بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

کیا وظائف اور عملیات دین کا حصہ ہیں؟ 

کیا وظائف اور عملیات دین کا حصہ ہیں؟ 


کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :
 ہمارے ہاں کچھ عرصہ سے یہ بات چل رہی ہے کہ جو اکابر کے و ظائف و عملیات دنیوی مقاصد کے لیے منقول ہیں وہ اعمال ہی ہیں، نیز جو وظائف دنیوی مقصد کے لیے کیے جاتے ہیں ان پر ثواب بھی ملتا ہے، چنانچہ ان کی خوب تشہیر کی جاتی ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ ہمارا پیغام قرآن و حدیث ہے، پوچھنا یہ ہے کہ :
1-کیا یہ وظائف اور عملیات دین کا حصہ ہیں کہ ان کی اس قدر تشہیر کی جائے کہ لوگ ان کو دین کا حصہ سمجھنے لگیں؟
2- کیا ان کو حقیقۃً اعمال کہہ سکتے ہیں؟
3-کیا دنیوی مقاصد کے لیے کیے جانے والے وظائف و عملیات پر ثواب کا اعتقاد رکھنا درست ہے؟
4- کیا ان کو قرآن وحدیث کا پیغام کہنا یا ثابت کہنا( گو جنتر منتر کے ہی مقابلے میں ہو، لیکن ظاہر ہے عام عوام تو مسنون ہی سمجھیں گے ) درست ہے؟
5- نیز دنیوی مقاصد کے لیے کیے جانے والے وظائف کو مسجد میں بیٹھ کر کرنا کیسا ہے ؟ از راہِ کرم راہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں، جزاک اللہ خیرا                            مستفتی: محمد فحیل راشد

الجواب باسمہٖ تعالٰی 

واضح رہے کہ جو شخص بھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے ایک نہ ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس دنیا میں بھی ہماری کچھ ضروریات ہیں، لیکن یہ دنیا ہمارا اصلی گھر نہیں، یہ تو مسافر خانہ ہے، دنیا اور آخرت کے درمیانی بارڈر کا نام برزخ ہے، اس سے اِس طرف دنیا اور اُس طرف آخرت ہے۔ ہم نے چونکہ دنیا و آخرت دونوں کی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، اس کے لیے کچھ کام ہم موت سے پہلے زندگی کے نفع و نقصان کے لیے کرتے ہیں، ان کاموں کو دنیا کے کام کہا جاتا ہے۔جو کام ہم موت کے بعد آخرت کی زندگی کے لیے کرتے ہیں، ان کو دین کے کام کہا جاتا ہے، مثلاً ہم نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ اور جہاد وغیرہ کرتے ہیں، تا کہ آخرت کا گھر آباد ہو جائے، اس لیے ان کو دین کا کام کہا جاتا ہے، اور ان کے احکام کو دینی احکام کہا جاتا ہے، اور دینی احکام کا چار دلیلوں میں سے کسی دلیل سے ثابت ہو نا ضروری ہے، جیسا کہ ’’کشف الأسرار شرح المصنف علی المنار‘‘ میں ہے:
’’أصول الشرع ثلاثۃ: الکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ والأصل الرابع القياس۔‘‘     (ج: ا، ص: ۱۲ ، ط: دار الباز للنشر والتوزيع، مکۃ المکرمۃ)
دیکھیے: ہم بخار کے وقت دوا کھاتے ہیں، بخار ختم ہونے کے لیے دم کرواتے ہیں یا اس کے دور ہونے، صحت یاب ہونے کے لیے تعویذ وغیرہ لیتے ہیں، ان کا نفع و نقصان موت سے پہلے کی زندگی سے متعلق ہے، اس لیے کہ یہ سب دنیوی طریقۂ علاج ہیں، جس طرح بخار کی دوا کے لیے نسخہ ، اجزاء اور اوزان، طریقۂ استعمال اور پرہیز وغیرہ امور کا دلائلِ اربعہ میں سے کسی سے ان کی مکمل تفصیلات کا مذکور ہونا ضروری نہیں، البتہ امورِ آخرت میں تفصیلات کا ادلۂ اربعہ میں مذکور ہونا ضروری ہے) اسی طرح بخار کے بعض دم اور تعویذ کا بھی قرآن و حدیث میں مذکور ہو نا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح بعض بیماریوں کی دواؤں کا ذکر بعض احادیث میں ملتا ہے، لیکن بہت سی بیماریوں اور دواؤں کا ذکر نہیں ملتا، اسی طرح بعض دم احادیث میں مذکور ہیں اور بعض دم احادیث میں مذکور نہیں۔ یہ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ کوئی شخص اس لیے دم نہیں کرواتا کہ پل صراط سے آسانی سے گزر جائے، نہ اس لیے تعویذ لیتا ہے کہ منکر نکیر کے سوالات کا جواب آسان ہو جائے یا دوزخ سے بچنے کے لیے عملیات کرتا ہو۔ غرض یہ کہ دوا، دم اور عملیات محض دنیوی طریقِ علاج ہیں، اور دنیوی امور کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’أنتم أعلم بأمور دنیا کم۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج: ۲، ص: ۲۶۴، ط : قدیمی)
یعنی تم لوگ دنیوی امور میں اپنے تجربے کی وجہ سے زیادہ جاننے والے ہو ۔
اس کے متعلق امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’امورِ معاش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مبارک دوسروں کی طرح ہے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ معارفِ آخرت کی طرف ہے۔‘‘
مقصد یہ ہے کہ تعویذات اور دم وغیرہ کو، اسی طرح عملیات کو محض طریقۂ علاج کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور ان کو دنیوی بیماریوں کے لیے دنیوی علاج کی مانند سمجھنا لازمی ہے۔
البتہ وظائف و اوراد صرف امورِ آخرت کے لیے پڑھے جاتے ہیں اور ان کا معمول رکھا جاتا ہے، اور عموماً وظائف‘ قرآنی آیات اور احادیث سے ثابت شدہ دعاؤں پر مشتمل ہوتے ہیں، انہیں امورِ آخرت کے زاویہ سے ہی دیکھنا چاہیے ، وہ کوئی دنیا کے لیے نہیں پڑھے جاتے، اس لیے دونوں میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے، دونوں کو ایک نظر سے دیکھنا اور خلط ملط کرنا سراسر ظلم و نا انصافی ہے۔
اس تمہید کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اکابر کے وہ وظائف جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ دعاؤں و اذکار پر مشتمل ہوں، ان کی حیثیت بھی اُخروی امور کی طرح نیک اعمال کی ہے، جس پر بلاشبہ ثواب ملتا ہے اور یہ قربِ خداوندی کا بہت مؤثر ذریعہ ہے۔ 
البتہ اکابر کے عملیات عموماً ان مجربات کو کہا جاتا ہے جو بعینہ قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہوتے، خواہ وہ روحانی یا جسمانی امراض سے شفاء کے حوالے سے ہوں یا دیگر جائز امور و مقاصد کے حل کے لیے ہوں، یہ بطورِ علاج ہوتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت وہی ہے جو علاج کی ہے، یعنی جس طرح بیماری کا علاج کرنا سنت اور جائز ہے، اسی طرح بیماری وغیرہ کے لیے عملیات بھی سنت اور جائز ہے، البتہ جس طرح عام علاج کو قرآن و حدیث کا نام دینا درست نہیں، اسی طرح عملیات کی حالت ہے، تبھی اس عمل کو اس نیت سے کرنا جائز ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، لیکن اس کی کوئی نہ کوئی اصل خواہ اشارۃً ہو ، قرآن و حدیث میں موجود ہوتی ہے، اس کی حیثیت شریعت کے کسی مستحب عمل سے کم درجے کی ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں :
1- ان وظائف کو دین کا حصہ اس معنی میں سمجھنا کہ قرآن و حدیث میں موجود ہیں، کوئی حرج نہیں، البتہ عملیات نہ دین کا حصہ ہیں اور نہ ان کو دین کا حصہ سمجھنا چاہیے اور نہ ان کی اس قدر تشہیر کرنی چاہیے کہ عوام اور لوگ ان کو دین کا حصہ سمجھ بیٹھیں۔ 
2- اسی طرح ان وظائف کو تو حقیقی اعمال کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اللہ کے ذکر اور ثواب کی غرض سے انہیں پڑھا جاتا ہے، جبکہ عملیات کو حقیقی اعمال نہیں کہا جا سکتا ہے، جس طرح عام علاج کرنے اور دوا کھانے کو کوئی دین کا عمل نہیں کہتا۔ 
3- دنیوی مقاصد کے لیے کیے جانے والے عملیات پر ثواب کا اعتقاد رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایسا سمجھنا بدعت ہے،البتہ وظائف پر بلاشبہ ثواب کا اعتقاد رکھنا درست ہے۔ 
4- ان عملیات کو قرآن و حدیث کا پیغام کہنا یا ثابت کہنا صحیح نہیں ہے، ورنہ عوام ان عملیات کو مسنون اعمال سمجھ بیٹھیں گے، البتہ وظائف کو قرآن وحدیث سے ثابت کہنا درست ہے۔
5- دنیوی مقاصد کے لیے کیے جانے والے عملیات کو مسجد میں نہیں کرنا چاہیے، جبکہ وظائف پڑھنا بالکل جائز اور ثواب کاذریعہ ہیں۔ مشکاۃ المصابیح میں ہے:
’’عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: إنما الأعمال بالنيات، وإنما لکل امرئ ما نوی، فمن کانت ہجرتہ إلی اللہ ورسولہ فہجرتہ إلی اللہ ورسولہ ومن کانت ہجرتہ إلی دنيا يصيبہا أو امرأۃ يتزوجہا، فہجرتہ إلی ما ہاجر إليہ۔ ‘‘(صحيح) (مشکاۃ المصابیح ، ج: ا، ص: ا۱، ط:قدیمی)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
’’قال الطيبي: وفيہ أن من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزما ولم يعمل بالرخصۃ، فقد أصاب منہ الشيطان من الإضلال، فکيف من أصر علی بدعۃ أو منکر ؟۔‘‘    (مرقاۃ المفاتیح، ج: ۲،ص: ۷۵۵، باب الدعاء فی التشہد، ط: دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’لأن الجہلۃ يعتقدونہا سنۃ أو واجبۃ وکل مباح يؤدي إليہ فمکروہ ۔۔۔۔۔ (قولہ فمکروہ) الظاہر أنہا تحريميۃ لأنہ يدخل في الدين ما ليس منہ ۔‘‘ (فتاویٰ شامی، ج: ۲، ص:۱۲۰، باب سجدۃ الشکر، ط : سعید)
’’(و) لا (الرتيمۃ) ہي خيط يربط بأصبع أو خاتم لتذکر الشيء، والحاصل أن کل ما فعل تجبرا کرہ وما فعل لحاجۃ لا، عنايۃ . [ فرع] في المجتبی: التميمۃ المکروہۃ ما کان بغير العربيۃ. (قولہ التميمۃ المکروہۃ) أقول : الذي رأيتہ في المجتبی التميمۃ المکروہۃ ما کان بغير القرآن ، وقيل : ہي الخرزۃ التي تعلقہا الجاہليۃ اہـ فلتراجع نسخۃ أخری. وفي المغرب وبعضہم يتوہم أن المعاذات ہي التمائم وليس کذٰلک ،إنما التميمۃ الخرزۃ، ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فيہا القرآن أو أسماء اللہ تعالی، ويقال: رقاہ الراقي رقيا ورقيۃ إذا عوذہ ونفث في عوذتہ، قالوا: إنما تکرہ العوذۃ إذا کانت بغير لسان العرب، ولا يدري ما ہو ولعلہ يدخلہ سحر أو کفر أو غير ذٰلک، وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس بہٖ اہـ الی قولہ : وعن النبي - صلی اللہ عليہ وسلم - أنہ کان يعوذ نفسہ، قال -رضي اللہ عنہ - : وعلی الجواز عمل الناس اليوم وبہٖ وردت الآثار۔‘‘ (فتاویٰ شامی ، ج: ۶، ص: ۳۶۳-۳۶۴، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، ط: سعيد )
’’اشرف العمليات للتھانوی‘‘میں ہے:
’’اس عملیات میں ایک بات قابلِ لحاظ یہ کہ جو عملیات دنیا کے واسطے ہوتے ہیں وہ موجبِ ثواب نہیں ہوتے ہیں، ( یعنی ان کے کرنے میں ثواب نہیں ملتا ) ان میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے، اسی طرح ایسے عملیات کو مسجد میں بیٹھ کر نہ پڑھنا چاہیے اور نہ اس قسم کے تعویذ مسجد میں بیٹھ کر لکھنے چاہئیں۔‘‘  (اشرف العملیات ، باب دوم، ص: ۴۲)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
’’سوال: ہم چند احباب عموماً روزانہ مغرب سے لے کر نماز عشاء تک مسجد میں بیٹھے رہتے ہیں، اس مختصر عرصے میں کبھی ہم انفرادی طور پر تلاوت و تسبیحات کرتے ہیں، کبھی روزہ، نماز، طہارت کے مسائل سیکھتے یا سکھاتے ہیں، کبھی مستند علمائے کرام کی کتابیں وغیرہ پڑھ کر سناتے ہیں۔ ہم میں ملازمت پیشہ اور تاجر حضرات بھی ہیں، ہمار ا واحد مقصد اس قیام میں یہ ہے کہ روپیہ روپیہ کمانے کے چکر سے نجات حاصل کر کے یہ مختصر وقت اللہ اور رسول کے ذکر میں گزاریں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں: یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔
جواب: اس میں تین عمل ذکر کیے گئے ہیں:
ا- مغرب سے عشاء تک کا وقت مسجد میں گزارنا، اور یہ عمدہ ترین عبادت ہے۔
۲- انفرادی اعمال تلاوت و تسبیحات، اس کا عبادت ہونا واضح ہے۔
۳-دین کے مسائل سیکھنا سکھانا اور علمی مذاکرہ کرنا، یہ بھی بہترین عبادت ہے۔ الغرض آپ کا یہ معمول شرعاً مامور بہ مستحب ہے، اس کو بدعت کہنا غلط ہے۔‘‘ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل ، ج ۴، ص: ۲۶۴، اوراد و وظائف، ط: لدھیانوی)
کفایت المفتی میں ہے:
’’ماثور وظائف کو ثابت شدہ ترتیب سے پڑھنا چاہیے، غیر ماثور میں اختیار ہے۔
(سوال) متعلق و ظائف ماثورہ و غیر ماثورہ
(جواب: ۷۸) جو وظائف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نام سے منقول ہیں، ان کو اسی ثابت شدہ ترکیب و ترتیب سے پڑھنا چاہیے ، اس میں برکت اور امیدِ قبولیت ہے، اور جو وظائف حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں، ان میں اختیار ہے جس طرح چاہے پڑھے۔‘‘  (کفایت المفتی، ج:۲، ص: ۱۱۹، کتاب السلوک والطريقۃ، ط: دار الاشاعت)

 

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعیدالرحمٰن

محمد انعام الحق

اعجاز احمد ہزاروی

 

 

تخصصِ فقہ اسلامی

 

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین