بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی ملک میں کسی بھی کافر کو عہدہ دینا ناجائز ہے تو پھر علماء کرام صرف قادیانیوں کو عہدہ دینے پر کیوں احتجاج کرتے ہیں ؟


سوال

اسلامی ملک میں اگر کافر کو کسی سرکاری عہدے پر نہیں رکھا جاسکتا تو پاکستان میں صرف قادیانی کو کوئی منصب دینے پر ہی علماۓ کرام احتجاج کیوں کرتے ہیں ? یہاں تو بہت سے عہدوں پر کافر کام کر رہے ہیں, وہ  کہتے ہیں ہمیں  مسئلہ صرف قادیانی کے سرکاری عہدے سے ہے۔

جواب

علماءِ حق نے اسلامی ملک میں کسی کافر کو سرکاری کلیدی عہدہ دینے کی کبھی حمایت نہیں کی ہے، اور مختلف پلیٹ فارم پر وہ اس کی مخالفت  بھی کرتے رہیں،  لیکن ایک عام کافر جو اپنے کفر کو تسلیم کرتا ہے اس میں اور قادیانی میں بہت فرق ہے،  وہ کافر جو اسلامی ملک میں حاکم کی اجازت سے  جزیہ  (ٹیکس) دے کر رہتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کافر ہی تسلیم کرتا ہے خواہ یہودی ہو، نصرانی ہو یا ہندو وغیرہ ہو، اس کے بہت سے حقوق مسلمان کے ذمہ لازم ہوتے ہیں اور ان کو اسلام مکمل امن دیتا ہے ، جو غیر مسلم اسلامی مملکت کے باشندے ہیں یا مسلمانوں سے کوئی معاہدہ کیے ہوئے ہیں ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی حفاظت کے لیے انتہائی تاکیدات اسلامی قانون کا جز ہیں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

"من آذی ذمیاً فأنا خصمه، و من کنت خصمه خصمته یوم القیامة". (عن ابن مسعود)

ترجمہ: " جس شخص نے کسی ذمی کو ستایا تو قیامت کے روز اس کی طرف سے میں دعوے دار بنوں گا، اور جس مقدمہ میں میں دعوے دار ہوں تو میں ہی غالب رہوں گا قیامت کے دن ".

ایک دوسری حدیث میں فرمایا :

 «منعني ربي أن أظلم معاهداً ولا غیره".(عن علی)

ترجمہ: " مجھے میرے پروردگار نے منع فرمایا ہے کہ میں کسی معاہد یا کسی دوسرے پر ظلم کروں ".

ایک اور حدیث میں فرمایا :

«ألا من ظلم معاهداً أونتقصه أو کلفه فوق طاقته أو أخذ منه شیئاً بغیر طیب نفس منه فأنا حجیجه یوم القیامة".

ترجمہ: " خبردار جو کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کرے، یا اس کے حق میں کمی کرے یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے، یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی دلی رضامندی کے حاصل کرے تو قیامت کے روز میں اس کا وکیل ہوں گا ".

لیکن ان تمام مراعات کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی جماعت اور ملت کی حفاظت کے لیے یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنا گہرا دوست اور رازدار معتمد نہ بنایا جائے، انہیں کسی طرح مسلمانوں پر ولایت نہ دیں ،  جب کہ اس کے برعکس قادیانی کفریہ عقائد رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، اور اپنے مذہب کو اسلام کا لیبل لگاکر فروغ دیتا ہے  اور اپنے کفریہ عقائد کو باطل تاویلات کے ذریعہ اسلام باور کراتا ہے، ایسے شخص کو شریعت کی اصطلاح میں زندیق کہتے ہیں، زندیق کا کفر انتہائی درجہ کا کفر ہے ، پوری ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بد ترین قسم زندیق اور کافر محارب قرار دیتی ہے اوربقول علامہ اقبال’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں‘‘ ۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے 1974 میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس کے بعد صدرِ پاکستان نے تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298 بی اور 298 سی کا اضافہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو شعائرِ اسلامی کے استعمال اورقادیانیت کی تبلیغ سے روک دیا۔لیکن امتناعِ قادیانیت آرڈیننس منظور ہوجانے کے باوجود منکرینِ ختم نبوت قادیانی / مرزائی  دنیا بھر میں  آج بھی مختلف چالوں سے مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہیں، لہذا  تمام مکاتبِ فکر کا متفقہ فتوی ہے کہ قادیانیوں /مرزائیوں سے خریدوفروخت ،تجارت، لین دین ،سلام و کلام ، ملنا جلنا، کھانا پینا ، شادی و غمی میں شرکت ، جنازہ میں شرکت ،تعزیت ،عیادت،ان کے ساتھ تعاون یاملازمت سب شریعتِ اسلامیہ میں سخت ممنوع اور حرام ہیں۔ قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ ان کو توبہ کرانے میں بہت بڑا علاج اور ان کی اصلاح اور ہدایت کا بہت بڑا ذریعہ اور ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کی نشانی ہے ۔

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ قادیانیوں  اور عام کافر وں میں فرق ہے، لہذا قادیانیوں  کو عہدہ دینے  کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے ردِ عمل بھی زیادہ سخت ہوتا ہے؛ کیوں ان کو عہدہ دینا تو براہِ راست قوم، ملک اور ملت کی جڑوں پر اپنے ہاتھ سے کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

اسلامی ملک میں غیر مسلم ، کافر / ذمی کو سرکاری عہدہ دینا


فتوی نمبر : 144001200113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں