بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارکانِ حج پیدل چل کر ادا کرنے کی فضیلت


سوال

حج میں منیٰ سے عرفات پیدل آنے جانے کی فضیلت بتادیں۔ ایک اشکال کی وضاحت بھی فرمادیں کہ ہمارے نبی ﷺ اونٹنی پر منیٰ سے عرفات گئے  تھے، اس لیے سواری میں جانا  زیادہ افضل ہے؟

جواب

آفاقی شخص کے لیے مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد مکہ سے باقی اَرکانِ حج ادا کرنے کے لیے پیدل سفر کرنا  فضیلت کا باعث ہے، ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما شدید بیمار ہو گئے، انہوں نے  اپنی اولاد کو بلایا اور ان سب کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جو مکہ سے پیدل حج کرے یہاں تک کہ مکہ واپس لوٹ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم پر سات سو نیکیاں لکھتے ہیں، اور ہر نیکی حرم کی نیکیوں کے برابر ہے۔ کہا گیا: حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا: ہر ایک نیکی کے بدلہ ایک لاکھ نیکی ہے۔(گویا ہر قدم پر سات کروڑ  نیکیاں ہیں)، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ پیدل حج نہ کرنے پر بہت افسوس کا اظہار بھی کرتے تھے، اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام سےاس طرح پیدل حج کرنا منقول ہے، لہذا اگر کوئی عذر نہ ہو ، استطاعت ہو، اور پیدل سفر سے حج کے باقی مناسک متاثر نہ ہوں  تو  مکہ مکرمہ پہنچ کر یہ فضیلت حاصل کرنی چاہیے۔

باقی رسول اللہ ﷺ نے باوجود فضیلت اور ثواب بیان کرنے کے خود سواری پر بیٹھ کر اس لیے حج ادا کیا کہ تمام لوگ آپ ﷺ سے حج کے مناسک سیکھ لیں، اور آپ ﷺ کا عمل دیکھ کر آپ ﷺ کی اقتدا کریں، اس لیے آپ ﷺ کے حق میں یہی افضل تھا۔ (اسوۂ حسنہ)

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1 / 631):
" عن زاذان، قال: مرض ابن عباس مرضاً شديداً، فدعا ولده فجمعهم فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من حج من مكة ماشياً حتى يرجع إلى مكة كتب الله له بكل خطوة سبع مائة حسنة، كل حسنة مثل حسنات الحرم»، قيل: وما حسنات الحرم؟ قال: «بكل حسنة مائة ألف حسنة». هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه".

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1 / 149):
"فإن قيل: ما الأفضل أن يحج ماشياً أو راكباً؟ قيل: روى الحسن عن أبي حنيفة أن الحج راكباً أفضل؛ لأن المشي يسيء خلقه. وروي أن الحج ماشياً أفضل؛ لأن الله تعالى قدم المشاة فقال تعالى: {يأتوك رجالاً وعلى كل ضامر} [الحج: 27]. وفي الحديث: «من حجّ ماشياً كتب الله له بكل خطوة حسنةً من حسنات الحرم، قيل: يا رسول الله! وما حسنات الحرم؟قال: الواحدة بسبعمائة». وعن ابن عباس أنه قال بعدما كف بصره: ما تأسفت على شيء كتأسفي على أن أحج ماشياً. وروي أن الحسن بن علي -رضي الله عنهما- كان يمشي في حجه والجنائب تقاد إلى جنبه".

درر الحكام شرح غرر الأحكام (1 / 264):
"وخيره في المبسوط بين الركوب والمشي بعد النذر؛ لأن الحج ماشياً مكروه وراكباً أفضل، وجه رواية الجامع الصغير: أن من أوجب على نفسه شيئاً على وجه الكمال لايتأدى ناقصًا والمشي في الحج صفة كمال قال صلى الله عليه وسلم: «من حج ماشياً فله بكل خطوة حسنة من حسنات الحرم، قيل: ما حسنات الحرم؟ قال: كل حسنة بسبعمائة»، والمشي الواجب له نظير في الشرع المكي الفقير إذا أمكنه المشي إلى عرفات وجب عليه الحج ماشياً، وكذا الطواف، وما كره الإمام أبو حنيفة المشي مطلقاً، وإنما كرهه إذا كان مظنة سوء الخلق، كأن يكون صائماً مع المشي أو ممن لايطيق المشي، فيكون سبباً للإثم في مجادلة الرفيق والخصومة، وإلا فلا شك أن المشي أفضل في نفسه؛ لأنه أقرب إلى التواضع والتذلل، قال ابن عباس لما كف بصره ما أسفت على شيء كأسفي على أن لم أحج ماشياً؛ فإن الله قدم المشاة، فقال تعالى: {يأتوك رجالاً وعلى كل ضامر} [الحج: 27]. من العناية وفتح القدير".
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (9 / 130):
"ذكر مَا يُسْتَفَاد مِنْهُ فِيهِ: الرّكُوب فِي سفر الْحَج وَالرُّكُوب فِيهِ وَالْمَشْي سَوَاء فِي الْإِبَاحَة، وَالْكَلَام فِي الْأَفْضَلِيَّة، فَقَالَ قوم: الرّكُوب أفضل اتبَاعاً للنَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ولفضل النَّفَقَة، فَإِن النَّفَقَة فِيهِ كَالنَّفَقَةِ فِي سَبِيل الله سَبْعمِائة ضعف، كَمَا أخرجه أَحْمد من حَدِيث بُرَيْدَة، وَصحح جمَاعَة أَن الْمَشْي أفضل، وَبِه قَالَ إِسْحَاق؛ لِأَنَّهُ أَشد على النَّفس، وَفِي حَدِيث صَححهُ الْحَاكِم من حَدِيث ابْن عَبَّاس مَرْفُوعا: (من حج إِلَى مَكَّة مَاشِياً حَتَّى رَجَعَ كتب لَهُ بِكُل خطْوَة سَبْعمِائة حَسَنَة من حَسَنَات الْحرم، قيل: وَمَا حَسَنَات الْحرم؟ قَالَ: كل حَسَنَة بِمِائَة ألف حَسَنَة). وروى مُحَمَّد بن كَعْب عَن ابْن عَبَّاس، قَالَ: مَا فَاتَنِي شَيْء أَشد عَليّ إلاَّ أَن أكون حججْت مَاشِياً؛ لِأَن الله تَعَالَى يَقُول: {يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر} (الْحَج: 72). أَي: ركباناً، فَبَدَأَ بِالرِّجَالِ قبل الركْبَان، وَذكر إِسْمَاعِيل إِبْنِ إِسْحَاق عَن مُجَاهِد، قَالَ: أهبط آدم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِالْهِنْدِ فحج على قَدَمَيْهِ الْبَيْت أَرْبَعِينَ حجَّةً، وَعَن ابْن أبي نجيح عَن مُجَاهِد أَن إِبْرَاهِيم وَإِسْمَاعِيل، عَلَيْهِمَا الصَّلَاة وَالسَّلَام، حجا ماشيين، وَحج الْحسن بن عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا، خَمْسَة وَعشْرين حجَّة مَاشِياً وَأَن النجائب لتقاد بَين يَدَيْهِ، وَفعله ابْن جريج وَالثَّوْري. وَفِي (الْمُسْتَدْرك) من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَ: (حج رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأَصْحَابه مشَاة من الْمَدِينَة إِلَى مَكَّة، ثمَّ قَالَ: اربطوا على أوساطكم مآزركم وامشوا مشياً خلط الهرولة). ثمَّ قَالَ: صَحِيح الْإِسْنَاد".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں