بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

گناہوں کی اقسام اورتوبہ کے فضائل و آداب 

گناہوں کی اقسام   اورتوبہ کے فضائل و آداب 


جرم و خطا قابلِ مؤاخذہ

انسان فطری طور پر کمزور واقع ہوا ہے، اس میں بعض ایسی قوتیں(جیسے قوتِ غضبیہ اور قوتِ شہویہ) ودیعت کی گئی ہیں کہ ان پر قابو پاناآسان نہیں، اس لیے اس سے خطاہوتی رہتی ہے،وہ کبھی جان بوجھ کر جرم کر بیٹھتا ہے، کبھی انجانے میں اس سے گناہ ہوجاتا ہے ، بھول چوک سے بھی لغزش ہوجاتی ہے۔ بہر حال خطا و جرم قابلِ مؤاخذہ ہے۔

گناہوں کی اصل

غفلت ، نسیان، بھول چوک، گمراہی اور بے راہ روی اس کی جڑ ہیں، شمس الدین ابن قیم الجوزیہ دمشقی  ؒ متوفی ۷۵۱ھ ’’الجواب الکافي ‘‘صفحہ: ۳۳۱ پر رقم طراز ہیں :
’’معاصی، شہوت و شبہات کے خلاف جہاد کے لیے حسب ذیل امور کی تکمیل ضروری ہے: ۝۱-دشمن کے مقابلے میں پامردی۔۝۲- دشمن کی نگرانی اور سر حدوں کی نگہبانی۔۝۳- قلوب اور اس کی سرحدوں کی حفاظت، تاکہ دشمن سرحدوں سے اندر نہ آسکے۔ سرحدیں یہ ہیں:۱- آنکھ، ۲-کان، ۳-زبان، ۴- پیٹ، ۵- ہاتھ، ۶- پائوں۔‘‘
یہی راستے ہیں جن سے دشمن اندر داخل ہونے کا راستہ پاتا ہے ، لہٰذا ان سر حدوں کی حفاظت کرو، تاکہ دشمن داخل نہ ہوسکے۔ یہ صحابۂ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے ،جنہوں نے ان سر حدوں کی اچھی طرح حفاظت کی تھی ، ان سر حدوں کی حفاظت ورع وتقویٰ سے کی جاتی ہے ، دعائوں میں کثرت سے اس کا ذکر موجود ہے۔

گناہ و معصیت کا ظاہری اثر

گناہ و معصیت کا ظاہری اثر یہ ہوتا ہے کہ گنہگار کو مدح و شرف کے بجائے مذمّت کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، چنانچہ اسے مؤ من ، صالح ، محسن، متقی، مطیع، منیب (اللہ سے رجوع کرنے والا) ولی، عابد ، خائف، اَوّاب (اللہ سے لَو لگانے والا) وغیرہ الفاظ کے بجائے فاجر، عاصی، معاند (مخالفِ حق)،مفسد، خائن، زانی ، لوطی، سارق (چور) قاتل، کذاب (دروغ گو) رشتہ توڑنے والااور بے وفا کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، جو اسے قہرِ الٰہی کی وجہ سے دوزخ میں جانے کامستحق اور ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے والا بنادیتا ہے۔ اس کے برعکس متقی، رحمٰن کی رضا کا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہوتا ہے۔

گناہوں کی اقسام

گناہوں کا دائرہ نہایت وسیع ہے، تاہم محققین علماء نے بڑے بڑے گناہوں کی نشاندہی کی ہے، ان سے احتراز ہر حال میں لازم ہے، چنانچہ علامہ ابن قیم الجوزیہؒ    ’’الجواب الکافي‘‘میں رقم طراز ہیں :
’’گناہوں کی دو قسمیں ہیں :۝۱-کبائر (بڑے بڑے گناہ)، ۝۲-صغائر (چھوٹے چھوٹے گناہ)۔ ان معا صی کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی فرمانبردار حاکم اپنے غلام و خادم کو کسی مہم پر دور بھیجے اور دوسرے کو حکم دے کہ گھر کا فلاں کام کرنا، پھر وہ دونوں ا س کی سر تابی کریں تو ان پر اس کی ناراضگی برابر ہوگی، وہ دونوں ہی اس کی نظر سے گر جائیں گے۔‘‘
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ’’استخفاف المعاصی ، صفحہ:۵‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ہرگناہ (گو وہ صغیرہ ہو) اپنی حقیقت کے اعتبار سے عظیم ہے، کیونکہ گناہ کی حقیقت ہے حق تعالیٰ شانہ کی نافرمانی، اور نافرمانی خواہ چھوٹی ہو، بڑی ہے، باقی گناہِ صغیرہ اور کبیرہ کا تفاوت ایک امرِ اضافی ہے، ورنہ اصل حقیقت کے اعتبار سے سب گناہ بڑے ہی ہیں، کسی کو ہلکانہ سمجھنا چاہیے، جیسے آسمانِ دنیا عرش سے چھوٹا ہے، مگر حقیقت میں کوئی چھوٹی چیز نہیں (ناپاکی‘ ناپاکی ہے، چاہے تھوڑی ہو، مگر حقیقت میں ناپاکی ہے)۔‘‘
موصوف ’’تذکیرالآخرۃ‘‘ صفحہ : ۲۵ میں رقم طراز ہیں :
’’گناہ ِصغیرہ (چنگاری کی طرح ہے) چھوٹا سا گناہ بھی تمام نیکیوں کو بربادکرسکتا ہے، جس طرح چھوٹی سی چنگاری سارے گھر کو جلا کر خاکستر بنا دیتی ہے۔‘‘
تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گناہوں کے درجات او ر ان کی سز ا ئیں مختلف ہیں۔

کبائر کی تعریف

وہ علماء جنہوںنے کبیرہ گناہوں کے عدد کی تعیین و تحدید نہیں کی ، ان میں سے بعض علماء کہتے ہیں: قرآن میں جن گناہوں سے اللہ تعالیٰ نے روکاہے ، وہ کبیرہ ہیں اور جن گناہوں سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع کیا وہ صغیرہ ہیں۔
 بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ :جن گناہوں کی ممانعت یا جن پر لعنت و غضب کی وعید یا سزا آئی ہے وہ کبیرہ ہیں، ورنہ صغیرہ ہیں۔
بعض علماء کا قول ہے: دنیا میں جن پر حد قائم ہو یا آخرت میں وعید آئی ہو وہ کبیرہ ہیں اور جن کے متعلق نہ وعید آئی اور نہ حد قائم ہوئی وہ صغیرہ ہیں۔
بعض کا مختار یہ ہے کہ: جن گناہوں کے حرام ہونے پر شرائع متفق ہیں وہ کبائر ہیں، جنہیں کسی شریعت نے حرام قرار نہیں دیا وہ صغائر ہیں۔
بعض علماء کا خیال ہے: جس گناہ کے کرنے والوں پر اللہ و رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت بھیجی ، وہ کبیرہ ہیں۔ 
جن علماء نے گناہوں کی تقسیم کبائر و صغائر میں نہیں کی، وہ کہتے ہیں :تمام گناہ جن میں سرتابی و جرأت پائی گئی اور حکمِ الٰہی کی مخالفت پائی گئی وہ کبائر میں داخل ہیں۔ جس نے’’امر اللہ‘‘حکمِ الٰہی سے سرتابی کی ، محارم و حدود اللہ کو توڑا، وہ تمام گناہ کبیرہ ہیں، اورفساد میں برابر ہیں۔

کبائر کی تعداد

کبائر کی تعداد میں اختلاف ہے: عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  چار بتاتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سات فرماتے ہیں۔ اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہما  نو بیان کرتے ہیں، بعض علماء گیارہ اور بعض سترہ کے قائل ہیں۔

گناہوں کی اقسامِ اربعہ

گناہ (ذنوب) چار قسم کے ہیں :
1-ذنوبِ ملکیہ۔2-ذنوب ِشیطانیہ۔3-ذنوب ِسبعیہ۔4-ذنوبِ بہیمیہ
1-ذنوبِ ملکیہ: صفاتِ ربوبیہ کا انجام دینا،جیسے عظمت،کبریائی،جبروت، قہر،علوکا اظہار کرنا اور خلقِ خدا کو بندہ بنانا۔
2-ذنوبِ شیطانیہ:حسد،سرکشی ،دغابازی ،کینہ پروری،مکرو فریب اورمعاصی پر اکسانا اوراطاعتِ الٰہی و فرمانبرداریِ خداوندی سے روکنا،اس کو کمتر سمجھنا، بدعت کی طرف لوگوں کو بلانا، اگرچہ اس کی خرابی پہلے سے کمتر ہے۔
3-ذنوبِ سبعیہ:  عُدوان،سرکشی،غضب،خون بہانا،کمزوروںکو دبانا، ظلم و سرکشی پر جرأت کرنا۔
4-ذنوبِ بہیمیہ :پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات پوری کرنا جس سے زنا کا ارتکاب ہوتا ہے، چوری کرنا، یتیموں اور ناداروں کا مال کھانا، بخل و حرص ، بزدلی، مصیبت کے وقت صبر نہ کرنا، وغیرہ ہیں۔

مُکفرات کے درجات ِثلاثہ

مُکفرات (گناہوں کو مٹانے والے اعمال) کے تین درجے ہیں :
1- بعض وہ اعمال ہیں جو اپنی کمزوری و ناتوانی کی وجہ سے چھوٹے گناہوں کو بھی مٹانے کے لائق نہیں، چنانچہ بعض نیک اعمال‘ اخلاص اورحقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی بناپرضعیف دوا کی حیثیت رکھتے ہیں جو کمیت و کیفیت کے اعتبار سے بہت کم اثر کرتی ہے۔
2- بعض وہ اعمال ہیں جو صغائر کے لیے کفارہ ہوجاتے ہیں، چھوٹے گناہ ان کی وجہ سے معاف ہوجاتے ہیں، لیکن وہ کبائر میں سے کسی گناہ کو نہیں مٹاتے۔
3- وہ اعمال ہیں جو ایسی طاقت رکھتے ہیںکہ صغائر کو مٹاتے ہی ہیں، بعض کبائر کو بھی مٹادیتے ہیں۔ 
اسماعیل حقی بروسیؒ متوفی ۱۱۳۷ھ نے ’’روح البیان في تفسیر القرآن، ج:۲، ص:۲۸۶‘‘ میں آیۂ شریفہ: ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰی، الخ‘‘ کی تفسیر میں گناہوں کی تین قسمیںذکر کی ہیں، چنانچہ وہ رقم طراز ہیں:
ترجمہ: ’’تم جان لو کہ گناہوں کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ گناہ ہے جوبیک وقت اللہ اوربندے دونوں کے حق سے تعلق رکھتاہے، مثلاً زنا، لواطت اور غیبت وبہتان ہیں۔ آخری دوگناہ غیبت وبہتان کاتعلق آپ کے ساتھ اس وقت تک ہے جب تک ان گناہوں سے اسے خبرنہ لگے جس کی بدگوئی کی گئی ہے اور جس پر بہتان تراشی کی گئی ہے اور جب اسے خبر ہوگئی اور اس نے معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ بھی معاف فرمادیں گے۔ اسی طرح اگرکسی کی بیوی سے زناکیا، جب تک شوہر معاف نہ کرے معاف نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ حق عورت پر شوہر کے منجملہ حقوق میں سے ایک حق ہے، لہٰذا شوہر سے معاف کرانے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد ہی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ شوہر سے معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس فعل کو بعینہ ذکرنہ کرے، بلکہ یوں کہے کہ: تمہارا میرے ذمہ جو حق ہے، اس کو معاف کردے، لہٰذا شوہر کایہ کہنا کہ میں اپنے تمام حقوق سے جو تمہارے ذمہ ہیں معاف کرتا ہوں، کافی ہوگا، لہٰذایہ معلوم شے کی صلح مجہول شے پر ہوئی۔ یہ امتِ محمدیہ کے لیے کرامۃً جائزہے، ورنہ پچھلی تمام امتوں میں یہ ضروری تھا کہ گناہ معاف کراتے وقت اس گناہ کاذکر کیاجائے جسے معاف کراناتھا ،پھراللہ تعالیٰ کی معافی ہوتی تھی۔
دوسرا: وہ گناہ ہے جس کابندہ سے تعلق اس حیثیت سے ہے کہ وہ اعمال اللہ تعالیٰ نے بندے پرفرض کیے ہیں، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج ہے، کسی نے انہیں چھوڑ رکھا ہے، لہٰذا محض توبہ کرنا کافی نہیں ہے جب تک ان کی قضانہ کی جائے، اس لیے کہ یہ گناہ ایسا گناہ ہے جس کی توبہ کی شرط یہ ہے کہ وہ چھوڑے ہوئے عملوں کی قضا کرے، ورنہ توبہ بے اثر رہے گی۔
تیسرا: وہ گناہ ہے کہ جس کاتعلق گناہ کرنے والے اوردوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہے، مثلاً کسی کا مال چھین لیا، غصب کرلیا، یاکسی کی ناحق پٹائی کی، یاکسی کوگالی دی، یا ناحق کسی کو مارڈالا، لہٰذا صرف توبہ کرنا کافی نہیں ، جب تک کہ جس کامال لیا یاگالی دی وہ یا اولیائِ مقتول معاف نہ کریں، یاپھر اعمالِ صالحہ میں اتنی کوشش کی جائے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان دونوں کی آپس میں صلح کرائیں، چنانچہ بندہ جب توبہ کرے اور اس کے ذمہ لوگوں کے حقوق بھی ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کے حقوق اداکرے، اگر لوگوں کے حقوق اداکرنے سے عاجز آجائے اور قاصر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی مغفرت فرمائیں گے، چنانچہ قیامت کے دن اس خصم کو حکم دیں گے کہ اپنا سراٹھاؤ، جونہی وہ سر اٹھائے گا بڑے بڑے محل اس کی نگاہ کے سامنے ہوںگے، جنہیں دیکھ کر یہ پوچھے گا: اے اللہ! یہ کس کے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تم بھی اُنہیں لے سکتے ہو، ان کی قیمت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کومعاف کردو، تووہ کہے گا: اے اللہ!میں نے معاف کیا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اورجنت میں چلے جاؤ۔‘‘ (روح البیان فی تفسیر القرآن،ج:۲،ص:۲۸۶)

توبہ اور اس کی شرائط 

ہر مؤمن مکلف پرگناہ سے توبہ کرنا فرض ولازم ہے اور اس میں تین باتیں ضروری ہیں:
1- گناہ پر ندامت وشرمساری اس حیثیت سے نہیں کہ اس کوبدنی یامالی نقصان ہواہے، بلکہ اس حیثیت سے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوئی ہے۔
2- بلاتأخیر اورسُستی کے پہلی ممکنہ فرصت میں گناہ کوچھوڑنا۔
3 - کبھی بھی اس گناہ کونہ کرنے کا پختہ عزم اورا رادہ رکھنا اور اللہ نہ کرے پھر وہ گناہ ہوجائے توازسرِ نو اس عزم وارادہ کی تجدیدکرنا۔

توبہ کے آداب

1- نہایت عاجزی وانکساری سے گناہ کااعتراف واقرار کرنا۔2- اس پر استغفار کرنا، اس غلطی وگناہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں نہایت عاجزی وتضرع سے معافی مانگنا۔e- کثرت سے نیکیاں کرکے پچھلی بُرائیوں کومِٹانا۔

توبہ کے مراتب

1- کفّارکاکفر سے توبہ کرنا۔ 2-نیکی وبرائی کرنے والوں کاکبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا۔ 3- سچّے اورنیک لوگوں کا صغائر (چھوٹے گناہوں) سے توبہ کرنا۔ 4-عبادت گزاروں کا کاہلی، کمزوری اور کوتاہی سے توبہ کرنا۔ 5- سالک ورَہروانِ طریقت کادلوں کے روگ اورکھوٹ سے توبہ کرنا۔ 6- پارساؤں کاشبہات سے توبہ کرنا۔ 7- اربابِ مشاہدہ کاغفلتوں سے توبہ کرنا۔

اسبابِ توبہ 

1- عذاب کا خوف، 2- ثواب کی امید، 3-حساب کے دن کی ندامت وشرمساری، 4- حبیب کی محبت، 5-ذاتِ باری تعالیٰ کا مراقبہ، 6- بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونے کا خیال، 7- انعامِ الٰہی کا شکر۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گناہوں کومعاف کرانے کاذریعہ توبہ ہے، اور توبہ وہی قبول کی جاتی ہے، جس میں آئندہ گناہ نہ کرنے کاپختہ عزم ہوتاہے، قرآن حکیم کہتا ہے:
’’اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗیِٕکَ یَتُوْبُ اللہُ عَلَیْھِمْ۝۰ۭ وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا ۝ وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ ۝۰ۚ حَتّٰٓی  اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰۗیِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا  ‘‘  (سورۃالنساء:۱۷-۱۸)
ترجمہ: ’’اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لے لی ہے، وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کرڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں، چنانچہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور اﷲ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی ، توبہ کی قبولیت ان کے لیے نہیں جو بڑے گناہ کرتے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت کا وقت آکھڑا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اب توبہ کرلی ہے، اور نہ ان کے لیے ہے جو کفر ہی کی حالت میں مرجاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے دُکھ دینے والا عذاب تیار کررکھاہے۔‘‘
معلوم ہوا جو سچّے دل سے توبہ کرتا اورآئندہ ہمیشہ اصلاح کی غرض سے کبھی گناہ نہ کرنے کاپختہ وعدہ کرکے توبہ کرتا ہے ، اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اپنی غلطی پر ندامت ہوتو توبہ کادروازہ کھلاہوا ہے :

ایں درگۂِ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

اس سے معلوم ہوا کہ توبہ کی اُمید پر گناہ کرتے رہنا درست نہیں، ایسی توبہ مقبول ہی نہیں، انسان جب تک زندہ رہے اپنے گزشتہ گناہوں پراسے ندامت وپشیمانی ہوتی رہے اور وہ تلافیِ مافات کے لیے بڑھ چڑھ کر نیک کام کرتا رہے۔ یہ بھی اس عالم میں ایک روحانی سزا ہے، اس سزاکے بغیر اس کا عدل قائم نہیں رہتا۔ ذراغور فرمائیں! ساری عمر جسے اپنے بُرے کاموں کارنج اور صدمہ رہے وہ باربار توبہ کرتا رہے، کیا یہ سزا کم ہے؟ جب توبہ میں دوامی اصلاح کاعہد شامل ہے تواعمال محدود نہ رہے، اس لیے کہ دوامی عہد کے معنی یہ ہیںکہ اگر تائب کو غیر محدودزندگی مل جائے تو بھی وہ اس عہدپرعمل کرنے کاپختہ ارادہ رکھتا ہے۔ قدرت کی طرف سے انسان کی فطرت میں ضعف ونسیان اس لیے ودیعت کیاگیا ہے کہ وہ اپنے مالک وخالق کے حضور میں توبہ کرتا رہے اور سربسجود ہوکر اس کی عبودیت کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگتا رہے۔
امام ابن تیمیہؒ کے نامورشاگرد علامہ ابن قیم الجوزیہؒ (۷۵۱ھ) الجواب الکافي، ص:۱۲۱ میں رقم طراز ہیں:
ترجمہ:’’توبہ ایسی چیز ہے کہ توبہ کرنے کے بعد بندہ گناہ کرنے سے پہلے سے بھی بہتر حالت میں آجاتا اور اس کادرجہ پہلے سے بھی بلند ترہوجاتا ہے، حالانکہ خطا وگناہ نے اس کی ہمت پست کردی تھی، اس کاارادہ کمزور اور اس کاقلب بیمار ہوگیا تھا۔ اگر توبہ نے اسے پہلی صحت کی طرف نہیں لوٹایا اور وہ اس درجہ کونہیں پاسکا تو معلوم ہوتا ہے اس نے سچے دل سے توبہ نہیں کی۔ کبھی توبہ سے اخلاقی بیماری جاتی رہتی ہے، سابقہ صحتِ ایمانی لوٹ آتی ہے، وہ اچھے اعمال کرتارہتا ہے توبلند درجہ پالیتا ہے، جب میلان معصیت کی طرف بڑھ جائے تووہ معصیت اصل ایمان پراثر انداز ہوجاتی ہے، اور آدمی شک وشبہات اور نفاق کے دلدل میں پھنس جاتا ہے، یہ گناہوں کی طرف ایسا میلان ہے کہ جب تک وہ توبہ سے اپنے ایمان کی تجدید نہیں کرتا اس دلدل سے نہیں نکلتا۔‘‘

مغفرت ومعافی کانظام

ایک مسلمان سے گناہ ہوجاتے ہیں، لیکن خوفِ خدا اورآخرت کی بازپرس اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، وہ اپنے کیے پربرابر پچھتاتا، پشیمان ہوتا، بارگاہِ الٰہی میں روتا، گڑگڑاتا، سچے دل سے معافی مانگتا، توبہ کرتا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرماکر جہنم کی سزابھی معاف کردیتا ہے۔
مغفرت ومعافی کے دس اسباب ہیں، جن کی نشاندہی علامہ ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السُّنّۃ‘‘ میں کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’مطلق گناہ ہرمومن کے لیے جہنم کے عذاب کاباعث ہے، آخرت میں یہ عذاب حسبِ ذیل دس اسباب کی وجہ سے ختم کردیا جاتا ہے:

پہلا سبب
 

توبہ ہے، گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے جیساکہ اس نے کوئی گناہ کیاہی نہیں۔ کفر، فسق، فجور، نافرمانی اورعصیان سب سے توبہ قبول کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
 ’’أَفَلَا یَتُوْبُوْنَ إِلَی اللہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘  (المائدۃ:۷۴)
ترجمہ: ’’کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رُجوع نہیں کریں گے؟ اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالانکہ اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘
توبہ سے گناہ معاف ہی نہیں ہوتے، بلکہ اللہ کے یہاں مرتبہ بھی بلند ہوتا ہے ،جب وہ کسی کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور وہ توبہ کرتا ہے تو ایسی توبہ کرتا ہے کہ وہ توبہ اسے بعض اوقات منتہائے کمال کوپہنچادیتی ہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ توبہ کوپسند فرماتا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
 ’’إِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ‘‘  (البقرۃ:۲۲۲)
ترجمہ : ’’بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں ، اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں۔‘‘
توبہ سے برائیاں اچھائیوں میں بدل دی جاتی ہیں۔ گناہ کے بعد بندہ توبہ کرتا ہے اسے شرمساری ہوتی ہے، وہ بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتا، روتا دھوتا ہے۔ اس ندامت وفروتنی سے اسے وہ حاصل ہوتا ہے جو اسے پہلے حاصل نہ تھا۔ توبہ اللہ کے یہاں سب سے زیادہ پسندید ہ نہ ہوتی تووہ اکرمِ خلق کوآزمائش وابتلاء میں نہ ڈالتا، ایک حدیث میں آتاہے : ’’میراذکرکرنے والے میرے ہمنشیں ہیں، میرا شکر کرنے والے میری طرف سے زیادہ نعمت کے مستحق ہیں، میرے اطاعت شعار بندے میری عنایت وکرم کے مستحق ہیں، لیکن میں اہلِ معصیت اور گنہگاروں کو اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا، اگر وہ توبہ کریں تو میں ان کا حبیب ہوں، اور وہ توبہ نہ کریں تو میں ان کا طبیب ہوں، انہیں مصائب میں ڈالتا ہوں، تاکہ انہیں برائیوں اورخرابیوں سے پاک وصاف کروں، توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے، خواہ جوان ہویا بوڑھا۔‘‘

دوسرا سبب
 

استغفار کرنا ہے۔ استغفار کے معنی مغفرت وبخشش مانگنا، معافی مانگنا ہیں۔ استغفار‘ دعا اور سوال کی جنس سے ہے، اور اکثر وبیشتر توبہ کے ساتھ آتا ہے، استغفار کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، لیکن انسان کبھی توبہ کرتا ہے اور دعا نہیںمانگتا اور کبھی دعا مانگتا ہے تو بہ نہیں کرتا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ رب العزت سے نقل کرتے ہیں، یعنی حدیثِ قدسی ہے :
’’کسی بندے نے کوئی گناہ کیا اور شرمسار ہوکر کہا: اے میرے رب ! مجھ سے گناہ ہوگیا تومجھے بخش دے، پھر اس کے رب نے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہا: کیا میرے بندے کوعلم ہے کہ اس کا رب ہے جوگناہ بخشتا ہے اور اسے گناہ پر پکڑتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کومعاف کیا، پھر وہ گناہ سے باز رہا جب تک اللہ نے چاہا ، پھرگناہ کربیٹھا، اس نے پھرکہا: اے میرے رب! مجھ سے دوسرا گناہ ہوگیا تومجھے معاف فرما ،اللہ نے پھرپوچھا کہ میرے بندے کومعلوم ہے کہ اس کارب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اسے گناہ پرپکڑتا ہے؟ میں نے اس کی وجہ سے اپنے بندے کوبخش دیا، پھر وہ گناہ سے بازرہا جب تک اللہ کومنظورہوا ، پھر اس سے گناہ سرزد ہوگیا، پھر اس نے عرض کی: میرے رب مجھ سے پھر گناہ ہوگیا تومجھ سے درگزر کر، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ سے درگزر کرتا ہے اور اسے گناہ پر پکڑتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کوبخش دیا، پس اسے چاہیے جو چاہے کرے۔‘‘
توبہ تمام برائیوں اور گناہوں کو مٹادیتی ہے، اور توبہ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو تمام گناہوں کو مٹادیتی ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
’’إِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ  وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا‘‘   (سورۃالنساء:۱۱۶)
ترجمہ : ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتاکہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش کرتا ہے ، اور جو شخص اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے ، وہ راہِ راست سے بھٹک کر بہت دُور جا گِرتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ توبہ کے متعلق فرماتا ہے :
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘   (الزمر:۵۳)
ترجمہ: ’’ کہہ دو کہ :’’ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، یقین جانو! اﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘
نوٹ: استغفار توبہ کے بغیرمغفرت کولازم نہیں کرتا، لیکن وہ معافی وبخشش کا ایک سبب ضرور ہے ۔

تیسرا سبب
 

اعمالِ صالحہ (یعنی نیک اوراچھے کام) ہیں ،چنانچہ قرآن کہتا ہے :
’’إِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ‘‘                  (سورۃہود:۱۱۴)
ترجمہ : ’’ یقیناً نیکیاںبرائیوںکو مٹادیتی ہیں، یہ ایک نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت مانیں۔‘‘
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا تھا:
’’ اے معاذ! اللہ سے ڈرتے رہو جہاں کہیں بھی ہو، بُرائی ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرو، نیکی بُرائی کو ختم کردیتی ہے ،اورلوگوں سے حسنِ اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘
ایک اورموقع پر حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:
’’ تم نے دیکھا؟ تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور اس میں وہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو توکیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہؓ نے جواب دیا: نہیں، فرمایا: اسی طرح پانچ وقت کی نمازیں گناہوں کو مٹادیتی ہیں جس طرح پانی میل کومٹادیتا ہے۔‘‘
یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ ہرنیکی اور حسنہ ہربُرائی اور سیئہ کونہیں مٹاتی، بلکہ مقابلۃً کبھی وہ صغائر کومٹاتی ہے اور کبھی کبائر کومٹاتی ہے، گویا اخلاص کے اعتبار سے یہ فرقِ مراتب ملحوظ رکھا گیاہے۔

چوتھا سبب

مؤمنین کے لیے دعا کرنا ہے ، مسلمانوںکی جنازہ کی نماز پڑھنا، اور اس میں مردہ وزندہ ہر ایک کے لیے مغفرت وبخشش کی دعا مانگنا، اسی طرح نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی مؤمنین کامسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنا بخشش کا باعث ہے، چنانچہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کامسلمانوں کے حق میں برابر مغفرت کی دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے۔

پانچواں سبب

رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم  کاامتِ محمدیہ کی مغفرت کی دعافرمانا ہے، چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ان کے حق میں استغفار کیا ہے۔ اور وفات کے بعد قیامت کے دن مؤمنین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت سے سرفراز ہونا ہے، ان میں وہ مخصوص لوگ بھی شامل ہیں جوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا اور شفاعت سے زندگی اور موت سے سرفراز ہوتے ہیں۔

چھٹاسبب 

وہ نیک عمل ہے جومرنے کے بعد مرد ہ کو تحفہ وہدیہ کے طورپرپہنچتا ہے، جیسے کسی کاکسی کی طرف سے صدقہ کرنا، حج کرنا، روزہ رکھنا، اس کا اجروثواب مردہ کو پہنچتا ہے، اور اس سے اُسے فائدہ ہوتا ہے۔ 

ساتواں سبب 

دنیوی مصائب ہیں: اللہ تعالیٰ دنیوی مصائب سے بھی گناہوں کا کفارہ کردیتے ہیں، جیساکہ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مؤمن کوجو مصیبت وتکلیف، رنج وغم اوراذیت پہنچتی ہے، حتیٰ کہ کانٹا بھی لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کی خطائیں اورگناہ معاف کردیتا ہے۔ اس سلسلہ میں بکثرت روایات آئی ہیں۔ صحابہ  رضی اللہ عنہم  خاص مصائب اور آزمائشوں سے گزرے ہیں اور عام مصائب سے بھی، چنانچہ فتن میں بہت سے قتل کیے گئے، اورجوزندہ رہے انہوں نے اپنے اہل وعیال ، عزیزواقارب کوبھی قتل ہوتے دیکھا، اور وہ اپنے مال میں آزمائش سے گزرے، خود بھی زخم خوردہ رہے، حکمرانی اورعزت وغیرہ سے محروم کیے گئے، یہ تمام ایسے امور ہیں جومسلمانوں کی سیئات کومٹادیتے ہیں، پھر صحابہ ؓ کیوں اس سے محروم رہتے؟

آٹھواں سبب

مؤمن کااپنی قبرمیں جھٹکے اورفرشتوں کے سوالات سے (جوامتحان وآزمائش ہے) گزرنا بھی گناہوں کو مٹادیتا ہے اورمغفرت کا سبب بنتاہے۔

نواں سبب

آخرت میں قیامت کے دن کی ہولناکی ، بے چینی اورتکلیف کو برداشت کرنا ہے ۔

دسواں سبب

مؤمنین کاپُل صراط سے گزرنا، جنت ودوزخ کے پل پرٹھہرنا، اورجہنّم کے مناظر کودیکھنا، اور اس سے تہذیب وتربیت پاکر جنت میں داخلہ کی اجازت وبشارت سے سرفراز ہونا ہے۔
نوٹ:مذکورہ بالا اسبابِ عشرہ ان صورتوں میں ہیں جب گناہ محقق وثابت ہوں۔
ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں سبب میں جو مختلف تکالیف پرگناہوںکی معافی کا ذکر ہے، ان کا مقصد تطہیر ہے، ایک مسلمان کو اس کے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کرنا ہے جس طرح دھوبی کپڑے کو میل کچیل سے پاک صاف کرتا اور داغ دھبے مٹاکر اسے قابلِ استعمال بناتاہے۔ یہ سزا ایک مسلمان کوجنت میں داخل کرنے، اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے اور ہمیشہ آرام وراحت سے زندگی بسر کرنے کااہل ومستحق بنانے کے لیے دی جاتی ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین