بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

یار زندہ صحبت باقی

یار زندہ صحبت باقی

    شہادت کا ایک اور سانحہ دل کو گھائل کر گیا۔ ابھی ماضی قریب میں پے در پے ہونے والی عظیم شہادتوں کا دکھ مندمل نہ ہوا تھا کہ ایک اور زخم صدماتی تحفہ دے گیا۔ مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے حزن وملال اور رنج وغم کا ندازہ کون کرسکتا ہے، جس نے یکے بعد دیگرے اتنے عظیم سپوتوں کی قربانی دی ہے کہ اب تو اس کے درودیوار کی طرح آسمان بھی شفق رنگ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے اس شجرۂ طیبہ کی اصل نے ایمان وتقویٰ اور علم وعمل کی بہاریں دنیا کو دکھانے کے بعد اب اس کی شاخیں جنت میں بھی اس قدر پھیلا دی ہیں کہ داروغۂ باغِ بہشت اور ان کے ساتھی میزبان جب چاہتے ہیں، ایک خوشہ توڑ کر اپنے ہاں سجا لیتے ہیں۔     حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوری شہیدؒ کے ساتھ بیتی ساعتوں کو جب مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک حلیم وبردبار، مرنجاں مرنج شخصیت، علم وعمل اور حسن واخلاق وبلندیٔ کردار کے آمیزے میں گندھی نظر آتی ہے۔ حضرت موصوفؒ کو جہاں اللہ تعالیٰ نے ذہانت وفطانت، اور علم دوستی وعلم پروری کی صفات سے نوازا تھا، وہیں وہ طبعاََ انتہائی شریف النفس، سلیم الفطرت، خوش اخلاق وخوش مزاج تھے۔ ایک دل آویز اور معصوم سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہر وقت سجی رہتی تھی اور ایک عجیب سی شیرینی اور مٹھاس اُن کی آواز اور لہجے میں گھلی ہوئی تھی۔     انسان کو کچھ قابلیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطأ کردی جاتی ہیں، مگر جب تک اس کے حسنِ خَلَق میں حسنِ خُلُق نہ ہو اور فطری قابلیتوںیا اعلیٰ مہارتوں کے ساتھ کردار کی بلندی اور سوچ کی وسعت اور رفعت نہ ہو تب تک وہ خلقِ خدا کی بے ساختہ محبتیں نہیں سمیٹ پاتا، نہ کوئی اچھا نقش چھوڑ سکتا ہے۔      حضرت دین پوریؒ کو اللہ تعالیٰ نے دونوں صفتوں سے نوازا تھا۔ علمی قابلیت اور فطری ذکاوت بھی غضب کی تھی اور ساتھ ساتھ مزاج میں نرمی اور رویے میں مٹھاس بھی خوب عطاء ہوئی تھی، لہٰذا ا نہوں نے زندگی بھر خیر بھی پھیلائی اور محبتیں بھی سمیٹیں۔      علم وعمل کی خوشبو بکھیرتے بکھیرتے اور تلامذہ ومعتقدین کی چاہتیں سمیٹتے سمیٹتے وہ اس انداز میں ہم سے رخصت ہوئے کہ سمجھ نہیں آتا، ان کی حلیم و شفیق شخصیت سے جدائی کا غم زیادہ ہے یا ان کے جانے سے ہونے والے نقصان کے اندیشے فزوں تر ہیں۔     اس عاجز نے چند سال پہلے خواب میں ایک مجاہد عالم کو دیکھا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں۔ پیر کالونی کی بڑی جامع مسجد میں جہاں استاذِ محترم حضرت مولانا عبد القیوم چترالیؒ امامت فرماتے تھے، وہاں شہداء کی یاد میں جلسہ ہورہا ہے، اس میں وہ شہید بھی آسمان سے چمکتے دمکتے چہرے اور سفید براق میں آیا ہوا ہے، مسجد میں خوب چہل پہل ہے۔ احقر نے اس سے پوچھا کہ آسمان والے ہمارے بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟ ہم لوگ شہادتیں تو پیش کر رہے ہیں، ہمارے کام کے بارے میں آسمانوں پر کیا تبصرہ ہوتا ہے؟ اس شہید نے کہا: آسمان والے وہی کچھ سمجھتے ہیں جو آپ لوگ ان کے بارے میں گمان رکھتے ہو۔ کمال کا بلاغتی جملہ تھا’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ مگر سمجھنے والوں کے لئے اس میں خوشخبری بھی پنہاں ہے اور استقامت کی تلقین بھی۔      دشمن سمجھتا ہے کہ اس سے قصاص لینے والا کوئی نہیں، اس لئے وہ بے خطر ہوکر بے ضرر علماء وطلباء کو دَھڑلّے سے شہید کرتا چلا جا رہا ہے، اُسے بھولنا نہیں چاہئے کہ شہادت دینے والے طبقے کی بقاء کا ذمہ دار خود اللہ رب العزّت ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، کائنات کے فیصلے اس نے کسی شقی وسنگدل کے سپرد نہیں کئے، نہ پہلے، نہ آج، نہ آئندہ۔ کراچی کو علماء وطلباء سے خالی کرنے کی سوچ رکھنے والے ازلی شقیوں کو کسی غلط فہمی میں نہ رہنا چاہئے۔ اگر زمین پر موجود اللہ والے پاکستان کی حدود میں قانون ہاتھ میں نہیں لیتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آسمانوں پر موجود احکم الحاکمین نے اپنے تکوینی قوانین معطّل کردیئے ہیں۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:’’إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ‘‘۔(الفجر:۱۴) ’’بے شک تیرا رب گھات لگائے ہوئے ہے‘‘ ۔     حضرت دین پوری شہیدؒ فقہی مجالس میں نکتہ رس مفتی ہوتے تھے اور نجی مجالس میں بذلہ سنج دوست۔ اس عاجز کو ان کی سلامتِ طبع اور مزاجِ اعتدال کی بناء پر ان سے خاص لگاؤ تھا۔ حضرتؒ کو بھی اس نالائق سے خصوصی شفقت ومحبت کا تعلق تھا۔ جامعۃ الرشید میں ہونے والی فقہی مجالس میں جب بھی دعوت دی، نہایت خوش دلی اور خوش کلامی سے قبول کی۔ ہنستے مسکراتے آئے اور کھلتے چہرے کے ساتھ رخصت ہوئے۔ یقینِ کامل ہے کہ جنت میں بھی اسی نرم خوئی اور خوش طبعی کے ساتھ داخل ہوئے ہوں گے۔ جامعۃ الرشید کے چمنستان میں ہم ان کا استقبال کیا کرتے تھے، وہاں وہ ان شاء اللہ! ہمارا استقبال کریں گے۔ یار زندہ صحبت باقی۔ ان کے ساتھ ہونے والی صحبتیں ان شاء اللہ! وہاں بھی قائم ودائم رہیں گی۔ دشمن نے رسوا ہونا ہے اور حق نے غالب ہونا ہے۔ مصیبت میں صبر اور مقابلے میں عزم وہمت کو ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہئے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین