بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

بینات

 
 

 ہیومن اِزم اور ہیومن رائٹس ملحدانہ افکار کا ایک طائرانہ مطالعہ (دوسری اور آخری قسط)

 ہیومن اِزم اور ہیومن رائٹس

ملحدانہ افکار کا ایک طائرانہ مطالعہ

(دوسری اور آخری قسط)


ہیومینٹی :تحریک تنویر (روشن خیالی) کا کلیدی تصور

تحریک تنویر (روشن خیالی) کا کلیدی تصور Humanity ہے۔ Emanuel Kantکے مطابق ہیومن بینگ  Human Being   کا بنیادی وصف اس کی Autonomy یعنی خود اِرادیت اورخود تخلیقیت ہی ہے، وہ اپنی ذات کا مالک خود ہے، وہ جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے۔ ہیومن بینگ معیاراتِ خیر و شر خود متعین کرتا ہے، اس کی بنیادی قدر ’’آزادی‘‘ ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مطابق:
’’ہیومن ازم ہر اس فلاسفی کو کہتے ہیں جو انسانی قدر یا عزت کو تسلیم کرے اور اسے تمام چیزوں کا میزان قرار دے۔‘‘
انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجین اینڈ ایتھکس میں ہیومن ازم کے بارے میں کہا گیا ہے:
 ’’فلسفہ میں ہیومن ازم ہر طرح کی فطریت (ربانیت) اور کلیت کی ضد ہے۔ یہ ایک ایسا فلسفیانہ رجحان دیتا ہے جو انسانی تجربوں کی تشریحات کو ہر طرح کے فلسفہ کا اولین مرکزِ توجہ قرار دیتا اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کام کے لیے انسانی علم کافی ہے۔‘‘
امریکی فلسفی کارلس لیمنٹ نے اپنی کتاب ’’فلسفۂ انسانیت پرستی‘‘ میں ہیومن ازم کو کھول کر بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا کہ اس کے اب تک آٹھ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔صفحہ نمبر: ۱۰ سے وہ ہیومن ازم کے دس بنیادی نکات بیان کرنا شروع کرتا ہے جن میں سے پہلے پانچ کا معنوی ترجمہ مع اصل متن پیش خدمت ہے:

"First, Humanism believes in a naturalistic metaphysics or attitude toward the universe that considers all forms of the supernatural as myth; and that regards Nature as the totality of being and as a constantly changing system of matter and energy which exists independently of any mind or consciousness."

’’اول: ہیومن ازم نیچری مابعد طبیعات یا سادہ لفظوں میں اس رویّے پر یقین رکھتا ہے جس کے مطابق ہر قسم کے مافوق الفطری موجودات(مثلاً: خدا، فرشتے، جنت، جہنم وغیرہ) فرضی قصے کہانیاں اور افسانے ہیں، اور یہ کہ تمام وجودات اور یہ ساری کائنات‘ مستقل بالذات مادے اور اِنرجی کے باہمی تعامل ہی کا نتیجہ ہیں، جن کے پیچھے کوئی ذہن مطلق یا ناظمِ کائنات کارفرما نہیں ہے۔‘‘

"Second, Humanism, drawing especially upon the laws and facts of science, believes that we human beings are an evolutionary product of the Nature of which we are a part; that the mind is indivisibly conjoined with the functioning of the brain; and that as an inseparable unity of body and personality we can have no conscious survival after death "

’’دوم: ہیومن ازم کا انحصار بالخصوص سائنسی قوانین و حقائق پر ہے۔ ہیومن ازم کے مطابق ہم انسان اس مادی کائنات-جس میں کہ ہم رہتے ہیں- ہی کا ایک حصہ اور ارتقائی ماحصل ہیں۔ اور یہ کہ نفس یا شعور انسانی دماغ ہی کے تعامل اور فنکشنز کا نام ہے جس کا دماغ کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ہے، یعنی نفس انسانی الگ سے کوئی روحانی وجود نہیں بلکہ دماغ ہی کا ایک عمل ہے۔ ہیومن ازم اس بات پر بھی یقین رکھنے کا نام ہے کہ چونکہ انسانی تشخص یا روح اور جسم درحقیقت ایک ہی شے ہے، اس لیے موت کے بعد کسی قسم کی شعوری حیات کا کوئی وجود نہیں۔‘‘

"Third, Humanism, having its ultimate faith in humankind, believes that human beings possess the power or potentiality of solving their own problems, though reliance primarily upon reason and scientific method applied with courage and vision"

’’سوم: ہیومن ازم چونکہ‘‘انسان’’پر ایمان لانے کا نام ہے، اس لیے انسانی مسائل کو حل کرنے میں حتمی فیصلہ (وحی یا آسمانی ہدایت کی بجائے) انسانی عقل اور سائنسی طریقہ کار کا ہے۔‘‘

"Fourth, Humanism, in opposition to all theories of universal determinism, fatalism, or predestination, believes that human beings, while conditioned by the past, possess genuine freedom of creative choice and action, and are, within certain objective limits, the shapers of their own destiny "

’چہارم: ہر قسم کے نظریہ جبر و تقدیر اور ایمان بالقدر کے برعکس، ہیومن ازم یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان اپنی قسمت اور تقدیر کا خالق خود ہے، ان معنوں میں کہ جس شے یا عمل کو انسان مثبت سمجھتا ہے، اسے اپنانے یا کر گزرنے میں انسان پوری طرح آزاد ہے، یعنی اسے کسی خارجی یا آسمانی پابندی کی فکر نہیں کرنی چاہیے، وہ اپنے لیے خیر و شر کے انتخاب اور ترجیحات کی درجہ بندی متعین کرنے میں پوری طرح آزاد ہے۔‘‘

"Fifth, Humanism believes in an ethics or morality that grounds all human values in this-earthly experiences and relationships and that holds as its highest goal the this worldly happiness, freedom, and progress – economic, cultural, and ethical – of all humankind, irrespective of nation, race, or religion "

’’پانچواں یہ کہ ہیومن ازم کے مطابق اخلاقیات کی تمام تر بنیاد مذہب، قوم یا قبیلے کی روایات و تعلیمات کی بجائے ان دنیاوی اقدار پر ہے جن کے ذریعے انسان اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ خوشیاں، آزادی اور مادی ترقی حاصل کر سکے۔‘‘ (بحوالہ مقالہ جناب ریاض شاہد)
تحریکِ تنویر کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ فلسفہ اور مغربی فلاسفر جب انسان ہی کو کائنات کا محور اور خیر و شر کے تعین کا ذمے دار قرار دیتے ہیں تو ایسی صورت میں خدا پرستی کا کیا سوال؟ یہی وجہ ہے کہ ڈیکارٹ کا کہنا تھا کہ:
’’وہ ایک ایسی چیز (ذاتِ باری تعالیٰ) کو حق کیسے تسلیم کرے جو محض تصوراتی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ 
فکرِ جدید کے پیغامبر ڈیکارٹ، والٹیئر، کانٹ، نطشے، شوپن ہاور، ہیگل وغیرہ کی مجموعی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱- انسان کائنات کا محور و مرکز ہے۔        ۲-آزادی آئیڈیل ہے۔
۳- مساوات بنیادی قدر ہے۔            ۴- ریشنیلٹی معیار ہے۔

ہیومینٹی(Humanity ) …انسانیت نہیں

Humanity کا ترجمہ ’’انسانیت‘‘ کیاجاتا ہے جو درست نہیں، ’’انسانیت‘‘ چیزے دیگر ہے، اس کے لیے انگریزی کا لفظ Mankind ہے۔ یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں اٹھارہویں صدی سے قبل رائج تھا، اصلاً ’’Humanity‘‘ کا تصور’’انسانیت‘‘ کا رَد ہے۔
ان معنوں میں ہیومینٹی کا ترجمہ ’’شیطنت‘‘ یا نفسِ امارہ کے مطیع کے سوا اور کچھ نہیں بنتا، وہ نفسِ امّارہ جس کے بارے میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایاہے:

‘‘اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِّالسُّوْء …الخ۔’’

ہیومن ازم کی بجا طور صحیح تشریح مشہور امریکی مفکر وٹمن کا وہ باغیانہ رجز ہے، جسے امریکی دانشور رچرڈ رارٹی نے اپنی کتاب ’’اچیونگ آور کنٹری‘‘ (Achieving our country) شائع شدہ ہارورڈ یونیورسٹی پریس ۱۹۹۸ء) میں نقل کیا ہے، وٹمن کہتا ہے:
’’اے لوگو! آئو میری آواز پر لبیک کہو
میری بات غور سے سنو
میں تمہیں خدا کی طرف نہیں بلاتا
میں تمہیں خدا کی عبادت کی طرف نہیں بلاتا
میں تمہیں انسان کی طرف دعوت دیتا ہوں
میں تمہیں انسان کی پرستش کی طرف دعوت دیتا ہوں
اے لوگو! آئو میری آواز پر لبیک کہو
میری بات غور سے سنو
لوگو! خدا کی جستجو چھوڑ دو، خدا کے لیے مارے مارے پھرنا چھوڑ دو
 (یہ سب کارِ لاحاصل اور کارِ عبث ہے)
اس لیے جو اپنی ہم جنسوں کی جستجو اور تلاش میں لگا ہو
اس کو خدا کی جستجو اور تلاش کبھی نہیں ستاتی۔‘‘
رچرڈ رارٹی اپنی مذکورہ کتاب میں امریکی عوام کو مشورہ دیتا ہے کہ:
’’گزشتہ قوموں اور تہذیبوں نے خدا کی رضا جاننے میں اپنی توانائیاں صرف کردی تھیں، جان ڈیوی اور ہیگل نے مغربی عوام کو اس سعی لاحاصل سے نکالا اور انہیں یہ درس دیا کہ وہ اپنی تمام توانا ئیاں انسان کی رضا اور انسان کی خواہشات کی تکمیل میں صرف کردیں۔‘‘
اس مخصوص تصورِ علم اور تصورِ انسان کو ہیومن بینگ (Humen Being) کہا جاتا ہے۔ اس وقت مغرب میں جتنے بھی علوم پائے جاتے ہیں خواہ سائنس ہو، خواہ سوشل سائنس ، ان کے پس منظرمیں یہی فکر کارفرما ہے۔ اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ’’ہیومن بینگ‘‘ (Human Being )بنیادی طور پر عبدیت کا رَد ہے، اس لیے کہ ’’عبد‘‘ اپنے ’’ارادے‘‘ اور ’’خواہش‘‘ کے تابع نہیں ہوتا، بلکہ اللہ رب العالمین کامطیع و فرماں بردار ہوتا ہے، وہ اپنے لیے معیاراتِ خیر و شر خود تخلیق نہیں کرتا، بلکہ وہ وحی کے ذریعے بتائے گئے خیر و شر میں امتیاز کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مغربی فکر انسان کی پیدائش، اس کے مقصدِ زندگی اور مابعد الموت کے بارے میں کوئی سوال نہیں اُٹھاتی۔ اس کے ہاںاس سوال کاکوئی جواب نہیں ملتا کہ آخر انسان کیونکر اس دنیا میں آیا؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا محور صرف حال کی دنیا اور انسان اور اس کی خواہشات کی تکمیل ہے، چنانچہ اس کی ساری تگ ودو اسی دنیا کو تسخیر کرنے اور اسی کو جنت بنانے پر ہے۔
یورپی معاشرے میں یہ فکر اچانک پروان نہیں چڑھی، بلکہ صدیوں کا دَور اس عمل میں صرف ہوا ہے۔ اسی فکر کی بنیاد پر ہیومن رائٹس (انسانی حقوق)کا عالمی چارٹر مرتب ہوا۔ اس چارٹر کے تین لازمی جز ہیں:
1-’’آزادی‘‘ جوعبدیت کارد ہے، جسے ہم دین اور الہامی تعلیمات سے بغاوت تصور کرتے ہیں۔
2-’’مساوات ‘‘جس کامطلب حق اور باطل، صحیح وسقیم، اسلام اور کفر کی برابری ہے، جودراصل نظامِ ہدایت کارد ہے۔
3-’’ترقی ‘‘جسے دوسرے لفظوں میں ہم عیش وعشرت، لذات کے حصول کی جدوجہداور طولِ امل کے فروغ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ 

انسانی حقوق کا چارٹراوراس کے مصنفین 

ہیومن ازم اور اس سے متعلق نظریات کے فروغ میں بیسیوں مفکرین کے نام لیے جاسکتے ہیں، انہی کی جدوجہد تھی کہ فرانس، برطانیہ، امریکا، جرمنی وغیرہ میں مذہب بیزار انقلابات رونما ہوئے، فرانس کا اعلانِ آزادی اور امریکا کا اعلانِ آزادی آپس میں گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ ’’آزادی‘‘ سے مراد یہاں کسی غیر ملکی تسلط سے آزادی نہیں بلکہ مذہب، پادری، بائبل، اخلاقی حدود و قیود سے آزادی شامل ہے۔
 تاریخی طو رپر دیکھا جائے ۱۷۷۶ء میں امریکا کا اعلانِ آزادی سامنے آیا۔ ۱۷۸۸ء میں امریکی دستور ’’بل آف رائٹ‘‘ (حقوق کا بل) مرتب ہوا۔ امریکی دستور کا ماخذ ’’فیڈر لسٹ پیپرز‘‘ ہیں۔ ’’فیڈرلسٹ پیپرز‘‘ وہ مضامین تھے جو دستور کی حمایت میں امریکا کے پہلے وزیر خزانہ الیگزینڈر ہملٹن، امریکا کے پہلے چیف جسٹس جان جے اور امریکی صدر جیمس میڈسن نے امریکی اخباروں میں لکھے تھے۔ یہ تمام مضامین مغرب کے ملحد مفکرین اور ہیومن ازم کے پر چارک فلسفیوں کے افکار و نظریات کی روشنی میں لکھے گئے تھے۔
 اقوامِ متحدہ کا منشور The Universal Declaration of Rights ’’آفاقی اعلامیہ برائے حقوق‘‘ (جس کا ترجمہ ’’انسانی حقوق‘‘ کیا جاتا ہے) اسی امریکی دستور ’’بل آف رائٹ‘‘ کا چربہ ہے۔ اس منشور کی مصنفہ اس وقت کے صدر روزویلٹ کی بیوی ایلینا روز ویلٹ تھی۔

’’ہیومن رائٹس‘‘ کے نفاذ کے لیے عالمی طاقتوں کاجبر

اقوامِ متحدہ تنظیم کی جانب سے تمام ممبر ممالک پابند ہیں کہ وہ ’’ہیومن رائٹس‘‘ کوآفاقی، عالمی اور ناقابلِ چیلنج قانون تسلیم کرتے ہوئے اس پر دستخط کریں۔
چنانچہ مسلم ممالک بھی اقوامِ متحدہ کا ممبر بنتے وقت اس پر اپنے دستخط کے ساتھ توثیق کرچکے ہیں۔ اس منشور پر دستخط کے بعد ممبر ممالک کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت یہ درست نہیں کہ وہ ہیومن رائٹس کے علی الرغم کوئی قانون سازی کرسکیں، مقامی قانون سازی میں ہیومن رائٹس کومدِنظر رکھنا لازمی ہے۔
یواین ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰ء میں ہیومن رائٹس کے فروغ کے لیے تین اہم خطوط متعین کیے گئے تھے۔اس رپورٹ میں جن ترجیحات کاتعین کیاگیا، وہ درج ذیل تھیں:
1- تیسری دنیا کے ممالک بین الاقوامی قوانین کی ملکی قوانین پر بالادستی تسلیم کرلیں جو ہیومن رائٹس سے متعلق سول لبرٹیز کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
2- قومی ریاستوں کاڈھانچہ ان بین الاقوامی قوانین اور عدالتی تنظیموں کے ماتحت کردیا جائے جو کیپٹیل ازم کی عالمگیریت کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
3- معاشرتی سطح پر ایسی گروہ بندیاں قائم کی جائیں جو حقوق کی سیاست کوفروغ دیں اور قومی ریاستوں کے عالمی سرمایہ کے ماتحت ہوجانے کے عمل کی تائید کریں، اور اس کاجواز عوامی سطح پر پیش کریں۔ 
اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیمیں اور مغرب کی پروردہ این جی اوز اس بات کی مانیٹرنگ کرتی رہتی ہیں کہ کسی ملک میں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی؟ چنانچہ ایک مرتبہ یو این او کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اپنی خواہش ظاہر کی تھی کہ جو ملک بھی حقوقِ انسانی کے ماورا قانون سازی کرے، اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل فوجی کارروائی کرے۔ اس نے کہا تھا کہ کسی حکومت کو حق حاصل نہیں کہ وہ قومی خود مختاری کو آڑ بناکر ہیومن رائٹس سے انکار کرے۔

ہیومن ازم(انسان پرستی) کا فلسفہ قرآن وسنت کی روشنی میں

مغربی فلسفہ صرف اس دنیا (This world) سے بحث کرتا ہے، یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ انسان پیدائش سے قبل کیا تھا؟ اس کا مقصدِ پیدائش کیا ہے؟ اور مرنے کے بعد کیا پیش آئے گا؟ ان سوالوں کا جواب اس کے پاس نہیں ہے۔ مغربی فلسفہ انسان کی تخلیق کے بارے کہتا ہے کہ انسان بس پھینک دیا گیا ہے … کس نے پھینکا؟ کہاں پھینکا؟ کیوں پھینکا؟ ان سوالوں کے جواب اس کے پاس نہیں ہیں۔
مشہور جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈگر (Marten Heidegger) کے بقول انسان اشیاء کو پاتا ہے، اشیاء کو تخلیق نہیں کرسکتا، وہ کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے۔
اور سارتر (sartre) کے بقول کون کس وقت کیوں کائنات میں پھینکا گیا ہے؟ یہ ہم نہیں جان سکتے۔ چونکہ انسان کائنات میں پھینک دیاجاتا ہے ؛ وہ کائنات میں تنہا ہے اور اس کے وجودکو ایک دن ختم ہوجانا ہے، اس لیے خیروشر کے ایسے دائمی پیمانے بنانا جو ذاتی اخلاقیات پر مشتمل ہوں؛ پیش نہیں کیے جاسکتے۔
یہ کیسی لغو بات ہے کہ انسان کی تخلیق اور مقصدِ تخلیق ہی کسی فکر میں لایعنی ہو، قرآن مجیدکائنات، انسان کی تخلیق اور مقصدِ تخلیق کانہ صرف مکمل اور تسلی بخش جواب دیتا ہے، بلکہ انسان کے ضعف وعجز اور اس کی محدود قوتِ خیال وعمل کو بھی کھول کر بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ‘‘ (سورۃ العلق:۱-۲)
’’ اے پیغمبر ! (جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے۔‘‘
تخلیقِ کائنات و انسان کی اپنی جانب نسبت کے بعد اس کی مزید وضاحت یوں فرمائی:
’’ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِلَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْراً‘‘ (سورۃ الدھر:۱-۲)
’’ بیشک انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جس میں وہ کوئی چیز قابلِ تذکرہ نہ تھا (یعنی انسان نہ تھا، بلکہ نطفہ تھا ) ہم نے اس کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا اس طور پر کہ ہم اس کو مکلف بنائیں تو (اسی واسطے) ہم نے اس کوسنتا دیکھتا (سمجھتا) بنایا۔‘‘
صرف یہی نہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کردی ؛بلکہ دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘   (التین:۴)
’’ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔ ‘‘
تخلیق کے بعد انسان کو تکریم وعزت سے نوازا، پاکیزہ رزق عطافرمایا:
’’وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ البَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ‘‘ (الاسراء:۷۰)
 یہ حقیقت ہے انسان ایک وقت تھا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز ہی نہیں تھا، اس کی تخلیق ہوئی بھی تو ایسے ننھے سے قطرے سے جو بدبودار ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان خودبخود پیدا نہیں ہوا، اسے پیداکرنے والی کوئی ہستی ہے، پھر انسان کو بے ڈھنگاپیدا نہیں کیا، بلکہ توازن اور خوبصورتی کے ساتھ وجود بخشا، اسے عزت وکرامت عطاکی، بحروبر میں چلنے اور سفرکرنے کی سہولت دی، پاکیزہ رزق عطا فرمایا، اس کی تخلیق کامقصد بھی بتادیا:
’’وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘ (الذاریات:۵۶)
’’ اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں۔ ‘‘
لیکن انسان خیال کرے کہ وہ اپنی reason کے بل بوتے زندگی کے معنی تلاش کرسکتا ہے، خیروشر کی تعیین کرسکتا ہے، وہ اپنی reason کی راہنمائی میں کائناتِ ارضی میں خاص قوانین کا اجراء کرسکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، اس لیے کہ کائنات کے نظام کوچلانے کے لیے علمِ کلی ضروری ہے، ایسی ہستی جو علیم وخبیر ہو، اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 
 انسان تو نارَسائیوں کا پیکر ہے، حقائق تک اس کی مکمل رسائی نہیں ہے، وہ اپنی موت تک کا اِدراک نہیں کرسکتا۔ وہ اپنی موت کے معین وقت سے واقف نہیں ہے، وہ نہیں جانتا کہ آئندہ اسے کیا بیماری لاحق ہونے والی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی نارَسائیوں، اس کے عجز ودرماندگی اور بےچارگی کو کھول کھول کر بیان فرمایاہے، تاکہ وہ اپنی حقیقت سے آگاہ رہے۔ ذرا دیکھیے! قرآن انسان کے بارے کیا کہتا ہے؟!:
’’وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ (الاسراء:۸۵)
 ’’ اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘
جب یہ بات ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ محض اپنی عقل اور اَٹکل کے زور سے خیروشر کی تعیین کرسکے؟!۔
’’وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا‘‘ (النساء :۲۸)
’’اور آدمی کمزور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
’’اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ‘‘(ابراہیم:۳۴)
’’(مگر) یہ سچ ہے کہ آدمی بہت ہی بےانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘
’’اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘ (الزخرف:۱۵)
’’واقعی انسان صریح ناشکر ہے۔‘‘
’’اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ‘‘           (العادیات : ۶)
’’ بیشک (کافر) آدمی اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘
’’اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا‘‘ (المعارج:۱۹)
’’ انسان کم ہمت پیدا ہوا ہے۔‘‘
’’اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ‘‘ (یٰسین:۷۷)
’’ کیا آدمی کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا، سو وہ علانیہ اعتراض کرنے لگا۔‘‘
’’خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ‘‘ (الانبیاء:۳۷)
’’ انسان جلدی ہی (کے خمیر) کا بنا ہوا ہے ۔‘‘
’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ‘‘            (البلد:۴)
’’ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘
’’وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً‘‘   (الاسراء: ۱۱)
’’اور انسان (کچھ طبعاً ہی) جلد باز (ہوتا) ہے۔ ۔‘‘
’’وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا‘‘(الاسراء :۱۰۰)
’’ اور آدمی ہے بڑا تنگ دل۔‘‘
’’وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئیٍ جَدَلاً‘‘ (الکہف:۵۴)
’’ اور اس پر بھی منکر آدمی جھگڑے میں سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘
’’اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا‘‘         (الحشر:۷۲)
’’ وہ ظالم ہے، جاہل ہے۔‘‘
’’کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی‘‘         (العلق:۶)
’’ سچ مچ بیشک (کافر) آدمی حد (آدمیت) سے نکل جاتا ہے۔ ‘‘
تو جب انسان کی غالب صفات یہ ہیں کہ وہ قلیل العلم، ضعیف البدن، خواہشات کے گھوڑے کا سوار، سرکش، ظلوم وجہول، جھگڑالو، جلدباز، بے صبرا، ناشکرا، تنگ دل، حق کا حریف رہنے والاہے، تو کیسے ممکن ہے کہ وہ انسانی معاشرت کی بقاء وتسلسل کے لیے آفاقی اوردائمی راہنمااصول وضع کرسکے؟!۔
آج آسمانی ہدایت کوچھوڑ کرجن معاشروں نے خودساختہ؛وضعی قوانین کے ذریعے کاروبارِ حیات چلانے کی کوشش کی، ان کی کیاحالت ہے؟ کیا وہ بدترین تنزلی کا شکار نہیں ہوچکے؟! کیا ان کے ہاں خاندان کا ادارہ باقی رہا ہے؟ ان کے ہاںعفت وعصمت کوئی معنویت رکھتی ہے؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے۔ 
ہر فکر اپنی مابعد الطبیعات اور اپنے ذیلی اثرات و نتائج سے پہچانی جاتی ہے
یہ بات طے شدہ ہے کہ ہر فکر اپنی مابعد الطبیعات، اپنے پس منظر اور پیش منظر سے پہچانی جاتی ہے۔ انسان کا عقیدہ اس کی عملی زندگی پر ٹھوس اثرات رکھتا ہے۔ صالح عقیدہ کے اثرات اور فاسد عقیدے کے اثرات میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ عقائد کی درستی سے انسان کا حال درست ہوتا ہے۔ حال اس وقت درست ہوتا ہے جب انسان کا دل ایمان باللہ اور اخلاص فی اللہ سے معمور ہو۔ توحید، رسالت، قیامت، عدالت، اور آخرت جو ہماری ایمانیات میں شامل اور غیر متبدل عقائد ہیں؛ کسی شخص کا ان عقائد پر ایمان جتناقوی ہوگا، اس کے وجود سے نکلنے والے اعمال اسی قدر صالح اور راست ہوں گے۔
اسلامی معاشروں میں بندگیِ رب، خدا خوفی و خدا ترسی، امن و سلامتی، صدق و دیانت، غریبوں، یتیموں، مسکینوں، ضعیفوں کی خبرگیری، شجاعت و غیرت، جیسی اعلیٰ قدریں اور بلند مرتبہ اوصاف کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ صرف انہی معاشروں میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور ظلم و ناانصافی ناپید ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ مومن اپنے ایمان کی قوت کی بدولت اطمینان کی کیفیت میں ہوتا ہے، وہ اپنے رب کی رضا میں راضی ہوتا ہے، اور ہمہ وقت اللہ کی رضاکی تلاش میں رہتا ہے، وہ صابروشاکر اور قانع ہوتا ہے۔وہ ہرایسے کام سے بچتاہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کااندیشہ ہو، چنانچہ اس کے اعضاء وجوارح سے صادر ہونے والے اعمال میں سلامتی ہوتی ہے، مخلوقات اس سے امن پاتی ہیں۔ 
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کے وہ معاشرے جنہوں نے ہیومن رائٹس (انسانی حقوق) کو قبول کیا، جنہوں نے کتاب اللہ کی جگہ اپنے دستور کوفوقیت دی، وہ معاشرے بدترین خصائل کے مالک، اور نسل انسانی کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ یہ معاشرے غصب، غضب، شہوت، حسد، لالچ اور ظلم و عداوت کے پیکر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان معاشروں کے افرادکاحال اضطراب، بے یقینی اور بے چینی ہے۔ وہ قدرت کی گرفت اور اس کے جبر سے آزاد ہوجانا چاہتے ہیں (جوکہ ممکن نہیں)، چنانچہ وہ شہوت اور غضب کے ذریعے قدرت کے نظام میں فساد پھیلاکر اپنی الوہیت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغربی معاشرے اسی فساد عظیم کے مظہر ہیں۔
ہم یہاں اس بات کابھی اظہار کرناچاہتے ہیںکہ کسی نظامِ فکر کو پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس کے بنیادی فلسفہ کو پیش کرنے والے کون لوگ ہیں؟ ان کی ذاتی سیرت اور کیرکٹر کیا ہے؟ آپ کتاب اللہ کے حاملین کی سیرتوں کو پڑھیں اور مغرب کے جدید فلسفیوں کی ذاتی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔مغربی مفکرین اور فلسفیوں کی ذاتی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عموماً انتہائی غلیظ، گھنائونی اوررَذیل اخلاق کی حامل ہوگی، پھر کیونکر ان کے افکاروخیالات اورفلسفوں میں راستی اور سلامتی ہوسکتی ہے؟!

حقوق العباد اور حقوقِ انسانی میں فرق، اورحقوق کی سیاست کے بھیانک نتائج 
 

گزشتہ سطور میں واضح کیا جاچکا ہے کہ ہیومن رائٹس کا خاص فلسفہ، پس منظر اور خاص اطلاق ہے۔ ہمارے ہاں عموماً بہت سی مغربی اصطلاحات کو محض لفظی مشابہت کی بناپر اس کے پس منظر میں جائے بغیر قبول کرلیا جاتا ہے، پھر ان کی اسلامی توجیہات بھی پیش کی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ وہ معذرت خواہانہ ذہنیت ہے، جس نے فرض کرلیاہے کہ مغرب کو ہراعتبار سے تفوُّق حاصل ہے، چنانچہ یہ ذہنیت مغربی افکارکوچیلنج کرنے کی بجائے اسے مسلم معاشروں کے لیے قابلِ قبول بناکر پیش کرتی ہے، اسی کااثر ہے کہ انسانی حقوق (ہیومن رائٹس) کو حقوق العباد کے مماثل سمجھ لیا گیا ہے۔
جاننا چاہیے کہ ’’انسانی حقوق‘ ‘(ہیومن رائٹس)ایک خاص ہیومینیٹی کے لیے فرض کیے گئے ہیں، ایسا انسان جواپنی آزادی (الوہیت اور صمدیت، اپنی غرض، اور خواہش کی تکمیل) پر یقین رکھتاہو۔ اس کی مثال ’’ٹرانس جینڈرایکٹ ‘‘ کی ہے کہ اگر کوئی مرد اپنے آپ کو عورت کے روپ میں منتقل کرناچاہتاہے، یاکوئی عورت مرد بن کر رہناچاہتی ہے تو اسے نہ صرف اس بات کی آزادی ہے، بلکہ اسے قانونی تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، اس لیے کہ یہ اس کاذاتی فعل ہے اور اس کی خواہش کی تکمیل میں کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی، یعنی قدرت نے اسے اگر مرد پیدا کیا ہے اور وہ اپنی صنفی حیثیت پہ مطمئن نہیں ہے تووہ سرکاری کاغذات میں اپنی جنس تبدیل کراکے عورت بن سکتا ہے۔ عورت مردوں والالباس پہن کر گھومے پھرے یا مردعورتوں کا لباس پہنے، انہیں ایسا کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یہ اس کا رائٹ (حق) ہے، اس کی بنیاد مغرب کا وہ عقیدہ ہے جسے Freedom آزادی کہا جاتا ہے۔
حقوق العباد : فرض کی ادائیگی اور احساسِ ذمہ داری کواجاگرکرتے ہیں، جبکہ حقوقِ انسانی کا فلسفہ دوسرے سے اپناحق چھین لینے اور اپنی غرض پوری کرنے کا نام ہے۔
حقوق العباد کی ادائیگی کی صورت میں انسانوں میں محبت ورفاقت کے جذبات اُبھرتے ہیں؛ جبکہ ثانی الذکر (ہیومن رائٹس پر پریکٹس) کی صورت میں حرص، حسد، رقابت، غصب اورخود غرضی جیسے امراضِ خبیثہ جنم لیتے ہیں۔
اہلِ مغرب/ مغربی مفکرین کی طرف سے فراہم کردہ انسانی حقوق کا فریم ورک افراد اور معاشروں کو حقوق کی سیاست کا ایک ایسا تباہ کن ہتھیار دیتا ہے جو انہیں حسد، غضب اور شہوت کا پیکر بنادیتا ہے۔ حقوق کی سیاست کا مطلب دوسرے سے اپنا حق چھین لینا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوری معاشروں میں حقوق کی ادائیگی کی بجائے حقوق کے حصول پر زور ہوتا ہے، چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے تنظیمیں، پارٹیاںقائم ہوتی ہیں۔ یہ پارٹیاں وطنیت، قومیت، علاقائیت، مذہبیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، چونکہ سب کے ہاں حقوق کا مفہوم جداجدا ہوتا ہے، اس لیے سب اپنے من چاہے حقوق حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں، مثلاً: عورتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں برابری کے حقوق ملنے چاہئیں تو اس کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ مزدور اپنی یونینز بناکر حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، تاکہ انہیں اپنی من چاہی اُجرتیں مل سکیں۔ قوم پرست قومیت کے نام پر پارٹیاں بناکر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
مزعومہ انسانی حقوق کا فلسفہ کتاب اللہ کی تعلیم: ’’یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ‘‘ کا رَد ہے۔ اسلام حقوق چھیننے کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ فرد میں اس ذمہ داری کا احساس اُجاگر کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق ادا کرے۔
اسلامی امارت وحکومت کا حاکم اس رویے کا حامل ہوتا ہے کہ بقول سیدناعمربن خطاب  رضی اللہ عنہ  ’’اگر دریائے فرات کے کنارے پہ بھی کوئی کتا پیاسا مرگیا تو مجھ سے اس کی پوچھ ہوگی۔‘‘ دوسری طرف رعایا کا ہر فرد خیال کرتا ہے کہ مجھے اپنے امام اور حاکم کی اطاعت کرنی ہے۔
ماں باپ اپنی اولاد کو شفقت ومحبت اور پرورش سے نوازتے ہیں، جبکہ اولاد والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کے جذبے سے جھکے جاتی ہے۔ استاذ شاگرد کو تعلیم وتربیت سے نوازتا ہے اور شاگرد ادب واحترام کا رویہ اختیار کرتا ہے، یعنی یہاں دونوں جانب کچھ دینے کاجذبہ ہے، نہ کہ لینے اور چھیننے کا۔ 
الغرض یہ وہ اسباب و علل ہیں جن کی بنیاد پر ہم ہیومن ازم (Humanism) اور ہیومن رائٹس (Human Rihts) کے رائج فلسفے کو الحادکا سرچشمہ کہتے ہیں، بلکہ معلوم تاریخ میں جتنے کفریہ مذاہب پائے جاتے ہیں، ان سب میں بدترین کفر، بغاوت، طغیانی و سرکشی کے حامل اس جدید مذہب کو پاتے ہیں:
’’اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ۝۰ۭ فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ م بَعْدِ اللہِ ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ۔‘‘   (الجاثیہ:۲۳)
’’ سو کیا آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہشِ نفسانی کو بنا رکھا ہے؟ اور خدائے تعالیٰ نے اس کو باوجود سمجھ بوجھ کے گمراہ کردیا ہے ؟ اور خدائے تعالیٰ نے اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے، سو ایسے شخص کو بعد خدا کے (گمراہ کردینے کے) کون ہدایت کرے، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟!۔ ‘‘
آج مسلم معاشروں میں جو اِلحاد اور دہریت کی بادِ سموم چل رہی ہے، یہ اسی فلسفۂ ہیومن ازم کی پیداکردہ ہے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ جو افراد دینی تعلیمات چھوڑکر فلسفۂ ہیومن ازم کو اپناتے ہیں، ان کا حال بتدریج پراگندہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آغاز شک اور ریب سے ہوتا ہے، پھر ترکِ فرائض وواجبات کی باری آتی ہے، بالآخر ہیومنسٹ وجودِ باری تعالیٰ کا ہی انکار کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس فتنہ کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

اللّٰھم أرنا الحق حقّا و ارزقنا اتباعہٗ و أرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہٗ

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین