بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کیا ریاست نکاح کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کی مجاز ہے؟

کیا ریاست نکاح کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کی مجاز ہے؟

 

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
قانون کی رو سے اٹھارہ سال سے پہلے نکاح نہیں ہوسکتا اور اب وفاقی شرعی عدالت نے بھی فیصلہ دیا ہے کہ ریاست بچوں کے نکاح کے لیے عمر کی حد مقررکرسکتی ہے۔ اب شرعی عدالت کا شرعی فیصلہ آنے کے بعدعلماء حضرات اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ فیصلہ قبول ہے؟

 

مستفتی: عثمان غوری، فیڈرل بی ایریا، کراچی

الجواب باسمہٖ تعالٰی

فیصلہ تو قرآن و سنت کا قبول ہے جن سے شریعت بنی ہے، اور پھر فقہِ اسلامی کا قبول ہے، جس سے شریعت پھیلی ہے۔ ان تینوں کا فیصلہ روزِ اول ہی سے یہ ہے کہ کم سن بچوں کا نکاح ہوسکتا ہے، اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر جب چھ یا سات برس تھی تو ان کا نکاح اُن کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کردیا تھا اور جب ان کی عمر نو سال ہوئی تو رخصتی کردی تھی۔ (بخاری)
 اور سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے اُن عورتوں/ لڑکیوں کی عدت تین ماہ بیان فرمائی ہے جنہیں اَیّام نہ آتے ہوں، اور جنہیں اَیّام نہیں آتے وہ کسی بھی عمر کی عورت یا لڑکی ہوسکتی ہے، اور عدت تب ہی ہوسکتی ہے جب نکاح کے بعد شوہر کا انتقال ہوجائے یا نکاح اور رخصتی کے بعد طلاق ہوجائے۔
 نیز چاروں فقہی مسالک کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ کم عمری کا نکاح جائز ہے۔ 
البتہ اتنی تفصیل ضرور ہے کہ نابالغ لڑکا یا لڑکی از خود نکاح کریں تو نکاح منعقد نہیں ہوگا، بلکہ ان کا ولی جیسے باپ، دادا وغیرہ اُن کانکاح کرسکتا ہے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں، بچوں کے نکاح سے متعلق تفصیلی مسائل اور دلائل کتبِ فقہ و فتاویٰ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگر کوئی فیصلہ قرآن و سنت کےخلاف ہے تو پھر علماءِ کرام تو کجا ایک عام مسلمان بھی اُسے کیسے قبول کرسکتا ہے! پھر یہ فیصلہ خواہ مروّج قانون کا ہو یا وفاقی شرعی عدالت کا ۔ 
پاکستان کے ہر مسلمان کو وفاقی شرعی عدالت سے یہی حسنِ ظن رکھناچاہیے کہ وہ شریعت کے مطابق ہی فیصلہ صادر کرے گی، اگر وفاقی شرعی عدالت نے اسی طرح فیصلہ صادر کیا ہے جیسے بیان کیا گیا ہے تو اس مسئلے میں عدالت سے شرعاً سخت فروگزاشت ہوئی ہے۔ 
اب عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں اپیل کی جاسکتی ہے، بلکہ دستور کی رو سے ایک عام شہری بھی اس فیصلے کے خلاف درخواست دے کر اس کو موقوف کراسکتا ہے۔
ان سطور کی تحریر کے وقت تک مجھے عدالتی فیصلہ دست یاب نہیں ہوسکا ہے، اس لیے فیصلے کے مندرجات پر تفصیلی تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں۔ جب دست یاب ہوجائے گا اور کوئی استفسار کرے گا تو ان شاء اللہ تفصیل سے اس پر تبصرہ اور اس کا شرعی حکم واضح کردیا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم

 

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

کتبہ

محمد انعام الحق

سید سلیمان یوسف بنوری 

 

 رئیس جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین