بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اورعلمائے دیوبند کا کردار

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اورعلمائے دیوبند کا کردار


ہندوستان میں انگریز کی آمد وقبضہ
انکار خدا بھی کر بیٹھو انکار محمد بھی لیکن
جانباز تماشہ دیکھیں گے محشر میں نافرمانوں کا
قلم اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ‘ تاریخ کو جنم دیتے ہیں‘ قومیں جب حقوق کی میز پر آمنے سامنے بیٹھتیں ہیں تو وہاں ووٹ نہیں‘ لاشیں شمار کی جاتی ہیں۔ جس قوم کی لاشیں اپنے حقوق کے حصول میں زیادہ ہوں گی وہی ہر اول دستہ کہلائے گی۔ ہندوستان میں فرنگی سامراج کے خلاف جد وجہد آزادی میں پہل کی تو مسلمانوں نے۔ انگریز کے خلاف عسکری جنگ لڑی تو مسلمانوں نے۔ تو پوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اڑائے گئے تو مسلمان۔ پھانسی کے تختے پر انقلاب زندہ باد کہا تو مسلمانوں نے۔ جزائر انڈیمان کو آباد کیاتو انگریز کے باغی مسلمانوں نے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام
گزرے زمانے کا یہ محاورہ کہ زن ‘زمین اور زر بناء فساد ہیں‘ سرمایہ دار کسی رنگ وروپ کا ہو‘ ہمیشہ اپنے نفع کی سوچتا ہے‘ قصہ در اصل یوں شروع ہوا کہ ہالینڈ کے سوداگروں نے ایک پونڈ گرم مصالحہ کی قیمت میں پانچ شلنگ کا اضافہ کردیا۔تو لندن کے دو درجن تاجر سیخ پا ہوگئے‘ انہوں نے ایک تجارتی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیا ٹریڈنگ کمپنی رکھا گیا (برطانیہ) کی ملکہ الذبتھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو شاہی پروانہ عطا کیا‘ اس کے بعد کمپنی کے ارکان نے بحری سفر کے ذریعے مختلف مقامات پر اپنے کو کارو باری انداز اور طریق سے منظم کرنا شروع کیا‘چنانچہ سب سے پہلی بار کپتان ولیم باکنس ایک جہاز کے ذریعے سورت کی بندرگاہ میں داخل ہوا اور ہندوستان میں آپہنچا۔ ۱۴۱۵ یا ۱۴۰۹ھ میں سر تھامسن راؤ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا اور ایک درخواست کے ذریعے شہنشاہ سے کاروباری رعائتیں حاصل کر لیں اور ساتھ ہی اس کو (علاقہ) سورت میں ایک کوٹھی بنانے کی اجازت بھی مل گئی۔ یہ ہے وہ گھڑی جب تجارت کے بہانے انگریز کے ناپاک قدم ہندوستان میں آئے۔ یہ قدم پھر ایسے جمے کہ تین سو سال تک اس ملک کی تمام بہاریں غیر ملکی لوٹتے رہے اور جب یہ رخصت ہوئے تو سارا ہندوستان خزاں کی ایسی زد میں تھا کہ پھر اس پر کبھی بہار نہ آئی۔ غیر ملکی سوداگروں نے آہستہ آہستہ اپنے پاؤں ہندوستان میں پھیلانے شروع کئے۔ آج یہاں‘ کل وہاں‘ پرسوں ذرا آگے۔ پہلے سورت میں کوٹھی بنائی پھربڑھوج‘ پھر آگری پھر دریائے ہگل پار کرکے کلکتہ کو اپنا مرکز قرار دے لیا۔” آگ لینے آئی گھر کی مالک بن بیٹھی“ مغل سلطنت کے زوال میں رعایا کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا‘ بلکہ یہ گھر اپنے ہی چراغوں سے جل کر راکھ ہوگیا۔ مسلمان بادشاہ جنہیں قریباً ہزار سال ہندوستان میں استحکام حاصل رہا‘ جب سرنگوں ہوا تو اس کی فرد جرم پر غیروں کے دستخط نہیں تھے‘ بلکہ اپنا ہی خون تھا جو محلات کی اندرونی رقابتوں اور سازشوں سے اسے بہاکرلے گیا۔ جو قوم مغل شہنشاہوں کے آستانوں پر تجارت کی بھیک مانگنے آتی تھی‘ جب وہ آستانے اجڑ گئے‘ جب بھیک دینے والے ہاتھ خود محتاج ہوگئے اور لال قلع کے باشی شاہ جہاں کی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگنے لگ پڑے تو پھر غیر ملکی تاجروں نے اپنے بھنڈار کھول دیئے‘ جیسے جیسے ان کے قدم بڑھتے گئے‘ ہندوستان کی آزادی سمٹ کر ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتی گئی ۔
اورنگ زیب عالم گیر کی وفات
اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوئیں‘ اسی ابتری کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کردیئے‘ ان کے ساتھ دوسری کاروباری قومیں بھی حصولِ اقتدار میں ہاتھ پاؤں مارنے لگیں۔ یہاں تک کہ ملک کے مختلف حصوں میں صوبہ خود مختاری کے اعلانات ہونے لگے‘ اس افرا تفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی نے نوابوں اور راجاؤں سے گٹھ جوڑ شروع کردیئے۔عالم گیر نے مرشد قلی خان کو بنگال کا نواب ناظم مقرر کیا ہوا تھا‘ مگر عالم گیر کی محنت کے بعد یہی صوبہ دار‘ عملی طور پر فرمانروا بن بیٹھا‘ ابھی پوری طرح سنبھلا نہ تھا کہ بہار کے حاکم‘ علی وردی خان نے بنگال کو فتح کرلیا‘ یہ اس علاقے کے لئے بہترین حاکم ثابت ہوا۔ ۱۷۵۶ء میں علی وردی خان کا انتقال ہوگیا‘ اس کی عنانِ اقتدار اس کے نواسے سراج الدولہ نے سنبھال لی‘ مرنے سے قبل سراج الدولہ کو وصیت کی کہ مغربی اقوام کی اس قوت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہوچکی ہے۔ سراج الدولہ اپنے خاندان میں اَن گنت صلاحتیوں کا مالک تھا‘ لیکن تخت سنبھالتے ہی اسے پہلے اپنے خاندان سے نمٹنا پڑا‘ اپنی چچی بیگم گھبیٹی اور چچازاد بھائی شوکت سے جنگ آزما ہوا‘ اندرون خانہ مارِ آستین (دوست نما دشمن) بنے ہوئے تھے‘ ان کو ٹھکانے لگایا تو اصل دشمن کا پتہ چلا کہ اندر خانے یہ ساری گیم تو انگریز کھیل رہا ہے‘ اس دوران انگریزوں نے کلکتہ میں تعمیر کردہ اپنا قلعہ فورٹ ولیم کو مزید مضبوط کرنا شروع کردیا‘ نواب نے انگریزوں سے قلعہ کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکار کردیا‘ اس پر سراج الدولہ نے غصہ میں آکر انگریزوں پر حملہ کرکے کلکتہ ان سے چھین لیا۔
سراج الدولہ کی شہادت‘ انگریز کا پہلا باغی مسلمان
لیکن اس کامیابی کی عمر‘ دیر پا ثابت نہ ہوئی جیسے ہی مدراس میں یہ خبر پہنچی کہ کلکتہ انگریزوں سے چھن گیا ہے‘ اس کے ساتھ ہی انگریز افواج کے سپہ سالار کلائیو نے مدراس سے کلکتہ پہنچ کر خفیہ طور پر نواب کی فوج کے سپہ سالار میر جعفر سے ایک خفیہ معاہدہ طے کیا۔
جنگ پلاسی
مذکورہ بالا سازشی معاہدے کے بعد ۲۳/ جون ۱۷۵۷ء کو نواب سراج الدولہ اور انگریز کے درمیان پلاسی کے میدان میں جنگ ہوئی‘ اس موقع پر میر جعفر نے غداری کی کہ اپنی فوجوں کو عین وقت پر میدان میں جانے سے روک دیا‘ ۲۹/ جون ۱۷۵۷ء کو انہیں کے اہل کاروں کی سازش اور سپہ سالار میر جعفر کی غداری سے انگریزوں کے اس بہت بڑے دشمن کو شہید کردیا گیا‘ اس کامیابی نے بنگال کو مکمل طور پر انگریزوں کے ہاتھ میں دے دیا‘ اس جنگ کی کامیابی نے کمپنی کے خاص تجارتی دور کا خاتمہ کیا اور ایک وسیع خطہٴ ملک ہاتھ آجانے سے تجارت کے ساتھ حکومت کا دور شروع ہوا‘ انگریزوں کے مقابلے میں یہ مسلمانوں کی پہلی شکست تھی‘ اس شکست سے ہندوستان کا ایک بڑا محاذ ختم ہوگیا۔
رو ہلکھنڈ کا نواب حافظ رحمت خان
روہلکھنڈ کا علاقہ اودھ کے شمال مغرب میں ایک خوشحال اور سرسبز علاقہ تھا‘ یہاں روہلوں کی مختصر ایک مخصوص ریاست تھی‘ حافظ رحمت خان اس قبیلے کا سردار تھا‘ وہ پانچ ہزار علماء کرام کو ملکی خزانے سے وظیفے اور تنخواہیں دیتا تھا‘ طلباء کے اخراجات کی خود کفالت کرتا تھا‘ اس نے دیہات اور قصبات میں مسجدیں بنوائیں اور ان میں باقاعدہ خطیب اور خادم مقرر کئے۔ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جو چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوئیں‘ روہلکھنڈ کی ریاست انہیں میں شمار ہوتی تھی‘ نواب وزیر خان والئی اودھ سے مل کر انگریز نے حافظ رحمت خان سے جنگ کی۔ اس لڑائی میں تیس ہزار کے قریب روہیلے مارے گئے‘ ان کے علاوہ حافظ رحمت خان اور ان کے تینوں بیٹے بھی اس میدان میں کام آئے۔ اس شہر یعنی بریلی پر انگریز کا تسلط ہوگیا۔
غداری کا انجام
اسلام کی اجتماعی زندگی میں شہید اور غدار‘ دو لفظ اس قدر وزن رکھتے ہیں کہ ان کا انکار مسلمانوں کے لئے خصوصیت سے ناواجب قرار دیا گیاہے‘ لیکن رواں دور میں یہ الفاظ کم وبیش اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ ایک بدمعاش دوسرے بدقماش کو قتل کردے تو مقتول کے ہمنوا اسے شہید کا درجہ دیدیتے ہیں‘ کسی کی بہو‘ بیٹی کے اغوأ میں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث بھی مرنے والے کو شہید کہہ کر پکارنے لگتے ہیں‘ اگر دو جواری باہم رقابت میں لڑکر مارے جائیں تو ان کے ماننے والے انہیں بھی شہید فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ اسی طرح لفظ غدار بھی مذاق بن کر رہ گیا ہے اور ہلکے پن کا یہ عالم ہے کہ محض رائے سے اختلاف کی بناء پر غدار کا خطاب دیدیا جاتاہے۔ غدار کسی بھی لباس میں ہو جب اپنے انجام کو پہنچتا ہے تو قوموں کے مستقبل میں عبرت کا نشان چھوڑ جاتاہے ۔ چنانچہ میر جعفر نے سراج الدولہ اور وطن عزیز سے جو غداری کی‘ اس کے انگریز آقاؤں نے اسے بہت جلد اس کی سزادے دی کہ اسے نا اہل قرار دے کر اس کی جگہ اس کے داماد میر قاسم کو بنگال کا نواب مقرر کردیا۔ میر قاسم نے برسراقتدار آکر” مدنا پور“ اور چٹاگانگ کے اضلاع کمپنی بہادر یعنی انگریزوں کے حوالے کردیئے اور وہ بغیر محصول ادا کئے ذاتی طور پر تجارت کرنے لگے۔ حکومت کو آمدنی میں خسارہ ہونے لگا‘ جس پر اودھ کے نواب شجاع الدولہ اور شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی مدد سے میر قاسم نے انگریزوں سے جنگ کی‘ یہ جنگ ”بکسر“ کے مقام پر ہوئی‘ اس لڑائی میں انگریزوں کو کامیابی ہوئی‘ جنگ ختم ہونے پر ایک معاہدہ طے پایا‘ تاریخ میں یہ معاہدہ الٰہ آباد کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۷۶۵ء میں یہ معاہدہ (انگریز) کلائیو اور نواب شجاع الدولہ اور شاہ عالم کے درمیان طے پایا تھا‘ اس کی رو سے باد شاہ دہلی (شاہ عالم ثانی) کی طرف سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال‘ بہار ‘ اڑیسہ کا دیوان ( حاکم) مقرر کردیا یعنی کمپنی ان اضلاع سے مال گزاری (زمین کا محصول مالیہ وغیرہ) وصول کرسکتی ہے‘ اگر اس معاہدہ کو ہندوستان کی غلامی کی ابتداء کہا جائے تو درست ہوگا۔ شاہ عالم ثانی نے انگریزوں کی اطاعت قبول کرلی اور وہ انگریزوں کا وظیفہ خور ہوگیا۔ بادشاہ پورے دس برس بعدالٰہ آباد سے دہلی آیا‘ وہ یہاں آکر نئے فتنوں‘ امراء کے جوڑ توڑ‘ روہیلوں کی نئی طاقت اور سکھوں کے حملوں سے دوچار ہوا۔ بالآخر نجیب الدولہ کے پوتے غلام قادر روہیلہ نے ۱۷۸۸ء میں دہلی پر قبضہ کرلیا‘ شاہی محل لوٹا‘ شہزادیوں کو کوڑے لگوائے اور سلطنت تیموری کے وارث مغل شہنشاہ کی آنکھیں نوک خنجر سے نکالیں۔ ۱۷۸۹ء میں سندھیہ (مرہٹہ) نے غلام قادر کو بڑے دردناک طریقہ پر قتل کیا اور شاہ عالم کو دوبارہ تخت پر بٹھایا۔
ٹیپوسلطان کی شہادت
میسور کی ہندو ریاست کا دلیر سپہ سالار حیدر علی (راجہ کے کمزور ہوجانے پر) ۱۷۶۱ء میں میسور ریاست کا سربراہ بنادیا گیا‘ اس نے ۲۲ سال حکومت کرکے ریاست کی شیرازہ بندی کی‘ اپنے بیٹے فتح علی کو اپنا جانشین بناکر ۱۷۸۳ء میں وفات پاگیا۔
فتح علی عرف ٹیپو سلطان
۱۷۸۳ء تا ۱۷۹۹ء فتح علی (عرف ٹیپو سلطان) نے اقتدار سنبھالا‘ اس وقت یہ دور ہندوستان میں انتشار کا دور تھا۔
” چراغ بے داغ ہو تو آئینے کی شہادت کی ضرورت نہیں پڑتی‘ ضمیر زندہ ہو تو کسی پر بد اعتماد ہونے کو جی نہیں چاہتا “۔
میر صادق اور ایک ہندو وزیر سب سے پہلے اپنے آقا کے قتل میں انگریز کے آلہ کار بنے۔ سلطان کا گھڑ سوار فوج کا کور کمانڈر بدر الزمان انگریز سے جاگیر کے لالچ میں سودا کرچکا تھا‘ انگریزوں نے وزیر اعظم میر صادق اور کئی امراء کو ملالیا اور ریاست پر بڑی فوج سے حملہ کردیا۔ ٹیپو سلطان قلعہ میں محفوظ تھا‘ مگر غداروں نے دروازہ کھول دیا‘ انگریزی فوج قلعہ میں گھس آئی‘ ٹیپو سلطان بڑی دلیری سے لڑتا ہوا شہید ہوا‘ سلطان کی شہادت کے بعد انگریز نے قلعہ اور محلات پر قبضہ کرلیا‘ سلطان کا جھنڈا اتار کر انگریز نے اپنا جھنڈا لہرادیا‘ اس کے بعد ایک جنرل نے کہا:
” آج ہندوستان کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی‘ اب دنیا کی کوئی طاقت ہندوستان کو ہماری غلامی سے نہیں بچاسکتی“۔
ٹیپو سلطان کی وصیت
میں خوش ہوں کہ ایک کافر کے مقابلے میں لڑکر خدا کے راستے میں جان دے رہاہوں‘ خدا کا شکر ہے کہ میں فرنگی فوج کو مارتے مارتے جان دے رہاہوں‘ کاش! کوئی میرے بعد ان فرنگیوں کو ہندوستان سے نکال بھگائے۔ اس وقت تک میری روح کو قبر میں چین نہیں آئے گا‘ جب تک ہندوستان کی سرزمین فرنگیوں سے پاک نہ ہوجائے۔
دہلی پر انگریزوں کا قبضہ
۱۸۰۳ء میں لارڈلیک انگریزی فوج کے ساتھ دہلی میں داخل ہوا‘ مرہٹوں کو نکال دیا اور بادشاہ کی پنشن ایک لاکھ روپیہ سالانہ مقرر کردی۔
ہندوستان دارالحرب ہے کا فتویٰ
انگریز کی بظاہر پالیسی رہی کہ بادشاہ دہلی کو تخت وتاج کے ساتھ جوں کا توں رہنے دیا گیا‘ لیکن ملکی اختیارات تمام کے تمام ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے تسلیم کرالئے گئے‘ اس طرح یہ اعلان ہونے لگا:
” خلق خدا کی‘ ملک بادشاہ سلامت کا‘ اور حکم کمپنی (یعنی انگریز) بہادر کا“۔
ان مشکل تر لمحوں میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلی کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز نے ہندوستان کو دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیدیا ‘ شاہ عالم ثانی ۴۵ برس تخت نشین اور ۱۸ سال نابینا رہ کر ۱۸۰۶ء میں راہی ملک بقا ہوا۔
سندھ پر انگریزوں کا قبضہ
شاہ افغانستان‘ شاہ شجاع کے زمانہ میں انگریز ‘ رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے‘ اس معاہدے کی روسے کشمیر ‘ پشاور اور ملتان پر رنجیت سنگھ کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا‘ جس کے بدلے رنجیت سنگھ نے سندھ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا‘ اس طرح سندھ کابل کا ایک صوبہ قرار پایا‘ اب کابل پر انگریز کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی‘ سندھ پر قبضہ کرنے میں اب انگریز کے راستے میں کوئی دوسری دیوار نہیں تھی‘ یہ زمانہ سندھ پر تالپور خاندان کی حکمرانی کا تھا‘ انگریز نے امیر سندھ کو رنجیت سنگھ کے حملے کا خوف دلاکر سندھ کو اپنی نگرانی میں لے لیا‘ جب تالپور خاندان کا میر پور میں تخت نشینی کا تنازع شروع ہوا تو انگریز نے میر علی مراد کے حق میں فیصلہ دیدیا‘ نئے امیر نے خراج کے بدلے سندھ کے اہم علاقے انگریز کمپنی کے حوالے کردیئے ۔ مختصر یہ کہ انگریزوں نے مارچ ۱۸۴۳ء کو میر پور پر قبضہ کر لیا اور اگست ۱۸۴۳ء کو امیر سندھ کو جلا وطن کرکے پورے سندھ کا الحاق اپنے ساتھ کرلیا۔
پنجاب میں انگریزوں کی آمد
سندھ کے بعد جب انگریز کی نظر یں پانچ دریاؤں کے اس خوبصورت خطہ ارض پر پڑیں تو اس وقت رنجیت سنگھ اس کی بہاریں لوٹ رہا تھا‘ پنجاب کا یہ سکھ حاکم ان پڑھ ہونے پر بھی بڑا زیرک اور معاملہ فہم حکمران تھا۔ ۱۸۳۹ء کو رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا‘ پنجاب کے اس سکھ حکمران کو شیرِ پنجاب کا خطاب دیا گیا‘ رنجیت سنگھ کے بعد ہرسکھ سردار نے وہ فتور مچایا کہ پنجاب تباہ ہوکر رہ گیا‘ رنجیت سنگھ کے کئی بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بالآخر رنجیت سنگھ کا نابالغ بیٹا دلیپ سنگھ گدی نشین ہوا۔ اس کی والدہ رانی (المعروف جنداں) اپنے چہیتے لال سنگھ سمیت‘ راج کی سربراہ بن گئی‘ اندرونی خلفشار رک نہ سکا۔ دسمبر ۱۸۴۵ء میں سکھ اور انگریزوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی‘سکھوں کو شکست اٹھانا پڑی‘ صلح نامہ لاہور کے نام سے معاہدہ ہوا‘ ستلج اور بیاج کے علاقے انگریز سلطنت میں شامل کر لئے گئے‘ بالآخر مارچ ۱۸۴۹ء میں لارڈ لہوزی نے پنجاب کو اپنی قلمرو (عملداری) میں شامل کرلیا‘ رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کو پنشن دے کر لندن بھیج دیا‘ وہاں اس نے عیسائی مذہب قبول کرلیا۔
جنگ آزادی اور علماء دیوبند کا کردار
تعبیر پاکستان کے مصنف: ایس ایم شاہد شعبہ تعلیم‘ استاذ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘ اسلام آباد ص:۶۰پر تحریر فرماتے ہیں کہ:
”(شاہ عالم ثانی) کی وفات کے بعد اس کے بقید حیات لڑکوں میں جو سب سے بڑا لڑکا تھا وہ تخت نشین ۱۸۰۶ء میں ہوا۔ اس نے اپنا لقب اکبر شاہ ثانی اختیار کیا‘ ۱۸۳۷ء میں جب اس کا انتقال ہوا تو مرزا عبد المظفرسراج الدین محمد اس کے جانشین کی حیثیت سے بہادر شاہ کا لقب اختیار کرکے تخت نشین ہوا۔ بہادر شاہ آخری مغل تاج دار تھا‘ چنانچہ مغلیہ سلطنت ایک ظاہری اور نمائشی سلطنت کے روپ میں ۱۸۵۷ء تک چلتی رہی‘ سلطنت مغلیہ کا شیرازہ پوری طرح بکھر گیا تھا‘ زوال پذیر دور میں روشنی کی کچھ کرنیں اگر نظر آرہی تھیں تو وہ محض شاہ ولی اللہ دہلوی ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز اور ان کے پوتے مولانا شاہ اسماعیل کی تحریکات: ”تطہیر“ اور” اصلاح“ تھیں اور سید احمد بریلوی کا بہادرانہ اور سرفروشانہ مقابلہ تھا۔“
برصغیرپاک وہند کی سیاست میں علماء کا کردار
۱۹۴۵ء تک کے مصنف ڈاکٹر ایچ‘ بی خان ص:۲۲ پر تحریر کرتے ہیں:
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اہل ہند نے ملک سے بیرونی طاقت کے اخراج اور حصولِ آزادی کے لئے جد وجہد کی تھی‘ عہد برطانیہ سے ملکی اور غیر ملکی مؤرخین اس جنگ کو بغاوت کے نام سے موسوم کرتے چلے آئے ہیں جوایک تاریخی غلطی ہے۔ جنگ آزادی کے علل واسباب متنوع بھی ہیں اور مختلف فیہ بھی۔ ان پر مؤرخین نے بالتفصیل بحث بھی کی ہے‘ یہاں موضوع کی مناسبت سے ہم صرف مذہبی وجوہات سے مختصر بحث کررہے ہیں:
الف:- مغل تاجدار سے کمپنی نے عہد کیا تھا کہ ہم قضات (یعنی قاضی) کا عہدہ برقرار رکھیں گے۔ ابتداء میں اس عہد پر عمل ہوتا رہا‘ مگر جیسے جیسے انگریزوں کا اقتدار وغلبہ مضبوط ہوتا گیا ویسے ویسے اس عہد میں کمزوری اور لچک پیدا ہوتی گئی‘ تا آں کہ ۱۸۶۵ء میں قضات کو ختم کردیا۔
ب:- ایک برطانوی مؤرخ مسٹر لڈلو اور ایک دوسرے مؤرخ پروفیسر ماکس اور تیسرے برطانوی باشندے نے علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے کہ جب سے ہم نے دیسی طریقہ تعلیم کو ختم کیا ہے‘ تب سے ہندوستانی بے علم ہوتے جارہے ہیں‘ مسٹر نے سرکاری کاغذات کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
”برطانیہ سے قبل بنگال میں اسی ہزار دیسی مدارس تھے۔ نیز کیپٹن نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ: شہر ٹھٹھ میں عالم گیر اوررنگ زیب کے زمانہ میں چار سو کالج مختلف علوم وفنون کے تھے“۔
ج:- عہد سلطنت دہلی وعہد مغل میں معلمین اور متعلمین کے لئے وظائف اور عطیات دیئے جاتے تھے۔ نیز اوقاف کی آمدنی سے مدرسین وطلباء کی مستقلاً مالی اعانت کا اہتمام تھا‘ ۱۸۳۵ء میں اوقاف کی ضبطی سے یہ مدارس تباہ وبرباد ہوگئے۔
د:- کمپنی نے شروع عملداری سے ہی پادریوں کی سرپرستی کی‘ ان پادریوں نے مختلف طریقوں سے زر کثیر صرف کرکے لوگوں کو مرتد بنانا شروع کیا‘ چنانچہ لوگوں کو خدشہ ہوا کہ ہمارادین ومذہب بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔
جانباز مرزا تحریر فرماتے ہیں:
” مہمان بن کر آنے والے جب حاکم بن بیٹھے تو اپنے تخت پر اس قدر اتراتے کہ ابلیس کے ہم دوش ہوکر انسان کو غلام بناکر بھی ان سے حیوانوں کا سا برتاؤ کرنے لگے‘ عوام نئے حاکموں سے دست وگریبان ہونے کے بہانے تلاش کرنے لگی“ ۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا فتویٰ مسلم عوام کے دلوں میں جہاد کی آگ روشن کر چکا تھا‘ ہندو عیسائی پادر یوں کے طریق تبلیغ سے دھرم کی رسوائی دیکھ رہے تھے‘ انسان ہونے کے ناطے سے بھی انگریزوں کا برتاؤ رعایا سے ظالمانہ تھا‘ انگریزوں کے قدم جمنے لگے تو فوجیوں کے لئے ایسے احکام جاری کئے جو کسی طرح بھی ان کے لئے پسندیدہ نہیں تھے۔ مثلاً :دیسی ‘ سپاہی جب فوجی لباس میں ہوں تو ماتھے پر تلک نہ لگائیں اور نہ ان کے کانوں میں بالیاں ہوں‘ سپاہیوں کو چاہئے کہ اپنی ڈاڑھیاں منڈوایا کریں‘ پگڑی کی جگہ ٹوپی استعمال کریں۔ ان احکام سے قدرتی طور پر اس خیال کو اور تقویت ملی کہ انگریز ہندوستانیوں کی وضع قطع‘ رسم ورواج اور طور طریقوں میں دخل اندازی کرکے ان کے مذہب کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
چربی کے کارتوس
۱۸۵۳ء میں انگلستان سے ایک خاص قسم کے کارتوس کا ذخیرہ ہندوستانی فوج کے استعمال کے لئے بھیجا گیا‘ ان کا رتوسوں میں سور کی چربی استعمال کی گئی تھی‘ چربی والے کارتوس کو دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا‘ کارتوسوں میں سور اور گائے کی چربی قصداً اس لئے استعمال کی گئی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہب خراب کیا جائے ‘ہندوؤں کو تو گائے کی جھلی کا اشتباواقع ہوا اور اہل اسلام کو سور کی جھلی کا۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ کلکتہ میں ایک فرنگی سپاہی نے ایک برہمن ذات کے فوجی سپاہی سے پانی طلب کیا‘ اس پر برہمن نے کہا: تم ملیچھ (نجس) ہو‘ میں تمہیں پانی نہیں دوں گا‘ میرا دھرم مجھے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ فرنگی سپاہی نے طنزاً کہا: اس وقت تمہارا دھرم کیا رہ جائے گا جب تمہیں گائے اور سور کی چربی کے کارتوس استعمال کرنے پڑیں گے۔ یہ جنوری ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہے۔ اس خبر سے کلکتہ کی فوج میں اشتعال ہوا تو میجر کوانا نے اس کو دبا دیا‘ البتہ یہ خبر پھیل کر بار کپور پہنچی تو وہاں کی فوج نے افسروں کی حکم عدولی کی‘ جس پر اس مذموم فضا میں بریلی کے کوچہ وبازار میں ایک اشتہار پایا گیا‘ جس کی عبارت تھی: ہندوؤ اور مسلمانو اٹھو ! اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے آزادی سب سے بڑی نعمت ہے‘ کیا وہ ظالم شیطان جنہوں نے ہم سے آزادی چھین لی ہے‘ ہمیں ہمیشہ سے آزادی سے محروم رکھ سکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں وغیرہ۔ چلتے چلتے اس قسم کے اشتہار ‘ دہلی‘ لکھنو‘ آگرہ‘ بنارس‘ آلٰہ آباد‘ جھانسی‘ حیدر آباد دکن‘ کانپور اور مدراس تک جا پہنچے تھے‘ گو اشتہارات کی عبارت مختلف تھی‘ تاہم مفہوم ایک ہی تھا یعنی ہندو اور مسلمانوں کو اکسایا گیا تھا‘ کمپنی کی حکومت نے لاکھ کوشش کی کہ ان اشتہارات کے مصنف یا محرک کا پتہ لگ سکے‘ مگر تمام کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔ دوسری طرف‘ پنڈت‘ مولوی‘ سنیاس ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل کر انگریزوں کے خلاف انقلابی تقریریں کررہے تھے‘ یہاں تک کہ مداری اور بھانڈ‘ پتلیا نچانے والے بھی اپنے کھیل تماشوں کے ذریعے تماشائیوں کو جنگ آزادی کا پیغام دے رہے تھے‘ لوگ بازاروں اور چوپالوں میں بیٹھ کر مولویوں کا وعظ سنتے‘ مسلمان قرآن پر ہاتھ رکھ کر اور ہندو گنگا جلی اٹھا کر قسمیں کھاتے کہ فرنگیوں کو اپنے دیس سے نکال کر دم لیں گے۔ اس دوران اندر خانے ایک اور تحریک رواں دواں تھی یعنی کاٹھ کی روئی اور کنول کا پھول دونوں ایک ساتھ لئے ہوئے دیہاتوں دیہات پھر کر کسانوں اور دیہاتیوں کو جنگ آزادی میں شمولیت کی دعوت دی جارہی تھی‘ جس سے مراد یہ تھی کہ روئی کے حصول کے لئے پھول کی پتیوں کی طرح ایک ساتھ ملکر محبت اور پیار کی خوشبو ملک میں پیدا کریں اور غیر ملکیوں سے نجات حاصل کریں“۔ (انگریز کے باغی مسلمان ص:۸۹ تا ۹۵) اس لئے تمام ہندوستانیوں نے عموماً اور مسلمانوں نے خصوصاً اس انقلاب ۱۸۵۷ء کو ضروری سمجھا اور مقرر کیا گیا کہ ۱۱/مئی یا ۳۱/ مئی کو تمام ہندوستان میں انقلابی کارروائی عمل میں لائی جائے اور عَلَم جہاد بلند کیا جائے‘ مگر افسوس کہ اس پر عمل نہ ہوا‘ بلکہ ۲۲/ مارچ کو مدم (صوبہ بنگال) میں منگل پانڈے کے ہاتھوں (دوماہ پہلے) یہ آتشیں مادہ بھڑک اٹھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت ایک فوجی سپاہی منگل پانڈے بندوق لئے پریڈ کے میدان میں آن کھڑا ہوا اور زور زور سے چلانے لگا۔ بھائیو! اٹھو اور مکارد شمنوں پر حملہ کرکے آزادی حاصل کرلو‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ سارجنٹ میجر ہیجن نے اس کی گرفتاری کا حکم دیدیا‘ مگر اس حکم کی تعمیل کسی ہندوستانی سپاہی نے نہ کی۔ اتنے میں منگل پانڈ نے دین دین کا نعرہ لگا کر میجر ہیجن پر فائر کردیا‘ جس سے وہ ہلاک ہوگیا‘ اتنے میں رجمنٹ کے ایڈجوانٹ لیفٹیننٹ باگوکو اس واقعہ کی اطلاع ملی اور وہ فوراً موقع پر پہنچا‘ وہ گھوڑے سے اترا ہی تھا کہ منگل پانڈے نے اس پر بھی گولی چلا دی‘ مگر نشانہ ٹھیک نہ بیٹھا‘ لیفٹیننٹ باگو نے فوراً تلوار سے کام لینا چاہا‘ مگر منگل پانڈے نے اسے فرصت نہ دی کہ اس پر فائر کردیا جس سے وہ جہنم واصل ہوا۔ جنرل ہیرے انگریز سپاہیوں کی پلٹن کے ہمراہ موقع واردات پرپہنچ گیا‘ منگل پانڈے گرفتار ہوا‘ کورٹ مارشل ہوا اور ۸/اپریل ۱۸۵۷ء کو پھانسی پر لٹکادیا گیا‘ اس واقعہ نے دیسی سپاہیوں کو اس قدر مشتعل کردیا کہ مئی ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی ایکشن شروع ہوگیا۔ وہاں کی دو رجمنٹیں (۱۹) اور (۲۴) اپریل ختم ہونے سے قبل توڑ دی گئیں‘ جو آگ کلکتہ سے شروع ہوئی تھی وہ انبالہ‘ لکھنؤ سے ہوتی ہوئی میرٹھ تک آن پہنچی۔ ۲۳/ اپریل ۱۸۵۷ء کو میرٹھ میں اس واقعہ کا پھر اعادہ کیا گیا یعنی پچاس افسروں اور سپاہیوں نے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا‘ اس جرم میں انہیں مارشل لا کورٹ کے تحت دس دس سال قید سنائی گئی‘ بالآخر ۱۰/ مئی ۱۸۵۷ء کو ہندوستانی فوجی نے اپنے انگریز افسروں کو قتل کرکے جیل توڑ کر سپاہیوں کو رہا کرا لیا‘ باقی فوج بھی ان سے مل گئی اور یہ تمام فوج دہلی روانہ ہوگئی
(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین