بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل (پانچویں قسط)

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل

Domestic violence (prevention and protection)  Bill,2021
  (پانچویں قسط)


’’(و)کسی پُرتشدد فعل کی صورت میں اگر متضرر شخص کی زندگی، حرمت یا شہرت خطرے میں ہو تو گھر سے باہر چلا جائے۔‘‘
۱:-    مطلب یہ کہ ماں اولاد کی وجہ سے ،شوہر بیوی کی وجہ سے ،ساس بہو کی وجہ سے، بہن بہن کی وجہ سے، یہاں تک کہ ماموں کے چچا کے نواسے کی وجہ سے بھی سربراہِ خانہ کو گھر سے نکلنا پڑسکتا ہے۔
۲:-     جو مالک ہے وہ گھر سے نکل جائے اورجو مالک نہیں ہے وہ گھر میں ٹھہرا رہے۔
۳:-     ایک گھرانے میں سربراہِ خانہ اپنی محرم خواتین کے ساتھ رہائش پذیر ہے،ہمدردی کی بنیاد پر ایک دور کے رشتہ دار کو ساتھ ٹھہرالیتا ہے، پھر سربراہِ خانہ اس دورکے عزیز کے خلاف تشدد کا مرتکب ہوجاتا ہے، اب اگر سربراہ کو نکال دیا جائے جو گھرانے کا اکیلا کفیل اورمحافظ ہے تو کس قدر ناپسندیدہ صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ اغلب یہی ہے کہ سربراہ اس متضرر کے خلاف قانون ہاتھ میں لے لے گا۔ 
۴:-    اگرخاتون نے خاتون پر تشدد کیا ہو تو ایک خاتون گھر میں محفوظ اور دوسری باہر نکلنے سے غیر محفوظ ہوجائے گی۔ اگرخاتون نے مرد کے خلاف شکایت کی ہوتو اس کی توزندگی ہی غیر محفوظ ہوجائے گی۔
۵:-    حرمت اورشہرت کا اسلامی مفہوم مراد ہونا چاہیے۔ آج کل مادیت کے غلبے اور اسلامی اقدار وروایات سے ناواقفیت کی بنا پر ان کا مفہوم کچھ اورقرار دیا جاتا ہے۔ 
’’(۲) ذیلی دفعہ (۱) کے تحت حکم میں مزید برآں ، یا بصورتِ دیگر عدالت اطمینان پر کہ گھریلو تشدد ہوا ہے تو کوئی حکم صادر کرسکے گی:
(الف) مسئول الیہ کو متضرر شخص کے گھر سے بے دخلی پر یا کسی بھی دیگر طریقہ کار میں قبضہ دینے میں پر یشان کرنے سے روکنے کے بابت :‘‘

شرعاً اگر مسئول الیہ لے پالک کو ،یا
 رضاعی اولاد کو ،یا 
سوتیلی اولاد کو ،یا
معتدہ کو جس کی عدت بھی گزرچکی ہو،یا
کسی بھی ایسے شخص کو جس کو اس گھر میں حقِ سکونت نہ ہو،بے دخل کرتا ہے تو اس کا مجاز ہے۔
۲:-اگرتنازع گھر کے قبضے کے متعلق ہو اوراسی میں گھریلو تشدد ہوا ہو اور متضرر جائیداد کاجائز مالک نہ ہوتو وہ اس بل کی رو سے گھرکا قبضہ حاصل کرلے گا اورپھر دیگر قوانین کی رو سے اس سے ناجائز قبضہ بھی بذریعہ قانون چھڑا ناہوگا۔ 
’’(ب) مسئول الیہ یا اس کے رشتہ داروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے کی بابت :‘‘
۱:-سبحان اللہ!اس دفعہ کی رو سے مدعا علیہ کے تمام خاندان کو اس گھر میں داخلے کی ممانعت ہوگی۔ اس سے جو شرعی محظورات لازم آتے ہیں ،ان کا بیان ماقبل میں ہوچکا ہے۔
۲:-مجوزہ قانون ہر اس راستے کو بند کرنا چاہتا ہے جس سے مصالحت کی راہ نکل سکتی ہو۔
۳:-اگر وہ رشتہ دارایسے ہوں جو اسی گھر میں رہائش رکھتے ہوں اور تشدد کے مرتکب یا معاون نہ ہوں تو ان کا داخلہ بھی ممنوع ہوگا،اس سے لازم آئے گا کہ مسئول الیہ کے تمام اہلِ خانہ کو بےدخل ہونا ہوگا۔
(۳) عدالت کوئی بھی دیگر ہدایت دے سکے گی جو کہ وہ متضرر شخص یا مذکورہ متضرر شخص کے کسی بچے کو محفوظ کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے مناسب سمجھے۔
دفعہ ۲  جوتعریفات پر مشتمل ہے، اس کی ذیلی شق ۲ میں ’’بچے‘‘ کی تعریف میں قراردیاگیا ہے کہ جو اٹھارہ سال سے کم ہو اور مسئول الیہ کے ساتھ اس کا گھریلو تعلق ہو، خواہ وہ بچہ سگا ہو یا رضاعی ہو یا لے پالک ہو۔ اگر اس دفعہ میں بچے سے وہی بچہ مراد ہے جو تعریف میں قراردیا گیا ہے تواس کا مسئول الیہ کے ساتھ گھریلو تعلق ہونا ضروری نہیں ہے اوریہ بھی یقینی نہیں ہے کہ اس کا مسئول الیہ کے ساتھ نسب، رضاعت یا تبنیت کا رشتہ ہو۔
اگر متضرر کا بچہ مراد ہے، جیسا کہ سیاق سے واضح ہوتاہے تو دیکھا جائے گا کہ اس کی حفاظت وکفالت اس بل کے تحت مقدمہ درج ہونے سے پہلےمسئول الیہ پر لازم ہے یا نہیں؟ اگر مسئول الیہ پر پہلے سے یہ فریضہ عائد نہ ہوتا ہو تو متضررشخص کی اولاد کی حفاظت وکفالت کی ذمہ داری براہِ راست متضرر پر ہوگی اور اس کا بار مسئول الیہ پر نہیں ڈالا جاسکے گا۔
’’(۹) عدالت، تمام مقدمات میں جہاں وہ اس دفعہ کے تحت حکم صادر کرے تو حکم دے گی کہ مذکورہ حکم کی ایک نقل،درخواست کے فریقین کو، پولیس اسٹیشن کے افسر انچارج کو جس اختیار سماعت میں رسائی رکھتی ہو، نیز عدالت کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر واقع سروس فراہم کنندہ کودی جائیں گی۔‘‘
یہ انتظامی نوعیت کی دفعہ ہے ، جس کاتعلق طریق کار اور قانون پرعمل درآمد سے ہے۔اس جیسی انتظامی نوعیت کی دفعات کے متعلق تین امور مدنظر رہنا ضروری ہیں:
۱:- شریعت کسی بھی قانون سے مقدم ہے۔
۲:-جو قانون شریعت کے موافق ہو اس کے لیے طریق کار وضع کرنا اور اس پر عمل کرنا انتظامیہ کے لیے نہ صرف جائز ہے، بلکہ اس کی قانونی اورشرعی ذمہ داری بھی ہے، لیکن خلافِ شریعت قانون کے لیے طریق کاروضع کرنا اور نفاذ میں مدد دینا بھی ناجائز ہے۔
۳:-قرآنی حکم ہے کہ ’’وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘ اس آیت کے تحت گناہ میں معاونت کرنا یا سہولت کار بننا بھی ناجائز ہے، چنانچہ جو فعل ازروئے شریعت جرم نہ ہو اس پر سزا بھی ناجائز اورسزا کے نفاذ میں معاونت بھی ناجائز اور اس کےلیے عمل درآمد کا طریق کار وضع کرنا بھی ناجائز، اس لیے مقننہ کا ایسا بل بنانا، عدالت کا اس کے مطابق کارروائی کرنا اور فیصلہ دینا اور انتظامیہ اور اس بل کے تحت تشکیل دئیے گئے کمیٹیوں یا اداروں کا اس کو نافذ کرنا سب ناجائز ہے۔ الحاصل جس حد تک یہ بل خلافِ شریعت ہے، اس حد تک یہ بل کالعدم ہے اور اس حد تک اس بل کے نفاذ میں تعاون کرنا یا سہولت دینا بھی ناجائز ہے۔
’’۹-مالی امداد:۔     (۱) عدالت، سماعت کے کسی بھی مرحلے پر مسئول الیہ کو ہدایت دیتے ہوئےحکم عارضی دے سکے گی کہ گھریلو تشدد کے نتیجے میں متضرر شخص اور متضرر شخص کے کسی بھی بچے کی جانب سے اُٹھائے گئے اخراجات اور برداشت کردہ نقصانات کو پورا کرنے کے لیے مالی امداد ادا کرےاور مذکورہ امداد میں حسب ذیل شامل ہوگی،
لیکن اس تک محدود نہ ہوگی:
(الف) عدالت کی جانب سے تعین کردہ معاشی استحصال میں مبتلاکرنے کے نتیجے میں معاوضہ دینا؛
(ب)  آمدنی کا نقصان؛
(ج) طبی خرچ؛
(د)متضرر شخص کے کنٹرول میں کسی بھی جائیداد کو تباہ کرکے،نقصان پہنچاکر یاواگزاشت کرواکرنقصان کا باعث بننا؛
(ہ) متضرر شخص نیز اس کے بچوں کا نان نفقہ اگر کوئی ہوں اس میں فی الوقت نافذ العمل قانون کے تحت نان ونفقہ کے حکم کے تحت یا اس سے مزید برآں حکم شامل ہے؛
(۲) ذیلی دفعہ(۱) کے تحت مسئول الیہ متضرر شخص کو حکم میں مصرحہ مدت کے اندر منظور کردہ مالی دادرسی کی ادائیگی کرے گا۔
(۳) ذیلی دفعہ (۲) کے تحت حکم کے مفہوم میں مسئول الیہ کی جانب سے ادائیگی میں ناکامی پر عدالت مسئول الیہ کے آجر یا قرض دار کو یہ ہدایت دے سکتی ہے کہ وہ متضرر شخص کو براہِ راست ادائیگی کرے یا اس کی مزدوری یا تنخواہ یا واجب قرض کا ایک حصہ یا مسئول الیہ کی جمع شدہ رقم سے متضرر شخص کو ادا کیا جائے، جس کی رقم کو مسئول الیہ کی جانب سے قابلِ ادائیگی مالی دادرسی کی جانب سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔‘‘

خلاصہ یہ کہ:
سماعت کے کسی مرحلے پر عدالت مدعا علیہ کو حکم دے سکے گی کہ متضررشخص کو اخراجات، برداشت کیے ہوئے نقصانات، آمدنی کا نقصان، طبی خرچ، متضرر کی کسی جائیداد میں نقصان وغیرہ کی تلافی کرے، یہ سب ایک خاص مدت میں ادا کرنا ہوگا، ورنہ عدالت خود وصول کرے گی، مثلاً مدعا علیہ کے واجب الحصول بقایاجات کسی شخص یا ادارے کے پاس ہوں تو عدالت اس میں سے وضع کرلے گی۔ فرض کیجیے! مدعا علیہ کسی ادارے میں ملازم ہے اور ادارے پر مدعا علیہ کے واجبات ہیں تو عدالت اس ادارے سے وصولی کرے گی یا مدعا علیہ کا بینک اکاؤنٹ ہے اوراس میں رقم ہے، عدالت اس میں کٹوتی کرلے گی اور پھر حتمی فیصلے کے وقت عدالت مدعا علیہ پر جو جرمانہ عائد کرے اس میں سے ان کو منہا کیا جاسکے گا۔
معاشی استحصال کی تعریف کا حاصل یہ تھا کہ مدعا علیہ متضرر کو ان معاشی ذرائع سے محروم کردے یا اس میں رکاوٹ بنے جن کا متضرر کو قانون کی رو سے یارسم ورواج کی رو سے حق ہو۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ:
۱:-    اگر مدعا علیہ شریعت کی رو سے ایسا حق رکھتا ہو تو اسے معاشی استحصال نہیں قراردیا جاسکتا، مثلاً شوہر بیوی کو یا باپ بیٹی کو بیرونِ خانہ ملازمت سے روکنے کامجاز ہے۔
۲:-    شوہر بیوی کو اندرونِ خانہ بھی ایسی صنعت وحرفت سے روک سکتا ہے، جس سے اس کے حقوق متاثر ہوتے ہوں یا ذمہ داریوں میں فرق آتا ہو۔
۳:-    ضروری نہیں کہ رسمِ شریعت کے موافق ہو یا رسم کی رو سے لازم شے شریعت کی رو سے بھی لازم ہو، چنانچہ ایسی کئی مثالیں ذکر کی گئی تھیں کہ جن میں متضرر رسم ورواج کی رو سے کوئی معاشی حق رکھتا ہے، مگر شریعت کی رو سے نہیں۔ شریعت کو چونکہ رسم پر بالادستی حاصل ہے، اس لیے قراردیا گیا تھا کہ ایسی رسموں سے محرومی کو معاشی استحصال قرار نہیں دیا جاسکتا۔
۴:-    اگر واقع میں مدعا علیہ متضرر کو کسی جائیداد سے بایں معنی محروم کرتا ہے کہ اس پر قابض ہوجاتا ہے تو اس پر غصب کے احکام لاگوہوتے ہیں، جن کی اپنی تفصیلات ہیں۔
۵:-    یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ مالیا تی ذرائع سےمحروم کرنا یا رسائی میں رکاوٹ بننا دونوں کے مختلف مدارج ہیں۔ ہر درجے کو جرم قراردینا درست نہیں ۔
۶:-    غصب کے احکام کی رو سے اگر مدعا علیہ نے کوئی مال غصب کیا ہے تو واجب الرد ہوگا، اگر مال ہلاک ہوگیا ہو تو اس کا مثل لوٹائے گا اوراگر مثل نہ ہوتوتاوان دے گا، مگر آمدنی کا نقصان خواہ مال غصب کرکے ہو یا ذریعہ معاش سے روکنے کی صورت میں ہو ،دونوں صورتوں میں اس کاضمان واجب نہیں ہے ، چنانچہ مشہور قاعدہ ہے کہ مغصوب کے منافع کا ضمان واجب نہیں ہوتا ہے۔
۷:-    طبی خرچ اگرجسمانی چوٹ لگنے کی صورت میں نہ ہوا ہو، بلکہ متضرر کا دعویٰ ہو کہ اسے نفسیاتی اذیت دی گئی ہے تو اول تو ہر اذیت نفسیاتی اذیت نہیں، پھر اس کی وجوہات صرف مدعا علیہ کارویہ نہیں، بلکہ بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں۔ 
۸:-    اگرمدعا علیہ نے حکم عارضی کے تحت ادائیگیاں کرلیں یا اس سے بزوروجبر وصول کرلی گئیں اور پھر قطعی فیصلہ مدعا علیہ کے حق میں آیا تو مدعا علیہ کو اس کاحق لوٹانے کی کیا سبیل ہوگی؟ قانون اس سے خاموش ہے۔ مزید یہ کہ مدعا علیہ سے عبوری طورپر جو اخراجات وصول کیے جائیں گے، ان کے متعلق بل قرار دیتا ہے کہ ان کو مدعا علیہ پر عائد ہونے والے جرمانے سے منہا کیا جاسکے گا۔ گویا مجریائی کا حکم بھی عدالت کا صواب دیدی حکم ہے، وہ چاہے تو مجرائی کا حکم نہ دے۔ اگر عدالت بہرصورت پابند ہوتی تو پھر عبارت (ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے) کے بجائے حکمیہ انداز میں (ہم آہنگ کیا جائے گا) ہونا چاہیے تھی۔
’’۱۰ -تحویلی احکامات:     باوصف اس کے کوئی بھی چیز اس وقت نافذ العمل کسی بھی قانون سے اخذ کی گئی ہو تو عدالت حفاظتی حکم کے لیے درخواست کے کسی بھی مرحلے پر یا اس ایکٹ کے تحت کسی بھی اور دادرسی کے لیے کسی بھی موزوں شخص یا اتھارٹی کو متضرر شخص کی عارضی تحویل دے سکتی ہے۔
مگر شرط یہ ہے کہ اگر متضرر شخص ایک بچہ ہے تب عدالت اسی طرح گارجین و وارڈ ایکٹ 1890ء (نمبر 8 بابت 1890ء) کی بابت ایک مناسب شخص یا سروس فراہم کنندہ کا تعین کرے گی۔
مگر شرط یہ ہے کہ اگر متضرر شخص ایک بالغ شخص ہے تو تحویل سروس فراہم کنندہ یا کسی دیگر شخص سے بھی شخص کو یا سروس فراہم کنندہ کو متضرر شخص کی مرضی کی مطابقت میں دی جائے گی۔‘‘

یہ دفعہ خلافِ شرع ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
۱:-(الف)    اگر متضرر لڑکا ہے اور سات سال سے کم عمر کا ہے تو اس کی پرورش کا حق والدین کو ہے اور اگر والدین میں جدائی ہوچکی ہے تو ماں کو ہے اور ماں نہیں ہے تو ماں کی قریب ترین عزیزہ کو ہے۔ اگر ماں کی رشتہ دار خواتین میں سے کوئی بھی نہیں ہے یا ہے، مگروہ پرورش کی اہلیت نہیں رکھتی ہے تو وراثت کے قاعدے مطابق درجہ بدرجہ عصبہ بنفسہ کوحقِ پرورش ہے اور اگر عصبہ بھی نہیں ہے تو یہ حق ذوی الارحام یعنی ننھیالی رشتہ داروں کو ہے۔
(ب)    اگر لڑکا سات سال سے زائد عمر کا ہے تو ا س کا حقِ پرورش ولی کو ہے۔ بالفرض باپ تشدد کا مرتکب ہوا ہے تو یہ حق دادا، پھر پردادا، پھر بھائیوں، پھر بھتیجوں، پھرچچاؤں، پھر چچازادوں، پھرباپ کے چچاؤں اورپھر دادا کے چچاؤں کو ہے، مگر عدالت کو نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ پرورش اور کفالت پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں بزور وجبر آمادہ کیا جائے گا۔
(ج)    اگر لڑکا بالغ ہے تو اسے حسبِ خواہش رہائش کا حق ہے، لیکن فاسق لڑکے کو یہ حق بھی نہیں ہے۔
۲:-    اگر متضرر نابالغ لڑکی ہے تو اس کا حقِ پرورش بھی ان ہی افراد کو ہے جن کو لڑکے کی پرورش کا حق ہے، جیسا کہ شق الف میں گزرا، البتہ لڑکی کے بارے میں خاص شرط ہے کہ پرورش کنندہ اس  کے لیے غیر محرم نہ ہو۔
۳:-    اگر متضرر لڑکی ہے اورکنواری دوشیز ہ ہے یا طلاق یافتہ ہے، مگر غیر مامونہ ہے تو اسے بھی الگ رہائش کا حق نہیں ہے۔
۴:-    اگر متضرر کسی شخص کی بیوی ہے تو اسے شوہر کی مرضی کے خلاف رہائش اختیارکرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر وہ شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو نافرمان ہو گی اور اس کا نفقہ وغیرہ اخراجات بھی شوہر سے ساقط ہوں گے۔
۵:-    اگر بالغہ لڑکی کا کوئی ولی نہ ہو جس کی تحویل میں اسے دیا جائے تو پھر لڑکی الگ رہائش اختیارکرسکتی ہے، مگر اس کے لیے بھی شرط ہے کہ اس کے متعلق فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ آج کل صرف اندیشے ہی نہیں، بلکہ فتنوں کا سیلاب ہے جو ہر طرف نظر آتا ہے، اس لیے لڑکی کو تنہا رہائش کا بھی حق نہیں، اس لیے ازروئے شرع اسے کسی امانت دار، قابلِ اعتماد اور اس کی حفاظت پر قدرت رکھنے والی عورت کے سپر د کیا جائے گا۔
اس تفصیل سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ کسی شخص کو کس کی تحویل میں دیاجائے، اس کے بارے میں شریعت نے تفصیل سے احکامات دئیے ہیں جن میں جنس کا، عمر کا، رشتے کا، جس کی تحویل میں کسی کو دینا ہو اس کی شخصیت، احوال، کردار اور صفات وغیرہ سب امور شامل ہیں، مگر بل میں ان امور کی قطعاً رعایت نہیں رکھی گئی ہے۔                                                      

(جاری ہے)


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین