جو بندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں زندہ مانتا ہو اور بدعتی ہو، اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے؟
اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اور تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں زندہ ہیں، اور ان کی حیات دنیوی حیات کے مماثل، بلکہ اس سے بھی قوی ہے، اور دیگر تمام لوگوں کی حیات سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کی حیات ممتاز ،اعلیٰ اور اورفع ہے، اور وہ سب اللہ رب العزت کی ذات وصفات کے مشاہدہ اور مختلف قسم کی عبادات میں مشغول ہیں ، یہ ضروری نہیں ہے کہ سب نمازوں میں مشغول ہوں گے، بلکہ ممکن ہے کہ کسی کو یہ مشاہدہ بصورتِ نماز ہوتا ہو اور کسی کو بصورتِ تلاوت ہوتا ہو اور کسی کو اور طریقہ سے، لہذا سب مشاہدہ باری تعالیٰ میں ہیں ۔ (شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام للسبکی، ص 206)
البتہ عالمِ برزخ میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کی عبادات مکلف ہونے کے اعتبار سے نہیں ہیں، بلکہ بلا مکلف ہونے کے صرف تلذد اور لذت حاصل کرنے کے لیے ہے ۔(ایضاً)
مذکورہ عقیدہ رکھنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اس کا ذبیحہ بھی حلال ہے ، اس کے برعکس جو قبر مبارک میں حیات نبی کا منکر ہو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
"القول البدیع في الصلاة علی الحبیب الشفیع" میں ہے:
"نحن نؤمن و نصدق بأنه صلي الله عليه وسلم حي يرزق في قبره، و أن جسده الشريف لاتأكله الأرض، و الإجماع علی هذا". (الباب الرابع: رسول الله حي علي الدوام، ص: ١٦٧،ط: مطبعة الإنصاف)
ترجمہ: ہم ایمان رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ بے شک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور زمین ان کے جسم مبارک کو نہیں کھاسکتی، اور اس پر اجماع ہے۔
الحاوی للفتاوی میں ہے:
"حياة النبي صلي الله عليه وسلم في قبره هو و سائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً لما قام عندنا من الأدلة في ذلك، و تواترت به الأخبار الدالة علی ذلك". ( إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء، ص: ٥٥٤، ط: رشيدية)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی قبر میں حیات اور تمام انبیاء علیہم السلام کی حیات علمِ قطعی کے ساتھ ثابت ہے بوجہ ان احادیثِ متواترہ کے جو حیاتِ انبیاء پر دلالت کرتی ہیں۔
"اشعۃ اللمعات" میں ہے:
"حیات انبیاء متفق علیہ است، ہیچ کسی را در وے خلاف نیست"۔ ( کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثانی، ١/ ٦١٣، ط: منشی نول کشور)
مظاہر حق میں ہے:
"چنانچہ یہ مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہے اور اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ انبیاء اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور انہیں بالکل دنیا کی طرح حقیقی جسمانی حیات حاصل ہے، نہ کہ انہیں حیاتِ معنوی روحانی حاصل ہے، جیساکہ شہداء کو حاصل ہوتی ہے"۔ (مظاہر حق جدید، باب الجمعہ، الفصل الثانی، ١/ ٨٦٥، ط: دار الاشاعت)
جواہر الفتاوی میں ہے:
"حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا عقیدہ نصوصِ شرعیہ سے اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، باتفاق علماءِ اہل السنۃ والجماعۃ خاص کر اکابرینِ علماءِ دیوبند، اس جماعتِ دیوبندیہ کے لیے معیار قرار دیتے ہیں، اس کے خلاف منکرینِ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم و الانبیاء والشہداء کو مبتدع اور اہلِ سنت و الجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں"۔ (جواہر الفتاوی جدید ، ١/ ٤٣٢، ط: اسلامی کتب خانہ)
المہند علی المفند میں ہے:
"عندنا و عند مشائخنا حضرة الرسالة صلي الله عليه وسلم حي في قبره الشريف و حيوٰته صلي الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف، و هي مخصوصة به صلي الله عليه وسلم و بجميع الأنبياء صلوات الله عليهم، لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين، بل لجميع الناس، كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالة: "إنباء الأذكياء بحيوٰة الأنبياء" حيث قال: قال الشيخ تقي الدين السبكي: حيوٰة الأنبياء و الشهداء في القبر كحيوٰتهم في الدنيا، و يشهد له صلوٰة موسی عليه السلام في قبره؛ فإن الصلوٰة تستدعي جسداً حياً... الخ (ص: ادارة اسلاميات)
ترجمہ: ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبرِ اطہر میں زندہ ہیں اور ان کی زندگی دنیاوی زندگی ہے، سوائے اس کے کہ وہ قبر میں مکلف نہیں، اور یہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، (ان کی قبر کی زندگی ) برزخی حیات نہیں ہے، جیساکہ تمام مومنین بلکہ تمام لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، جیساکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ "انباء الاذکیاء بحیاۃ الانبیاء" میں اس کی صراحت کی ہے : شیخ تقی الدین سبکی نے فرمایا : انبیاء اور شہداء کی قبر میں حیات ان کی دنیاوی حیات کی مانند ہے، اور اس کی دلیل موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز ادا کرنا ہے، اس لیے کہ نماز کی ادائیگی زندہ جسم کا تقاضا کرتی ہے۔۔۔الخ
حضرت مولانا سید مہدی حسن رحمہ اللہ اپنے رسالہ " قہر حق بر صاحب ندائے حق" میں تحریر فرماتے ہیں:
"جو امام یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کی حیات بعد الممات محض روحانی ہے اور جسم اگرچہ محفوظ ہے, مگر حیات سے بے بہرہ ہے اور پھر اس عقیدہ کی تبلیغ کرتا ہے اور ترویج چاہتا ہے، بالیقین اس عقیدہ والا امام مبتدع فی العقیدہ و العمل ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہے"۔ (ص: ٢٨٨، ط: امدادیہ)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قبر مبارک میں رسول اللہ ﷺ کی حیات کا عقیدہ رکھنا اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور بدعت میں مبتلا ہے اور وہ بدعت کفر کی حد تک نہیں پہنچاتی تو بھی اس شخص کا ذبیحہ، جس پر بسم اللہ پڑھی ہو ، حلال ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200695
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن