بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کیا قائداعظم محمد علی جناح ؒ سیکولر ذہن کے مالک تھے؟

کیا قائداعظم محمد علی جناح ؒ سیکولر ذہن کے مالک تھے؟

 

بانیِ پاکستان محمد علی جناح ؒ کے بارے عام تصور یہ پھیلایا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادین ذہن کے مالک تھے، جبکہ ان کی زندگی کے متعدد واقعات اس غلط تصوراور فرضی خیال کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ 
بہت اوائل اور نوجوان عمری میں جب کہ انسان کی اپنی سوچ ابھی پختہ نہیںہوئی ہوتی اور گھریلوتربیت کا بہت سا اثر باقی ہوتا ہے، جب قائداعظم محمد علی جناح ؒانگلستان پہنچے اور قانون کی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو دو اداروں میں سے اس ادارے کا انتخاب کیا جس کے باہر دنیا کے مشہور قانون دانوں کی فہرست میں سب سے اوپر محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھا تھا۔ 
قانون کی تعلیم سے فارغ ہوئے، لندن کے ایک ڈرامیٹک کلب (سٹیج ڈرامہ) میں شمولیت اختیار کر لی اوران سے ادائیگی کا چیک بھی وصول کرلیا، ایک ڈرامے کی مشق کے دوران قائد اعظم سے کہا گیا کہ ایک لڑکی کے چہرے پر بوسہ لیں، اُس وقت اُن کی عمر ۱۹؍برس کی تھی، ہندوستان کے ایک نوجوان کے لیے یہ محض ایک حسین خیالی بات تھی کہ وہ لندن جیسے شہر میں برطانوی لڑکی کا بوسہ لے، لیکن قائداعظم نے محض یہ کہہ کر ڈرامے کا یہ منظر مشق کرنے سے انکار کر دیا کہ میرے مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
ہندوستان میں اپنے والد بزرگوار محترم پونجا جناح کو خط لکھا کہ میں نے قانون کی تعلیم میں آگے بڑھنے کی بجائے ڈرامے کے میدان کا انتخاب کیا ہے اور ایک کلب میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ والد نے جوابی خط میں سختی سے اس بات سے منع کیا اور حکم دیا کہ فوراً کلب سے مستعفی ہو کر قانون کی مزیدتعلیم جاری رکھو۔ قائد اعظمؒ نے ابھی وہ چیک بھنوایا نہ تھا اور بغیر کسی پس وپیش کے یہ کہہ کر کلب والوں کو لوٹا دیا کہ یہ میرے والد کا حکم ہے اور میرے مذہب میں والدین کی نافرمانی کی گنجائش نہیں۔ 
قانون کی تعلیم کے بعد ہندوستان لوٹے اوربمبئی میں وکالت کا آغاز کیا۔ بمبئی آزاد خیالی میں اس زمانے کے دوران بھی دوسرے آزاد خیال شہروں سے کسی طور کم نہ تھا، ایک نوجوان اور خوبصورت مجوسی لڑکی قائداعظم پر فریفتہ ہو گئی، ہر طرح سے مایوس ہو چکنے کے بعدجب اس نے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو قائداعظم نے کہا: مذہب کا اختلاف اس کی اجازت نہیں دیتا، وہ مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی تو اٹھارہ سال کی قانونی مدت پوری ہونے تک اسے ایک سال کا انتظار کرنا پڑا۔ ایک برس بعد وہ عدالت سے مسلمان ہونے کی ڈگری لائی تب قائداعظم نے اس سے نکاح کیا۔
ہندوستان کے حالات سے مایوس ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر انگلستان سدھار گئے کہ اب نہ لوٹیں گے، لیکن آفریں ہو علامہ ڈاکٹر محمداقبالؒ پرجنہوں نے خط لکھ کر انہیں واپس بلایا اور غلامی کے اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار کیا۔ 
سوال یہ ہے کہ قائداعظم اگر سیکولراور لادین ذہن کے مالک تھے تو علامہ اقبالؒ جیسے دردِ دل رکھنے والے بنیاد پرست مسلمان کی نظرِ انتخاب اُن پر کیوں پڑی؟ کیا علامہ محمد اقبالؒ جیسا راسخ العقیدہ مسلمان کہ جس کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر تھا، وہ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایک لادین شخص کا انتخاب کرتا؟ ہرگز نہیں! گزشتہ مذکورہ واقعات اور ان صفحات میں آئندہ آنے والی تحریری شہادتیں اس امر کی قطعی نفی کرتی ہیں۔
 تحریکِ پاکستان کے دوران قائداعظم کی تقاریر جہاں پاکستان کو نظریاتی اَساس فراہم کرتی ہیں، وہاں ان کے ذہن تک رسائی کا بھی ایک وقیع ذریعہ ہیں، ذیل میں ان کی تقاریر سے چند اہم اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:
۱:’’کوئی شبہ نہیں کہ لوگ ہمارا مدعا پوری طرح نہیں سمجھتے، جب ہم اسلام کا ذکر کرتے ہیں تو اسلام صرف چند عقیدوں، روایتوں اورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیں۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی اور کردار کو سیاست اور معیشت تک کے معاملات میں انضباط عطا کرتا ہے۔‘‘ (کرم حیدری، قائدِ اعظم کا اسلامی کردار، صفحات: ۱۰۱-۱۰۲، مکتوباتِ حرمت، راولپنڈی،۱۹۸۴ء)
۲:’’قرآن مجید کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یاسیاسی، معاشرتی اور معاشی، غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔‘‘ (کرم حیدری، قائدِ اعظم کا اسلامی کردار، صفحہ:۱۰۳)
۳:’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفا کیش کا مرجع خدا کی ذات ہے ۔۔۔۔ قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میںقرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے۔‘‘ (کرم حیدری، قائدِاعظم کا اسلامی کردار، صفحہ:۱۰۳)
۴:’’وہ کونسا رشتہ ہے جس میں تمام مسلمان منسلک ہو کر جسدِ واحد کی طرح ہو جاتے ہیں۔ وہ رشتہ خدا کی کتاب قرآن مجید ہے، ایک خدا، ایک رسول، ایک امت۔‘‘ (سعیدراشد، قائداعظم: گفتاروکردار، صفحہ:۵۱۳، مکتبہ میری لائبریری، لاہور، ۱۹۸۶ء)
۵:’’ہماری اسلامی تہذیب کو کوئی نہیں مٹا سکتا، اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ہمارا نورِ ایمان زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہے گا۔دشمن بے شک ہمارے اوپر ظلم کرے، ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے، لیکن ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کر لیا ہے، اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے۔‘‘ 
(آغا اشرف، مرقع قائدِ اعظم، صفحہ:۴۱، مقبول اکیڈمی، لاہور،۱۹۹۲ء)
۶:’’مسلمان ایک جھوٹے احساسِ سلامتی میں مبتلائے فریب رہے اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی، آئینی اور قانونی سمجھا جانے لگا، لیکن مسلمان کسی حیثیت سے بھی یورپی ممالک کی اقلیت نہیں ہیں، ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح بھی اقلیت نہیں ہیں، بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں۔ ‘‘ (ڈاکٹر اسعد گیلانی، اقبال، قائدِاعظم اور مولانا مودودی، صفحہ:۷۵)
قائدِاعظم کے یہ فرمودات واضح طور پر یہ پتہ دیتے ہیں کہ وہ کبھی بھی سیکولر نہیں رہے۔ زمانۂ طالب علمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات اور تحریکِ پاکستان کے دوران تقریروں کے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں اسلامی تعلیمات پوری طرح راسخ تھیں۔ایک بار انہوں نے قرآن مجید کو بھی پوری طرح پڑھ چکنے کا عندیہ دیا تھا،لیکن اردو، عربی اور فارسی سے بہت زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باعث وہ ہندوستان کی روایتی مذہبیت سے دور ہی رہے۔ 
پھر کیا یہ ایک تاریخی شہادت نہیں ہے کہ غازی علم دین شہیدؒ کا مقدمہ قائدِاعظم نے اس وقت مفت لڑا تھاجب کہ ان کاشمار ہندوستان بھر کے مہنگے ترین وکیلوں میں ہوتا تھا۔ 
تحریکِ پاکستان کے دوران ہندو قیادت نے انگریز سے مراعات لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں نہرو کی بیوی سے تعلقات تک کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن اس طرح کے ماحول میں رہنے اور طویل جنگ لڑنے کے باوجودمحترمہ فاطمہ جناح کو مردوں سے ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ تھی، حتیٰ کہ کسی نے انہیں ننگے سر بھی نہ دیکھا۔ تقسیمِ ہندمیں اس طرح کے رویّے سے مسلمانوں کا نقصان بھی ہوا، لیکن قائدِاعظم نے یہ ثابت کیا کہ ایک سچے مسلمان کے لیے ایمان اورشرم و حیا سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔ 
زیارت ریزیڈنسی میں قائدِاعظمؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے، ان کے خدمت گار سے جب ان ایام کا احوال پوچھا گیا تو اس نے بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ان کی آخری نماز کا بھی تذکرہ کیا، اس کے بقول قائداعظمؒ باقاعدگی سے فقہ حنفی کے مطابق نماز ادا کرتے تھے، آخری نمازجو انہوں نے ادا کی اس کا حال خدمت گار کی زبانی سنئے:
’’ظہر کی نمازکی ادائیگی کے بعد انہوں نے کہا کہ عصر کا وقت ہوتے ہی مجھے بیدار کر دینا، میں نے کہا: جی اچھا، لیکن آنکھ کھلنے پر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا؟ میں نے کہا: ہو چکا ہے، لیکن آپ ابھی آرام کر لیں، میں تھوڑی دیر بعد آپ کو نماز پڑھا دوں گا، کیونکہ نقاہت بہت زیادہ تھی، انہوں نے فرمایا کہ: نہیں اول وقت میں نماز کی ادائیگی پسندیدہ ہے، پس تکیہ میری کمر کے نیچے کر دو تو میں نماز پڑھ لوں، وضو کے بعد یہ ان کی زندگی کی آخری نماز تھی، جس کے بعد وہ قومے میں چلے گئے اور بالآخر اﷲ تعالیٰ سے جا ملے۔‘‘
قائداعظمؒ کے اس خدمت گارکی یہ روایت ہمارے استاذِ محترم مولانا عبدالمجید اخوان مرحوم کے ذریعہ براہِ راست ہم تک پہنچی۔
 قائد اعظمؒ کی اولادچونکہ اسلام سے گریزاں رہی، اسی لیے قائد اعظمؒ بھی ان سے گریزاں رہے اور پورا بڑھاپا کنواری بہن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گزار دیا۔ جب انتقال ہوا تو وصیت میں یہ لکھ کر گئے کہ ایک حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مطابق چونکہ مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا، اس لیے میرے ترکے میں سے ایک پائی بھی میری اولاد کو نہ دی جائے اور اپنی کل جائداد، جس کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں ان کے پاس اپنا ذاتی ہوائی جہاز تھا، ساری کی ساری نوزائدہ اسلامی مملکت پاکستا ن میں مدرسۃ الاسلام سندھ اور اسلامیہ کالج پشاور کے نام کر گئے۔ 
قائداعظمؒ اگر سیکولراور لادین خیالات کے مالک ہوتے توعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جید عالم دین ان کی نمازجنازہ کیوں پڑھاتے؟ ٹھیک ہے وہ اس طرح سے مذہبی انسان نہ تھے جس کا تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے، لیکن بہرحال وہ ایک راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔ جن فاضل مصنفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے بھی قائداعظمؒ کے پختہ ایمان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان پر سیکولر خیالات کا سایہ رہا بھی ہے تو وہ اسلام اور قرآن کے مطالعے کے بعد ان فرسودہ خیالات سے دستکش ہوکر شعوری طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ایک سچے مسلمان اور امتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے فردکی حیثیت سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہواکرتا ہے، اگر قائدِاعظمؒ کی نیت ایک سیکولر ریاست بنانے کی تھی تو وہ ریاست اسلام کا قلعہ کیسے بن گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تبلیغ و ارشاد کے لیے یہاں سے جماعتیں روانہ ہوتی ہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں جہاد کا میدان سجا اس کے لیے اسی مملکتِ خداداد پاکستان نے اپنے سپوت اور عسکری راہنمائی کے ساتھ ساتھ ممکنہ وسائل بھی فراہم کیے۔ تین سو سال کے بعد امت کو دفاع کے میدان میں ایٹمی قوت کی خوشخبری اسی اسلامی ریاست سے میسر آئی اور مستقبل میں بھی مشرق سے مغرب تک کل مسلمانوں کی اُمیدیں اسی پاکستان سے وابستہ ہیں۔ گویا پاکستان‘ اس حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عملی تصویر بنا کہ ’’مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔‘‘ اوراس سب کا سہرا قائدِ اعظمؒ کے سر ہے۔ دراصل تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں پر ملوکیت کا سایہ ہویاغلامی کی اندھیری غار، غداروں کی دغا بازیاں ہوں یا دشمن کے پالتو لوگوں کی حکمرانیاں، سازشوں کے جال ہوں یا تہذیبی و ثقافتی یلغار، اس امت کی کوکھ قیادت کے میدان میں ہمیشہ سرسبزو شاداب رہی ہے، یہ آخری نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ اقوامِ عالم کو صدیوں کے بعد کوئی قابلِ قدر راہنما میسر آتا ہے، جسے وہ قرنوں تک یاد رکھتے ہیں اور کتنی ہی قومیں محض اس لیے تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گئیں کہ انہیں کوئی راہنما میسر نہ آیا، جبکہ اُمتِ مسلمہ کا دامن کبھی بھی مخلص دیندار اور جرأت مند قیادت سے خالی نہیں رہا۔
اﷲ کرے مدارسِ اسلامیہ سے ’’قال اﷲ تعالیٰ‘‘ اور ’’قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی رہیں، اﷲ کرے مساجد کے مینار صدائے بلالی کے امین رہیں، اﷲ کرے ختمِ نبوت سے اس امت کے نوجوانوں کے سینے سرشار رہیں اور اﷲ کرے اس امت کا اجتماعی ضمیرہمیشہ زندہ و تابندہ رہے کہ یہی عناصر ہیںبانیِ پاکستان جیسی صاف ستھری قیادت کی فراہمی کے اور یہی امت کے روشن مستقبل کے سنگ ہائے میل ہیں اور میرے اﷲ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جب یہی پاکستا ن شاعرِ مشرق کے خوابوں کی سچی حسین تعبیر بنے گا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین