بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ہجری سال کے ’’ربیع الآخِر‘‘ اور ’’جُمادَی الآخِرَۃ‘‘ کا صحیح تلفظ کیا ہے؟


ہجری سال کے ’’ربیع الآخِر‘‘ اور ’’جُمادَی الآخِرَۃ‘‘ کا صحیح تلفظ کیا ہے؟


ہجری سال کے چوتھے اور چھٹے مہینے ’’ربیع الآخِر‘‘اور ’’ جُمادَی الآخِرَۃ‘‘ کا صحیح اورفصیح تلفظ کیا ہے؟ اور ان میں سے کونسا تلفظ قواعد کے موافق ہے؟ ذیل میں اس حوالے سے تفصیلی بحث کرکے صحیح اور فصیح تلفظ کی نشاندہی کی گئی ہے، نیز اکابر علماء کرام کی عبارات میں مذکورہ دو مہینے کے لیےجو تلفظ قواعدکےخلاف استعمال ہوا ہے، اس کی بھی ممکنہ صحیح توجیہ کی گئی ہے۔
مذکورہ دو مہینوں کے لیے عام محاورے میں جونام لکھے اور بولے جاتے ہیں، ان میں سے ان میں سے چند ایک حسبِ ذیل ہیں: (۱) ربیع الآخِر، (۲)ربیع الثاني، (۳) جمادی الآخِرۃ، (۴)جمادی الأخرٰی، (۵) جمادی الثاني، (۶) جمادی الثانیۃ۔
 اس سلسلے میں متعدد مستند کتبِ لغت دیکھنے اور عربی اُصول وقواعد کی روشنی میں جائزہ لینے کے بعد ہم جس نتیجہ تک پہنچے ‎‎ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ربیع الأول‘‘ کے بعد والے مہینے کا صحیح اورفصیح نام ’’ربیع الآخِر‘‘ ہے، ’’ربیع الثاني‘‘ نہیں۔ اور ’’جُمَادٰی‘‘ والے دوسرے مہینے کا صحیح اور فصیح نام ’’جُمادَی الآخِرَۃ‘‘ ہے۔اور لفظِ ’’جُمادی‘‘ کی جیم پر ضمہ، دال پر فتحہ اور آخر میں الف مقصورہ ہے۔ اور لفظِ ’’ الآخِرۃ ‘‘ کی خا پر کسرہ ہے۔ تاہم چونکہ یہ فرق اصطلاحی اورفنی اعتبار سے ہے، اس پر کسی فقہی حکم کا مدار نہیں؛ اس لیے عرف اور تعامل کی بنیاد پر ’’ربیع الثاني‘‘ یا ’’جمادی الاُخریٰ‘‘ الفاظ استعمال کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ذیل میں مذکورہ بالا اجمال کی تفصیل اور اس کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں :
1- ’’صحیح اور فصیح نام ’’ربیع الآخِر، جمادی الآخِرۃ‘‘ ہے، نہ کہ ’’ ربیع الثاني، جمادی الأخرٰی‘‘ ۔
الف - معتبر کتُبِ لغت میں ان دو مہینوں کے لیے جو نام درج ہے، وہ ’’ ربیع الآخر، جمادی الآخرۃ ‘‘ہے۔
ب- عربی اصول و قواعد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ’’ جمادیٰ الآخرۃ‘‘ ہونا چاہیے، نہ کہ ’’ جمادی الأخرٰی ‘‘ ، کیوں کہ ’’جمادی الآخرۃ‘‘میں لفظ ِ’’آخرۃ‘‘ یہ ضد اور مقابل ہے لفظِ ’’أولٰی‘‘کی، جس طرح کہ اس سے پہلے دو مہینے ’’ربیع الأول‘‘ اور ’’ربیع الآخر‘‘ میں ’’اول و آخر‘‘ ایک دوسرے کی مقابل اور ضد ہیں، اسی طرح یہاں ’’جمادی الأولیٰ‘‘ اور ’’جمادی الآخرۃ‘‘ میں ’’أولیٰ و آخرۃ‘‘ باہم متضاد و متقابل ہیں۔ اور ’’أوّل‘‘ کی تانیث ’’أولیٰ‘‘ آتی ہے ؛ کیونکہ اسم تفضیل واحد مؤنث کا وزن ’’فُعْلیٰ‘‘ ہے۔ تاج العروس شرح قاموس (۷/ ۵۱۹)کی عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحیح و درست نام ’’جُمَادَی‘‘ (جیم کے ضمہ اور دال کے فتحہ کے ساتھ) ہے، وہیں یہ باتیں بھی معلوم ہوئیں:کہ ’’جُمادی الأولی ‘‘ اور ’’جُمادی الآخرۃ‘‘ یہ دونوں عربی مہینوں کے عَلَم(نام) ہیں۔ دونوں ناموں میں ’’جُمادَی ‘‘ کی دال پر فتحہ ہے، کوئی اور حرکت نہیں۔ ’’جمادی الأولی ‘‘ اور ’’جمادی الآخرۃ‘‘ مؤنث ہیں۔ اور ان دونوں کے علاوہ سارے عربی مہینوں کے نام مذکر ہیں۔
ج- ’’آخِرۃ‘‘ یہ خا کے کسرہ کے ساتھ ’’آخِرٌ ‘‘ کی تانیث ہے؛ کیونکہ ’’آخِر‘‘ ’’فاعِلٌ‘‘ کے وزن پر اسم فاعل واحد مذکر کا صیغہ ہے، اور ’’أوّل‘‘ کی ضد ہے، جس کا معنی پچھلا اور آخری ہے، تو اس کی تانیث ’’آخِرۃٌ‘‘ بروزنِ ’’فاعِلۃٌ‘‘ آئے گی۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے : ’’ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ‘‘ (الحدید :۳)‎
اس(آخِرٌ) سے ملتا جلتا ایک لفظ ’’آخَر/الآخَر ‘‘ (خا کے فتحہ کے ساتھ)ہے، اس کی مؤنث ’’فُعلیٰ‘‘ کے وزن پر ’’أخْریٰ‘‘ آتی ہے۔ اور اس کےمعنی ’’ایک اور ‘‘، ’’دوسرا ‘‘، اور ’’غیر ‘‘ وغیرہ آتے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: ’’ثوبٌ آخَر‘‘(دوسرا کپڑا) پس ثابت ہوا کہ ’’اُخرٰی ‘‘ اور ’’آخِرۃ‘‘ دو الگ الگ لفظ ہیں، اور دونوں کا معنی بھی الگ ہے کہ ’’آخِرٌ‘‘ ’’أوّل ‘‘ کا مقابل اور آخری کے معنی میں ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَلَلْآخِرَۃُ خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْأُوْلٰی ‘‘ (الضحیٰ: ۴) آیت ِ ہذا میں ’’آخرۃ‘‘ کے مقابل اور ضد کے طور پر لفظ ِ ’’أولیٰ ‘‘ آیا ہے ۔
 جب کہ’’ اُخرٰی ‘‘ کا لفظ ’’ایک اور ‘‘، ’’غیر ‘‘ اور ’’دوسرا ‘‘ کے معنی میں آتا ہے، یہ ’’أوّل ‘‘ کا مقابل نہیں ہے۔ اور نہ ہی ’’آخری ‘‘ ہونے پر یہ دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے : ’’وَ لِیَ فِیْہَا مَـاٰرِبُ أُخْرٰی ‘‘ (طہ : ۱۸) اور ’’وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْکَ مَرَّۃً أُخْرٰی‘‘ (طہ:۳۷)۔ مذکورہ بالا آیات میں’’ اُخْرٰی‘‘ کا لفظ ’’ دوسرا‘‘، اور ’’ ایک اور‘‘ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔
2-’’اسی طرح ’’جمادی الآخِرۃ ‘‘ کے بجائے’’جمادی الثاني‘‘ یا ’’جمادی الثانیۃ‘‘ لکھنا اور بولنابھی درست نہیں ہے۔
الف- کیونکہ؛ جب ’’ جمادی الأخرٰی‘‘ کی اجازت نہیں تو ’’ جمادی الثاني‘‘ کی بطریقِ اولیٰ اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ب- نیز ’’جُمادی الثاني‘‘یہ مرکبِ توصیفی ہے، ’’ جمادیٰ‘‘ موصوف اور ’’الثاني‘‘ اس کے لیے صفت ہے، موصوف اور صفت میں تذکیرو تانیث کے اعتبار سے مطابقت ہونا ضروری ہے (یعنی اگر موصوف مذکر یا مؤنث ہے، تو صفت کا بھی مذکریا مؤنث ہونا ضروری ہے) جب کہ یہاں مطابقت مفقود ہے؛ کیونکہ ’’جُمادَی‘‘ مؤنث ہے اور ’’الثاني‘‘ مذکر ہے۔
نیز ’’جمادی الآخِر‘‘ کہنا، یا ’’جمادی الأول‘‘ کہنا بھی درست نہیں؛ کیوں کہ ایسی صورت میں بھی موصوف و صفت کے درمیان تذکیر و تانیث میں مطابقت نہیں ہے۔
البتہ اس قاعدہ کی رو سے تو بظاہر ’’جمادی الثانیۃ‘‘ درست معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ بھی درست نہیں، اس کی وجہ آگے مستقل آرہی ہے۔ 
ج- اہلِ عرب لفظ ’’الثاني‘‘ اور ’’الثانیۃ‘‘ کا استعمال وہاں کرتے ہیں، جہاں اس کے لیے کوئی ’’ثالث‘‘ ’’ثالثۃ‘‘ بھی ہو (یعنی تیسرا فرد بھی ہو)، اور چوں کہ ’’ ربیع ‘‘ اور ’’جُمادی‘‘ کا کوئی ’’ثالث‘‘، ’’ ثالثۃ ‘‘ نہیں ہے؛ لہٰذا یہاں ’’ربیع ‘‘ اور ’’جُمادَی ‘‘ کے ساتھ ’’الثاني ‘‘ اور ’’الثانیۃ‘‘ کا استعمال، اہلِ عرب کے اصول کےخلاف ہونے کی وجہ سے درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اس کی تائید سورۃ الاسراء کی آیت نمبر: ۵  اور ۷ سے بھی ہوتی ہے،مذکورہ آیاتِ مبارکہ میں ’’أُوْلَاہُمَا ‘‘ کے مقابلہ میں ’’ وَعْدُ الْآخِرَۃِ‘‘ لایاگیا، نہ کہ ’’وَعْدُ الثَّانِيَۃِ‘‘۔
3-اب رہی یہ بات کہ اگر کوئی ’’ربیع الآخِر‘‘ اور ’’جُمادَی الآخِرۃ‘‘ کے بجائے ’’ربیع الثاني‘‘، اور ’’جمادی الاُخرٰی‘‘ ہی استعمال کرے تو آیا اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟
تو اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ چونکہ ’’ربیع الآخِر‘‘ اور ’’جُمادَی الآخِرۃ‘‘ علم ہے اور ’’اَعلام‘‘ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنا تحریف کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ ناجائز ہے، چنانچہ نحو إتقان الکتابۃ باللغۃ العربيۃ (ص: ۹۶)میں ہے:
’’وفيما يلي أسماء الشہور العربيۃ، وہي أعلامٌ علی ہٰذہ الشہور لا يجوز تحريفہا۔‘‘
ترجمہ: ’’اسلامی مہینوں کے جونام ہیں وہ ان مہینوں کے اَعلام ہیں، ان میں تحریف جائز نہیں ۔‘‘
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ اصولِ عربیت کے لحاظ سے صحیح او رفصیح علم ’’ربیع الآخِر ‘‘ اور ’’جُمادَی الآخِرۃ ‘‘ ہے۔ اور چوں کہ اعلام میں تصرف و تغیر منع ہے؛ اس لیے ’’جمادی الأُخْریٰ ‘‘ یا ’’جمادی الآخِر ‘‘ یا ’’جمادی الثانیۃ ‘‘ یا ’’جمادی الثاني‘‘ یا ’’جمادی الآخَرۃ‘‘ نیز ’’ربیع الآخِر ‘‘ کو ’’ربیع الثاني‘‘ لکھنے اور بولنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور صحیح تلفظ’’ربیع الآخِر ‘‘ اور ’’جُمادَی الآخِرۃ ‘‘ ہی لکھنے اور بولنے کا اہتمام کرناچاہیے۔
4- جہاں تک بات ہے عباراتِ اکابر کی (جن میں ان دو مہینوں کے لیے ’’جمادی الأخرٰی‘‘ اور ’’ربیع الثاني‘‘ استعمال ہوا ہے)، تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اگرچہ لغت اور اصولِ عربیت کے لحاظ سےصحیح اور فصیح لفظ ’’ربیع الآخر‘‘ اور ’’جمادی الآخرۃ‘‘ ہے، تاہم ’’تفسیر روح البیان‘‘ میں علامہ ابن الکمالؒ سے ایک قول منقول ہے کہ ’’ جمادی الأخرٰی‘‘ کہنا بھی صحیح ہے۔ اسی طرح علامہ زکریا انصاریؒ (المتوفی: ۹۲۶ھ) نے ’’ربیع الثاني‘‘ کے بارے میں ایک قول جواز کا نقل کیا ہے، اس لیے بہت ممکن ہے کہ جن حضرات کی عبارات میں ان دو مہینوں کے لیے ’’ جمادی الأخرٰی‘‘ اور ’’ربیع الثاني‘‘ وغیرہ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، ان کے پیشِ نظر علامہ ابن الکمالؒ اور علامہ زکریا انصاریؒ کا قولِ مذکور ہو۔
نیز چونکہ یہ فرق اصطلاحی اور فنی اعتبار سے ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا، اور اس پر کسی فقہی حکم کامدار بھی نہیں ہے ؛ اس لیے بظاہر ان حضرات نے عرف اور تعامل کی بنیاد پر ’’ربیع الثاني‘‘ یا ’’جمادی الاُخرٰی‘‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ۔۔۔۔۔واللہ أعلم بالصواب
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین