بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کیا فقہِ اسلامی قرآن وحدیث سے متصادم ہے؟


کیا فقہِ اسلامی قرآن وحدیث سے متصادم ہے؟


یہ بات اہلِ سنت والجماعت کے مسلمات میں سے ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دنیا اورآخرت میں جو چیز نجات دہندہ اورعملی زندگی میں دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن مجید اور حضور سرورِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مبارک سنن اور احادیث ہیں۔جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے پردہ فرماتے وقت یہی دوچیزیں اپنی امت کو بطور میراث حوالے فرماکر گئے۔ مؤطاامام مالکؒ میںحضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  کی روایت سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے:’’ ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما کتاب اللہ وسنتي‘‘ ...’’میں تم میں (بطور میراثِ علمی) دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک ان پر کار بند رہوگے، تم گمراہ نہیں ہوگے: ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ہے۔‘‘ 
قرآن وحدیث میں بنیادی طورپر دوطرح کے مضامین بیان کیے گئے ہیں: پہلی قسم کی نصوص وہ ہیں جن میں مبدأو معاد،حشرونشر، عبرت ونصیحت،وعدہ ووعید،فنائیتِ دنیا اوربقاء عقبیٰ وغیرہ کو بیان کیاگیا ہے، جبکہ دوسری قسم کی آیات و احادیث طہارت، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ،خریدوفروخت،تقسیمِ میراث ودیگر احکام ومسائل سے متعلق ہیں۔ اول الذکرکے متعلق سورۃ القمر میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ‘‘ ... ’’ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیاہے۔‘‘ آیت میں مذکور ’’لِلذِّکْرِ‘‘ کی قید اس امرکی صریح دلیل ہے کہ صرف عبرت ونصیحت سے متعلق نصوص ہی عامی شخص کا موضوع ہیں، یعنی ان مخصوص مضامین کو معمولی سمجھ رکھنے والا شخص بھی بلاتدبروتفکر دل و دماغ کے آئینے میں اُتار کر ان کی فہم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔ البتہ ثانی الذکر نصوص کے مخاطب عوام نہیں، بلکہ فقہاء کرام، مجتہدین عظام، راسخین فی العلم اور مستنبطین ہیں، جو خداداد فہم وفراست اور ذکاوت وذہانت کے سبب مشکل اور دقیق مسائل کی گتھیاںسلجھاتے ہیں۔ ناسخ ومنسوخ کی پہچان،عللِ روایات اور اختلافِ آثار کی وجوہات پر واقفیت، سیاق وسباق سے ربط، آیاتِ قرآنیہ کے اسبابِ نزول اور احادیثِ نبویہ کے شانِ ورود کی معرفت اورفقہی قواعد وضوابط پر کامل دسترس کی بنیاد پر نصوص کے درمیان واقع ہونے والے ظاہری تعارض کو حل کرتے ہوئے قرآن وسنت کی صحیح اور برمحل تشریح وتوضیح کرتے ہیں۔ کوئی حکم کسی فرد کے ساتھ مخصوص ہو یا بعدمیں نازل ہونے والے حکم سے منسوخ ہو، اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کوئی مسئلہ قرآن وسنت میں ظاہری طور پر موجود ہی نہ ہو تو اشتراکِ علت کی بنا پر کسی منصوص مسئلے پر قیاس کرکے اس پر منصوص کا حکم لگاتے ہیں۔ بسااوقات قرآن وحدیث میں کوئی لفظ متعدد معانی کا احتمال رکھتا ہے، اس کے کسی ایک معنی کو مضبوط دلائل اور قوی قرائن سے متعین کرتے ہیں۔ اس مبارک مشغلے اور خوبصورت فن کو ’’فقہ‘‘ اور ’’اجتہاد‘‘ اور اس کے حامل کو ’’فقیہ ‘‘اور ’’مجتہد‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایک غلط فہمی کاازالہ

فقہ بظاہر قرآن وحدیث سے الگ تیسری چیزبلکہ منکرینِ فقہ کے نزدیک شریعت سے متصادم نظرئیے کا نام ہے، لیکن درحقیقت یہ قانونِ شریعت کی ایک آسان دستاویزی شکل ہے۔فقہاء کرام کا اُمت پریہ احسانِ عظیم ہے کہ انہوں نے ہرہرآیت اورحدیث کی گہرائی میں اتر کر اصول وضوابط کی روشنی میںنصوص کی تنقیح فرمائی اورپھرابواب اور فصول کی ترتیب سے مسائل کویکجاکرکے خوبصورت گلدستے کی شکل میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا، تاکہ عملی زندگی میں جب بھی انہیں شریعت سے راہنمائی مطلوب ہو تو کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔

فقہ کی اہمیت

فقہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے خود قرآن کریم نے اس عظیم مقصدکے لیے ایک مستقل جماعت کی تشکیل کو ناگزیر قراردیا ہے، چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
’’وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی   الدِّیْنِ   وَ لِیُنْذِرُوْا  قَوْمَھُمْ   اِذَا  رَجَعُوْٓا   اِلَیْھِمْ   لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔‘‘ 
’’اور مومنین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ سب کے سب (جہاد کے لیے)نکل پڑیں، ایسا کیوں نہ ہوکہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے، تاکہ وہ (ادھر رہنے والے) دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب وہ (جہاد کے لیے جانے والے) ان کی طرف واپس لوٹ آئیں تو انہیں ڈرائیں،تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘
اس کامنشا یہ ہے کہ دین کی دو بنیادی ضروریات ہیں: ایک غلبۂ دین اور دوسری فہم دین،اور یہ طے شدہ امر ہے کہ غلبۂ دین کا مدار فہمِ دین پر ہے، اس لیے باری تعالی نے تاکیدفرمائی کہ ایک جماعت غلبۂ دین کے سلسلہ میںجہاد کے لیے نکل پڑے اور دوسری فہمِ قرآن وسنت کے لیے اپنے مقام پر ہی رہے، تاکہ دین کے دونوں شعبے جاری رہیں۔

فقیہ کا مقام ومرتبہ

علم فقہ کی افادیت کے پیش نظراس محبوب مشغلہ کے لیے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی لمحات وقف کرنے والے خوش نصیب افراد کو بہت سے فضائل ومناقب سے نوازا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْرًاکَثِیْرًا‘‘        (البقرۃ:۲۶۹)
’’جس شخص کو حکمت عطا کی گئی اس کو بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی۔‘‘ 
حکمت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدداقوال ہیں: ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ: اس سے فقہ مراد ہے۔ گویاکہ باری تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ اس کی بھلائیوں اورخوبیوں کو سمیٹنے والاشخص فقیہ ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب العلم میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ  کی روایت سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: ’’مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِيْ الدِّیْنِ‘‘ ... ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں۔‘‘اس کے علاوہ کتب احادیث میں ’’أبواب العلم‘‘ کے تحت محدثین نے فقہاء کرام اوراہلِ علم کے فضائل ومناقب میں سینکڑوں احادیث نقل کی ہیں۔ 

حاصل کلام

ان تمام تر تفصیلات کی روشنی میںیہ بات واضح ہوگئی کہ فروعی مسائل کی تحقیق وتخریج کوئی معمولی اور آسان کام نہیںکہ ہر کس ونا کس اس مشغلے میں لگ جائے اور جمہور کے متفقہ مسائل سے انحراف کرکے اُمت کو نئی راہ پرلگادے ۔اجتہاد کی صلاحیت اوراستنباط کے ملکہ سے محروم شخص کے بس کایہ کام ہے اور نہ اسے اس لق ودق صحراء میں قدم رکھناچاہیے۔’’جس کاکام اسی کوساجھے‘‘ کے قاعدے پرعمل کرتے ہوئے یہ کام فقہاء کرام کے سپردکرناچاہیے، جو اس فن کے ماہر اور رموزِ شریعت کے شناور ہیں، ورنہ شریعت کے معاملے میںخودرائی سے ہدایت کی بجائے گمراہی پھیلنے کااندیشہ بلکہ یقین کامل ہے۔ ابن جوزی ؒنے ’’تلبیس ابلیس‘‘میںایک عامل بالحدیث کا واقعہ تحریر کیا ہے کہ وہ جب بھی استنجے سے فارغ ہوکر آتا بغیر وضوکیے وتر کی نیت باندھ لیتا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی توکہنے لگا کہ میںنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ‘‘ (جوشخص استنجا کرے اس کوچاہیے کہ وترپڑھے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’فَلْیُوْتِرْ‘‘ سے مرادوتر پڑھنا نہیں، بلکہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرنا ہے۔ایک اورشخص کاواقعہ لکھاکہ وہ اپنے کنویں سے کسی دوسرے کو کھیت میں پانی نہیں لگانے دیتا تھا،وجہ پوچھنے پر اس نے بتایاکہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’لَایَسْقِیْ أحَدُکُمْ مَاءَہٗ زَرْعَ غَیْرِہٖ‘‘ (کوئی شخص اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب نہ کرے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’مَاء‘‘ سے مراد منی اور ’’زَرْع‘‘ سے مراد شرمگاہ ہے، مطلب حدیث پاک کا یہ ہے کوئی شخص دوسرے کی باندی سے صحبت نہ کرے۔ یقیناً یہ غلطی اس کوخودرائی کی وجہ سے لگی، اگر کسی ماہرِشریعت سے راہنمائی حاصل کرلیتاتوحدیث کے اصل مرجع اور مقصد تک پہنچ جاتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواکابر واسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے فہم کے مطابق قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین