بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گھریلوتشدد(روک تھام ا ورتحفظ) کا بل (پہلی قسط)

گھریلوتشدد(روک تھام ا ورتحفظ) کا بل

Domestic violence (prevention and protection)  Bill,2021

(پہلی قسط)


گھریلو تشدد کا انسداد اور اس سے تحفظ کس قدرمسحورکن، خوشنما اور پرکشش عنوان ہے! اگر نگاہ صرف عنوان تک محدود رہے تو ذہن میں حکمرانوں کی ایسی تصویر اُبھرتی ہے جو اپنی عظمت میں اَفلاک کو چھوتی نظر آتی ہے۔ بھلا کون سنگدل ہوگا جو صنفِ نازک پر تشدد کو روا رکھتا ہوگا!؟ آبگینے توڑنے، پھول مسلنے اور کچلنے کے لیے تھوڑے ہوتے ہیں۔ بقول شخصے: اللہ تعالیٰ نے اتنی نفاست کے ساتھ یہ نازک مخلوق اس لیے نہیں پیدا کی ہے کہ انہیں ظلم وتشدد کانشانہ بنایا جائے۔
 مگر یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے، بنانے والے نے اُسے ’’متاع الغرور‘‘ کہا ہے، یہاں ضروری نہیں ہے کہ جوشے جیسی دِکھائی دے رہی ہے یا دِکھائی جارہی ہے، حقیقت میں بھی ویسی ہو۔ بسااوقات حقیقت کہانیوں سے مختلف نکلتی ہے۔ خوبصورت چہرےکے پیچھے بھیانک باطن چھپا ہوا ہوتا ہے۔ نرم ونازک اور لطیف نظرآنے والا پھول بجائے خوشبو کے بدبو دیتا ہے۔ بقول مومن:

ظاہر بہت حسیں ہے باطن گھناؤنا
پچھتائیے گا آپ مجھے مت خریدیئے

اور بقول شوکت تھانوی:

دھوکا تھا نگاہوں کا مگر خوب تھا دھوکہ
مجھ کو تری نگاہوں میں محبت نظر آئی

اس بل کے نام میں شروع کا جو حصہ ہے،گھریلو تشدد (Domestic violence) وہ وہی ہے جو مغرب میں اس مقصد کے لیے رائج ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں ہماری تہذیب وثقافت کا آئینہ دار کوئی نام بھی نہیں سوجھا۔ علامہ اقبال ؒ کےشعرمیں کسی قدر تغیر کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ:
 

ہوئے کس درجہ ارکانِ پارلیمنٹ بے توفیق

نام کے آخری حصے کے الفاظ ’’روک تھام اورتحفظ‘‘ ( Prevention and protection) ایسے الفاظ ہیں جو عورتوں کے لیے باعثِ کشش ہیں۔ عورت کی طبیعت میں واقعیت کی جگہ جذباتیت اور گہرائی کی جگہ سطحیت ہوتی ہے، اس میں مردوں کے مقابلے میں اثرپذیری کی صفت زیادہ ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ حسین لفظوں، خوشنمانعروں اوردلکش وعدوں سے بہت جلد متاثرہوجاتی ہے۔ شاطروں نے ہمیشہ عورت کی اس انفعالی صفت سے فائدہ اُٹھایا ہے،یہ بل بھی اسی سلسلے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ 
خلیفہ راشد حضرت علی  رضی اللہ عنہ  -جن کے سامنے فصحاء کی فصاحت ،بلغاء کی بلاغت اورحکماء کی حکمت مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے-انہوں نے ایک بلیغ جملے کےذریعے اس جیسی مساعی کی خوب قلعی کھولی ہے: ’’کلمۃ حق أرید بہا الباطل‘‘ یعنی بات تو سچی ہے، مگر اس سے مقصد برا لیا گیا ہے۔
آج کی دنیا الفاظ کے جادوسے کام لیتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو مسحور کرکے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو معطل کرنا چاہتی ہے۔ آزادی، مساوات، حقوقِ نسواں، آزادیِ نسواں اور عورتوں کے حقوق کے جیسی اصطلاحات کے پیچھے یہی فلسفہ کار فرما ہے۔ دراصل حقوق کے نام پر ان کی نسوانیت کا خون کیا جائے گا، جیسا مغرب میں ہوا ہے۔ پہلے انہیں خاندانی حصار سے نکالاجائے گا اور پھر شکار کرلیا جائے گا۔ نقصان صرف ان کی صنفی صفات کا نہیں ہوگا، بلکہ دین و مذہب بھی انہیں قربان کرنا ہوگا، کیونکہ مغرب کی آزادی کی تحریک صرف چادر اورچادردیواری سے نکلنے کی نہیں ہے، بلکہ پورے دین سے آزادی کی تحریک ہے۔ یہ بل خالص مغربی ہے، جسے من وعن یہاں نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بل کے بنیادی مفروضوں کی نشاندہی کے لیے ہمیں غواصی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ سطح پر چلتے ہوئے بھی ہم اسے تلاش کرسکتے ہیں۔ بل کے اختتامیہ میں ہے کہ اس کی بنیاد ’’CEDAW‘‘ پر ہے جو ’’Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women‘‘  کا مخفف ہے، جس کا مطلب ’’خواتین کے خلاف تمام اشکال کے امتیازات کے خاتمے پر اجلاس‘‘ ہے۔
’’ CEDAW ‘‘ کی بنیاد‘ حقوقِ نسواں کی تحریک پر ہے اور حقوقِ نسواں کی بنیاد جاہلی تہذیب ہے۔ آگے جب اس بل کے اَساسی مفروضوں اور فکری بنیادوں پر گفتگو ہوگی تو ’’ CEDAW ‘‘ کے مندرجات بھی زیرِبحث آ ئیں گے۔
یہ بل ابھی مسودہ کی شکل میں ہے۔ پہلے یہ قومی اسمبلی سے منظور ہوا اوروہاں سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ میں پیش ہوا، سینیٹ نے اس میں کچھ ترامیم تجویز کیں، جس کے بعد یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی لوٹ آیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی سینیٹ کی ترامیم پراتفاق کرلیتی ہے تو یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلے گا اور دارالحکومت اور اس کی حدود میں نافذ ہوجائے گا۔ 
اگرچہ یہ بل ابھی منظوری کے مرحلے میں ہے، مگراسے روکنے کی بساط بھر کوشش ابھی ہی کرنی چاہیے، کیونکہ وطنِ عزیز کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بل خواہ کتنا ہی شریعت یاہماری روایات اور اقدار کے خلاف کیوں نہ ہو، مگرجب وہ قانون بن جاتا ہے سوبن جاتا ہے، پھر اس میں ترمیم یا اس کی تنسیخ بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کی واضح مثال ساٹھ کی دہائی میں منظورہونے والا ’’مسلم فیملی لاز آرڈیننس‘‘ ہے۔ اس آرڈیننس کی کئی دفعات قرآن وسنت کی صریح نصوص سے متصادم ہیں، جس وقت یہ آرڈیننس نافذ ہوا، اس وقت لبرل اور سیکولر حلقوں نےتو اس پر خوشی کے شادیانے بجائے اور اپوا ’’APWA‘‘ جیسی تنظیموں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، مگر دردمند اور خردمند پاکستانی مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ خیبر سے کراچی اورجہلم سے گوادر تک مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ اس قانون کے خلاف نعرے بھی لگے، جلسے بھی ہوئے، جلوس بھی نکالے گئے، دین دار اہلِ قلم نے اخبارات میں کالم اوررسائل وجرائد میں مضامین سپردِ قلم کیے۔ اس وقت کے مشاہیر اہلِ علم میں سے بلاامتیازِ مسلک شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس نے اس قانون کی تردید میں کچھ لکھا نہ ہو، مگر اس احتجاج، مضامین اور کتابوں کا حکمراں طبقے پر نہ کچھ اثر ہونا تھا اور نہ ہی ہوا، کیونکہ انہیں خوشنودی کسی اور کی عزیز تھی اور تحفظ کسی اور کے مفادات کا مقصود تھا۔
۱۹۶۱ ءکے بعد آج ساٹھ برس پورے ہونے کو ہیں، مگر وہ قانون اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود آج بھی نافذ ہے۔بیرونِ ملک پاکستان کی شناخت اسی سے ہے،لاء کالجوں میں وہی پڑھایا جارہا ہے، وکلاء اسی کے تحت کیس دائر کرتے ہیں، جج اسی کی بنیاد پر مقدمات کو نمٹاتے ہیں اور انتظامیہ اسی قانون کی بنا پر کیے گئے فیصلوں کو نافذکرتی ہے۔
تاریخ کے جھروکے میں اس پہلو سے جھانکنے کے بعد یہ سبق ملتا ہے کہ یہاں قانون کے نفاذ کے بعد سوائے احتجاج اورتنقید کے کوئی اورراستہ نہیں بچتا ہے، لیکن اس راستے سے اگر کوئی قانون ختم یا تبدیل ہوتاتو عائلی قوانین کی غیر شرعی شقوں کو بہت پہلے منسوخ یا تبدیل ہوجانا چاہیے تھا۔
تاریخ کو اس رخ سےنمایاں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قانون بننے سے پہلے ہی علمی اورعوامی سطح پر اس کا خلافِ شرع ہونا ظاہر کیا جائے، ملک وملت کےلیے اس کے ضرررساں پہلوؤں کو نمایاں کیا جائے اور سب سے بڑھ کرسیاسی سطح پر اس کے خلاف مؤثراحتجاج کیا جائے، کیونکہ خلافِ شریعت قوانین کےخلاف جائز ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے احتجاج کرنا ہمارا دینی، آئینی اور سیاسی حق ہے، بلکہ حق کے ساتھ یہ ہمارا فریضہ بھی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اسی کے مکلف ہیں اورمنکر کے ازالے کے لیے یہی ہمارے مقدور میں ہے، ورنہ ہماری خاموشی پشت پناہی گردانی جائے گی۔
 علمی اورعوامی سطح کا یہ احتجاج اپنے اندربے پناہ فوائد رکھتا ہے۔ عائلی قوانین کے خلاف اکابر کی تحریروں اورتقریروں میں آج ہمارے لیے فکر وبصیرت کا بڑا سامان ہے۔ ان کےطرزِ عمل سے آج ہمیں رہنمائی ملی اور ہمارا طرزِعمل اگلوں تک منتقل ہوگا۔ یہ قانون اگر پارلیمنٹ سے اسی شکل میں منظور ہوجائے، پھر بھی اس کے خلاف زبان کو بولنا، قلم کو لکھنا اوربدن کو حرکت میں رہنا چاہیے۔اس طرح ان خلافِ شرع قوانین کا راستہ رک جائے گا یا کم ازکم دشوار ضرور ہوجائے گا، جو ابھی منصوبے میں ہیں اور نفاذ کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں ہیں ۔زیادہ پریشان کن یہ اندیشہ ہے کہ سلسلہ یہاں تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ قوانین کا ایک طولانی سلسلہ ہے جو یکے بعد دیگرے خاموشی سے نافذ کردئیے جائیں گے۔ عائلی قوانین کے خلاف مزاحمت کا ثمرہ تھا کہ قانون ساز اس حد تک نہ جاسکے جس حدتک دیگر اسلامی ممالک گئے تھے اور ایک طویل عرصہ تک وہ پھر مسلم شخصی قوانین میں مزید قطع وبرید سے باز رہے۔

(جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین