،  اور دوسرا عام مومنین کا سماع۔

سو  انبیاءِ  کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے بارے میں، ان کی وفات کے بعد  ان کی حیات  (جو دنیاوی حیات کے مماثل بلکہ دنیاوی حیات سے بھی بڑھ کر ہے) اور سماع کا ثبوت جمہور  امّت  (بشمول ائمہ اربعہ ) کا اجماعی عقیدہ ہے ،اس بارے میں کسی امام کااختلاف نہیں ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  بھی انبیاءِ کرام  علیہم السلام کی حیات و سماع کے قائل ہیں ۔آپ کے مسلک کے ترجمان علامہ حسن بن عمار الشرنبلالی ؒ مراقی الفلاح میں لکھتے  ہیں:

'ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه و سلم أن يكثر من الصلاة عليه فإنه يسمعها أو تبلغ إليه، و فضلها أشهر من أن نذكره فإذا عاين حيطان المدينة المنورة يصلي على النبي صلى الله عليه و سلم، ثم يقول: اللّٰهمّ هذا حرم نبيك ومهبط وحيك فامنن علي بالدخول فيه و اجعله وقايةً لي من النار و أمانًا من العذاب و اجعلني من الفائزين بشفاعة المصطفى يوم المآب." (1/298)

انوارالمحمود علیٰ سنن ابی داؤد میں ہے :

"انهم اتفقوا على حياته، بل حياة الأنبياء متفق عليها، لا خلاف لأحد فيه."

(1/610 إدارۃ القرآن )

جب کہ عام اَموات کے بارے میں سماع کا مسئلہ صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ  سے اختلافی چلا آرہا ہے، دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں، اس لیے اس مسئلہ  میں شدت کرنا اور ایک فریق کا دوسرے کی تغلیط، تجہیل  یا تفسیق کرنا  ٹھیک نہیں ہے۔ تاہم عام اَموات   سے متعلق بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سما ع کی  ہے۔

حاصل یہ ہے کہ  انبیاءِ  کرام علیہم السلام کے بارے میں حیات وسماع کا ثبوت جمہور امّت کا اجماعی عقیدہ ہے، جب کہ عام مردوں کے بارے میں سماع کا مسئلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ سے اختلافی چلا آرہا ہے، سماع وعدم سماع دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں۔علمائے دیوبند کے نزدیک احادیث کی بناء پر سماع راجح  ہے۔

چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"قوله: (السلام عليكم إلخ) ظاهر حديث الباب و غيره من كثير من الأحاديث يدل على سماع الموتى، و اشتهر على ألسنة الناس أنّ الموتى ليس لهم سماع عند أبي حنيفة، و صنّف ملا علي القاري رسالةً و ذكر فيها أن المشهور ليس له أصل من الأئمة أصلاً، بل أخذ هذا من مسألة في باب الأيمان أنه إذا حلف أنه لايتكلم مع فلان فمات الرجل فتكلّم معه على قبره ميتاً لايحنث، أقول: إنّ وجه عدم الحنث أنّ مبنى الأيمان على العرف، و أهل العرف لايعلمون أنّ الموتى تسمع، و المحقق أنّ أبا حنيفة لاينكر سمع الأموات و إن خالف ابن الهمام، و قال: إن الموتى لاتسمع، و إن ذخيرة الحديث تدلّ على سمع الموتى، و قال الشيخ: إنّ الموتى لاتسمع و يستثنى منه سمع قرع النعال و السلام عليكم، أقول: لو قلنا بسمع الموتى لا إشكالَ فإنه ثبت بقدر مشترك تواتراً في الحديث و لانتعرض إلى التخصيصات المتكلفة، و سيّما إذا لم يرد الإنكار عن أئمتنا الثلاث، و أمّا الآيات المشيرة إلى عدم السمع فلها محامل حسنة." (2/441)

فیض الباری میں ہے :

"أقول: و الأحاديثُ في سماع الأمواتِ قد بلغت مَبْلغَ التواتر. و في حديثٍ صحَّحه أبو عمرو: أن أحدًا إذا سَّلَّم على الميتِ فإِنه يَرُدُّ عليه، و يعرِفُه إن كان يَعْرِفُه في الدَّنيا - بالمعنى- و أخرجه ابن كثير أيضًا و تردَّد فيه، فالإِنكار في غير مَحَلِّه، و لا سيّما إذا لم يُنقل عن أحدٍ من أئمتنا رحمهم الله تعالى، فلا بدّ من التزام السماع في الجملة. وأما الشيخ ابن الهمام رحمه الله تعالى فجعلَ الأَصْل هو النَّفّي، و كلَّ مَوْضِع ثبت فيه السَّماعُ جَعَله مستثنًى و مقتصِرًا على المَوْرد."(4/93)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں