بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کیا سپریم کورٹ  اسلامی ریاست اور آئینِ پاکستان کے نہ ماننے والوں سے راہنمائی لے گی؟


کیا سپریم کورٹ  اسلامی ریاست اور آئینِ پاکستان کے نہ ماننے والوں سے راہنمائی لے گی؟


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

۶؍ فروری ۲۰۲۴ء کو ہمارے ملک پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک شخص مبارک احمد ثانی قادیانی کے مقدمہ کے متعلق جو فیصلہ دیا، وہ فیصلہ کئی پہلوئوں اور کئی اعتبار و جِہات سے آئین و قانون کے ماہرین کے علاوہ دینی و مذہبی حلقوں میں بھی زیرِ بحث اور تشویش کا باعث ہوا ہے، جس پر ملک بھر میں اضطراب کی لہر دوڑگئی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے ایک پریس ریلیز جاری کی، (اس میں بھی تاریخ غلط ۲۲؍ فروری ۲۰۲۲ء درج کی، حالانکہ یہ سال ۲۰۲۴ءہے) اور اپنے تئیںاس تشویش کو کم کرنے کی کوشش کی اور اس میں کہا کہ: ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلادیئے جاتے ہیں۔ فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اس سیاق و سباق میں دی گئی ہیں۔‘‘
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کا ماتحت عدالتوں کو عقیدے کے متعلق بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ہدایت اور اس کے لیے ان آیات سے استدلال بے موقع، بے محل اور سیاق و سباق سے بالکل ہٹ کر ہے، جس کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ پیراگراف نمبر ۶ میں درج آیت ’’لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ (کہ دین میں جبر نہیں) اول تو اس آیت سے استدلال ہی بے محل ہے،آیت میں ’’اِکْرَاہ‘‘ سے مراد زبردستی کسی انسان کو اسلام قبول کروانے کی ممانعت ہے، جب کہ یہاں مسئلہ کفر کو اسلام کہنے کا ہے، اور خودساختہ مذہب کو دینِ اسلام کا درجہ دلوانے کا ہے۔
دوم یہ کہ احتیاط کا عنوان تو معاملے کی حساسیت اور سنگینی کی رعایت کرنے کا متقاضی تھا،لیکن مذکورہ فیصلے میں احتیاط کی تشریح’’لَا اِکْرَاہَ‘‘ سے کرنا احتیاط کی بجائے بے احتیاطی کی دعوت یا اجازت ثابت ہورہی ہے، یعنی ایک طرف جہاں ایف-آئی-آر میں 298-سی اور295-بی کے عدمِ ذکر کی فرضی آڑ میں ملزم کا اِلزام ہٹادیا گیا تو دوسری طرف پیراگراف  ۶-۱۰ تک امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کے معروف قانون کے مقابلے میں مجرم کو فائدہ پہنچانے کا تأثر اور اگلے مرحلے میں ایسے جرائم کے ارتکاب کے لیے حوصلہ افزائی کا واضح نقصان نظر آرہا ہے۔
الغرض مذکورہ فیصلے میں اس صریح قرآنی حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہماری مسلم قوم کے فطری جذبات اور مذہبی تصلب کو غصہ کے کھاتے میں ڈالنا‘ نہ صرف یہ کہ زیادتی ہے،بلکہ معزز عدالتی فیصلوں میں اس قسم کے رویوں سے شرعی اور آئینی مجرم کی دادرسی کا بےتکا تأثر بھی اُبھرتا ہےاور قرآن وسنت میں تحریفات کرنے والوں کو صرف آخرت میں جواب دہی کی اسکیم کے حوالے کر کے دنیا کی سزا سے استثناء کا حق ملتا ہے اور اس فیصلے کی رو سے 298-سی اور 295-بی کی دفعات ہمیشہ کے لیےغیر مؤثر قرار پائیں گی۔
نیز دوسری آیت ’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘ سے جج صاحب نے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم معاشرے میں تحریف کی اجازت ہو اور تحریف سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، بلکہ قرآنی سیاق میں تو تحریف کو غیر مؤثر بنانے کا حکم ہے اور تحریف کے خلاف‘ حفاظتی انتظامات اور اسباب بندی کا بیان ہے، جب کہ آیت سے استدلال اس کے برعکس کیا جارہا ہے،اگر اس استدلال کو درست مانا جائے،تو پھر تمام سیکیورٹی اداروں کو بھی ختم کردینا چاہیے،اس کے لیے نصِ قرآنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ انسانوں کی حفاظت کا انتظام فرما رکھا ہے، لہٰذاقرانی آیات سے ایسے بے معنی استدلالات‘ تحریفِ معنوی کے زمرے بھی میں آسکتے ہیں،جس سے مسلمانوں کو اجتناب کا حکم ہے۔
سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں مزید کہا کہ:
’’۲- فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق اسلامی جموریہ پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں، ان میں واضح طور پر یہ قید موجود ہے کہ یہ حقوق: ’’قانون، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع‘‘ ہی دستیاب ہوں گے۔
۳:-آئین کی دفعہ ۲۰ کا ترجمہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
’’قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع: 
(اے) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پبروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسےبیان کرنے کا حق ہوگا اور 
(بی) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔ اس نوعیت کے ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے۔ ظہیر الدین بنام ریاست ۱۹۹۳ء ایس ، سی ایم آر ۱۷۱۸ جس سے موجودہ فیصلے میں کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔‘‘
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ وضاحت اس پریس ریلیز میں کی گئی ہے، لیکن اگر فیصلہ کی عبارت سامنے رکھی جائے تو اس میں بجا طور پر یہ تأثر اُبھرتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس قادیانی ملزم کو مذہبی آزادی دینے کی بات کی ہے۔ حالانکہ قادیانیت‘ آئین، قانون اور سپریم کورٹ ۱۹۹۳ء کے پانچ ججوں کے فیصلے کے مطابق کوئی مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک گروپ ہے جو جعل سازی سے مسلمانوں کے حق کا استحصال کررہا ہے۔ 
اس قانون سے قادیانی گروہ‘ اس وقت فائدہ اُٹھا سکتا ہے جب وہ اسلامی شریعت اور ملکی آئین کے طور پر خود کو دیگر اقلیتی مذاہب کی طرح اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ الگ مستقل فرقہ ڈکلیر کروائے، جب کہ امتناعِ قادیانیت آرڈیننس (مجموعہ تعزیراتِ پاکستان) کی شق 298 -سی، (جو قادیانی فرقے کے کسی فرد کو بوجوہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے،کہلانے یا اپنے فرقے کی تبلیغ اور اشاعت کرنے سے روکتی ہے)، یہ قانونی شق‘ مذکورہ مذہبی آزادی کے قانون سے قادیانیوں کی تخصیص کرتی ہے، لہٰذا قادیانی گروہ کو دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی مانند مذہبی آزادی کا عمومی حق دینا‘ مذہبی آزادی کے قانون کے تحت آئینی لحاظ سے بھی درست نہیں؛ کیوں کہ شریعت اور آئینِ پاکستان کی رو سے وہ بطور مذہبی گروہ ڈکلیر ہی نہیں ہیں، جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ۱۹۷۳ء کے آئین میں اس گروہ کو کسی مذہبی فرقہ کی بجائے ’’قادیانی گروپ‘‘ کے عنوان سے درج کیا گیا ہے، مگر وہ آئین اور شریعت کو نہیں مانتے، اس لیے وہ زندیق ہیں،یعنی قادیانی گروہ شریعت اور آئین کی رو سے کافر ہونے کے باوجود خود کو مسلمان اور اپنی تحریفات کو قرآنی مدلول باور کرانے اور اپنے قادیانی پیشوا کی شیطانی باتوں کو وحیِ الٰہی ماننے کے مجرم ہیں۔اگر وہ اپنی اس خرافاتی حیثیت کا اعتراف کریں، اور اہلِ اسلام سے جداگانہ شناخت کے ساتھ اپنا مذہبی حق مانگیں، تو انہیں غیر مسلم اقلیتی گروہ کے حقوق حاصل ہوسکتے ہیں، ورنہ نہیں۔
لہٰذا جو گروہ اپنے مذہبی حق کے حصول کے لیے شریعت اور آئین کے بنیادی تقاضے پورے نہیں کرتا ‘ اسے ہر حال میں مذہبی حق سے نوازنے کے فیصلے کا تأثر دینا بجا طور پر معنی خیز قرار دیا جائے گا۔
پیراگراف ۱۰ کا متن ہے: ’’اگر ریاست کے ذمہ داران قرآن پاک پر عمل کرتے، آئین پر غور کرتے اور قانون کا جائزہ لیتے تو مذکورہ بالا جرائم پر ایف-آئی-آر درج نہ ہوتی۔‘‘
اس عبارت سے بادی النظر میں یہ تأثر عام ہو رہا ہے کہ مجرم مبارک احمد ثانی قادیانی کا تحریفات پر مبنی قادیانی تفسیر کی اشاعت کرنا،تبلیغ کرنا،تعلیم دینا، کھلے عام تقسیم کرنا‘ کوئی قابلِ اشکال امر ہی نہیں اور ریاستی اداروں کا اس عمل کی روک تھام کرنا‘ قرآن پاک پر عمل کی خلاف ورزی ہے اور آئین سے عدمِ واقفیت کا نتیجہ ہے،جب کہ حقیقت میں مذکورہ قضیےمیں پہلے تو اس طرح کی غیر ضروری ابحاث کی طرف جانا نہ صرف یہ کہ بے محل ہے،بلکہ قرآن کریم کے معانی و مطالب سے واجبی تعلق سے محرومی کی دلیل بھی ہے۔
دوسرا یہ کہ ہر قضیے میں ریاست کا مدعی ہونا ضروری نہیں ہوتا، اگر خدانخواستہ قرآن مقدس‘ تحریفات کی نذر ہورہا ہو اور ریاست مدعی نہ بنے تو کیا تحریفات کے خلاف کوئی فرد یا طبقہ آواز نہیں اُٹھاسکتا؟ یا ریاست کے حرکت میں آنے کا انتظار کرنا پڑے گا؟ اگر ریاست خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہو تو فطری جذبات کے تحت مسلم عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کے مواقع ملنا درست ہوگا؟ 
آخر میں ہم عرض کریں گے کہ سپریم کورٹ کے اس پریس ریلیز اور اس میں آئین کی دفعہ ۲۰ کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ یہ آزادی، قانون، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا تمام ملکی انتظام چاہے وہ مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا انتظامی ادارے ہوں سب آئین اور دستور کے پابند ہیں اور اسی دستور نے اپنے طریقہ کار کے مطابق کسی کو صدر، کسی کو وزیر اعظم، کسی کو وزیر اعلیٰ یا کسی کو جج، کسی کو چیف جسٹس جیسے عہدے عطا کیے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے دوبارہ سماعت کے لیے جن اداروں سے اس فیصلے کے بارہ میں آراء مانگی ہیں، اس میں جاوید احمد غامدی صاحب کے ادارے ا ور اس کی فکر کے زیرِ اثر دیگر اداروں کو قادیانی ملزم کے فیصلے میں ’’شرعی نقطۂ نظر‘‘ بتانے کا موقع دے کر عدالت نے اپنے اس احسن اقدام کو بھی محلِ بحث بنا دیا ہے؛ اس لیے کہ ’’المورد‘‘ اور اس کی فکر سے اثر آلود ادارے اس حوالے سے کئی تضادات اور اشکالات کا پہلے سے مورد چلے آرہے ہیں، بالخصوص وہ ریاست کے لیے مذہبی بنیادوں کے قائل نہیں ہیں، مذہب کو پرائیویٹ ترجیح کا درجہ دیتے ہیں، جاوید احمد غامدی جو کھلے الفاظ اور انداز میں بارہا اپنی تحریروں اور تقریروں میں کہہ چکا ہے کہ: ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کیا اس کا یہ کہنا آئین کی دفعہ: ۲ کا انکار نہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا؟! اسی طرح آئین کی دفعہ (۲۰) جس میں مذہبی آزادی بھی اس آئین اور قانونِ پاکستان کے تابع ہوگی، اس کی یہ خلاف ورزی نہیں؟!
مزید یہ کہ سپریم کورٹ کو خود اس آئین و قانون نے فیصلے کا حق دیا ہے اور وہ اس قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہے تو جو لوگ اس آئین اور قانون کو نہیں مانتے، ان سے رائے طلب کرنا کس آئین اور قانون کے مطابق ہوگا؟! اسی طرح اس فکر کے لوگ قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے، جب کہ قومی اسمبلی نے ان کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور انہی کے دجل اور فریب کو روکنے کے لیے امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء جاری کیا گیا۔ 
خلاصہ یہ کہ اسلام اور آئینِ پاکستان کے ماننے والے مسلمانوں کے مسلمہ مسالک اور اسلامی نظریاتی کونسل (جو آئینی ادارہ ہے) سے تو اس مسئلہ میں راہنمائی لی جائے، لیکن ایسے لوگ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور ریاست کے اسلامی ہونے کو نہیں مانتے یا قادیانیوں کو آئین کے مطابق غیرمسلم اقلیت قرار دیئے جانے کو نہیں مانتے، ان سے رائے بالکل نہ لی جائے، ورنہ ایسا اُلجھائو پیدا گا اور مسلمانوں کی طرف سے ایسا ردِ عمل آئے گا جو کسی کے لیے سنبھالنا مشکل ہوگا، ولا فعل اللہ ذٰلک۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے، اس پر ثابت قدم رہنے اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نفس، شیطان اور فتنہ پروروں کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین