بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل (دوسری قسط)


گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل


Domestic violence (prevention and protection) Bill,2021

 (دوسری قسط)


اگریہ بل منظورہوکر ایکٹ کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو پھر دستور کی دفعہ۲۰۳ (د) کے تحت اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت خود یا کسی شہری کی تحریک پر یا وفاقی یا صوبائی حکومت کی درخواست پر اس کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ آیا یہ قانون اسلامی تعلیمات کےمطابق ہے یا اس سے متصادم ہے۔ اس عدالت نے تمام قسم کی لاٹریوں، کورٹ فیس، کوٹہ سسٹم اور سود سے متعلق ۲۲ دفعات کو غیر اسلامی ہونے کی بنا پر کالعدم قراردیا ہے۔
اگرچہ وفاقی شرعی عدالت کسی قانون کو غیرشرعی قراردے کر کالعدم کرسکتی ہے، مگر آئین میں متعین کردہ اس کی اختیارات کی حدود بھی مدِنظر رہنی چاہئیں۔ دستور کی دفعہ۲۰۳ (ب ) میں ہے:
’’(ج) قانون میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو، مگر اس میں دستور، مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون، یا اس باب کے آغازِ نفاذسے (دس) سال کی مدت گزرنے تک، کوئی مالی قانون، محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اورجمع کرنے یا بینکاری یا بیمہ کے عمل اورطریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے۔‘‘
اس دفعہ میں صراحت ہے کہ :
۱:- آئین ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، حالانکہ آئین ہی تمام قوانین کی بنیاد، ان کا منبع اور سرچشمہ ہے اور آئین ہی قوانین کی حدود متعین کرتا ہے۔ سود کے خلاف سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ نے فیصلہ دیا جو معطل کردیا گیا اور معاملہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت بھیج دیاگیا۔ وفاقی شرعی عدالت میں یہ معاملہ تقریباً ڈیڑھ دہائی سے زیرِ سماعت ہے۔ مخالفین کا اعتراض یہ ہے کہ سود کا لفظ دستور میں آیا ہے اور وفاقی شرعی عدالت کو دستور کی سماعت کا حق حاصل نہیں ہے۔ 
۲:- شخصی قوانین کو بھی اس کی دسترس سے دور رکھا گیا ہے، حالانکہ شخصی قوانین کا تعلق خاندا ن سے ہے۔ خاندان معاشرے کی اساس ہے اور معاشرہ ریاست کی بنیاد ہے، چنانچہ خاندانی نظام کے استحکام وعدمِ استحکام سے ریاست ضرور متأثر ہوتی ہے، مگر اسے بھی عدالت کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے۔
۳:- مالی قوانین کا تعلق ریاست کے اقتصادی ڈھانچے سے ہوتا ہے، جس سے ریاست کا ہرشعبہ بلکہ ہر فرد متأثر ہوتا ہے، مگر وفاقی شرعی عدالت اس نوع کے قوانین کی بھی سماعت نہیں کرسکتی ہے۔
۴:- جن قواعد وضوابط کو بروئے کار لاکر عدالتیں یا ٹریبونلز انصاف فراہم کرتی ہیں، وہ بھی اصل قوانین کی طرح نہایت اہمیت رکھتے ہیں اور بعض ماہرین کے بقول قانون کی خرابی سے زیادہ یہ ضابطہ جات خرابی رکھتے ہیں، مگر عدالت کو ان کے جائزہ کا بھی اختیار نہیں ہے۔
آئین کی مذکورہ بالا دفعہ سے واضح ہے کہ مسلم شخصی قانون اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، مگر جج قانون بھی بناتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے ذریعے اختیار بھی حاصل کرتے ہیں، چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے قراردیا ہے کہ اسے منضبط عائلی قوانین کے جائزہ کا حق حاصل ہے، اس لیے زیرِ بحث بل کو ایکٹ بننے کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اگر وفاقی شرعی عدالت اسے اسلام کے منافی قرار دے دیتی ہے تو عدالت کا فیصلہ اس وقت اثر پذیر ہوگا جب ساٹھ یوم کے اندر عوامی حلقوں میں سے کوئی شخص یا چھ ماہ کے اندر خود وفاقی حکومت اس کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر نہ کرے۔ اگر عدالتِ عظمیٰ کی اپیلٹ بنچ میں اس کے خلاف اپیل دائر ہوجاتی ہے اور عام طور پر حکومت ایسا کرتی ہے تو فیصلہ کے خلاف خود بخود حکمِ امتناعی (Prohibition order) حاصل ہوجائے گا۔ بقول منیر نیازی:

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

وفاقی شرعی عدالت کی مظلومیت ا س سے بھی ظاہر ہے کہ:
۱:- اعلیٰ شرعی اور قانونی دماغ طویل عرصے تک مقدمے کی سماعت کریں، مختلف مقامات پر اپنے اجلاس رکھیں، ماہرین کی خدمات حاصل کریں اور جب حتمی اورقطعی فیصلہ صادر کر دیں تو ایک ریڑھی بان، کوچبان یا پان کا کھوکہ لگانے والا اس کے خلاف درخواست دے کر اس کا فیصلہ موقوف کردے۔
۲:- سپریم کورٹ کا اپیلٹ بنچ بھی ایسی درخواستوں کی سماعت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اوراگر درخواست دہندہ حکومت ہو تو وہ بھی تاخیری حربے استعمال کرتی ہے، اس طرح اپیل کی سماعت میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت ۱۹۹۹ء میں قرار دے چکی ہے کہ ایوب خان کے دور سے نافذ مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس کی دو دفعات ( ۴اور ۷متعلقہ بہ وراثت و طلاق) شریعت سے متصادم ہیں، لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل تب سے شریعت اپیلٹ بنچ میں معلق ہے اور یہ قانون پچھلے ۲۱ سال سے صرف اس بنا پر نافذ ہے کہ شریعت اپیلٹ بنچ اس مقدمے کی سماعت کرکے اس پر فیصلہ نہیں دے رہی!
۳:-ہائی کورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف حکم امتناعی اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک سپریم کورٹ اس کے بارے میں خصوصی حکم صادر نہ کرے، مگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہی حکمِ امتناعی حاصل ہوجاتا ہے اور اس وقت تک حاصل رہتا ہے، جب تک سپریم کورٹ کا اپیلٹ بنچ اس کا فیصلہ نہ سنادے۔(۱)
 ۴:- ایک تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کےلیے ایسی کوئی مدت مقرر نہیں ہے جس میں وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کا فیصلہ سنانے کی پابند ہو۔ اس وجہ سے سپریم کورٹ اگر اپیل پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کرتی ہے ،جو برسوں پر مشتمل ہوسکتی ہے، تو قانونی طور اس پر کوئی قد غن عائد نہیں ہے۔
اس جائزے سے وفاقی شرعی عدالت کی آئینی قوت واضح ہوجاتی ہے، مگر اس کے باوجود روشن خیالوں کو اس کا وجود محض اس وجہ سے گوارا نہیں ہے کہ یہ عدالت اسلام کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت تو کسی موجودہ قانون کا جائزہ لے سکتی ہے، مگر اس کے برعکس اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات اس پہلو سے وسیع ہیں کہ وہ کسی مجوزہ بل کے متعلق بھی رائے دے سکتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۳۰ کی شق ’’الف‘‘ اور ’’ج‘‘ اسے یہ اختیار بخشتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۲۹ کے تحت اگر پارلیمنٹ کے چالیس فیصد ارکان مطالبہ کریں کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ کیا جائے کہ مجوزہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے یا نہیں؟ تو بل کو بغرضِ مشورہ کونسل بھیج دیا جاتا ہے۔ کونسل بل موصول ہونے کے پندرہ دن کے اندرپارلیمنٹ کو اس مدت سے مطلع کرتی ہے جس میں وہ مشورہ دے سکے گی۔
 قومی اسمبلی کے اسپیکر نے یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل بھیج دیا ہے، تاحال کونسل کی رائے تو منظرِ عام پر نہیں آئی ہے، تاہم قرینِ قیاس یہی ہے کہ وہ اس بل کومسترد کرے گی، جس کی بڑی وجہ خود بل کے مندرجات ہیں کہ ایک مغربی قانون کو من وعن اپنےمذہب، آئین، روایات، اقدار اورحالات کی پرواہ کیے بغیر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کونسل کے لیے اس قسم کا بل کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ گھریلو تشدُّد کے متعلق قانون سازی پر وہ ایک عرصے سے نظر رکھے ہوئے ہے اور اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے متعلقہ قانونی اداروں کو تجاویز وسفارشات فراہم کرتی آرہی ہے۔ ۲۰۰۸ ء میں کونسل نے اس موضوع پر ورکشاپ کا اہتمام کیا اور حکومت کو تجویز دی کہ: 
’’گھریلو تشدُّد کے بارے میں قانون سازی سے فائدہ اس وقت ہوگا جب لوگوں کے رویے میں تبدیلی لائی جائے۔‘‘ 
چاروں صوبوں میں اس نوع کی قانون سازی کے وقت بھی کونسل اپنے ملاحظات، اعتراضات، تجاویز اور سفارشات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ مجوزہ مسودہ قانون جب گزشتہ سال قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو کونسل نے مقننہ کے نام اپنے مراسلے میں اس کی بعض دفعات پر تحفظات کا اظہارکیا اور ساتھ میں لکھا کہ: ’’کونسل اس پر مزید کام کررہی ہے، جامع تجزیہ اور مشاورت کے بعد کونسل اپنی حتمی رائے پیش کرے گی، اس لیے کونسل کی حتمی رائے آنے سے پہلے اس پر قانون سازی نہ کی جائے۔
یہ وہ وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر یہ قیاس قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کونسل اس مجوزہ قانون کو سختی سے مسترد کرے گی، مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ :
۱:-کونسل کو قوتِ نافذہ حاصل نہیں، اس کی آئینی حیثیت محض مشاورتی وسفارشی ہے۔ 
(دستورپاکستان، دفعہ: ۲۳۰)
اس کا نتیجہ ہے کہ کونسل اپنی سالانہ رپورٹیں پارلیمان کو پیش کرتی ہے اور آئین کی رو سے دونوں ایوان اور ہر صوبائی اسمبلی اس پر بحث کرنے اور مزید وغوروخوض کرنے کے بعد قوانین وضع کرنے کی پابند ہے، مگر: 
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ 
۲:-پارلیمنٹ پابند نہیں ہے کہ کونسل سے مشورہ حاصل ہونے تک بل کو ملتوی رکھے، بلکہ وہ کونسل کی رائے آنے سے قبل بھی بل منظور کرسکتی ہے۔
۳:- اگر کونسل اسے خلافِ شریعت قراردیتی ہے تو پارلیمان کو بل پر ازسرِنو غور کرنا ہوگا، مگر وہ کونسل کی تجاویز کے مطابق قانون سازی کی پابند نہیں ہوگی۔ [دستورپاکستان، دفعہ: ۲۳۰(۳)]
ان دو آئینی اداروں کے علاوہ اعلیٰ عدالت میں کسی قانون کو اس بنا پر چیلنج کیا جاسکتا ہےکہ وہ ان بنیادی حقوق کے خلاف ہے جو آئین میں عطا کیے گیے ہیں۔
’’ چونکہ دستور تمام اشخاص کے بنیادی حقوق، ان کے وقار اور قانون کی مطابقت میں ان کے ساتھ برتاؤ کیے جانے کے ان کے حق کو تسلیم کرتا ہے:
چونکہ یہ نہایت ضروری ہے کہ خواتین، بچوں اور بڑوں اور کسی بھی نادار شخص کو مؤثر خدمات کی فراہمی کے لیے تحفظاتی نظام قائم کیا جائے، تاکہ ایسا ممکنہ ماحول پیدا کیاجائے جو خواتین، بچوں، بڑوں اور کسی بھی نادار اشخاص کی معاشرے میں اپنی خواہش کے مطابق آزادانہ کردار ادا کرنے میں حوصلہ افزائی کی جاسکے اور سہولت دی جاسکے اور اس کے ضمنی معاملات کے لیے انتظام کیا جاسکے:
اور ہر گاہ کہ یہ قرینِ مصلحت ہےکہ اقدامات کو ادارہ جاتی بنایا جائے جو تمام اشخاص، بشمول خواتین، بچوں، بڑوں اور کسی بھی نادار اشخاص کو گھریلو تشدُّد اور اس سے منسلکہ یا اس کے ضمنی معاملات کی روک تھام اور فراہمیِ تحفظ کے لیے ضروری حفظ ماتقدم فراہم کریں گے:
بذریعہ ہذا حسب ذیل قانون وضع کیا گیا ہے:‘‘
ریاست کو کس حدتک قانون وضع کرنے کااختیا رہے، دستور اس کی حدود وقیود متعین کرتا ہے۔ اس بل کی تمہید میں دستورکاحوالہ دینے سے مقصود بل کو دستور ی بنیاد فراہم کرنا ہے، مگر یہ بل دستوری جواز سے محروم ہے، جس کی بڑی وجہ اس کاخلافِ شریعت ہونا ہے۔
 جو کوئی قانون دستور کے مطابق ہو، مگر شریعت کے مخالف ہو، وہ واجب الرد ہے، کیونکہ دستورِشریعت پر کسی دستور کو فوقیت حاصل نہیں ہے، مگر دستورِ پاکستان کی خصوصیت ہے کہ جو قانون شریعت کے خلاف ہو، وہ لازماً دستور کےبھی خلاف ٹھہرتا ہے، کیونکہ دستور، اسلام کوپاکستان کا سرکاری مذہب قراردیتا ہے اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کی ضمانت فراہم کرتا ہے:
’’اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔‘‘ [آئین پاکستان، آرٹیکل۲]
’’قراردادِ مقاصد مستقل احکام کا حصہ ہوگا۔‘‘ [آرٹیکل(۲) الف]
’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اورسنت میں منضبط اسلامی احکام کے تابع بنایاجائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اورایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔‘‘ [آرٹیکل ۲۲۷(۱)]
یہ بل آئین کی بعض صریح دفعات کے بھی خلاف ہے، بلکہ پورا سچ یہ ہے کہ پوری آئینی اسکیم ہی کے خلاف ہے۔ آئین کی دفعہ: ۳۵ میں قراردیا گیا ہے کہ:
’’خاندان وغیرہ کا تحفظ: مملکت‘ شادی، خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کرے گی۔‘‘
انسانی حقوق کے عالمی منشورکی دفعہ:۱۶ میں ہے:
’’(۳) خاندان، معاشرے کی فطری اور بنیادی اکائی ہے اور وہ معاشرے اور ریاست دونوں کی طرف سے حفاظت کا حق دار ہے۔‘‘
خاندان کی سادہ شکل رشتۂ ازدواج کی صورت میں قائم ہوتی ہے، پھر زوجین والدین کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، بچے جوان ہوتے ہیں تو پھر اور ازدواجی رشتے بنتے ہیں، اس طرح کنبے اور قبیلے وجود میں آتے ہیں۔ الغرض خاندان کی ابتدائی صورت میاں بیوی کا باہمی تعلق ہے، جو پھیل کر خاندان اور پھر مزید پھیل کر معاشرے کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام زوجین کے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے، مگریہ بل اس ابتدائی بنیاد کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ یہ بل اپنے مزاج میں زوجین کو بجائے رفیق کے فریق بناکر اورانہیں حلیف کے بجائے حریف ثابت کرکے اورانہیں بجائے زندگی کے دوپارٹ تسلیم کرنے کے، انہیں پارٹیاں قرار دے کر باہم مقابلے اور عداوت کی فضا پیدا کردیتا ہے، جس سے ازدواجی زندگی متزلزل ہوجاتی ہے۔ ازدواجی زندگی کی بے یقینی اور انتشار سے خاندان کا ادارہ غیر مستحکم ہوجاتا ہے، اس سے معاشرہ عدمِ استحکام سے دوچار ہوجاتا ہے اور بالآخر ریاست کے ستون ہلنے لگتے ہیں۔ سماجی علوم بھی معاشرےکے انتشار کو ریاست کا انتشار قرار دیتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ بل دستور کے کسی ایک دفعہ کے خلاف نہیں، بلکہ آئین کی غرض وغایت کے خلاف ہے، کیونکہ آئین کا مقصد ریاست کا استحکام ہے، جب کہ یہ بل فرد کو بغاوت، گھر کو برباد، خاندان کا خاتمہ اور ریاست کے مرکزی ستون پر ضرب لگاتاہے۔
آرٹیکل ۳۱؍ اسلامی طریق زندگی کے بارے میں ہے اور اس کی پہلی شق میں درج ہے کہ :
’’پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اوراجتماعی طورپر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اَساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔‘‘
یعنی مسلمانوں کی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اوراساسی تصورات کے مطابق تشکیل دی جائے گی، مگراس بل کے پس پشت آزادیِ نسواں کے مفروضے اوربنیادی خیالات کارفرما ہیں۔ خود قانون سازوں نے بھی اس حقیقت کو چھپایا نہیں ہے، بلکہ اختتامیہ میں اس کی صراحت بھی کردی ہے۔ 
حقوقِ نسواں تحریک کے نقطۂ نظر سے اس طرح کا قانون ان کے لیے حصولِ مقصد کی منزل نہیں، بلکہ اس کی طرف ایک پیش رفت ہے۔ ان کی منزل کچھ اس نوعیت کی ہے جسے اسلام تو کجا کوئی بھی شائستہ مذہب قبول نہیں کرسکتا ہے، مثلاً مرد وعورت میں ہر طرح اورہرسطح پر مساوات، تولیدی امور پر عورت کا مکمل کنٹرول، اباحیت، ہم جنس پرستی، مرد کی جائیداد میں عورت کا آدھا حصہ، وغیرہ ۔
آئین آرٹیکل ۳۷ کی رو سے آئین معاشرتی برائیوں کا خاتمہ چاہتا ہے، مگر یہ بل برائیوں کو فروغ دیتا ہے، جس کی تین وجوہات ہیں:
۱:- یہ تعلیم وتربیت کے پہلو سے سرپرستوں کو بے اختیار کردیتا ہے۔ تعلیم وتربیت کے لیے ترغیب کے ساتھ ترہیب کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ترہیب نہ ہوگی تو تعلیم نہ ہوگی اور تعلیم نہ ہوگی تو اس کی ضد جہالت ہوگی اور جہالت تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔
۲ـ- یہ بل شوہر، باپ اور سربراہِ خانہ کی تادیبی ولایت کی بھی نفی کرتا ہے، صرف نفی ہی نہیں، بلکہ اس پر سزاتجویزکرتا ہے، حالانکہ تادیبی اختیار کا مقصد اصلاحِ نفس ہے اوراصلاحِ نفس نہ ہوگا تو کرداروافعال اچھے ہوہی نہیں سکتے۔
۳:- نہی عن المنکر کا حق عام مسلمانوں کو بھی حاصل ہے۔ سربراہِ خانہ، سرپرستوں اوراولیاء کو تو اس کا وجوبی حکم ہے۔ منکر کے ازالے کے لیے شریعت ایک عام مسلمان کو بھی تعزیر کا حق دیتی ہے۔ تعزیر کا مقصد بھی تہذیبِ نفس اور تعدیلِ اخلاق ہے، جس سے برائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے، مگریہ بل عام مسلمانوں سمیت گھر کے سربراہ اوربزرگوں کے ازالۂ منکر کے حق پر پابندی عائدکرتا ہے۔ 
اگر ہم کہیں کہ منکرات اورفواحش کے سدِباب کے لیے اس بل کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے تو یہ اس پر بہت نرم تنقید ہوگی، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بل برائیوں سے روکتا نہیں ہے، بلکہ اس پر اُکساتا ہے، بلکہ اس کی طرف زبردستی دھکیلتا ہے۔ اس کی مثالیں جابجا اس بل میں بکھری پڑی ہیں، مثلاً: قرآن وسنت کا فحاشی کے خلاف جو لب ولہجہ ہےوہ سب کو معلوم ہے، فحش کامرکز عورت کی ذات ہے، اسی لیے اسے گھر میں قرارپکڑنے کاحکم ہے، اگرباہر نکلے تو شرعی حجاب کے ساتھ نکلے، کیونکہ بغیر حجاب کے نقل وحرکت سے مردوں سے اختلاط ہوتا ہے اوراختلاط سے شہوت کا ہیجان ہوتا ہے اوراس طرح فحش کا دروازہ کھلتا ہے۔ فحش جہاں گھستا ہے یا گھسا ہے وہاں شہوت کو پورا کرنے کے اخلاقی اورروحانی طریقے رخصت ہوئے ہیں اور اباحیت پھیل گئی ہے۔ مزدکیوں، بولشویکوں اورمغرب میں اباحیت اسی فحش کی وجہ سے پھیلی ہے۔ اب اس بل کو دیکھ لیجیے، جس کی رو سے بیوی کو شوہر کے علاوہ اپنے محبوب کے ساتھ اور بیٹی کو اپنے یار کے ساتھ نہ صرف ملنے بلکہ رہائش اختیارکرنے کا حق ہے۔ بل کی دفعہ: ۱۶ میں ہے :
’’۱۶:- کمیٹی تحفظ کے فرائض اور کارہائے منصبی: کمیٹی تحفظ:(ج) اگر ضروری ہو تو متضرر شخص کی رضامندی سے، محفوظ مقام کی تلاش میں جو کہ متضرر شخص کو قابلِ قبو ل ہو میں متضرر شخص کی معاونت کرنا، جس میں کسی بھی رشتہ دار کا گھریا خاندانی دوست یادوسری محفوظ جگہ شامل ہوسکتی ہے۔ ‘‘
جن ممالک میں یہ قانون نافذ ہوا ہے، وہاں اس کا یہی مطلب لیا گیا ہے کہ عورت کے خلوت کے تعلقات پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
 تمہید میں یہ تأثر بھی دیا گیا ہے کہ بل کے نفاذ سےبنیادی حقوق کا تحفظ مطلوب ہے، مگر یہ دعویٰ محض ہے اوربل کے مندرجات اس سے انکار کرتے ہیں۔ بل حقوق کا تحفظ کم اورانہیں سلب زیادہ کرتا ہے۔ جس صورت میں کوئی فعل شریعت کی نظر میں جرم نہیں ٹھہرتا ہے، ان میں یہ بل بنیادی حقوق سلب کرتا نظر آتا ہے۔ بل گھر کے بند دروازے کے پیچھے حالات کی کھوج میں رہتا ہے۔ [دفعہ:۲(۸)] جب کہ شریعت ’’لاتتبع عورات النساء‘‘ اور ’’لاتحسّسوا و لاتجسّسوا‘‘ کہہ کر اس سے منع کرتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ کسی کے گھر میں اہلِ خانہ کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ آرٹیکل: ۱۴ بھی اس کی تلقین کرتا ہے، جس کا عنوان ہے کہ: ’’ شرفِ انسانی قابل حرمت ہوگا‘‘ا وراس کے تحت ہے کہ: ’’شرفِ انسانی اور قانون کے تابع، گھر کی خلوت قابلِ حرمت ہوگی۔‘‘ مگر بل میں معمولی باتوں کو قابلِ دخل اندازیِ پولیس قراردیا گیا ہے۔ دیکھیے: [دفعہ: ۱۲(۲)] اور سرکاری اداروں کو گھریلو امور میں حد سے زیادہ مداخلت کا حق دیا گیا ہے۔
دستور کی دفعہ: ۱۵ آزادانہ نقل وحرکت کرنے اور کہیں بھی سکونت اختیار کرنے کی اجازت دیتی ہے، مگر یہ بل اس پر کڑی پابندی لگا تا ہے۔ آئین کی دفعہ: ۲۰ کے تحت ہرشخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اورعمل کرنے کا حق ہے۔ مذہب کی پیروی میں غیروں کی اصلاح، دعوت وارشاد، تبلیغ وتذکیر، اِنذار وتخویف بھی داخل ہے اور اسی وجہ سے یہ امت خیر امت ہے۔ اگر یہ چیزیں مذہب پرعمل میں داخل نہیں ہیں تو پھرمذہب‘ نماز، زکوٰۃ، روزہ اورحج کانام ہے جو مذہب کاناقص اورمحدود تصور ہے اور اس معنی میں یہ حق غیر مسلم ریاستوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل ہے۔ آئین کا آرٹیکل: ۲۳ اور۲۴ جائیداد اورحقوقِ جائیداد کے متعلق ہے، مگریہ بل مالک کو اس کی جائیداد میں داخلہ اوراس سے استفادہ سے محروم کرتا ہے۔ رشتہ داربھی اس گھر میں نہیں جاسکتے جو حقِ اجتماع اورنقل وحرکت کے خلاف ہے۔ مدعی سے کوئی مل نہیں سکتا جو آزادیِ اظہار اور تقریر کے خلاف ہے۔ آئین کی رو سےصنف کی بنا پر کسی سے امتیاز نہیں برتا جائے گا، مگر اس بل کامجموعی تأثر اور واضح میلان صنفِ نازک کی طرف ہے۔ آئین کی دو دفعات خاص طورپر سزا کے متعلق ہیں اور ان کا مقصد سزا میں بے اعتدالی سے بچنا ہے، مگر اس بل میں جرم اورسزا کے درمیان کوئی توازن ہی نہیں ہے۔ شریعت، قانون اوراقوامِ متحدہ کے عالمی منشور برائے انسانی حقوق کی رو سے ہر شخص معصوم ہے، جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے، مگر اس بل میں ٹرائل کے مرحلے میں جب کہ الزام ابھی محض الزام ہوتا ہے‘ ملزم کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
تمہید کےآخرمیں ذکر کیا گیا ہے کہ مؤثرخدمات کی فراہمی کے لیےتحفظاتی نظام قائم کیا جائے اور اس سلسلے کے اقدامات کو ادارہ جاتی شکل دی جائے۔
آئین کی تعبیر وتشریح کرتے وقت سیاق وسباق کو دیکھاجاتا ہے اورتمام دفعات کو مدِنظر رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ آئین کی دفعہ: ۲۵ کی رو سے ’’مملکت‘ خواتین اوربچوں کے تحفظ کے لیے کوئی خاص اہتمام کرسکتی ہے۔‘‘ مگر اس اہتمام کی اجازت اس قید کے ساتھ ہے کہ آئین کے دیگر احکام متأثر نہ ہوں، کیونکہ وہ بھی دستور کا حصہ ہیں۔ اس بل کے اغراض کے لیے اگرریاست خدمات کاکوئی مؤثر نظام قائم کرتی ہے اور اس سلسلے کے اقدامات کو ادارہ جاتی شکل دیتی ہے توخود آئین کی رو سے شرط یہ ہے کہ شریعت کے احکام متأثر نہ ہوں، ریاست عدمِ استحکا م کا شکار نہ ہو، خاندانی نظام متأثر نہ ہو، بنیادی حقوق پامال نہ ہوں، برائیوں کو فروغ نہ ملے اوروہ نظام شہریوں کے لیے قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے میں سہولت پیدا کرتا ہو۔ اگرکوئی نظام ان شرائط کو پورا نہ کرتا ہوتو اس کاقائم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ زیادہ صاف لفظوں میں جب قانون ہی شریعت اورآئین کی حمایت سے محروم ہے تو اس پر منظم انداز میں عمل درآمد کیسے درست ہوسکتا ہے؟
’’۲:-تعریفات: (۱)اس ایکٹ میں تاوقتیکہ کوئی امر موضوع یا سیاق و سباق کے منافی نہ ہو:
(ایک) ’’متضرر شخص‘‘ سے کوئی بھی خاتون، بچہ بڑا کوئی بھی نادار شخص یا کوئی بھی دیگر شخص مراد ہے جو مسئول الیہ کے ساتھ گھریلو تعلق میں ہو یا رہ چکا ہو اور جو الزم لگاتا ہو کہ مسئول الیہ کی جانب سے گھریلو تشدُّد کے کسی فعل کے تابع رکھا گیا ہے۔‘‘
اس بل کے ذریعے جن اشخاص کی دادرسی مقصود ہے، بالفاظِ دیگرجن کو تشدُّد سے محفوظ رکھنا مطلوب ہے، ان کابیان کیا گیا ہے، جو کہ درج ذیل افراد ہیں :
۱:-خاتون، خواہ بالغہ ہو یا نابالغہ
۲:-بچہ بشرطیکہ اٹھارہ سے کم عمر کا ہو، خواہ نسبی ہو یا رضاعی یا لے پالک ہو۔
۳:-بڑایعنی بالغ شخص
۴:-کوئی بھی ناداراورکمزورشخص۔ نادار کی تعریف آگے آتی ہے۔ 
۵:-کوئی بھی دیگر شخص
متضررسے دادخواہ، فریادی، مظلوم، ستم رسیدہ، ناراض، رنجیدہ وغیرہ ہے۔ جس شخص کو قانونی اعتبار سے کوئی مضرت پہنچے وہ شخص متضرر کہلاتاہے یاایک شخص جس کی جائیداد، حقِ رائے دہی یا ذاتی حق کو مضرت پہنچے، وہ شخص متضرر ہے۔ [قانونِ لغت، مؤلف جسٹس تنزیل الرحمٰن صاحب مرحوم، ص: ۳۲]
بوڑھوں اور کمزروں کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل نے تنقید کی تھی کہ بل ان کااحاطہ نہیں کرتا ہے، شاید اسی وجہ سے اس بل میں ’’کوئی بھی نادار ‘‘ یا ’’کوئی بھی دیگر شخص‘‘ کے الفاظ کااضافہ کرکے ان کو شامل کردیا گیا ہے۔
اس بل کی رو سے اگرچہ خاندان کا کوئی بھی رکن، خواہ مرد ہو یاعورت، بالغ ہو یا نابالغ، داد رسی طلب کرسکتا ہے، مگر بل کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ہمیشہ سرپرست اپنے ماتحتوں کے خلاف، مرد عورت کے خلاف، شوہر بیوی کے خلاف، باپ اولاد کےخلاف اوربھائی اپنی بہن کے خلاف تشدُّد کا مرتکب ہوتا ہے۔ احکام کے بیان میں تمثیلات بھی ایسی دی گئی ہیں جن میں بچہ، خاتون اورمعذور افراد کو مظلوم کی مثالوں میں پیش کیاگیا ہے۔ سزائیں بھی ایسی تجویز کی گئی ہیں جو باپ، شوہر اورسرپرست پر نافذ کی جاسکتی ہیں۔ این جی اوز کا پروپیگنڈہ عورت کی حمایت میں ہوتا ہے اور بین الاقوامی دباؤ بھی ان ہی کے سلسلے میں ہوتا ہے، جس سے متأثر ہوکر بل بے اعتدالی اورانتہا کا شکار ہوگیا ہے۔ کیا اولاد والدین کے متعلق، ماتحت سرپرست کے متعلق، بیوی شوہر کے خلاف اور عورت دوسری عورت کے خلاف تشدُّدکی مرتکب نہیں ہوتی؟ تشدُّد کا رجحان خواتین میں بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ اس موضوع پر لکھی گئی کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ بیویاں جو صحت کو مرض سے، دولت کو فقر سے، عزت کو ذلت سے، سکون کو بےسکونی سے اورمثالی گھرانے کو جہنم کدہ بنادیتی ہیں، اولاد جوبوڑھے والدین کی خدمت واطاعت کے بجائے ان کے ساتھ ظالمانہ اوربے رحمانہ سلوک کرتی ہے، ان پر ہاتھ اُٹھاتی ہے، جائیدادپرقبضہ کرتی ہے اوران کو گھر سے بے دخل کردیتی ہے، بہنیں جو سرِعام بھائیوں کو رسو اکردیتی ہیں، بہو جو شوہر کو خاندان سے کاٹ دیتی ہے اورساس جو اپنی انا کےلیے بہو کاگھر برباد کردیتی ہے، بل کے قائم کردہ معیار کے مطابق یہ بھی تشدُّد ہے یا نہیں؟ اوراس کے لیے بھی کوئی سزاتجویز کی گئی ہے یا نہیں؟ کیا ظلم ہے کہ بیوی بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے جس کےبال سفید، کمر دوہری، بصارت کمزور اور ہاتھوں میں رعشہ طاری ہو گیا ہے، وہ بیوی کے سامنے اونچی آواز سے بات اور اولاد کی خرمستیوں اورشاہ خرچیوں پر اُف تک نہیں کرسکتا، اس لیے کہ جذباتی تشدُّد ہے اورقابلِ مواخذہ ہے۔
’’دفعہ:۲تعریفات:(دو) ’’بچہ‘‘ سے مسئول الیہ کے ساتھ گھریلو رشتہ میں رہنے والا اٹھارہ سال سے کم عمر کا کوئی فرد مراد ہے اور اس میں کوئی بھی متبنی، سوتیلا یا رضاعی بچہ شامل ہے۔‘‘
شریعت کی رو سے بلوغت کی کم ازکم عمر لڑکے کے حق میں نوسال اورلڑکی کے حق میں بارہ سال ہے اور اکثر مدت دونوں کے لیے پندرہ سال ہے۔ بلوغ کی عمر اٹھارہ سال مقررکرنے سے یہ مضحکہ خیز صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ کوئی شخص صاحبِ اولاد ہے، مگر قانون کی نظر میں تاحال وہ نابالغ ہے، جب کہ شریعت اس طرح کی مضحکہ خیزیوں سے پاک ہے۔ عقلی امکان کی رو سے شریعت میں مرد پچیس سال کی عمر میں دادا اور عورت اُنیس سال میں نانی بن سکتی ہے۔
بچہ خواہ سگا ہو یا سوتیلا، وہ بچہ ہوتا ہے اوراس پہلو سے رشتوں کے بیان میں لے پالکی یا رضاعی رشتے کے بیان میں حرج نہیں ہے، البتہ ان رشتوں سے جڑے حقوق کے درمیان امتیاز کرنا چاہیے۔ اس بل کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ نسب اوررضاعت، قریبی رشتہ داروں اور دور کےعزیزوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا ہے، بلکہ سب کو ایک سطح پر فرض کیا گیا ہے اور اسی بنیادپر ان کو مساوی حقوق دئیے گئے ہیں۔ اس مساویانہ فلسفۂ حقوق کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قریب یا دور ہر ایک رشتہ دار کی حق تلفی مساوی جرم ہو اور اس پر سزا بھی مساوی ہو، چنانچہ اس بل میں سب کی سزا مساوی ہے اور ایک بہت دور کے عزیز کو جس کو انسانی ہمدردی کی بنا پر کبھی ٹھکانہ دیا ہے، اس پر چیخنا اورچلانا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا سگی والدہ کے متعلق ہے۔ سزاؤں کی یہ غیرمنطقیت اورغیر معقولیت اس غلط بنیاد کی وجہ سے ہے کہ سب کے حقوق برابر فرض کیے گئے ہیں۔ 
’’(سات) ’’گھر ‘‘سے ایسا گھر مراد ہے جہاں متضرر شخص رہتا ہو یاکسی بھی مرحلے پر آیا کہ اکیلا یا مسئول الیہ کے ہمراہ گھریلوتعلق میں رہ چکا ہو اس میں مذکورہ گھر شامل ہے، خواہ ملکیتی ہو یا متضرر شخص اور مسئول الیہ کی جانب سے مشترکہ طور پر کرایہ پر لیا گیا ہو یا ان میں سے ایک کی جانب سے ملکیتی ہو یا کرایہ پر لیا گیا ہو، کوئی بھی ایسا گھر جس کی نسبت متضرر شخص یا مسئول الیہ یا دونوں مشترکہ طور پر یا اکیلے کوئی حق، حقیت، مفاد یا نسبت رکھتے ہوں اور اس میں ایسا گھر شامل ہے جو کہ مشترکہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جس کا مسئول الیہ رکن ہو، اس حقیقت سے قطع نظر کہ آیا مسئول الیہ یا متضرر شخص مذکورہ شراکت شدہ گھر میں حق، حقیت، مفاد رکھتا ہو۔‘‘
فوجداری قانون کی روح یہ ہوتی ہے کہ اس میں جرم کسے قراردیا گیا ہے؟ اور اس پر سزا کیا تجویز کی گئی ہے؟اس بل میں ’’گھریلو تشدُّد‘‘کو جرم قراردیا گیا ہے، مگر اس کوسمجھنے سے پہلے’’گھر‘‘ پھر ’’گھریلو تعلق‘‘ کو سمجھناضروری ہے، اس کے بعدبآسانی گھریلو تشدُّد کو سمجھا جاسکتا ہے۔
گھر کی تعریف کا حاصل یہ ہے کہ جہاں ستم رسیدہ رہتا ہو یا اکیلے یا مسئول الیہ کے ہمراہ گھریلو تعلق میں رہ چکا ہو۔ اس کے بعد گھر کی تعریف میں عموم پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ :
۲:-گھر خواہ دونوں کامملوکہ ہو یا دونوں کی طرف سےکرایہ پر لیا گیا ہو یا کسی ایک کا مملوکہ ہو یا ایک نے کرایہ پر لیا ہو۔
۳:-دونوں یا کوئی ایک اس میں کوئی حق، حقیت یا مفاد رکھتے ہوں۔
۴:-خاندان میں سے کسی اورکا گھر ہو، مگر مسئول الیہ وہاں رہتا ہو، خواہ مسئول الیہ یا متضرر میں سے کوئی اس میں کوئی حق، حقیت یا مفاد رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ 
’’(پانچ) ’’گھریلو تعلق‘‘ سے اشخاس کے درمیان تعلق مراد ہے جو گھر میں اکٹھے رہتے ہوں، یا کسی بھی وقت رہ چکے ہوں اور خواہ ہم نسبی، شادی، قرابت داری، تبنیت کی رو سے تعلق رکھتے ہوں، یا خاندا ن کے اراکین اکٹھے رہ رہے ہوں یا کسی بھی دیگر وجہ سے عارضی طور پر یا مستقل طور پر ایک مقام پر رہائش پذیر ہوں۔‘‘
حاصل یہ ہے کہ :
۱:-ایک سے زائداشخاص ہوں ۔اشخاص کی تعریف بل میں نہیں ہے، اس لیے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی تعریف لاگو ہوگی، مجموعہ کی رو سے شخص کی تعریف میں مرد، عورت، بچہ اورشخص غیر حقیقی (ایسوسی ایشن، انجمن )وغیرہ بھی شامل ہے۔
۲:-ان کے درمیان نسب، زوجیت، قرابت یاتبنیت کا رشتہ ہو۔
۳:-یہ اشخاص کسی بھی وجہ سے عارضی یا مستقل طور پر اکھٹے رہ رہے ہوں یا کسی وقت رہ چکے ہوں ۔
اس تعریف سے چند ایسے نتائج برآمد ہوتے ہیں جو شاید مقننہ کا بھی منشا نہ ہوں، مثلاً :
۱:- ایک لمحہ کےلیے جو ساتھ رہائش پذیر رہے ہوں، ان میں بھی گھریلو رشتہ ثابت ہوگا، کیونکہ مدت کی کوئی تحدید تعریف میں نہیں گئی ہے۔
۲:-مدعی(متضرر) اورمدعی علیہ (مسئول الیہ) میں مطلق قرابت کافی ہے، خواہ کسی جہت سے ہو، اس لیے بہت دور کے رشتہ دار بھی اس کے عموم میں شامل ہیں۔
۳:-حد درجہ عموم کی وجہ سے یہ تعریف درج ذیل صورتوں پر بھی صادق آتی ہے:
الف:-ایک خاندان کے لوگوں نےحج کے موقع پر حرمین کے ہوٹلوں یا منی کے خیموں میں رہائش رکھی ہو، یا 
ب:-تفریح کی غرض سے ایک ہوٹل میں قیام کیا ہو، یا
ج:-رشتہ دار تعلیم کی غرض سے ایک ہاسٹل میں رہے ہوں، یا
د:-تجارت یا ملازمت کی غرض سے ایک جگہ اکھٹے رہے ہوں، یا
ھ:-مطلقہ بیوی جو گھر سے نکلنے سے انکار کررہی ہو، یا
و:-کوئی قریبی رشتہ دار جو کسی وجہ سے ساتھ سکونت پذیر ہواور اسے گھر چھوڑنے کا کہا ہو، مگر وہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو ۔
گھریلو تعلق کی تعریف میں یہ تفصیل بھی نہیں ہے کہ رشتہ دارکس حیثیت سے ساتھ رہ رہا ہو یا رہا ہو۔ یہ تفصیل نہ ہونے سے اس میں وہ رشتہ داربھی داخل ہیں :
 جو مہمان کی حیثیت سے آئے ہوں، یا 
زیارت اورملاقات کی غرض سے ٹھہرے ہوں، یا
جو کسی ناگہانی ضرورت سے ٹھہرے ہوں، یا 
جنہیں انسانی ہمدردی کے تحت کچھ عرصہ کے لیے رہائش دی گئی ہو۔
یہ تمام صورتیں اس وجہ سے داخل ہیں کہ تعریف میں وقت، مقام اورحیثیت کی تحدید نہیں ہے۔یہ تمام اشخاص قانون کے ظاہر ی الفاظ کے مطابق عرصہ بعیداور مدتِ مدید کے بعد تشدُّد کا دعویٰ کرسکتے ہیں، حالانکہ قانون سازوں کا بھی یہ منشا نہیں ہے اور وہ بھی اس سے اتفاق نہیں کرتے ہوں گے، مگر قانون کے عموم میں یہ صورتیں داخل ہیں۔ 
’’(پندرہ)’’مسئول الیہ‘‘ ایک شخص ہےجو متضرر شخص کے ساتھ گھریلو تعلق میں ہو، یا رہ چکاہو اور اس ایکٹ کے تحت جس کے خلاف داد رسی مانگی گئی ہو۔‘‘
یعنی وہ شخص جس پر گھریلوتشدُّد کاالزام ہو، جسے مدعی علیہ، جواب دہ اوراورملزم سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

مصادر ومراجع

۱:-وفاقی شرعی عدالت کے قیام کا پس منظر اورضروریات، جسٹس تنزیل الرحمٰن صاحب مرحوم 

(جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین