بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ہفتہ وار تعطیل/چھٹی کس دن ہونی چاہیے؟ جمعہ یا اتوار؟

ہفتہ وار تعطیل/چھٹی کس دن ہونی چاہیے؟ جمعہ یا اتوار؟


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ایک اہم مسئلہ کی بابت آپ کی علمی رائے مطلوب ہے:
میرا تعلق الحمد للہ وفاق المدارس العربیہ سے ملحق ایک دینی مدرسہ سے ہے۔ مدرسہ کراچی کے ایک پوش علاقہ میں قائم ہے اور الحمد للہ تشنگانِ علومِ نبویہ کی پیاس بجھانے اور ان کی دینی واخلاقی تربیت کی کوششوں میں مصروف ہے۔گزشتہ کچھ ماہ سے ایک رائے بہت شدت سے یہاں دی جارہی ہے، جس پر عمل بھی ہوا ہی چاہتا تھا کہ بعض اساتذہ کرام کی درخواست پر فی الحال موقوف کردیا گیا ہے۔
وہ یہ کہ اب تک مدرسہ سے دیگر مدارس کی طرح ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے روز ہی ہوتی ہے، لیکن اب اتوار کو قومی تعطیل کی بنیاد پر تعطیل کرنے کی تجویز ہے، جبکہ شعبہ حفظ وناظرہ میں اس پر عمل بھی ہوچکا ہے، جس پر اکثر والدین اُن کے مطمئن اور خوش بھی ہیں۔ مسئلہ شعبہ کتب کا ہے کہ اس میں اگر اتوار کی چھٹی کی جاتی ہے تو یہ عمومی توارث وتعاملِ مدارس کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ مدرسہ میں طلبہ کی اکثریت بلکہ غالب اکثریت شہری طلبہ کی ہے، جو صبح آکر شام یا رات کو واپس چلے جاتے ہیں، بہت قلیل تعداد میں طلبہ ہیں جو مدرسہ میں مقیم ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر ہفتہ وار تعطیل میں کہیں نہ کہیں اپنے کسی عزیز یا اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں جواز وعدمِ جواز سے آگے بھی رہنمائی درکار ہے کہ آیا مدرسہ کی عمومی تعطیل جمعہ کو ختم کرکے اتوار کو جاری کرنا شرعاً کس درجہ میں ہے؟ اور کیا ایسا کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس بابت ترجیح الراجح مع وجوہاتِ ترجیح کی طرف راہنمائی بھی فرمادیں گے تو عنایت ہوگی، فأجرکم علی اللہ۔ والسلام

مستفتی: محمد ابوثوبان فرقان، ٹیپو سلطان روڈ، کراچی

الجواب حامدًا و مصلیًا

اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو تمام دنوں میں فضیلت بخشی ہے، اور اسے سب دنوں سے اعلیٰ اور ارفع بنایا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے ہفتہ میں ایک دن خاص عبادت کے لیے مقرر کیا، اور وہ دن جمعہ کا تھا، لیکن پچھلی امتوں میں اس کی تعیین میں اختلاف ہوا اور یہود نے اپنی خاص عبادت کے لیے ’’جمعہ‘‘ کو چھوڑ کر ’’ہفتہ‘‘ کے دن کو منتخب کیا، اور نصاریٰ نے ’’اتوار‘‘ کا دن منتخب کیا، جبکہ منشا خداوندی جمعہ کے دن کی تھی، مسلمانوں نے اللہ کے فضل اور اس کی راہ نمائی سے ’’جمعہ‘‘ کے دن کو منتخب کرلیا، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: 
’’عن أبي ہريرۃ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: نحن الآخرون السابقون، بيد أنہم أوتوا الکتاب من قبلنا، وأوتيناہ من بعدہم، وہٰذا اليوم الذي کتب اللہ عز وجل عليہم فاختلفوا فيہ، فہدانا اللہ عز وجل لہ ـ يعني يوم الجمعۃ ـ فالناس لنا فيہ تبع، اليہود غدًا والنصاری بعد غد۔‘‘ (سنن النسائی، ج:۳، ص:۸۵)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم یوں تو سب سے آخر میں آئے ہیں، لیکن قیامت کے دن سب پر سبقت لے جائیں گے، فرق صرف اتنا ہے کہ ہر اُمت کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی، جب کہ ہمیں بعد میں کتاب ملی، پھر یہ جمعہ کا دن اللہ نے ان پر مقرر فرمایا تھا، لیکن وہ اس میں اختلاف کا شکار ہوگئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اس (جمعہ کے دن) کی طرف رہنمائی فرمادی، اب اس میں لوگ ہمارے تابع ہیں، چناں چہ یہودیوں کا اگلا دن (ہفتہ) ہے اور عیسائیوں کا پرسوں کا دن (اتوار) ہے۔‘‘
نیزجمعہ کی اہمیت کے متعلق قرآن کریم میں مستقل ایک سورت ’’سورۂ جمعہ‘‘ کے نام سے نازل ہوئی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
’’يَا أَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللہِ وَذَرُوْا الْبَيْعَ ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔‘‘ (الجمعۃ: ۹)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے لیے اذان کہی جائے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑو، اور خریدو فروخت چھوڑدیا کرو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو۔‘‘
حدیث شریف میں ہے: 
’’عن أبي ہريرۃ، أن النبي صلی اللہ عليہ وسلم، قال:’’خير يوم طلعت عليہ الشمس يوم الجمعۃ، فيہ خلق آدم، وفيہ أدخل الجنۃ، وفيہ أخرج منہا، ولا تقوم الساعۃ إلا في يوم الجمعۃ۔‘‘ (صحيح مسلم، ج:۲، ص:۵۸۵)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اس میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اس دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن۔‘‘
 ابتدا میں ذکر کردہ حدیثِ مبارک میں اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ مسلمان دیگر فرائض اور اَحکامِ خداوندی کی رعایت کے ساتھ ساتھ جب تک جمعے کے دن کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے، اہلِ کتاب ان کے تابع رہیں گے۔ علاوہ ازیں بہت سی احادیث میں جمعہ کے فضائل اور اس کی خصوصیات مذکور ہیں، نیز سورۂ جمعہ کی مذکورہ آیت میں باری تعالیٰ نے جمعہ کی اذان ہوتے ہی کاروبار بند کرکے جمعہ کے لیے سعی کا حکم فرمایا ہے۔نیز احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن مخصوص اعمال واذکار، درود اور خاص سورتیں پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ سلفِ صالحین میں سے بہت سے بزرگانِ دین کا معمول جمعرات سے ہی جمعے کی تیاری کرنے کا تھا، اور عمومی ماحول یہی تھا کہ جمعے کی صبح سے ہی جامع مسجد میں تشریف لے جایا کرتے تھے، ان ہی وجوہات کی بنا پر فقہاء کرام نے جمعہ کے دن عام تعطیل کو مستحب قراردیا ہے، جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ’’زاد المعاد‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’أنہ اليوم الذي يستحب أن يتفرغ فيہ للعبادۃ، ولہ علی سائر الأيام مزيۃ بأنواع من العبادات واجبۃ ومستحبۃ، فاللہ سبحانہ جعل لأہل کل ملۃ يومًا يتفرغون فيہ للعبادۃ ويتخلون فيہ عن أشغال الدنيا، فيوم الجمعۃ يوم عبادۃ، وہو في الأيام کشہر رمضان في الشہور، وساعۃ الإجابۃ فيہ کليلۃ القدر في رمضان۔‘‘ (زاد المعاد في ہدي خير العباد، ج:۱، ص:۳۸۶)
’’بے شک یہ (جمعہ) وہی دن ہے جس دن مستحب ہے کہ اپنے آپ کو اس میں عبادت کے لیے فارغ کردے، اس دن کا بقیہ ایام پر (خاص) شرف ہے۔ تمام انواعِ عبادات کے متعلق، خواہ وہ واجب ہوں یا مستحب، اللہ تعالیٰ نے ہر مذہب والوں کے لیے ایک دن مخصوص فرمایا جس میں وہ خود کو عبادت کے لیے فارغ کریں اورتمام دنیوی مصروفیات سے کنارہ کشی اختیار کریں، پس جمعہ کادن عبادت کا دن ہے اور یہ دیگر ایام کے مقابلے میں اس طرح ہے جیساکہ رمضان کامہینہ دیگر مہینوں کے مقابلے میں اور اس میں قبولیتِ دعا کا خاص وقت ہے، جیسا کہ شبِ قدر کی حیثیت رمضان المبارک میں۔‘‘
اگرچہ رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی سہولت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمعے کے پورے دن کاروبارِ زندگی بند رکھنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ نمازِ جمعہ سے فراغت کے بعد کسبِ حلال کی اجازت خود قرآنِ مجید میں مرحمت فرمائی، تاہم خیر القرون سے سلف کا معمول یہ رہا ہے کہ وہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے پہلے دنیاوی مشاغل میں بالکل بھی مشغول نہیں ہوتے، یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمعے کے دن دوپہر کا کھانا جمعے کے بعد ہی کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے، جب کہ باقی دنوں میں ان کا یہ معمول ظہر سے پہلے ہوتا تھا۔ 
محدث العصرعلامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ جامعہ کے دار الافتاء سے جاری ایک فتوے کی تصدیق کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے ہر جہت سے قابلِ صد احترام ہے، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تو مسجد میں صبح کی نماز پڑھ کر تا ختمِ صلاۃِ جمعہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے، اور دوپہر کا کھانا اور آرام بھی بعد نمازِ جمعہ ان کا معمول تھا۔ اور اگر ہفتہ میں کسی دن کی تعطیل ضروری ہے تو پھر جمعہ کا ہی دن اس کے لیے ہونا چاہیے، اور اسلامی نقطۂ نگاہ سے تو اتوار یا سینیچر کی تعطیل درست ہی نہیں ہے۔ ہاں! شرعًا کاروبارِ جمعہ کو ترک کرنا ضروری نہیں، اذانِ نمازِ جمعہ کے بعد ترک کرنے کا حکم ہے، جیسے حضرت مفتی صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔ کوئی ایسا کاروبار کرنا جس سے نمازِ جمعہ کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو، وہ ناجائز ہے، واللہ اعلم۔‘‘ (محمد یوسف بنوری، ۶ ؍رمضان ۱۳۷۸ھ) 
مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’اتوار کے دن تعطیل کرنے میں تشبہ ہے غیروں کے ساتھ، دینی مدرسہ میں اس کو ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ، ج: ۸، ص: ۳۶۳، باب صلاۃ الجمعۃ)
امداد الفتاویٰ میں ہے: 
’’سوال: ہمارے یہاں سب مدارس میں جمعہ کو تعطیل ہوتی ہے، اتوار کو تعطیل کرنا روا ہوگا یا نہیں؟
 جواب: نہیں، بسبب تشبہ وتعظیم یومِ نصاریٰ کے۔‘‘ (امداد الفتاویٰ، ج:۴، ص:۲۶۶) 
مذکورہ بالا حوالوں اور تفصیل سے جمعہ کے دن کی تعطیل کامستحب ہونا ظاہر ہے کہ یہ دن عبادات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کادن ہے، نیز اکابرین علماء دیوبند کے مندرجہ بالا فتاویٰ جات سے بھی یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کے نزدیک مدارسِ دینیہ میں اتوار کی تعطیل پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ جمعہ ہی کی تعطیل کو ترجیح دی گئی ہے ۔ ــــ فقط واللہ اعلم

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعید الرحمٰن  

محمد انعام الحق

عزیزمحمود دین پوری

الجواب صحیح

 

دارالافتاء

محمد شفیق عارف

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین