بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گلشن مدنی کا ایک اور پھول کملا گیا ( مولانا محمد نافعؒ )

گلشن مدنی کا ایک اور پھول کملا گیا

۸؍ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ مطابق ۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۴ء بروز منگل شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ کے شاگردِرشید، دارالعلوم دیوبند کے فاضل وفارغ التحصیل، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ،خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ خان محمد( کندیاں شریف) رحمہمااللہ کے رفیق وساتھی، جامعہ محمدی کے ناظم واستاذ، تنظیم اہل سنت کے عظیم راہنما، ممتاز بزرگ عالم دین، مولانا عبدالشکور لکھنویv کی فکر کے ترجمان، حضرت مولانا محمد نافع محمدی تقریباً ایک صدی کی بہاریں دیکھ کر راہیِ عالم عقبیٰ ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمٰی۔ حضرت مولانا محمد نافع v ان محققین میں سے تھے، جن کی تحقیق پر وقت کے اکابر علماء بے حد اعتماد کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد نافعv جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور اس کے ترجمان ماہنامہ بینات پر بے حد اعتماد اور محبت فرماتے تھے۔ آپ نے ایک تحقیقی مضمون ’’فرض نماز کے بعد دعا کا مسئلہ‘‘ بھی بینات کو ارسال فرمایا جو دو اقساط میں شائع ہوا۔آپؒ اپنی ہر تصنیف برائے تبصرہ یہاں بھیجا کرتے تھے، جیسا کہ حضرت موصوف کے درج ذیل مکتوب سے مترشح ہوتا ہے جو حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدvکے بینات خاص نمبر کے لیے تحریر کیا گیا: ’’حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدvکی حیات وسوانح پر ماہنامہ بینات کی اشاعت خاص کے لیے کوئی مفصل مضمون لکھنے کی ہمت تو نہیں کہ اب مجھ پر ضعف غالب آگیا اور حضرت شہیدvسے قربت وتعارف بھی محض مکاتبت، ان کی تصنیفات، مضامین اور علمی مقالات کے مطالعہ کی حد تک تھا۔ بہرحال حضرتؒ نے راقم کی کتابوں پر جو تبصرے فرمائے یا اس سلسلہ میں ان سے خط وکتابت ہوئی ، وہ پیش خدمت ہے۔ حضرت شہیدv نہایت عظیم علمی شخصیت تھے، وہ صاحب علم تھے اور اربابِ علم کے قدردان بھی، چنانچہ جو کتاب اور تحریر اُن کے معیار پر پوری اترتی اس کی خوب قدردانی اور عزت افزائی فرماتے، جبکہ ملاحدہ اور زنادقہ کی اسلام کش تحریروں پر گرفت اور تعاقب کا بھی حق ادا فرماتے، چنانچہ راقم الحروف کی کتاب ’’رحماء بینہم‘‘ حصہ سوم اور ’’مسئلہ اقرباء نوازی‘‘ شائع ہوئیں اور ’’بینات‘‘ میں تبصرہ کے لیے بھیجی گئیں تو مولانا مرحوم نے حسب وعدہ ان دونوں کتابوں پر رمضان، شوال ۱۴۰۱ھ کے بینات میں نہایت جاندار، وقیع اور پرمغز تبصرہ فرمایا۔اس تبصرہ کی اشاعت کے بعد حضرت شہیدv نے اپنے اخلاقِ کریمانہ کے پیش نظر نہ صرف ’’بینات‘‘ کا وہ شمارہ ارسال فرمایا، بلکہ اطلاعی والا نامہ بھی ان الفاظ میں لکھا: ’’حضرت مخدوم ومکرم (مولانا محمد نافع) زیدت مکارمہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب کی دونوں کتابوں کا تعارف رمضان، شوال ۱۴۰۱ھ کے پرچہ میں شائع ہوا ہے، وہ پرچے بھجوارہا ہوں، حق تعالیٰ شانہٗ جناب کے علوم ومعارف میں برکت فرمائے۔ شیعوں کی ایک کتاب ’’مناظرۂ بغداد‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، کتاب کیا چھوٹا سا رسالہ ہے، مگر بڑا گندا۔ جناب کی نظر سے گزرا ہوگا، کوئی صاحب مثبت انداز میں اس کا جواب لکھ دیں تو بہت اچھا ہو۔ دعواتِ صالحہ کا خواستگار ہوں۔                                         والسلام: محمد یوسف عفااللہ عنہ، ۸؍۱۱؍۱۴۰۱ھ‘‘ اسی طرح راقم الحروف نے اپنی ایک اور تصنیف ’’بناتِ اربعہ‘‘ تبصرہ کے لیے بھیجی، اس موقع پر حضرتؒ کی خدمت میں جو خط لکھا تھا، وہ درج ذیل ہے: ’’صاحب العز والافتخارحضرت مولانا لدھیانوی صاحب زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی!تسلیماتِ مسنونہ کے بعد معروض ہے کہ کتاب ’’بنات اربعہ‘‘ کے دو عدد نسخے جناب کی خدمت میں ’’بینات‘‘ میں تبصرہ کے لیے ۲۴؍ مارچ ۱۹۸۵ء مطابق ۲؍ رجب ۱۴۰۵ھ کو ارسال کیے تھے۔ امید قوی ہے کہ آنجناب نے از راہِ کرم نوازی تعارف شائع فرمایا ہوگا۔۔۔۔حضرت محترم مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب کی خدمت میں ہدیہ سلام عرض ہے۔ نوٹ: کتاب ہذا ایک شیعہ مبلغ خادم حسین وزیر آبادی کی کتاب ’’الاصول فی توحد ِ بنت الرسول‘‘ کے جواب میں بندہ نے مرتب کی ہے، لیکن اس کا نام نہیں ذکر کیا۔ مزید اس کتاب کے متعلق لائق مشورہ اور قابل اصلاح کوئی چیز ہو تو اس سے بلاتکلف مطلع فرماویں۔ آئندہ طبع میں اس کا تدارک ان شاء اللہ! کردیا جائے گا۔ جواب کے لیے لفافہ ڈاک پیش خدمت ہے۔ والسلام مع طلب الدعاء                                               ناچیز دعا جو: محمد نافع عفا اللہ عنہ‘‘ اس موقع پر حضرت غالباً اپنی شدید مصروفیت کے باعث کتاب کی رسید کی اطلاع تو نہیں دے سکے، البتہ از راہِ عنایت فوراً ماہنامہ ’’بینات‘‘ ذوالقعدہ ۱۴۰۵ھ کے شمارہ میں اس پر نہایت معتدل اور متین تبصرہ فرماکر میری ہمت افزائی فرمائی۔حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی v کی شہادت اہل حق اکابر علماء اور اربابِ تحقیق کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت شہیدvکو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے مشن کو باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موصوف چنیوٹ سے تقریباً پینتیس کلومیٹر ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتے تھے، جہاں نہ شہر کی رونقیں تھیں اور نہ وہاں وسائل کی دستیابی، لیکن اس کے باوجود آپؒ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، بنات النبی رضی اللہ عنہن، حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے علاوہ عدالت ِ صحابہؓ کے متعلق تحقیقی اور مستند کتب تالیف فرماکرامت ِمسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا۔ آپؒ کی پیدائش غالباً ۱۹۱۵ء کی ہے۔ آپؒ کے والد حضرت مولانا عبدالغفور اور دادا حضرت مولانا عبدالرحمن بھی علماء تھے۔ ابتدائی تعلیم آپؒ نے اپنے بھائی مولانا محمد ذاکر v سے حاصل کی جو حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری v کے شاگرد تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپؒ نے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں جبال العلم اساتذہ خصوصاً شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی نور اللہ مرقدہما سے دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد سند فراغ حاصل کیا۔ سلسلۂ تعلیم سے فراغت کے بعد آپؒ اس وقت کی معروف جماعت’’تحریک تنظیم اہل سنت پاکستان‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ تنظیم اہل سنت کا اس وقت ترجمان سہ روزہ ’’دعوت‘‘ لاہور تھا، جس کے ایڈیٹر حضرت مولانا نور الحسن شاہ بخاری تھے، چوکیرہ ضلع سرگودھا سے آپؒ کے استاذ محترم حضرت مولانا سید احمد شاہ چوکیرویؒ کا رسالہ ’’الفاروق‘‘ ماہوار شائع ہوتا تھا، ان میں آپ نے لکھنا شروع کیا۔ آپ نے ان مضامین کے ذریعے بہت جلد قارئین میں ایک حلقہ پیدا کرلیا۔ فراغت کے بعد اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا محمد ذاکرv کے قائم کردہ ’’جامعہ محمدی شریف‘‘ میں پڑھاتے بھی رہے اور پھر ایک زمانے میں ناظم بھی رہے۔ سینکڑوں حضرات نے آپ سے کسب فیض کیا۔ مولانا محمد نافع v ایک بزرگ متبحر اور نکتہ رس عالم دین تھے۔ آپ نے پوری عمر عظمت ِصحابہؓ کے لیے کام کیا۔ اعتدال میں اپنی مثال آپ تھے۔ مولانا محمد نافع vکی تصانیف معلومات کا خزانہ ہیں۔ مولانا محمد نافع vنے جس جس موضوع پر قلم اٹھایا، دیانتداری کی بات ہے کہ اس کا حق ادا کردیا۔ آپ کی تصانیف میں ۱:۔۔۔ مسئلہ ختم نبوت اور سلف صالحین، ۲:۔۔۔ حدیث ثقلین، ۳:۔۔۔ رحماء بینہم (۳جلدیں)، ۴:۔۔۔ مسئلہ اقرباپروری، ۵:۔۔۔ حضرت ابوسفیانؓ اور ان کی اہلیہؓ، ۶:۔۔۔ بنات اربعہؓ، ۷:۔۔۔ سیرت سیدنا علی المرتضیٰؓ،۸:۔۔۔ سیرت سیدنا معاویہؓ،۹:۔۔۔ فوائد نافعہ (۲ جلدیں) ۔قادیانیوں نے ۱۹۳۵ء میں روزنامہ الفضل لاہور کا خاتم النبیین نمبر شائع کیا، جس میں دھوکا دہی کی انتہا کردی، دجل وکذب کا شاہکار یہ اخبار سامنے آیا تو دنیا نے دیکھا کہ نام خاتم النبیین اور اندر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نبوت جاری ہے۔ قادیانیوں کے اس دجل پر سب سے پہلے جن بزرگوں نے سب سے پہلے امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا، وہ حضرت مولانا محمد نافعv اور پھر مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر vتھے۔ مولانا محمد نافع v تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں گرفتار بھی رہے۔ پہلے جھنگ، پھر لاہور بورسٹل جیل میں تین ماہ سنت ِیوسفی کو زندہ کیا۔ سو سال عمر پائی۔ آخر وقت تک دل ودماغ ، حافظہ، علوم کا استحضار حیرت انگیز طور پر برابر کام کررہا تھا۔ ۳۰؍ دسمبر کی رات دس بجے فوت ہوئے۔ ۳۱؍ دسمبر غروبِ آفتاب کے وقت تدفین کا عمل مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ راحت عطا فرمائے۔ آمین    وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین