بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل (چھٹی قسط)

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل

Domestic violence (prevention and protection) Bill,2021

 (چھٹی قسط)


’’۱۱: عبوری تحفظ اور رہائشی احکامات کی مدت اور ترمیم: ’’(۱) دفعہ:۷ کے تحت عبوری حکم دفعہ:۸ کے تحت حکم تحفظ اور دفعہ:۱۰ کے تحت حکم تحویل لاگو رہیں، تاوقتیکہ متضرر شخص مذکورہ حکم کو منسوخ کرنے کے لیے درخواست نہ دے دے۔
(۲) اگر عدالت متضرر شخص یا مسئول الیہ سے درخواست کی وصولی پر کسی بھی مرحلے میں یہ اطمینان رکھتی ہے کہ حالات میں تبدیلی ہوچکی ہے جو تبدیلی ترمیم یا باز طلبی جو اس ایکٹ کے تحت وضع کردہ کسی بھی حکم کے متقاضی ہیں تو وہ وجوہات کو تحریراً قلمبند کرتے ہوئے ایسا حکم جاری کرسکتی ہے جسے وہ موزوں خیال کرے۔
(۳) حکمِ رہائش نافذ رہے گا جب تک کہ عدالت کی جانب سے تبدیل نہ کردیا جائے۔
(۴) ذیلی دفعات (۱) اور (۲) میں شامل کوئی بھی شئے متضرر شخص کو سابقہ حکم کے منسوخ ہونے کے بعد تازہ درخواست وضع کرنے سے مانع نہ ہوگا۔‘‘
عبوری حکم اور حکمِ تحفظ بہت زیادہ اور سخت احکامات پر مشتمل ہیں۔ یہ دونوں اس وقت تک لاگو رہیں گے جب تک متضرر اس کی منسوخی کی درخواست نہ دے دے۔ اس کا مطلب ہے کہ مدعا علیہ، مدعی کے رحم وکرم پر ہوگا۔ مدعی محض مدعی نہیں ہوتا، بلکہ مقدمے کا فریق ہونے کی حیثیت سے اس میں اورمدعا علیہ میں باقاعدہ جنگ کی کیفیت ہوتی ہے اور ہر فریق دوسرے فریق کو ممکنہ حد تک نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ فریقین میں باقاعدہ مقدمہ بازی شروع ہوچکی ہو، ایک فریق کی سزا کا خاتمہ دوسرے فریق کی خواہش پر رکھنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس موقع پر یہ معقول سوال بھی اُٹھتا ہے کہ اگر سزا کا خاتمہ مدعی کی چاہت پرہے تو پھر سارانظام انصاف کس لیے ہے؟
’’۱۲: مسئول الیہ کی جانب سے عبوری یا حکمِ تحفظ کی خلاف ورزی پر تعزیر:     (۱)مسئول الیہ کی جانب سے حکمِ تحفظ یا عبوری حکم یا حکمِ رہائش یا حکمِ تحویل کی خلاف ورزی ایک جرم ہوگی جو ایک سال تک سزائے قید اور مع ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا مستوجب ہوگا جو کہ متضرر شخص کو ادا کیا جائے گا۔
(۲) مجموعہ قانون میں شامل کسی امر باوصف اس دفعہ کے تحت جرم قابلِ دست اندازی، قابلِ ضمانت اور قابلِ راضی نامہ ہوگا۔‘‘
۱:     ذیلی شق (۱) کی سزا اس سزا کےعلاوہ ہےجو عدالت قطعی حکم صادر کرتے ہوئے مدعا علیہ کو دے گی۔
۲:    گھریلو تشدد کا بل قابلِ دست اندازیِ پولیس ہے۔ اس سے ریاست کو خانگی معاملات میں غیر معمولی حد تک مداخلت کا موقع ملے گا، جس سے چادر اورچاردیواری کا تقدس پامال ہوگا۔
۳:    خاندانی نظام کی بنیاد ہمدردی، خیرخواہی، ایثار، انفاق، صلح اور عفوودرگزر کی بنیادوں پر قائم ہے، اس لیے گھریلو تنازعات کو درونِ خانہ ہی حل کرنے کی تاکید ہے۔ گھر سے باہر نجی معاملات لے جانا نہ تو معاشرہ پسند کرتا ہے اور نہ ہی اس سے خیر کی کوئی سبیل برآمد ہوتی ہے۔
۴:    اگر چہ اس بل میں جرم کو قابلِ راضی نامہ بھی قرار دیا گیا ہے، مگر عملاً یہ بل مصالحت کا دروازہ بند اورعداوت کا راستہ کھولتا ہے، بلکہ قانونی چارہ جوئی کے نام پر افراد کو ایک دوسرے کے خلاف اُکساتا ہے۔
’’۱۶: کمیٹی تحفظ کے فرائض اور کارہائے منصبی: کمیٹی تحفظ:
(الف) متضرر شخص کو اس ایکٹ کے تحت اس کا /کی حقوق سے فی الوقت نافذالعمل کسی بھی دیگر قانون اور مداوا اور مدد جو فراہم کی جاسکتی ہے سے مطلع کرے گی ۔
(ب) گھریلو تشددکی وجہ سے ضروری طبی علاج کے حصول میں متضرر شخص کی معاونت کرنا ۔
(ج) اگر ضروری ہو تو متضرر شخص کی رضامندی سے، محفوظ مقام کی تلاش میں جو کہ متضرر شخص کو قابلِ قبو ل ہو میں متضرر شخص کی معاونت کرنا، جس میں کسی بھی رشتہ دار کا گھریا خاندانی دوست یا دوسری محفوظ جگہ‘ شامل ہوسکتی ہے۔‘‘
۱: اسلامی خاندانی احکام کے مطابق خاندان کا کوئی فرد کہاں رہائش رکھ سکتا ہے؟ اس کے بارے میں احکام موجود ہیں، جیساکہ سیکشن ۱۰ کے تحت گزرچکا ہے۔ ان احکام میں یہ تفصیل بھی موجودہے کہ اگر کسی جگہ کی رہائش یا ایک شخص کے ماتحت رہائش مناسب نہ ہو تو اس کا متبادل کون سی رہائش اورکس کے ماتحت رہائش ہوگی، اس لیے تحفظ کمیٹی اگر ان شرعی احکام سے عدول کرتے ہوئے کہیں اورمتضرر کو سکونت فراہم کرتی ہے تو شریعت کے خلاف کرتی ہے۔
۲: علاوہ ازیں، دفعہ ہذا کے مطابق متضرر کسی بھی رشتہ داریا خاندانی دوست یا کسی بھی دوسری جگہ رہائش اختیار کرسکتا ہے، حالانکہ رشتہ دار غیر محرم بھی ہوسکتا ہے، جب کہ کوئی خاتون کسی غیرمحرم کے ساتھ رہائش اختیار نہیں کرسکتی ہے۔ اگر متضرر لڑکا ہوتو اس کی سکونت کا مقام اورافراد بھی شریعت نے طے کردئیے ہیں۔
مزید یہ کہ جن افراد کے ساتھ متضرر رہائش اختیارکرے گا، ان کامتضرر کے ساتھ رشتہ کیا ہونا چاہیے؟ وہ کس کردار کے حامل اور کن صفات سے متصف ہوں گے؟ اس کی وضاحت بھی قانون میں درج نہیں ہے، حالانکہ شریعت نے ان کے متضرر کے ساتھ رشتے اورکردار اورافعال کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے اور ان کے اوصاف متعین کردئیے ہیں۔
۳: اس دفعہ کی ایک سنگین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی لڑکی بہک کر کسی دھوکے باز اور بدقماش کے دامِ تزویر میں آجائے، جس سے اس کی عفت وعصمت اورخاندان کے وقار اورعزت کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں، ان خطرات کے پیش نظر اور لڑکی کے مفاد میں خاندان کے ارکان اسے منع کریں اورلڑکی اسے اپنی خلوت اورآزادی میں رخنہ سمجھ کرقانونِ ہذا کے تحت داد رسی طلب کرے اور اسی بدقماش کے ساتھ رہائش پر اصرارکرے تواس کے بعد اخبارات کو یہ شہ سرخی جمانے کا موقع ملے گا کہ ’’غیر ت کے نام پر لڑکی اوراس کے دوست کا بہیمانہ قتل۔‘‘
’’(د) اس ایکٹ مجموعہ قانون یافی الوقت نافذالعمل کسی بھی دیگر قانون کے تحت پٹیشن یارپورٹ کی تیاری اور دائر کرنے کے لیے، افسر تحفظ کے ذریعے متضرر شخص کی معاونت کرنا۔ 
(ہ) اپنے حدود ِاختیار کے علاقے میں گھر یلو تشدد کے واقعات کا سرکاری ریکارڈرکھنا ۔ 
(و) سروس فراہم کنند ہ کا نام اور رابطہ کی تفصیلات کو برقرار رکھنا، جس سے متضرر شخص مزیدمدد اور معاونت جس میں کہ پناہ گا ہ شامل ہے‘ حاصل کرسکتا ہے ۔ 
(ز) ایسے دیگر فرائض کی ادائیگی کرنا جو کمیٹی تحفظ اس ایکٹ یا اس کے تحت وضع کردہ قواعد میں تفویض کرسکتی ہے ۔‘‘
کسی دیگر قانون کے تحت متضرر کو معاونت فراہم کرنے میں حرج نہیں ہے، بشرطیکہ متضرر شریعت کی نظر میں بھی متضررہواور اس قانون کے تحت داد رسی حاصل کرنا جائز ہو، مگر اس بل کی دفعات یا تو خلافِ شریعت ہیں یا مبہم ہیں، اس لیے ’’وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘ کے تحت کمیٹی تحفظ کا متضرر کو خدمات پیش کرنا جائز نہ ہوگا۔
’’۲۲:نیک نیتی سے کیے گئے افعال کا تحفظ:    اس ایکٹ کے اغراض کے تحت اور نیک نیتی سے کیے گئے عوامل پر کسی بھی حفاظتی کمیٹی، حفاظتی افسر یا خدمت فراہم کرنے والوں کے خلاف کوئی بھی مقدمہ، استغاثہ یا دیگر قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔‘‘
۱:یہ بل مجموعی لحاظ سے خلافِ شریعت اورآئین ہے اور اس کے اغراض اورمقاصد بھی خلافِ شریعت ہیں تواس کے اغراض کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کیسے جائز ہوسکتے ہیں اور نیت کی خوبی سے ان کا جواز کیسے مہیا ہوسکتا ہے؟
۲:نیت کے حسن سے گناہ کے پہلو سے بچت ہوسکتی ہے، لیکن حقوق العباد تلف ہوئے ہوں تو نیک نیتی قابلِ قبول عذر نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر اگر کوئی شخص فوجداری مسئولیت سے بری ٹھہرتا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اس پر دیوانی مسئولیت بھی عائد نہ ہو۔

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین