بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل (تیسری قسط)

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل

Domestic violence (prevention  and protection) Bill,2021

 (تیسری قسط)


’’۳:- ’’گھریلو تشدُّد‘‘: گھریلو تشدُّد سے مسئول الیہ کی جانب سے خواتین، بچوں، نادار اشخاص، یا کسی بھی دیگر شخص کے خلاف ارتکاب کردہ جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی استحصال کے تمام افعال مراد ہوں گے، جس کے ساتھ مسئول الیہ گھریلو تعلق میں ہویا رہ چکاہو، جوکہ متضررشخص میں خوفِ جسمانی یا نفسیاتی ضرر کا باعث بنتا ہو۔‘‘
عربی زبان میں تشدُّدکا معنی’’ قوی ہونا، سختی کرنا‘‘ ہے۔ ہمارے عرف میں اس سے مراد جسمانی ظلم وزیادتی ہوتا ہے۔ ظلم وزیادتی اگرخاندان کے فرد پرہو تو بل میں اسے گھریلوتشدُّد کہا گیا ہے۔ عام طور تشدُّد کا مطلب تکلیف پہنچانے کی غرض سے دوسرے کے بدن پر طاقت کا استعمال سمجھا جا تا ہے، اس وجہ سے تشدُّد سے ذہن‘ مارپیٹ اورزدوکوب کرنے کی طرف جاتا ہے۔ اگر کسی کو ضربِ شدید پہنچائی جائے تواسے وحشیانہ اور بہیمانہ تشدُّد کہا جاتا ہے، اور اگر ضرب خفیف ہو تو ہلکا پھلکا تشدُّد کہتے ہیں، گویا قوت وطاقت کا استعمال تشدُّد کا لازمی عنصر ہے، مگر مذکورہ بالاتعریف کی رو سےتشدُّدصرف کسی کے جسم پر پُرتشدُّد کاروائی نہیں ہے، بلکہ تشدُّد‘ مالی، جذباتی، جنسی اور نفسیاتی بھی ہوسکتا ہے۔
انگریزی میں خواتین پر تشدُّد کے حوالے سے Violence against women کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ Violence کی تعریف آکسفورڈ ڈکشنری میں ایسے پرتشدُّد برتاؤ سے کی گئی ہے جو کسی کو تکلیف پہنچانے یا مارنے کی نیت سے کیا جائے۔ عالمی ادارۂ صحت قرار دیتا ہے کہ: ’’جسمانی قوت اور طاقت کا ایسا دانستہ استعمال جو کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف ہو، جس کا ممکنہ نتیجہ زخم، موت یا نفسیاتی نقصان کی صورت میں ہو۔‘‘ انسائیکلو پیڈیا آف سوشل سائنسز میں ہے کہ:
 ’’معاشرتی پیرائے میں تشدُّد کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ ذاتی یا اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے جسمانی زبردستی طریقوں کا غیر قانونی استعمال کرنا، اس تشدُّد کو عام قوت اور طاقت کے استعمال سے الگ سمجھنا چاہیے، جس کا مفہوم خالصتاً مادی ہوتا ہےاوراس کی خاص سمت اورشدت ہوتی ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خواتین پر تشدُّد کی تعریف اس طرح کی ہے:
’’ کسی عورت کو جنسی تفریق کی بنا پرتشدُّد کا ایسا نشانہ بنانا جس کے نتیجے میں اسےجسمانی، جنسی اورنفسیاتی اذیت پہنچی ہو یا پہنچنے کا امکان ہو۔اس میں ایسے عمل کی دھمکی، جبر یا آزادی سے زبردستی محرومی، خواہ گھر کے اندرنجی زندگی میں ہو یا عمومی زندگی میں، شامل ہے۔‘‘ (۱)
اس بل میں تشدُّد کی جو تعریف کی گئی ہے، یہی تعریف برطانیہ کے قانون میں بھی مذکور ہے۔ ملاحظہ کیجیے: Domestic Abuse Act 2021 Chapter 17, UK ; 
 کینڈا نیو برنس وک کا قانون بھی گھریلو تشدُّد کی یہی تعریف کرتا ہے:(Chapter 2017, C-5)
ان ممالک کے قوانین میں بھی تشدُّد کو ان ہی پانچ وجوہ (جسمانی، معاشی، جنسی، جذباتی اور نفسیاتی) میں منحصر کیا گیا ہے۔ انڈیا کا قانون ’’ The Protection of Women from Domestic Violence Act 2005,PWDVA ‘‘ جو ۲۰۰۵ء میں نافذ ہوا ہے، اس میں بھی یہی ذکر ہے۔ حد یہ ہے کہ تعریف میں استعمال کیے گئے الفاظ (مالی، جنسی، جذباتی تشدُّد) کی تعریفات بھی ان قوانین میں مشترک ہیں۔ قانون پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی ان میں تقریباً یکساں ہے اور سزائیں بھی وہی تجویز کی گئی ہیں جو اس بل میں بیان کی گئی ہیں، مگراس طرح کے قوانین کے نفاذ کے بعد بھی وہاں خواتین پر تشدُّد روز افزوں ہے۔ برطانیہ کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پچھلے سال اگر دولاکھ خواتین پر تشدُّد ہوا تواس سال تین لاکھ چھیانوے ہزارخواتین تشدُّد کا نشانہ بنیں۔ امریکہ کے اعداد وشمار تو اورزیادہ سنگین ہیں، ہر تین میں سے ایک عورت اورہر چار میں سے ایک مرد تشدُّد کا شکار ہوا ہے۔ ا س سے یہ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ جو قانون مغربی تہذیب وثقافت کا آئینہ دار ہے ، وہاں کے ماحول کے مطابق ہے اور قانون پر عمل درآمد کے لیے مؤثر ادارہ جاتی نظام بھی موجود ہے، وہاں یہ قانون تشدُّد کو روکنے میں ناکام ہے تو پاکستان میں یہ قانون مطلوبہ اہداف کیسےحاصل کرسکے گا؟
تشدُّد کی تعریف میں مغربی اداروں اور ملکوں کے حوالے ذکر کرنےسے مقصود یہ ہے کہ بل میں تشدُّد کو علی الاطلاق قابلِ تعزیر جرم اس وجہ سے قراردیاگیا ہے کہ مغربی ممالک اُسےجرم قرار دیتے ہیں۔ یہ ممالک جنون کی حدتک اپنی تہذیب وثقافت کا غلبہ چاہتے ہیں، یہ خود دین دار نہ بھی ہوں، مگر اپنے دین کے بارے میں شدید تعصُّب رکھتے ہیں، اس جنون،تعصب اورسیاسی اورمعاشی غلبہ کی وجہ سے یہ ہر جگہ خاص طورپر اسلامی ممالک میں اپنے کلچر کا فروغ چاہتے ہیں، کیونکہ صرف اسلام ہی ان کا حقیقی حریف ہے۔
اس بل کی رو سے تشدُّد پانچ قسم کا ہوسکتا ہے، پہلی قسم جسمانی تشدد ہے، جس کا حاصل کسی کو جسمانی اذیت دینا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’توضیح اول:اس دفعہ کی اغراض کے لیے:
(الف) ’’جسمانی استحصال ‘‘سے مراد تمام افعال جن کے ذریعے سے نادار شخص کو جسمانی ضرر دیا گیا ہو اور اس میں مجموعہ تعزیرات ِ پاکستان کے ابواب سولہ الف ، سترہ ،بیس ، بیس الف کے تحت تمام جرائم شامل ہیں۔ بعد ازیں جن کا حوالہ اس دفعہ میں پی پی سی (PPC) کے طور پردیا گیا ہے ۔‘‘

اس کاحاصل یہ ہے کہ ’’تعزیراتِ پاکستان‘‘ میں جسمانی ضررکے متعلق جوجرائم مذکور ہیں، ان کو گھریلو تشدد کے جرم میں بھی شامل کردیا گیا ہے۔ آگے دفعہ ۴ میں سزا کے بیان میں قراردیاگیا ہے کہ اگر جرم تعزیراتِ پاکستان کے تحت آتا ہوتو اسی کے تحت سزا دی جائے گی اور اگر اس کے تحت نہ آتا ہو تو اس بل کے تحت سزا دی جائے گی۔
اس دفعہ پر درج ذیل شرعی ملاحظات ہیں:
۱:-    والد اور اس کی غیر موجودگی میں دادا یا وصی کو بچوں پر اورقرآن کریم کی صریح نص کے مطابق شوہر کو بیوی کے متعلق حقِ تادیب حاصل ہے ،اس لیے اگر والد،دادا ، یا اُن کے وصی کا عمل یا شوہر کا عمل دائرۂ تادیب کے اندر ہو تو اُسے قابلِ تعزیر جرم نہیں قراردیا جاسکتا اور اگر تادیب اپنی حدود وقیود میں نہ ہوتو اس پر سزا کا نفاذ درست ہے۔
۲:-    یہ دفعہ اپنے عموم کی وجہ سے حقِ تعلیم وتربیت کے بھی خلاف ہے۔ علم دینے کو تعلیم اور اخلاق کی درستگی کو تربیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ازروئے شرع والدین پر اولاد کی تعلیم وتربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔تعلیم وتربیت کے لیے اگر زبانی تنبیہ وسرزنش کافی نہ ہو تو آخری چارۂ کار کے طورپر مناسب جسمانی سزا کی ضرورت پڑتی ہے۔ حدود وقیود کے اندر مناسب جسمانی سرزنش کی اجازت جس طرح والد کو ہے، اس طرح اس کے وصی کواورپھر دادا اوراس کے وصی کو، اسی طرح معلم اور مربی کو بھی حاصل ہے۔ عقل ودانش کا تقاضا بھی یہ ہے کہ والدین یا اولیاء پر کوئی ذمہ داری عائد کی جائے تو نتائج کے حصول کے لیے انہیں درکار قوت کے استعمال کی بھی اجازت دی جائے۔
۳:-    اس دفعہ میں تیسر اسقم ابہام کا ہے کہ تشدُّد کی کیفیت یا مقدار کو واضح نہیں کیا گیا ہے۔
۴:-    چوتھاسقم یہ ہے کہ گھر کے سربراہ سمیت عام مسلمان کو بھی خاص شرائط کے تابع ازالۂ منکر کے لیے درکار قوت کے استعمال کا حق ہے، مگر اس دفعہ میں اسے بھی ممنوع قراردیا گیا ہے، چنانچہ اس سے لازم آتا ہے کہ معاصی کے ارتکاب پر سوائے ریاست کے کسی کو تعزیر ی سزا دینے کا حق نہیں ہے، حالانکہ انہیں یہ حق حاصل ہے۔ 
’’(ب) ’’جذباتی، نفسیاتی اور زبانی استحصال ‘‘ جہاں متضرر شخص مسئول الیہ کے ہتک آمیز یا ذلت آمیز برتاؤکے طرزِ عمل میں مبتلا ہو اور اس میں شامل ہے، لیکن اس تک محدود نہ ہوگا ۔‘‘
اس شق میں جرم کی دوسری اورتیسری قسم جذباتی اورنفسیاتی تشدُّدکا بیان ہے۔ 
۱:-     قرآن حکیم میں ہے کہ: ’’وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَشَیْءٍ جَدَلًا‘‘ (انسان ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے)’’خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ‘‘( کھلا جھگڑالو) کے الفاظ بھی انسان کے متعلق قرآن پاک میں وارد ہوئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سرشت میں جھگڑے کا مادہ ہے، پھر جب غربت، جہالت اورمعاشی ناہمواری اورگھریلو غیرہم آہنگی بھی ہو تو لامحالہ کنبے کے افراد چڑچڑے پن اوربدخلقی کا شکار ہوجاتے ہیں، چنانچہ اگر گھرانہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ،تہذیب وشائستگی کا نمونہ، مالی طورپر خوشحال، نیک سیرت اور خوش خصال بھی ہو، پھر بھی افراد مختلف طبائع، متضاد خواہشات اورمتنوع جذبات کے مالک ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ساتھ رہنے بسنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی باتوں سے ذہنی کوفت، قلبی کدورت اوردماغی تشویش ہوہی جاتی ہے، شاید ہی کوئی گھرانہ اس سے محفوظ ہو، مگر اس قسم کی بدخلقی یا بدسلوکی کو بھی قانون کے دائرے میں لاکر قابلِ سزا قراردے دیا گیا ہے۔جن مغربی ممالک میں اس نوع کے قوانین رائج ہیں، وہاں بھی ہر قسم کی بدسلوکی کو قابلِ تعزیر جرم نہیں قراردیاگیا ہے، مگر کیا کیجیے کہ ! کبھی نقل ،اصل سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
۲:-    یہ بل متضاد امور پر مشتمل ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھےبرتاؤ کا تعلق حسنِ سلوک سے ہے اورحسنِ سلوک کاتعلق اخلاقیات کے ساتھ ہے اور اخلاقیات کا مادہ قلب میں پایا جاتا ہے۔ قلب کی اصلاح کانام تربیت ہے اورتربیت کے لیے تادیب کی ضرورت ہے اور تادیب میں ڈانٹ ڈپٹ بھی شامل ہے۔اب اس قانون کا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف حسنِ اخلاق کی خلاف ورزی جرم ہے جس پر سزا ہے اور سزا کامطلب یہ ہے کہ قانون کو بدخلقی کی ضد یعنی حسنِ اخلاق مطلوب ہے ،دوسری طرف حسنِ اخلاق کی تعلیم ممنوع ہے، کیونکہ تادیب ممنوع ہے اور تادیب کامقصد حسنِ اخلاق ہی کاحصول ہے۔تادیب کے علاوہ تعزیری سزا ؤں کا مقصد بھی اصلاح وتربیت اور تہذیبِ نفس ہے۔دراصل اسلامی سزاؤں کا مقصد صرف تخویف، عبرت آموزی اور زجروتوبیخ نہیں، بلکہ مجرم کی اصلاح وتربیت اور اس کو ہدایت ونصیحت اس میں سرفہرست ہے، تاکہ لوگ صرف سزا کے خوف سے نہیں بلکہ خوفِ الٰہی ،اس کی رضا کے حصول اورجرم سے قلبی نفرت کی وجہ سے اس کے ارتکاب سے باز رہیں، کیونکہ جرم معصیت ہے اورمعصیت حدود اللہ سے تجاوز ہے اورحدود اللہ سے تجاوز اللہ پاک کے غضب اورناراضگی کا ذریعہ ہے۔ ’’کنز‘‘ کی شرح ’’تبیین الحقائق‘‘ میں ہے کہ:
’’تعزیری سزا اصلاح وتادیب کے لیے دی جاتی ہے۔‘‘ (ج: ۳، ص:۲۱۱، طبع اول ۱۳۱۳ھ) 
فصول استروشنی میں ہے: 
’’تعزیری سزا اصلاح وتادیب کے لیے ہوتی ہے، البتہ حد میں یہ ضروری نہیں ہے کہ تادیب مقصود ہو۔‘‘
امام ماوردیؒ ’’الأحکام السلطانیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’تعزیر کا مقصد تادیب،حکمت عملی اورزجر وتوبیخ ہے۔‘‘ (ج:۳، ص:۲۴۴)
۳:-    جس بچے کو بری صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے والدین نے ڈانٹا ہویا جس بیوی کوشوہر نے ٹوکا ہو یا جو جوان بیٹی رات گئے اجنبی شخص کی گاڑی سے اُتر کرگھر میں داخل ہو ئی ہو اور باپ نے اس سے پوچھ گچھ کی ہو توکیا اسے انسانیت سوز اورتوہین آمیز برتاؤ قراردیا جائے؟ 
۴:-    اصطلاح ’’نفسیات‘‘ کی استعمال کی گئی ہے، مگر علمِ نفسیات کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ نفسیاتی ضرر ماہرِ نفسیات کے نزدیک یہ ہے کہ انسان اپنے روزمرہ کے معمولات انجام دینے سے قاصر ہوجائے، مثلاً ایک عورت گھر کے کام کاج اوربچوں کی پرورش ونگہداشت کا فریضہ انجام نہ دے سکے۔ صرف ذہنی کوفت اوردماغی اذیت کا مطلب نفسیاتی ضرر نہیں ہے، پھر اس کا فیصلہ کہ کوئی شخص نفسیاتی اذیت میں مبتلا ہے ماہرِ نفسیات کا کام ہے۔ کوئی عورت یا بچہ یا کوئی اور شخص خودیہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ وہ نفسیاتی ضرر کا شکار ہوا ہے اور نہ ہی جج یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔
ماہرینِ نفسیات میں سے بھی سائیکاٹرسٹ (Psychiatrist) نہیں، بلکہ سائیکالوجسٹ (Psychologist) اس کاتعین کرسکتا ہے کہ مدعی‘ ذہنی اذیت کا شکار ہےیا نہیں؟ اورصرف وہی اس کی رپورٹ جاری کرسکتا ہے۔سائیکالوجسٹ پاکستان میں اعداووشمار کے مطابق پانچ لاکھ افراد کے لیے ایک ڈاکٹر بھی نہیں ہے ۔سائیکالوجسٹ کو بھی مرض کا کھوج لگانے کے لیے مریض کے ساتھ کئی نشستوں کی ضرورت پڑتی ہے، جس میں بسااوقات مریض کے اہلِ خانہ کو بھی بلانا پڑتا ہے ۔ان تمام مراحل کے بعد عین ممکن ہے کہ مدعی کسی اوروجہ سے ذہنی اُلجھن اور نفسیاتی عارضہ کا شکا رہو جس میں احساسِ محرومی، خوف، فکرمندی وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں۔
’’(اول) حسد یا رقابت میں مبتلا رکھنے کا متواتر مظاہرہ کرنا جو ستم رسیدہ کی خلوت، آزادی، اخلاقی بلندی اور سلامتی پر متواترچڑھائی کا باعث بن رہا ہو۔‘‘
یعنی اولاد یا خاندان کا کوئی اور فردنجی زندگی میں کیا کرتا ہے ،کیا پہنتا ہے،کہاں اُٹھتا بیٹھتا ہے، کن لوگوں سے میل ملاقات رکھتا ہے،کیا مشاغل اورکیا ارادے ہیں، سربراہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے، اس لیے کہ آزادی اورخلوت میں دخل اندازی ہے۔ جوان بیٹاباپ ہی کے گھر میں دیگرخواتین کی موجودگی میں کسی غیر محرم خاتون کے ساتھ خلوت میں ہے تو کسی کو پوچھنے ،روکنے یا ٹوکنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ خلوت میں بے جادخل اندازی ہے۔ إنا للہ
’’(سوم)دھمکی دیتا ہو جو زوجہ یا شراکت شدہ گھر کے دیگر اراکین میں فطری تکلیف کا باعث بنتا ہو۔‘‘
دھمکی اگرنا حق نہ ہوتو نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ قرآن حکیم میں کثرت سے وعیدیں ذکر ہیں اور ’’انذار وتبشیر ‘‘اس کا خاص اسلوب ہے۔ ہماری مقننہ اس بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ 
انبیاء کرامo جب دعوت واصلاح کا کام شروع کرتے ہیں تو بعض طبائع کو سخت ناگوار گزرتا ہے، یہاں تک کہ انبیاء کرامo کے قتل کے بھی مرتکب ہوجاتے ہیں توکیا نیکیوں کی ترویج اوربرائی کی روک تھام کو اس وجہ سے چھوڑدیاجائے کہ سرکش طبائع کو ناگوار گزرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ نیک خصلت کوبرائی سےنفرت ہوتی ہے تو بدخصلت کا بھی نیکی سے دم گھٹتا ہے، مگر صرف اس وجہ سے اصلاح وتذکیر کو نہیں چھوڑا جاسکتا کہ کج طبیعت کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔بعض اوقات اصلاحِ حال کے لیے تخویف کی تدبیر سے کام لینا پڑتا ہے، مگر اسے دھمکی نہیں بلکہ علاج تصور کیا جاتا ہے۔ اسی حکمت کے تحت مختلف قوانین میں سزاؤں کا ذکر ہوتا ہے جو دراصل دھمکیاں ہی ہوتی ہیں، مگر قانون ساز کبھی بھی اُسے خلافِ مصلحت یا عقل نہیں قراردیتے ہیں۔
الغرض اگر گھر کے دوچار افراد معاصی میں مبتلا ہوں اورگھر کا کفیل انہیں ڈراتا دھمکاتا ہے اور نتائجِ بد سے آگاہ کرتا ہے یا لڑکا بری صحبت میں بیٹھتا ہے ،نشہ کرتا ہے،جواکھیلتا ہے اورباپ اسے خرچ بندکرنے یا گھر میں محبوس رکھنے کی دھمکی دیتا ہے تو دین ودانش کی رو سے اُسے غلط نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔
’’(چہارم) دیوانگی یا ناپیداواری کے بے بنیاد اتہام پر طلاق دینے یا دوسری شادی کرنے کی دھمکی دیتاہو۔‘‘
سوال یہ ہے کہ:۱:-     جب طلاق دینا جرم نہیں ہےتو بانجھ پن یا دیوانگی کی وجہ سےطلاق کی دھمکی کیسے جرم ہوسکتی ہے؟
۲:-    اگرکسی کو طلاق کی دھمکی دینے کا حق نہیں ہے تو اسے طلاق دینے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ طلاق کاحق تو شوہرکوشرعاً اور قانوناً حاصل ہے۔
۳:-    اگر شوہرکو طلاق دینےکا حق نہیں ہے تو اسے دوسرے نکاح کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر دوسرا نکاح جرم ہے تو قانون نے مشروط ہی سہی اس کی اجازت کیوں دی ہے؟
۴:-    فرض کیجیے کہ شوہر کے بجائے بیوی کی طرف سے شوہر کو دھمکی ہو، مثلاً وہ دھمکی دے کہ وہ شوہرکا گھرچھوڑجائے گی یا وہ بذریعہ عدالت خلع حاصل کرلے گی یا نکاح فسخ کردے گی تواسےجرم نہیں قراردیا گیا ہے،اسی طرح اگر شوہر نے بیوی کو حقِ طلاق تفویض کیا ہو اور بیوی اس حق کو استعمال میں لانے کی دھمکی دیتی ہو تو اُسے بھی جرم نہیں کہاگیا ہے۔اس طرح یہ دفعہ عدمِ مساوات پر مبنی ہے، حالانکہ آئین قراردیتا ہے کہ شہریوں سے بلاتفریقِ جنس وصنف یکساں سلوک کیا جائے گا اور قانون کا نفاذ سب پر مساوی ہوگا۔
۵:-    اگربیوی شوہر کا گھر چھوڑ جائے تو شوہر کواعادہ حقوقِ زن شوئی کے تحت عدالت سے دادرسی کا حق ہے، مگر وہ قانون کتنا مؤثر ہے اوراس کے نتائج کیا ہیں؟!دنیا اس سے واقف ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگربیوی اندرونِ خانہ ایسا رویہ رکھتی ہے جوصرف حسنِ معاشرت ہی کے خلاف نہ ہو، بلکہ اس سے مقاصدِ نکاح بھی فوت ہوتے ہوں تو قانون میں شوہر کے لیے کیا دادرسی ہے؟
۶:-    فاترالعقلی ،پاگل پن اوربانجھ پن کے بے بنیاد الزامات اگر شوہر کی طرف سے قابلِ سزا ہیں تو عورت کی ساری طاقت سمٹ کر اس کی زبان میں جمع ہوجاتی ہے اوروہ زبان سے تیز خنجر کا کام لیتی ہے۔ کیا اس کے بے بنیاداتہامات ،سنگین الزامات اورناروااقدامات پر کوئی سزاتجویز کی گئی ہے؟ یا فرض کرلیا گیا ہے کہ قصوروارہمیشہ مرد ہی ہوتا ہے۔ 
’’(پنجم)شراکت شدہ گھر کی عورت یا کسی بھی رکن کے کردار پر جھوٹا الزام لگا رہا ہو۔‘‘
اس دفعہ میں میں کئی وجوہ سے کلام ہے:اول: اس کے لیے قانونِ قذف موجود ہے۔
دوم :    اگر عورت کے کردار پر سنگین الزام ہو تو اس کے لیے لعان کی کارروائی ہے۔
سوم :     قانون‘ یکطرفہ ،امتیاز ی اورجانب داری پر مبنی ہے۔اگریہی طرزِ عمل عورت کی جانب سے ہو توقانون میں اس کاکیا سدِباب کیا گیا ہے؟
چہارم :     سربراہ کو اگر فیملی کے رکن کے متعلق کردار کی پستی کا علم ہوجائے اوروہ اس مقصد سے اس کے سامنے اس کا اظہار کردے، تاکہ وہ دوبارہ اس کے ارتکاب سے بازرہے تواس سے کوئی شرعی محظورلازم نہیں آتا ہے۔ رہا ثبوت! تو عائلی زندگی میں ایسے اُمور کے عدالتی ثبوت نہیں تلاش کیے جاتے، بلکہ شرفاء بیرونِ خانہ اس کا اظہار بھی ناپسند کرتے ہیں ۔
’’(ششم)متضرر شخص کی جان بوجھ کر یا غفلت سے عدم خبر گیری کرتا ہو۔‘‘
یہ شق دانستہ یا غیر دانستہ بے توجہی برتنے اور لاپرواہی کرنے کے بیان میں ہے، مثلاً: چھوڑجانا،دیکھ بھال نہ کرنا،مناسب خوراک وپوشاک یا محفوظ رہائش فراہم نہ کرنا وغیرہ ۔ اس شق میں کئی خامیاں ہیں، مثلاً:
۱:-    جس شخص کو خبر گیری نہ کرنے پر سزا دی جارہی ہے، کیاخبر گیری اس کی ذمہ داری بھی ہے؟ ایک شخص الف کے ساتھ اس کی رضاعی ،سوتیلی اورمنہ بولی اولاد بھی رہائش پذیر ہے،ان میں سے کسی کی خبر گیری نہ کرنے پر الف سزاکا مستوجب نہیں ہے، کیونکہ ان کی خبر گیری الف کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ الغرض اس قانون کی نظر میں وہ شخص بھی قانون شکن ہے، جس پر قانون کی تعمیل واجب ہی نہیں ہے۔
۲:-    کینیڈا وغیرہ ممالک میں خاندان کے ایک فرد کو دوسرے فرد کی دیکھ بھال کا فرض یا ڈیوٹی ٹو کیئر( Duty to care) کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اورریاست اسےاخراجات اور دیکھ بھال کا معاوضہ بھی فراہم کرتی ہے۔ایساشخص اگرذمہ داری کی ادائیگی میں غفلت برتتا ہے یاناکام رہتا ہے تو اسے جرم گردانا جاتا ہے۔ہمارے قانون سازوں نے ان کی نقل میں بے توجہی کو جرم تو قراردے دیا ہے، مگر یہ دیکھنا گوارانہیں کیا کہ وہاں ریاست لاپرواہی کو کب جرم قرار دیتی ہے۔
۳:-    غفلت کی معمولی سے لے کر شدید تک کئی قسمیں ہیں ۔مغربی ممالک میں بھی ان میں سے ہر صورت جرم نہیں ہے، مگریہ بل علی الاطلاق ہر قسم کی بے توجہی کو جرم قراردیتا ہے۔ 
۴:-     اس شق میں Abandonment (عدم خبرگیری،ترک،دست برداری )کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔عائلی قوانین میں اس کامطلب یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک دوسرے کو بحالت عدم خبر گیری چھوڑدے۔اگر والدین میں سے کوئی یا بچے کامحافظ بچے کوقطع تعلق کی نیت سے کسی جگہ ڈال دے یا چھوڑدےتوChild abandonment ہونے کی وجہ سے یہ بھی قانوناً جرم ہے ۔
ازروئے شریعت اگر شوہر بیوی کی خبر گیری نہیں کرتا ہے تواسے نفقہ کے حصول کا حق ہے، اور اگر اس کےساتھ سکونت کر کے غائب ہوجاتا ہے تو وہ نالش دائرکرکے نکاح منسوخ کرسکتی ہے، لیکن جب کسی کی کفالت وحفاظت واجب نہ ہو تو اس سے بے توجہی برتنا قابلِ سزا جرم بھی نہیں ہے۔
۵:-    اگرلڑکے یا لڑکی کی حضانت کسی پرواجب ہے اوروہ حضانت سے غفلت برتتا ہے تو حقِ حضانت دوسرے قریب تررشتہ دارکو منتقل ہوجاتا ہے، مگراسے جرم مستوجبِ تعزیر قرار دینا درست نہیں۔اصل میں حضانت ایک رضاکارانہ عمل ہے، البتہ جب کوئی اوراس ذمہ داری کو اُٹھانے والا نہ ہو یا ہو مگر اہلیت نہ رکھتا ہو تو پھر قریب تر رشتہ دار پر اس کاوجوب عائد ہوجاتا ہے۔
۶:-    اگر لڑکا سات سال اورلڑکی نوسال سے زائد کی ہے تو قریب تر ولی پر اس کی کفالت واجب ہے اورولی کو بزوروجبر کفالت پر مجبور کیا جائے گا، لیکن اگر کوئی شخص شرعی ولی نہیں ہے تو اسے مجبورکیا جاسکتا ہے نہ ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ 
۷:-    جن لوگوں کی ضروریات کی فراہمی کسی شخص پر واجب ہو اوروہ اس میں ناکام نہ رہتا ہو، مگر کسی فرد کی طرف فطری میلان یا قلبی رجحان نہیں ہےتو اسے لاپرواہی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔
۸:-    بعض اوقات بے توجہی بلکہ لاتعلقی ضروری ہوجاتی ہے، مثلاًکسی فرد کے برے افعال کی وجہ سے اگر سربراہِ خانہ یا تمام اہل خانہ اس سے لاتعلقی اختیارکرتے ہیں تو اسے عدم خبر گیر ی قراردے کر قابلِ سزا جرم نہیں گردانا جاسکتا ۔بہت دفعہ شریعت یہ تجویز کرتی ہے کہ کسی سے معاشرتی بائیکاٹ کرلیا جائے ۔نصوصِ شرع میں نہ صرف اس کی اجازت ہے، بلکہ بسااوقات ایسا شرعی وجوب کی صورت اختیارکرجاتا ہے۔ 
۹:-    اگر فیملی کے ایک ممبر نے پوری فیملی کی زندگی اجیرن کررکھی ہے اوراس وجہ سےفیملی اس کابائیکاٹ کرتی ہے توکیا پوری فیملی کو سزا دی جائے گی ؟ اگرسب کو جرم کا مرتکب قراردیا جائے تو حقیقی مجرم گھر میں اورمظلوم فیملی پوری کی پوری جیل میں ہوگی اوراگرسب کو قیدوبند کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی دی جائے تو فیملی دیوالیہ اورحقیقی مجرم کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔
اگر صرف فیملی کے سربراہ کو سزا دی جائے گی تو قانون کے یکساں نفاذ کا آئینی اصول فوت ہوتا ہے اور یہ حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے کہ اس بل کے حملوں کا ہدف خاندان کا سربراہ ہی کیوں ہے؟!۔
حقوقِ نسواں تحریک کی نظر میں تشدُّد کا ذمہ دار خاندان ہے، اس لیے خاندان کو ختم ہونا چاہیے۔ خاندان اس وقت ختم یا کمزور ہوگا جب اس کے مرکزی ستون کوگرادیا جائے گا۔خاندان کا مرکزی ستون سربراہ خاندان ہوتا ہے،اس وجہ سےاس بل کی دفعات کا خاص نشانہ سربراہ ہے، تاکہ حملوں کی تاب نہ لاکر یا تو وہ خود ہی سربراہی سے تائب ہوجائے یا وہ برائے نام سربراہ رہ جائے۔ دونوں صورتوں میں حملہ آوروں کامقصدحاصل ہوجاتا ہے۔
۱۰:- (الف)    یہ بل تضادات کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف یہ خاندان کے ادارے کو غیر مستحکم کرتا ہے تودوسری طرف اسی ادارے سے زبردستی خیرکا طالب ہوتا ہے، مثلاً: اس پر ان افراد کی خبر گیری بھی ضروری ہے جو شریعت میں اس پر واجب نہیں ہے اور اس کی معاشی کفالت بھی ضروری ہے، حالانکہ سوائے بیوی کے ہر شخص اپنے اخراجات کا خود ذمہ دار ہے، بشرطیکہ مالدار ہو اور اگرمالدار نہ ہومگر لڑکا ہو اورکمانے کے قابل ہو تو اس کا نفقہ باپ پر واجب نہیں ہے۔نفقہ میں صرف جیب خرچ ہی نہیں بلکہ نفقہ غذائی ضروریات،رہائش اورلباس وپوشاک سب کو شامل ہے۔
(ب)    ایک طرف یہ بل کسی بلند اخلاقی معیار کے نہ ہونے پرسزا دیتا ہے تو دوسری طرف اخلاقی بلندی کےحصول کا ہر راستہ بندکرتا ہے۔ 
(ج)    ایک طرف ذمہ دار کی حیثیت (منصبِ قوّامیت ) کی نفی کرتا ہے اور قوّام کو اختیارات سے محروم کرتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں اگرافرادِ خانہ سے کوئی جرم وقوع پذیر ہوجائے تو قوّام (سربراہ) کو ہی موردِ طعن اور مستوجبِ سزا قرار دیتا ہے۔ 

مصادر ومراجع

۱:- اصطلاحی تعریفات کے لیے ملاحظہ کیجیے: خواتین پر تشدُّد، اسلامی اورقانونی نقطہ نظر، جہات الاسلام، جلد:۱۳ (جولائی، دسمبر۲۰۱۹ء) شمارہ: ۱، ص: ۱۶۱ ۔

(جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین