بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کیا تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے؟

کیا تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے؟


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب لوگ ہوں تو کیا ہر صاحبِ نصاب پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے؟ یا ایک ہی قربانی کرنا کافی ہے؟ اس ضمن میں ترمذی شریف میں وارد شدہ حدیث کا کیا جواب ہوگا؟ جس میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ: ’’یَا اَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِيْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَّۃً‘‘ براہِ کرم اس کا مفصل اور مدلل جواب جلد از جلد دے دیں۔            مستفتی: عبد الرحمٰن
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
1:  ایک گھر میں اگر متعدد افراد صاحبِ نصاب ہوں تو ہر عاقل، بالغ صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا واجب ہوگا، اپنی اپنی قربانی اپنے مال سے کریں یا کوئی ایک‘ دوسروں کو بتاکر اُن کی طرف سے بھی کردے، بہرحال ہرصاحبِ نصاب عاقل، بالغ پر قربانی کرنا لازم ہے۔’’فتح القدیر‘‘ میں ہے:
’’(الأضحیۃ واجبۃ علی کل حر مسلم مقیم موسر في یوم الأضحی عن نفسہ وعن ولدہ الصغار) .......... وتجب عن نفسہ لأنہ أصل في الوجوب علٰی ما بیناہ وعن ولدہ الصغیر لأنہ في معنی نفسہ، فیلحق بہ کما في صدقۃ الفطر، وہٰذہ روایۃ الحسن عن أبي حنیفۃؒ، وروی عنہ أنہ لاتجب عن ولدہ وہو ظاہر الروایۃ ، وہٰذہ قربۃ محضۃ والأصلي في القرب أنہٗ لاتجب علی الغیر بسبب الغیر۔‘‘   (فتح القدیر، ج:۸، ص:۴۲۵-۴۲۹، ط:رشیدیہ)
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’(فتجب) التضحیۃ (علی حر مسلم مقیم موسر عن نفسہٖ ولاعن طفلہ) علی الظاہر (قولہ علی الظاہر)…… والفتوی علی ظاہر الروایۃ ولو ضحّی عن أولادہ الکبار وزوجتہ لایجوز إلا بإذنھم۔‘‘ (ج:۶، ص:۳۱۳-۳۱۵، ط:رشیدیہ)
2:  سوال میں مذکورہ حدیث کا جواب یہ ہے کہ قربانی صاحبِ نصاب پر واجب ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں اکثر وبیشتر صاحبِ نصاب گھر کا بڑا ایک فرد ہوا کرتا تھا اور وہی قربانی کرتا تھا، باقی سب قربانی نہیں کرتے تھے، لیکن جو قربانی ہوتی وہ سب گھر والوں کی طرف منسوب ہوتی تھی، اور یہ اس لیے ہوتا تھا کہ گھر کے افراد قربانی کرنے والے کے ساتھ جانور کو ذبح کرنے میں معاونت کرتے اور اکٹھے مل کر گوشت کھاتے اور انتفاع حاصل کرتے۔ حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک قربانی گھر کے متعدد صاحبِ نصاب عاقل، بالغ کی طرف سے کافی ہوجائے گی۔
’’المسوی شرح الموطا‘‘ میں ہے:
’’وتأویل الحدیث عندہم أن الأضحیۃ لاتجب إلا علی غني ولم یکن الغني في ذلک الزمان غالباً إلا صاحب البیت ونسب إلٰی أہل بیتہ علی معنی أنہم یساعدونہ في التضحیۃ ویأکلون لحمہا وینتفعون بہا۔‘‘ (المسوی شرح الموطا، باب التضحیۃ سنۃ کفایۃ لکل أہل بیت، ج:۱، ص:۲۲۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت) 

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعیدالرحمٰن

محمد شفیق عارف

وحید مراد

 

 

تخصص فقہ اسلامی

  

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین