بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گیس کی قلت کی صورت میں گیس کمپریسر لگانے کا حکم 

گیس کی قلت کی صورت میں گیس کمپریسر لگانے کا حکم 


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارہ میں کہ:
آج کل ہمارے علاقے میں ہمارے علم کے مطابق تقریباً ہر گھر میں گیس کمپریسر موجود ہے اور ہر شخص اس قابل نہیں کہ وہ سیلنڈر کا استعمال بھی کر سکے، کیوں کہ آج کل سیلنڈر گیس ۲۰۰ روپے کلو ہے، اس صورت میں گیس کمپریسر گیس کھینچ کر اس کا پریشر بڑھا دیتی ہے۔ کچھ تو اس کا استعمال فقط کھانا پکانے کی حد تک کرتے ہیں اور کچھ اس کو عام استعمال کرتے ہیں، یعنی ہیٹر، گیزر وغیرہ سب اس پر سارا دن چلتے ہیں۔ اس کے بارے میں راہنمائی فرمادیں کہ آیا کہ :
یہ کسی صورت میں ’’الضرورات تسبیح المحظورات‘‘ کے تحت جائز ہوسکتی ہے؟ 
 اگر جائز ہو گی تو اس کی دلیل اور جواز کی حد کیا ہوگی؟ یا یہ کسی صورت جائز نہیں ہے؟ 
اگر جواز کی کوئی صورت نہیں ہے تو اس کا استعمال کرنے والے حرام کے مرتکب ہیں یا حرام سے نچلے درجے پر گناہگار ہیں؟ 
براہِ کرم شرعی راہنمائی عطا فرمائیں۔

مستفتی: عبدالصمد

الجواب حامداً ومصلياً

صورتِ مسئولہ میں زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھر میں غیر قانونی طور پر گیس کمپریسر لگانا شرعاً جائز نہیں ہے، اس لیے کہ جب گیس کی قلت ہے تو باوجود قلت کے کمپریسر کے ذریعہ کھینچ کر دوسروں کے لیے مزید قلت پیدا کرنا دیگر صارفین کی حق تلفی ہے، نیز یہ کہ گیس کمپریسر کا استعمال قانوناً بھی جرم ہے، اس لیے اس کے استعمال سے اجتناب لازم ہے۔ 
اور یہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ کے تحت جائز نہیں ہوسکتا، کیوں کہ فقہاء نے ضرورت کے تحت منظور کے ارتکاب کی وہاں اجازت دی ہے جہاں واقعی ضرورت ہو اور اس ضرورت کو پورا کرنے میں دوسرے کو نقصان نہ پہنچایا جائے، جیسا کہ حالتِ مخمصہ میں مردار کا کھانا، اِکراہ کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا وغیرہ، جبکہ مذکورہ مسئلہ میں اولاً تو ضرورت کا تحقق ہی نہیں ہورہا اور پھر اس میں ایک فرد اپنی سہولت کے حصول کے لیے دیگر صارفین کو تکلیف دے رہا ہے۔ 
مزید یہ کہ فقہاء نے جہاں ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ کا قاعدہ ذکر کیا ہے، وہیں ’’الضرر لایزال بالضرر‘‘ کا قاعدہ بھی ذکر کیا ہے، یعنی لاحق ہونے والے ضرر کا ازالہ کسی اور کی ضرر رسانی کے ذریعہ جائز نہیں ہے، مثلاً ایک آدمی مضطر ہے، بھوکا ہے اور اس کے ساتھ ایک اور مضطر ہے جس کے پاس کھانا ہے تو پہلے والے مضطر کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ دوسرے مضطر کا کھانا کھائے۔
اور پھر اس میں قانون کی خلاف ورزی کا گناہ بھی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ہی ضروری ہے، اور اس کا ارتکاب کرنے والا حرام کاارتکاب کرنے والا ہو گا۔ سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’ عن أبي صرمۃ، عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: من ضار أضر اللہ بہ، و من شاق شق اللہ عليہ۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ، ج:۲، ص:۷۸۵، کتاب الأحکام، باب من بنی في حقہ ما يضر بجارہٖ، ط: دار إحياء الکتب العربيۃ)
’’فیض القدیر‘‘ میں ہے:
’’(لا ضرر) أي لا يضر الرجل أخاہ فينقصہ شيئاً من حقہ (ولا ضرار) ... وفيہ تحریم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النکرۃ في سياق النفي تعم۔‘‘ (فيض القدير للمناوي، ج:۶، ص:۴۳۱) حرف ’’لا‘‘ برقم: ۱۳۴۷۴، ط: المکتبۃ التجاريۃ الکبری، مصر)
اور ’’الأشباہ والنظائر لابن نجيم‘‘ میں ہے:
’’الضرورات تبيح المحظورات ومن ثم جاز أکل الميتۃ عند المخمصۃ، وإساغۃ اللقمۃ بالخمر، والتلفظ بکلمۃ الکفر للإکراہ وکذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع من الدين بغير إذنہ ودفع الصائل، ولو أدی إلی قتلہ ۔
وزاد الشافعيۃ علی ہٰذہ القاعدۃ بشرط عدم نقصانہا ۔۔۔ ولکن ذکر أصحابنا رحمہم اللہ ما يفيدہ؛ فإنہم قالوا: لو أکرہ علی قتل غيرہ بقتل لا يرخص لہ، فإن قتلہ أثم ؛ لأن مفسدۃ قتل نفسہ أخف من مفسدۃ قتل غيرہ
۔‘‘     (الأشباہ والنظائر لابن نجيم، ص: ۸۵، ط: دار الکتب العلميۃ، بيروت، لبنان)
وفيہ أيضا:
’’الضرر لا يزال بالضرر ۔۔۔ وکتبنا في شرح الکنز في مسائل شتی ۔۔۔ ولا يأکل المضطر طعام مضطر آخر ولا شيئا من بدنہ ۔‘‘
(الأشباہ والنظائر لابن نجيم، ص: ۸۶، ط: دار الکتب العلميۃ، بيروت، لبنان)

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعید الرحمٰن

محمد انعام الحق

خلیل اللہ

الجواب صحیح

 

تخصصِ فقہ اسلامی

محمد عبدالقادر

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

  

 

 

۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین