بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کیا ’’امیر‘‘ ہونا بری بات ہے؟

کیا ’’امیر‘‘ ہونا بری بات ہے؟

بہت عرصے سے میں اس موضوع پر لکھنے کے لیے سوچ رہا تھا، لیکن اس موضوع کی حساسیت کی وجہ سے ٹالتا رہا، کیونکہ ہمارے ہاں مفت کے مفتیوں کی بھر مار ہے جو فتویٰ چھوڑتے ہوئے دیر نہیں لگاتے، لیکن کچھ عرصہ قبل دورانِ مطالعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تقریر سے مجھے اپنے موقف کی حمایت حاصل ہوگئی ، اس لیے اب اس موضوع پر چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔
سب سے پہلے تو حضرت تھانویؒ کی تقریر کے الفاظ پڑھیں، وہ کیا فرمارہے ہیں:
’’اگر کوئی کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھے (نعوذباللہ) تو سمجھ لو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا، اضطراری نہ تھا۔ فقر وہ ہے کہ جس کا فقر اضطراری ہو۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے سلطنت چھوڑ دی تھی تو کیا اُن کو فقیر کہا جائے گا؟ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے اختیار سے فقر اختیار کیا تھا اور اختیاری بھی کیسا کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ: اگر آپ پسند فرمائیں تو خدا تعالیٰ آپ کے لیے جبلِ اُحد کو سونا کردیں کہ وہ آپ کے ساتھ چلا کرے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے جبریل! میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھاؤں اور ایک دن بھوکا رہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اب یہ شبہ نہ رہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھے اور غریب ہونے کی وجہ سے تشریف لے گئے، بلکہ آپ سلطان تھے، اعتقاداً اور واقعتاً بھی۔‘‘ (خطباتِ حکیم الامت، جلد :۳، ص:۲۱۳) 
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا، اور مقصد امت کے اضطراری غریبوں کی حوصلہ افزائی کرنابھی تھا۔ ورنہ مالداری ایسی ہی بری بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ پیارے صحابہؓ جن کو دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنائی گئی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کبھی بھی ارب پتی نہ ہوتے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ایک ایک دن میں سو سو اونٹ نفع ہوتا تھا۔ سو اونٹ کا مطلب آج کل کے حساب سے ڈیڑھ دو کروڑ بنتا ہے، یعنی ایک دن میں ڈیڑھ دو کروڑ روپے منافع، سبحان اللہ۔ یہی حال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرامؓ کا تھا۔ جبکہ دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد غرباء صحابہ کرامؓ کی بھی تھی۔
جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بھی بیوی کو ۵۰۰؍درہم (آج کل کے حساب سے تقریباً ایک لاکھ نوے ہزار روپے) سے کم مہر نہیں دیا، البتہ بعض بیویوں کو اس سے زیادہ بھی دیا۔ آج کل کتنے دین دار ہیں جو اپنی بیوی کو اس قدر مہر دیتے ہیں۔ آج کل تو دین داری اس بات کا نام رکھ دیا گیا ہے کہ مہر۵۰۰؍ روپے رکھو۔ کچھ عرصہ قبل ایک نکاح پڑھایا، میں نے پوچھا: مہر کتنا ہے؟ تو لڑکے کا باپ بڑے فخر سے کہنے لگا: مبلغ ایک ہزار روپے۔ میںنے فوراً اُسے ٹوکتے ہوئے کہا: ایک ہزار میں نکاح نہیں ہوتا۔ کم از کم مہر دس درہم (آج کل تقریباً چار ہزار روپے) ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پتا چلتا ہے کہ مدنی زندگی کے آٹھ دس سالوں تک ایک اونٹنی ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتی تھی، اونٹ اس وقت کا جہاز تھا۔ پھر بارہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے خریدے اور بیچے، گھوڑا اس وقت کی مرسڈیز تھی۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ ہزاروں چاندی کے درہم ایک دن میں صدقہ کیے، میں نے جب انہیں پاکستانی روپوں میں کنورٹ (تبدیل) کیا تو دو کروڑ روپے بنتے تھے۔ ایک دن میں دو کروڑ صدقہ کرنا معمولی عمل نہیں اور ظاہر ہے یہ رقم پاس تھی تو صدقہ بھی کی۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں بھی اور مدنی زندگی میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نوکر بھی رہے، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس بھی اکثر نوکرانیاں ہوتی تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے پاس نوکررکھتی تھی۔ 
احادیث میں فقراء، مساکین کے فضائل اور ترکِ دنیا کی جو ترغیب آئی ہے، اُسے اکثر ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ شاید امیر ہونا نہایت ہی برا عمل ہے۔ اسی طرح بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بھی اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غریب تھے اور بڑی کسمپرسی کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزاری۔ ظاہر ہے اس تصور کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی بھی امتی کو اچھا مکان، اچھا لباس، اچھی سواری کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، چنانچہ بعض اوقات کوئی شخص ذرا سا دین دار بنتا ہے، تو اُسے نہ صرف کاروبار، تجارت بلکہ امیروں سے نفرت ہوجاتی ہے اور وہ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہ تصور دین دار لوگوں کے ذہن میں ایک سازش کے تحت ڈالا گیا، تاکہ کوئی دین دار شخص معاشرے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں اچھی شہرت، اچھی معاشی حالت رکھنے والا شخص بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں غریب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں، وہ کیا کسی دوسرے کے بارے سوچے گا۔ چنانچہ اکثر امیر لوگ ہی دنیا پر حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں، کوئی غریب یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ایک معمولی سا ایس ایچ او بھی لگ سکے۔ 
دولت اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتے ہوئے مل جائے یا حلال طریقے سے حاصل کرلی جائے تو بری چیز نہیں۔ بس اس میں اللہ کا حق اور خوب صدقہ وخیرات ہوتا رہے، تو بہت بڑی نعمت ہے۔غلبۂ دین کی محنت کرنے والے دین دار مسلمانوں کی معاشی حالت کا بہتر ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ اسباب کی دنیا میں جہاں تیر، تلوار، گھوڑا، اونٹ، زرہ اور خود کا استعمال کیا گیا ہے، وہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کے طور پر صحابہ کرامؓ سے جنگی تیاری کے لیے مال بھی جمع کیا تھا۔ 
یہ انسانی ضرورت ہے اور خصوصاً اقامتِ دین کی جدوجہد میں جہاں اخلاص، للّٰہیت، ایمان ویقین، صبر، ثابت قدمی اور ہمت و عزم کی ضرورت ہے، وہیں اچھی معاشی حالت کا ہونا بھی نہایت ہی ضروری ہے۔ جس ملک کی معاشی حالت جتنی مضبوط ہوتی ہے، اتنا ہی اس کی دفاعی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ مفروضہ ذہن سے نکال لینا چاہیے کہ دین دار تبھی کہلایا جاسکتا ہے جب معاشی حالت خراب ہوجائے، کپڑے پھٹ جائیں، اور آدمی بسوں میں دھکے کھاتا پھرے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین