بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

یکساں قومی نصابِ تعلیم اور چند گزارشات!

یکساں قومی نصابِ تعلیم اور چند گزارشات!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس کی تشریح، تبیین، تفصیل اور وضاحت فرمائی، جس کا نام حدیث اور سنت ہے۔ مفسرین، محدثین ، فقہائے کرام اور علمائے اُمت نے قرآن وسنت کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت واستعداد کے موافق اس سے کئی اور علوم اخذ کیے، جو آج تک باغِ اسلام کی رونق اور حریمِ اسلام کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ حدیث اور سنت کی حفاظت کے لیے محدثینِ کرام نے جس باریک بینی اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے، جتنی محنت، محبت، عقیدت اور کاوش سے علمِ حدیث کو آئندہ نسلوں تک پہنچایا اور اس کو محفوظ کیا وہ پوری انسانی تاریخ کا ایک منفرد، عجیب و غریب اور بے مثال کارنامہ ہے۔ خصوصاً حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور سنت کو علمی اور عملی طور پر محفوظ کرنے اور باقی رکھنے میں اہلِ اسلام نے جو شاندار کردار ادا کیا، دوسری قومیں اور مذاہب اس کی مثال لانے سے قاصر ہیں۔ 
یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس اپنا دین ومذہب ثابت کرنے کے لیے آج کوئی ٹھوس ثبوت اور دلیل موجود نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم آج کوئی بات اپنے نبی اور اپنی کتاب سے سند اور دلیل سے ثابت نہیں کرسکتے۔ بجائے اس کے کہ کھلے دل سے اس کا اعتراف کرکے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ لیتے اور دینِ اسلام جو آج تک چودہ صدیوں سے محفوظ چلا آرہا ہے اس کو مان لیتے، اُلٹا ان کے آباء واجداد دینِ اسلام کو مشکوک بنانے کے لیے کبھی قرآن کریم پر، کبھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم پر، کبھی آپ کے صحابہؓ پر، کبھی راویانِ حدیث پر اور کبھی سنت اور حدیث کی حجیت پر شکوک وشبہات کی آندھی اور طوفان اُٹھاکر اسلام کے صاف شفاف چہرے کو بدنما اور داغدار کرنے کی کوششیں کرتے رہے اور آج ان کی معنوی اولاد بھی مختلف حیلے بہانوں اور حربوں سے دینِ اسلام، دینی اقدار اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو دھندلانے اور مٹانے کے لیے وہی کام کررہی ہے جو ان کے مغربی آقاوپیشوا کرتے رہے۔
اسلام کے خلاف معاندانہ کوششوں اور کاوشوں کا سلسلہ آج کا نہیں، بلکہ روزِ اول سے برابر چلا آرہا ہے، جو سوا چودہ سو سال سے آج تک کبھی منقطع نہیں ہوا۔ ملحدین اور اعدائے اسلام اپنے دلوں کے بغض وعناد اور درونِ خانہ دہکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہر اس چیز کی عمارت کو منہدم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام سے تعلق رکھتی ہو، خواہ وہ قرآن کریم ہو، سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور ہر اُس ہستی کی شکل وصورت کو بگاڑ کر پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے اسلام کا جھنڈا بلند کیا ہے، خواہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو یا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی جماعت یا سنت کے حاملین مجتہدین ہوں یا محدثین اور ہر زمانہ کے علمائے کرام اور ان کے قائم کیے گئے مدارسِ دینیہ۔
آج جتنے بھی جدیدیت زدہ لوگ ہیں وہ سب کے سب انہی کی روحانی اولاد اور ان کے گماشتے ہیں، جن کی کوشش یہ ہے کہ یہ دینِ اسلام مٹ جائے اور مسلمان بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح محض اپنے توہُّمات اور خود ساختہ باتوں پر عمل کریں اور قرآن وسنت کی صورت میں ان کے پاس جو علمی سرمایہ اور ماخذ موجود ہے، وہ سب کا سب ختم اور ملیامیٹ ہوجائے، اسی لیے وہ آئے روز مدارس کے نصاب کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ 
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم  نے قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر ایسی شاندار حکومتیں کیں کہ اس وقت کی سپرپاور قیصر وکسریٰ کی حکومتیںان کے زیرِنگیں آگئیں۔ اس کے بعد مسلمانوں نے برِصغیر پر آٹھ سو سال حکومت کی ہے، اس وقت اُن کا نصاب قرآن وسنت کے مطابق تھا، حکمران، سپہ سالار، معاشی ماہرین، طبی ماہرین، جج، انتظامیہ سب اسی نصاب سے فیض یافتہ تھے۔
انگریز نے جب برِصغیر پر تسلط کیا، مسلمانوںپر بہت زیادہ مظالم برپا کیے، خصوصاً اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کے بعد اس نے مسلمانوں کے نصابِ تعلیم کو ختم کرکے لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظامِ تعلیم مسلط کیا، جس سے ان کا مقصود ایسے لوگوں کو تیار کرنا تھا جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندی ہوں، لیکن فکروسوچ کے اعتبار سے فرنگی ہوں اور جو اُن کے دفتروں میں غلام رہ کر ان کی نوکری بجالاسکیں۔ انگریز کے تسلُّط سے پہلے ذریعۂ تعلیم، حکومتی اور دفتری زبانیں عربی، فارسی اور اردو تھیں، انگریز نے ان زبانوں کو بند کرکے ذریعۂ تعلیم اور دفتری زبان انگریزی مقرر کردی، جس سے تعلیم یافتہ مسلمان ناخواندہ شمار کیے گئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے دوسری طرف علمائے کرام نے اپنی مدد آپ کے تحت مسلمانوں کے دین وایمان اور اپنے علمی سرمایہ قرآن وسنت کی حفاظت کے لیے مدارس کا سلسلہ شروع کیا جو الحمدللہ! آج تک اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب رہا۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ہماری اشرافیہ، بیوروکریسی اور مقتدر قوتوں کا ذہن اس طرح بنادیا گیا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بات یا کوئی طور طریقہ جو اہلِ مغرب سے منسوب ہو‘ وہ چاہے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ تو قابلِ قبول ہے، لیکن جو بات مسلمانوں سے نسبت رکھتی ہو اور قرآن وسنت سے منسوب ہو‘ وہ چاہے کتنا ہی واضح، بامقصد، فائدہ مند اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہو‘ اس کا انکار کردیا جائے اور اُسے قبول نہ کیا جائے۔
اسی لیے قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی مدارس کے خلاف سازشیں شروع ہوگئی تھیں، سب سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان نے دینی مدارس کی آزاد دینی حیثیت کو خراب اور متأثر کرنے کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ملحد کو آگے کیا، جس نے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے نام سے اسلام کی بیخ کنی کی اور اسلامی معاشرہ کے خوبصورت نظام کو تہہ وبالا کرنے کی کوشش کی، جس کا اس وقت کے اکابر علمائے کرام نے ڈٹ کر مقابلہ کیا، جس کی بناپر وہ اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ونامراد ہوکر اپنے آقاؤں کے پاس جاپہنچا۔
 اس کے بعد صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے باقاعدہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے عنوان سے دینی مدارس کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ کا اعلان کیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد ’’قومی کمیٹی برائے دینی مدارس ‘‘ کے جال میں دینی مدارس کو پھانسنے کی کوشش کی، لیکن اس وقت کے علماء کرام کی دور اندیشی تھی، انہوںنے اعلان کیا کہ اپنے دینی اداروں کو چلانے کے لیے گورنمنٹ سے کسی قسم کی گرانٹ یا امداد نہ لی جائے، بلکہ آزاد حیثیت میں رہ کر اور عام مسلمانوں کی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات سے اپنے اداروں کو چلایا جائے۔ الحمد للہ! علمائے کرام کے اس بروقت اقدام کی بناپر مدارسِ دینیہ حکومت کے دست برد سے بچ گئے۔ اس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں دینی مدارس کو بہت ہی زیادہ نشانے پر رکھا گیا اور مدارس کو کنٹرول کرنے کے لیے ’’ماڈل دینی مدارس‘‘ کے عنوان سے آرڈی نینس بھی جاری کیا گیا، جس کے ماتحت ماڈل دینی مدارس بنائے گئے اور اب تحریکِ انصاف کی گورنمنٹ اس پورے پاکستان میں یکساں نصابِ تعلیم کے عنوان سے نیا جال لے کر آگئی ہے۔ اور مدارس کو اس جال میں پھانسنے کے لیے معاہدات وغیرہ بھی کررہی ہے۔
الغرض حکومت اور مقتدر قوتوں کا بیرونی دباؤ کی بناپر برابر ایک ہی اصرار ہے کہ کسی طرح دینی مدارس کا نظام اور نصاب ختم کیا جائے اور ان کو گورنمنٹ کے ماتحت لایاجائے اور پھر مدارس کا وہ حال کیا جائے جو آج گورنمنٹ اسکولز وکالجوں کا ہے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں، بلکہ اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کراچی ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۰ء میں ممتاز عالمی جریدہ ’’ڈیفنس اینڈ فارن افئیر اسٹیٹجک پالیسی‘‘ کے حوالہ سے ایک غیرمسلم صحافی ’’گریگری آرکوپلے‘‘ کا مضمون بعنوان ’’پاکستان مشرف کے دور میں ‘‘ چھپا تھا، وہ مضمون تو طویل ہے، لیکن اس میں ایک بات تو یہ لکھی تھی کہ: ’’ فوجی حکومت میں اس بارہ میں اتفاقِ رائے پیدا ہورہا ہے کہ ان مدرسوں کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟ اس بات پر عمومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ ’’غیرسود مند اور خطرناک‘‘ ہیں اور دوسری بات یہ لکھی ہے کہ مدرسوں سے نمٹنے کا عمل ایسے مضامین پڑھانے پر زور دینے سے شروع ہوگا جن مضامین کے پڑھنے سے بچوں میں حصولِ روزگار کی اہلیت ولیاقت پیدا ہوگی۔۔۔۔۔ حکومت اس بات پر زور دے گی کہ مدرسوں کے بنیادی نصاب میں مفید تربیت اور روایتی مضامین کو بھی شامل کیا جائے۔ 
اب تحریکِ انصاف کی حکومت نے ’’اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا اور اس کے تحت حکومت اور ’’اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کی مشاورت سے ایک نصاب مرتب کرنے کا معاہدہ ہوا ، حکومت نے اس معاہدہ سے انحراف کرتے ہوئے یک طرفہ نصاب مرتب کیا اور وہ نصاب دو این جی اوز کی معاونت، مشاورت اور ان کی خواہشات کے مطابق بنایا، جس کا ماہرِ تعلیم پروفیسر ملک محمد حسین نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: حال ہی میں مرکزی وزارتِ تعلیم نے پرائمری جماعتوں کے مجوزہ نصاب کا مسودہ جاری کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ نصابی تجاویز میں تعلیمی اقدار یعنی ویلیوایجوکیشن (V a lue Education) کے نام سے ایک علیحدہ نصابی کتابچہ دیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات پہلی سے بارہویں جماعت تک دی گئی ہیں۔ حقیقتاً ویلیو ایجوکیشن کا یہ کتابچہ حکومت کی نصابی پالیسی کی بنیاد ہے۔ اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجوزہ ویلیوز(Value) سارے نصاب اور سارے مضامین میں اساسی فکر کے طور پر نصابی تعلیم میں پھیلی ہوں گی اور یہی اقدار طلبہ کی شخصیت کا حصہ بنائی جائیں گی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔ ویلیو ایجوکیشن کی تفصیلات دیکھ کر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نصاب کی تشکیل ہیومنزم (Humanism) کے فلسفے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ ویلیو ایجوکیشن میں جن ویلیوز کو طلبہ کی شخصیت اور ان کی فکر وخیال میں جاگزیں کرنے کا عزم کیا گیا ہے، وہ روٹ ویلیوز یا اساسی اقدار حسب ذیل ہیں:
1.Compassion and Care
2.Integrity and Honesty
3.Responsible Citizenship
آگے لکھا ہے کہ:
ہمارے مقتدر حلقے ہیومنزم کے فلسفۂ حیات کو اور ہیومنزم کی اقدار کو ہماری تعلیم کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں:
۱:- ہمارا نظامِ حیات
۲:-ہمارا ورلڈ ویو
۳:-اور ہمارا آئین ومعاشرتی نظام
جس فلسفۂ حیات پر مبنی نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو متشکل کرنا چاہتا ہے وہ اسلام ہے۔ نظریۂ پاکستان، قائد اعظم کے تصورات، قراردادِ مقاصداور آئین کا آرٹیکل 31تقاضا کرتا ہے کہ ہمارا قومی نظامِ تعلیم اور ہمارا قومی نصاب اسلام کے نظامِ حیات پر مبنی ہوگا، جس کی اساسی اقدار یا پرائیم ویلیوز‘ توحید، رسالت اور آخرت ہیں اور جس میں انسان بنیادی طور پر اللہ کا عبد ہے اور اس کا مقصد زندگی اللہ کی عبادت یعنی بندگی اور اطاعت ہے اور جن کی ذیلی اقدار میں حلال، حرام، عدل، ظلم، گناہ، ثواب، خیر، شر، دیانت، امانت، صدق، تعاون، اعتدال وغیرہ ہیں اور یہی وہ اقدار ہیں جو پورے نصاب کے تانے بانے میں پھیلی ہوں گی اور تعلیم کا مقصد انہی اقدار کو نئی نسل کے رویوں اور فکر وعمل میں جاری وساری کرنا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بالکل مختلف ذہن اس نصابی کام پر حاوی ہے جو ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی روایات اور اپنے تصورِ کائنات سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ اگر ہم پچھلے چند سالوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مغربی این جی اوز اور خاص طور پر یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم (US Commission on international Religious Freedom) یعنی ’’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ نے ہماری تعلیمی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مذکورہ امریکی کمیشن نے ۲۰۱۵ء میں جو ہماری نصابی اور درسی کتب پر تحقیقات کروائیں، ان کے مطابق تقریباً ۷۰ موضوعات کو قابلِ اعتراض گردانا گیا۔ یہ سب کے سب موضوعات مذہبی موضوعات ہیں، نیز جن اقدار کو ہمارے نصاب اور درسی کتب میں نافذ کرنے کی سفارش کی گئی، وہ سارے کے سارے وہی ہیں جو ہم نے ان کی ویلیو ایجوکیشن کے تحت گنوائے ہیں۔ مذکورہ امریکی کمیشن کی رپورٹوں میں جہاد کو خصوصی نشانہ بنایا گیا ، نیز احمدیوں کے متعلق اعتراض اٹھائے گئے۔ ہمارے زیر نصابی خاکے میں پوری اطاعت گزاری کے ساتھ امریکی سفارشات پر عمل کیا گیا ہے۔ آپ پہلی سے پانچویں تک پورے نصاب کو چھان لیں ، آپ کو جہاد اور غزوات کا کوئی نشان ہی نہیں ملے گا۔
حاصلِ مطالعہ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ:پہلی سے پانچویں تک کے نصابی کتابچوں کو اور خاص طور پر ویلیو ایجوکیشن کے حصہ کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ:
۱:- یہ نصاب مغربی تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے۔
۲:- نظامِ اقدار جس پر یہ مبنی ہے، وہ ہیومنزم کی اقدار ہیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
۳:- نصابی خاکہ میں جو تصورات اور لوازمہ تجویز کیا گیا ہے، وہ بچوں کی ضروریات، معاشرے کی ضروریات اور بچوں کے ذہنی لیول کے مطابق نہیں ہیں۔
۴:- مغربی/ امریکی اسکولوں کے نصابات کی بھونڈی نقل ہے جو ہمارے نظامِ تعلیم میں جگہ نہیں پاسکے گا۔
۵:- نصاب میں اُفقی اور عمودی ربط کا خیال نہیں رکھا گیا۔
۶:-یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈیم کی سفارشات بلکہ ڈکٹیشن پر عمل کیا گیا ہے۔ اسلامی اقدار، اسلامی فکر اور خصوصاً جہاد کے تصور کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ 
۷:- اردو اور انگریزی کا نصاب بچوں میں مطلوبہ لسانی صلاحیتیں پیدا نہیں کرسکے گا، خصوصاً متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں کے بچے۔ دیہاتی اسکولوں کے بچے اور اساتذہ اس نصاب کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔
اسی لیے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کی مشاورت کے بعد یہ بیان جاری کیا ہے کہ: ’’دینی مدارس کے ساتھ اصلاح یا اصلاحات کا لفظ توہین آمیز ہے۔ اس سے معاشرے میں مدارس کے حوالے سے منفی رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وزارتِ تعلیم کے حالیہ اقدامات کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ مدارس کے ساتھ مذاکرات کی غلط تشریح کی گئی ہے، ہم نے ملک میں مدارس کنونشن پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ کے پی کے میں مدارس کے طلبہ کو اسکالرز شپ کے نام پر سرکاری رقوم کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ کسی بھی دینی مدارس کے طالب علم کو سرکاری پیسے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ کے۔ پی۔ کے کی پچھلی حکومت نے ائمہ کے نام پر پیسے دینے کا فیصلہ کیا تھا، جسے علماء نے مسترد کردیا تھا۔ انہوںنے کہا کہ امریکہ اور مغربی دنیا اس بات پر کیوں دلچسپی لے رہی ہیں اور اربوں ڈالر مختص کیے جارہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ مدارس کے نصاب سے شدت پسندی کی ذہنیت جنم لیتی ہے۔ دینی مدارس کا نصاب اعتدال اور امن کا درس دیتا ہے۔ جو پرچار آپ کررہے ہیں، اس کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (روزنامہ اُمت، کراچی، ۵ جنوری ۲۰۲۰ء) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکومت کی بدنیتی اس میں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم اگر پورے ملک کے لیے ہے تو پرائیویٹ اسکول بھی اس میں شامل ہونے چاہئیں، جب کہ آغا خان فاؤنڈیشن اور بیکن ہاؤس اسکول اور دانش کدہ جیسے ادارے اس میں شامل نہیں۔ صرف ان سرکاری اسکولوں کو اس میں شامل کیا ہے، جہاں پہلے تو بچے پڑھنے جاتے ہی نہیں، اگر جاتے ہیں تو صرف ان غرباء کے بچے ہوتے ہیں جن کے پاس پرائیویٹ اسکولوں یا معیاری اسکولوں میں پڑھانے کی سکت نہیں۔ تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ صرف ’’مدارسِ دینیہ‘‘ کو اس شکنجہ میں کسا جائے گا، باقی سب آزاد رہیں گے۔
اسی طرح اس نصاب کی پشت پر دو غیر ملکی ادارے ’’واٹر ایڈ‘‘ نام کی برطانوی این جی او ہے ، جس کی عملی سرگرمیاں تعلیمی شعبوں، بالخصوص نصاب کی تیاری میں مسلسل جاری ہیں، جب کہ دوسری تنظیم ایک امریکی ادارہ ’’یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم‘‘ ہے، جس کے کارندے اس سارے ہوم ورک میں سب سے زیادہ متحرک بتائے جاتے ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم کی تیاری بیرونی ایجنڈے کی تکمیل اور غیرملکی دباؤ کے ماتحت ہے، جس کے نقصان دہ ہونے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تمام علمائے کرام خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی اور خواہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اولین فرصت میں اس بیرونی ایجنڈے کے ماتحت بننے والے نصاب کو یکسرمسترد کردیں۔
۲:- ’’اتحادِتنظیماتِ مدارس دینیہ‘‘ کے اکابرین اور ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ کے راہنما مشاورت کے بعد اپنا تعلیمی نصاب گورنمنٹ کے سامنے رکھیں، تاکہ متبادل کے طور پر ان کے سامنے یہ نصاب پیش کرسکیں۔
۳:- اور آئندہ کے لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات جمعیت علمائے اسلام خصوصاً حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے سپرد کردیئے جائیں، تاکہ وہ صحیح طور پر دینی ومذہبی طبقے کی نمائندگی کرسکیں اور دینی طبقہ کا نقطۂ نظر واضح انداز میں حکومتی لوگوں کو سمجھا سکیں اور حکومتی لوگوں کے اصل ارادے اور مقاصد بھی بھانپ سکیں۔ إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقي إلا باللّٰہ ، علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔
 

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین