بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ہر کسے را بہر کارے ساختند (جس کا کام اُسی کو ساجھے)

 ہر کسے را بہر کارے ساختند
جس کا کام اُسی کو ساجھے

 

’’عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ مَجْلِسٍ یُّحَدِّثُ الْقَوْمَ جَائَ ہٗ أَعْرَابِيٌّ ، فَقَالَ: مَتَی السَّاعَۃُ ؟ فَمَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ، قَالَ: أَیْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَۃِ؟ قَالَ: ھَا أَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: إِذَا ضُیِّعَتِ الْأَمَانَۃُ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ ، فَقَالَ: کَیْفَ إِضَاعَتُھَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلٰی غَیْرِ أَھْلِہٖ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ۔‘‘          (صحیح البخاری، کتاب العلم، باب فضل العلم، ج:۱، ص:۱۴، ط:قدیمی)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، حدیث بیان فرمارہے تھے، ایک اعرابی (دیہاتی) آیا، پوچھا کہ قیامت کب ہوگی؟ آپ حدیث بیان کرنے میں مشغول تھے، جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ: قیامت کا سوال کرنے والا کہاں ہے؟ سائل نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: جب امانت (الٰہی) ضائع ہوجائے، قیامت کا انتظار کرو۔ سائل نے دریافت کیا کہ امانت کیونکر ضائع ہوگی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب معاملات نا اہلوں کے سپرد ہوں، قیامت کا انتظار کرو۔‘‘
دیکھئے! کیسا عجیب سوال وجواب ہے اور کتنا واضح وصاف بیان ہے اور کیسی روشن علامت بیان فرمائی ہے، دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے کہ جوشخص جس کام کے لیے موزوں ہو، اس کے لیے اسی کا انتخاب کیا جائے، صدرِ مملکت سے لے کر چپڑاسی وچوکیدار تک غور کرلیجئے، یہی قانونِ فطرت کار فرما ہے، یہی معقول وموزوں زندگی کا نظام ہے، دنیا کا صحیح نظم اسی وقت تک قائم رہے گا، جب تک اس فطری و طبعی اور عقلی قانون پر عمل کیا جاتا رہے گا، جب اس قانون کے خلاف کیا جائے گا، نظم و نسق میں خلل واقع ہوگا، حکیم و طبیب کا کام انجینئر کے کسی نے سپرد نہیں کیا، کسی منطقی و فلسفی یاریاضی کے استاذ کو فقہ و حدیث کا درس کسی نے حوالہ نہیں کیا، کسی ادیب یا شاعر کو ہیئت و ہندسہ کا درس حوالہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح میدانِ جنگ میں قیادتِ افواج کا کام کسی فلسفی مفکر کے کسی نے حوالہ نہیں کیا ’’ہر کسے را بہر کارے ساختند‘‘ مثل مشہور ہے۔ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کبارs میں بھی یہ صلاحیتوں کا تنوع واختلاف واضح تھا، جو کام حضرت خالد بن و لید رضی اللہ عنہ کا تھا، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نہیں لیا گیا۔ یہ جامعیتِ کبریٰ تو صرف حضرت خاتم الا بنیاء سید المر سلین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں ہی پید ا فرماکر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا کر شمہ دکھلا یا تھا اور سارے کمالاتِ علمیہ وعملیہ آپ کی ذاتِ گرامی میں جمع کردیئے تھے:   ’’  آنچہ   خوباں   ہمہ   دارند   تو   تنہا   داری‘‘
 ان حقائق کی روشنی میں حسب ذیل خبر ملا حظہ فرمایئے:
 ’’اسلام کی تعبیر وتشریح کی ذمہ داری کسی مخصوص گروہ کو نہیں سو نپی جاسکتی۔‘‘
 وزیرِ قانون شیخ خور شید احمد کی تقریر
پشاور:۱۲؍اکتوبر (اپ پ ) مرکزی وزیر قانون شیخ خو رشید احمد نے آج ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبروں کو خطاب کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا :
’’اسلام کی تعبیر وتشریح کا کام کسی ایک مخصوص گر وہ کو نہیں سو نپا جاسکتا، اس لیے یہ ذمہ داری قانون سازوں کے سپر د کی گئی ہے، جو منتخب نمائندوں کی حیثیت سے عوام کے ضمیر کے نگہبان اور محافظ ہیں۔‘‘
تعجب کی کیا بات ہے؟! اب بھی اگر قیامت کے قرب کا آپ کو یقین نہیں آئے تو کب آئے گا؟ وز یرِ قانون کے بارے میں سنی سنائی باتوں کی بنا پر ہمیں عقیدت تھی کہ اس دور میں اور موجودہ نظام میں ان کا وجود پھر بھی غنیمت ہے، لیکن افسوس’’ خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم‘‘ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ جو د ینِ اسلام کے دو بنیادی ستون ہیں، ان کے حقائق اور فقہی مسائل کے استنباط کے لیے تو کبار صحابہؓ میں بھی چند خاص خاص شخصیتیں متعین تھیں، عام صحابہؓ کی دسترس سے بھی یہ حقائق بالاتر تھے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت قرآن کریم میں اپنی رائے سے کوئی بات بیان کرنے سے گھبر ایا کرتے تھے اور فرماتے تھے:
’’أَيُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِيْ وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِیْ إِذَا قُلْتُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ بِرَأْیِيْ۔‘‘                       (کنزالعمال، فصل فی حقوق القرآن، ج:۲، ص:۴۴۵، ط:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
’’ کس آسمان کے زیر سایہ اور کس روئے زمین پر میں رہ سکوں گا جب اللہ کی کتاب میں اپنی رائے کو دخل دینے لگوں گا۔‘‘
قرآن کریم واحادیثِ نبویہ وفقہ اسلامی میں جن کی زندگیاں گزری ہیں، اگر وہ ان کا حق ادا کر سکیں تب بھی غنیمت ہے، لیکن اگر یہ مخصوص گروہ بھی اس عظیم کام سے علیحدہ کر دیا جائے تو پھر کیا رہے گا؟!

کارِ            طفلاں           تمام           خواہد           شد

آخر جب کو ئی حکومت قانون بناتی ہے یا قانون کی تعبیر وتشریح میں کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو ماہرینِ قانون ہی کی خدمات کیوں حاصل کرتی ہے؟! تو اگر انسانی دماغوں کے ساختہ پرداختہ قوانین کی تعبیر و تشریح کے لیے ما ہر ین کی ضرورت ہے تو احکم الحاکمین کے قوانین کے لیے ما ہرینِ قانونِ اسلامی سے کیوں کر استغناء ہو سکتا ہے ؟! میں اس سلسلہ میں لائقِ احترام وزیر قانون مو صوف کو چند قطعی اور یقینی امو ر کی طرف متوجہ کرنا اور اس کے بعدچند اہم سوالات کرنا چاہتاہوں، اُمید ہے کہ موصوف ان اُمور پر تو جہ فرمائیں گے اور ان سوالات کے جوابات ایک بیان کی صورت میں دیں گے:
۱:- تیرہ سوسال سے اُمت کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ اسلام اتنا کا مل و اکمل اور ایسا واضح و روشن مذہب ہے کہ وہ کسی کی تعبیر وتشریح کا محتاج نہیں، اسلام کی تعبیر وتشریح کا نام اور اس کام کو کسی کے سپر د کرنے کا سوال صرف انہی لوگوں کی زبان پر آتا ہے جو اسلام کو اپنی اغراض وخو اہشات کے ڈھا نچہ میں ڈھا لنا چاہتے ہیں، ورنہ اُمتِ مسلمہ تو تیرہ سوسال سے بغیر کسی کی تعبیر و تشریح کے علی وجہ البصیرت اسلام کو جانتی، پہچانتی اور اس کے احکام پر عمل کررہی ہے۔
۲:- ایسے جزوی حوادث ومسائل جو زمانے کے ساتھ بدلتے اور نو بنو وجود میں آتے رہتے ہیں، ان کے متعلق اسلام کا قطعی اور اساسی اُصول شارع  k نے حسب ذیل بیان فرمایا ہے:
’’عَنْ عَلِيٍّؓ قَالَ: قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنْ نَّزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَیْسَ فِیْہِ أَمْرٌ وَلَا نَھْيٌ فَمَا تَأْمُرُنِيْ؟ قَالَ:’’شَاوِرُوْا فِیْہِ الْفُقَہَائَ وَالْعَابِدِیْنَ وَلاَ تَمْضُوْا فِیْہِ رَأْيَ خَاصَّۃٍ۔‘‘(رواہ الطبرانی فی الاوسط، ورجالہ مو ثقون من اہل الصحیح۔ المعجم الاوسط للطبرانی، ج:۲، ص:۱۷۲، ط:دارالحرمین، القاہرۃ)
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس میں کوئی واضح بیان (نصِ کتاب وسنت) موجود نہ ہو، نہ امر (حکم) ہو، نہ نہی (ممانعت) ہو، ایسے مسئلہ کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ (ہم کیا کریں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے مسائل میں تم فقہاء اور عبادت گزاروں سے مشورہ کیا کرو اور کسی بھی شخصی رائے سے ان کو طے نہ کیا کرو۔‘‘
 سوال:لا ئق احترام وزیر قانون سے میں دریافت کرتا ہوں کہ:
۱:- اسلام کی (عمومی) تعبیر وتشریح کے متعلق مذکورہ بالا فیصلہ کرنے کا مجاز اُن کو یا کسی اور کو کس نے بنایا ہے؟
۲:- کیا یہ منتخب نمائندے اس اہلیت کے مالک اور اس معیار پر پورے اُترتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے؟!
 آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم فرمائے اور اربابِ اقتدار کو صحیح فہم عطا فرمائے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین