بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کھانا کھانے کے بعد کی دو دعائیں  اور متعلقہ مباحث

کھانا کھانے کے بعد کی دو دعائیں  اور متعلقہ مباحث


دینِ اسلام کی جامعیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ یہ دین اپنے اصول وفروع کی ہمہ جہتی پر مشتمل ہے، اس کا دائرۂ بیان‘ اُصولی وفروعی احکام سے آگے بڑھ کر عادات واخلاق سے بحث بھی کرتا ہے۔ صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاں مأمورات ومنہیات کی تفصیلات منقول ہیں وہاں بیان و حکایت کے جملہ لوازم کے ساتھ آپ کی عاداتِ مبارکہ اور اطوارِ سامیہ بھی منقول ہیں، اور محفوظ بھی ہیں۔
یہ بھی دینِ اسلام کا حفاظتی اعجاز ہے کہ کسی بھی روایت کی نقل و حکایت میں راوی کی خوبی و خامی سے لے کر روایت کی کمی و بیشی تک ایک ایک بات‘ اہلِ علم کے پیشِ نظر اور زیرِ فکر رہتی ہے، اس کی ایک تازہ مثال جو گزشتہ کچھ عرصہ سے اہلِ علم کے درمیان زیرِ بحث ہے:
 وہ یہ ہے کہ: ’’من أکل طعامًا، فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حولٍ مني ولا قوَّۃ: غُفر لہٗ ما تقدَّم من ذنبہٖ۔‘‘ (۱) کے حمدیہ الفاظ اور کلماتِ تشکر کھانا کھانے سے قبل مسنون ہیں، یا کھانا کھانے کے بعد سنت ہیں؟
دوسرا یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد کی معروف دعاء: ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین۔‘‘ (۲) کے اندر ’’مسلمین‘‘ سے قبل کلمۂ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ درست ہے، یا نہیں؟

’’الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا الطعام۔۔۔۔۔‘‘ کے موقع ومحل کی تحقیق

پہلی دعا سے متعلق بعض اہلِ علم کا ارشاد ہے کہ یہ دعا کھانے سے پہلے پڑھنا سنت ہے، اس کا مورد قبل الطعام ہے، نہ کہ بعد الطعام۔ان اہلِ علم کی رائے کے احترام میں ہم نے جستجو کی، تو صواب ان کی رائے کے برعکس معلوم ہوا:

 (الف)

حدیث کی معروف کتابوں میں ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ مِنْ غیر حولٍ مني ولا قوَّۃ۔‘‘ (۳) والی دعا کا ذکر کھانا کھانے کے بعد کی دعاؤں میں ہی ملتا ہے، بلکہ باقاعدگی کے ساتھ ’’باب ما یقول إذا فرغ من طعامہ‘‘ جیسے ’’ترجمۃ الباب‘‘ کے تحت ذکر ملتا ہے۔

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
 

۱:- باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، سنن الترمذي ، ج:۵، ص:۵۰۷، طبعۃ: دار إحیاء التراث العربي، بیروت:
’’حدثنا محمد بن إسمـاعیل، قال: حدثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقریٔ، قال: حدثنا سعید بن أبي أیوب، قال: حدثني أبو مرحوم عن سہل بن معاذ بن أنسؓ عن أبیہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ من أکل طعاما، فقال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا ورزقنیہ من غیر حول مني ولا قوۃ ‘‘ غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘
۲:- باب ما یقال إذا فرغ من الطعام، سنن ابن ماجۃ، ج:۱، ص:۱۰۹۲، طبعۃ: دار إحیاء الکتب العربیۃ :
’’حدثنا حرملۃ بن یحیٰی، قال: حدثنا عبد اللّٰہ بن وہب، قال: أخبرني سعید بن أبي أیوب، عن أبي مرحوم عبد الرحیم عن سہل بن معاذ بن أنس الجہني عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: ’’ من أکل طعامًا فقال: ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا ورزقنیہ من غیر حول مني ولا قوۃ ‘‘ غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہٖ ۔‘‘
۳:- باب ثواب الحمد بعد الطعام، الدعاء للطبراني (ص:۲۸۰)، طبعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت:
’’حدثنا بشر بن موسٰی، حدثنا أبو عبد الرحمٰن المقریٔ، حدثنا سعید بن أبي أیوب، حدثني أبو مرحوم عبد الرحیم بن میمون عن سہل بن معاذ بن أنس عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، قال: ’’من أکل طعاما، فقال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمني ورزقني من غیر حول مني ولا قوۃ ‘‘ غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہٖ ۔‘‘
۴:- باب ما یقول إذا لبس ثوبا أو أکل طعاما، الآداب للبیہقي (ص:۲۱۲)، طبعۃ: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت:
’’أخبرنا أبو عبد اللّٰہ الحافظ، حدثنا بکر بن محمد بن حمزان الصیرفي، حدثنا عبد الصمد بن الفضل، حدثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقریٔ، حدثنا سعید بن أبي أیوب، حدثني أبو مرحوم، عن سہل بن معاذ بن أنسؓ عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، قال: ’’من أکل طعاما ثم قال: ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا الطعام ورزقنیہ من غیر حول مني ولا قوۃ ‘‘ غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہٖ ۔‘‘
۵:- باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، الدعوات الکبیر ،ج:۲، ص:۱۰۱، طبعۃ: غراس للنشر والتوزیع، الکویت:
’’أنبأنا أبو عبد اللّٰہ الحافظ، حدثنا بکر بن محمد بن حمدان الصیرفي، حدثنا عبد الصمد بن الفضل، حدثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقریٔ، حدثنا سعید بن أبي أیوب حدثنی أبو مرحوم عن سہل بن معاذ بن أنسؓ عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، قال: من أکل طعامًا ثم قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنی ہذا الطعام ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ: غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘
۶:- حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے ان کلمات کی شرح کرتے ہوئے ’’بذل المجہود‘‘(۴) میں واضح طور پر لکھا ہے:
’’قولہ: (من أکل طعامًا، ثم قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا الطعام ۔۔۔ إلخ ( فیہ استحباب حمد اللّٰہ عقب الأکل) ۔‘‘
۷:- اور علامہ ابو الحسن ابن بطالؒ نے صحیح بخاری(۵) کی شرح میں’’ باب مایقول اذا فرغ من الطعام ‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’أہل العلم یستحبون حمد اللّٰہ عند تمام الأکل والأخذ بہذا الحدیث وشبہہ، فقد روي عن النبي في ذلک أنواع من الحمد والشکر کان یقول إذا فرغ من طعامہ، وقد روي عنہ أنہ قال: ’’من سمی اللّٰہ علٰی أول طعامہٖ وحمدہٖ إذا فرغ منہ لم یسئل عن نعیمہٖ ۔‘‘
۸:- علامہ مبارکپوری ؒ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘(۶) میں ابن بطال ؒ اور امام نووی ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’قال ابن بطال: اتفقوا علی استحباب الحمد بعد الطعام، ووردت في ذلک أنواع یعنی لایتعین شيء منہا ۔ وقال النووي: في الحدیث استحباب حمد اللّٰہ تعالٰی عقب الأکل والشرب۔ وقد جاء في البخاري صفۃ التحمید: الحمد للّٰہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفیٔ ولا مودع ولامستغنی عنہ ربنا۔ وجاء غیر ذلک، ولو اقتصر علی الحمد للّٰہ حصل أصل السنۃ۔ اہـ۔

(ب)

مذکورہ دعا کا لفظی سیاق بھی یہی بتا تا ہے کہ یہ دعا کھانے کے بعد پڑھی جانی چاہیے، اس روایت کے شروع میں’’ من أکل طعامًا، ثم قال: الحمد للّٰہ یا من أکل طعامًا، فقال: الحمد للّٰہ‘‘ جیسے کلمات مذکور ہیں۔
لفظ ثم اور کلمۂ ف دونوں تراخی اور تعقیب کے لیے مستعمل ومتداول ہیں، نیز ’’من أکل طعامًا‘‘ میں ماضی کے صیغے کا استعمال بھی کھانا کھانے کے بعد پڑھنے کا مؤید ہے۔
اسی طرح ’’أطعمني ہٰذا‘‘ یا ’’ہٰذا الطعام‘‘ کھانا کھاچکنے کے بعد پڑھنے کے مشعر ہیں۔

(ج)

کھانا پینا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، نعمت پر حمد وشکر نعمت کے استعمال کے بعد ہوتا ہے، جیسے:

کھاناکھانے کے بعد:

’’في مسند أحمد (۷) : عن رجل من بني سلیم، وکانت لہ صحبۃ،: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان إذا فرغ من طعامہ، قال: اللّٰہم لک الحمد، أطعمت وسقیت، وأشبعت وأرویت، فلک الحمد غیر مکفور، ولا مودع، ولا مستغنی عنک۔‘‘

پانی یا مشروب پینے کے بعد:

’’وفي الدعاء للطبراني(۸) : عن أبي جعفر، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا شرب الماء قال: الحمد للّٰہ الذي سقانا عذبا فراتا برحمتہٖ، ولم یجعلہ ملحا أجاجا بذنوبنا۔‘‘

 لباس پہننے کے بعد:

’’وفي مسند أحمد (۹): عن أبي العلاء الشامي، قال: لبس أبو أمامۃ ثوبا جدیدا، فلمـا بلغ ترقوتہ، قال: الحمد للّٰہ الذي کساني ما أواري بہٖ عورتي، وأتجمل بہٖ في حیاتي، ثم قال: سمعت عمر بن الخطابؓ، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من استجد ثوبا فلبسہ، فقال حین یبلغ ترقوتہ: الحمد للّٰہ الذي کساني ما أواري بہٖ عورتي وأتجمل بہٖ في حیاتي۔ ثم عمد إلی الثوب الذي أخلق -أو قال ألقی - فتصدق بہٖ : کان في ذمۃ اللّٰہ، وفي جوار اللّٰہ، وفي کنف اللّٰہ حیا ومیتا، حیا ومیتا، حیا ومیتا۔‘‘

قضائے حاجت سے فراغت کے بعد:

’’وفي سنن ابن ماجۃ (۱۰): عن أنس بن مالک ؓ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا خرج من الخلاء ، قال: الحمد للّٰہ الذي أذہب عني الأذی وعافاني۔‘‘
جبکہ نعمت کے شروع اور آغاز کے موقع پر تسمیہ، تبرُّک اور تیمُّن کے الفاظ پڑھنا مسنون ہے، جیسے:

کھانا کھانے سے پہلے:
 

’’بسم اللّٰہ وبرکۃ اللّٰہ‘‘ (۱۱)۔

سفر سے پہلے:

 ’’بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ، لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ (۱۲) وغیرہ۔

گھر میں داخل ہونے سے پہلے:

 ’’اللّٰہم إني أسألک خیر المولج، وخیر المخرج، بسم اللّٰہ ولجنا، وبسم اللّٰہ خرجنا، وعلی اللّٰہ ربنا توکلنا۔‘‘وغیرہ۔
پس بعض اہلِ علم کا یہ اصرار یادعوائے اختصاص کہ مذکورہ دعا کھانے سے پہلے یا کھانا شروع کرتے وقت کی دعا ہے، بظاہر درست نہیں ہے، واللہ اعلم۔

’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا ۔۔۔۔۔مِنَ المسلمین۔الخ‘‘ میں ’’ مِنْ‘‘ کے اضافے کی تحقیق

جہاں تک دوسری دعا ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین‘‘ میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے کا تعلق ہے، اس لفظ کے موجود ہونے کی نفی اس تفصیل کے ساتھ شاید درست ہو کہ عام متداول کتابوں میں یہ معروف دعا لفظ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے کے بغیر منقول ہے۔
نیز اس لفظ کی غیر موجودگی‘ جملہ کی ترکیبی حالت پر اثر انداز بھی نہیں ہوتی،اور سننِ اربعہ اور احادیث واذکار کی دیگر چند کتابوں میں یہ دعا لفظ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے کے بغیر ہی مذکور ہے۔

لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے حذف پر حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

۱:- ’’وفي مسند أحمد (۱۳): عن أبي سعید الخدري ؓ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فرغ من طعامہٖ قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا، وجعلنا مسلمین ۔‘‘
۲:- ’’وفي مصنف ابن أبي شیبۃ(۱۴): عن أبي سعید ؓ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل طعاما قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین ۔‘‘
۳:- ’’وفي سنن أبي داود(۱۵): عن أبي سعید الخدري ؓ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فرغ من طعامہٖ، قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا، وجعلنا مسلمین ۔‘‘
۴:- ’’وفي سنن الترمذي(۱۶): عن أبي سعید ؓ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین ۔‘‘
۵:- ’’وفي السنن الکبری للنسائي (۱۷): عن أبي سعید الخدري ؓ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل طعامًا قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا، وجعلنا مسلمین ۔‘‘
۶:- ’’وفي سنن ابن ماجۃ (۱۸): عن أبي سعید ؓ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل طعاما، قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا وجعلنا مسلمین۔‘‘
۷:- ’’وفي عمل الیوم واللیلۃ (۱۹): عن أبي سعید الخدري ؓ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل طعاما قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین۔‘‘
۸:- ’’وفي شعب الإیمـان (۲۰) : عن أبي سعید الخدري ؓ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فرغ من طعامہٖ قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین۔‘‘

ان حوالہ جات کی موجودگی میں یہ کہنا تو درست ہے کہ مذکورہ دعا میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ سنن وغیرہا کے متداول نسخوں اور معروف مراجع میں موجود نہیں ہے، اور لفظ ’’مِنْ‘‘ کے نہ ہونے سے مذکورہ دعائیہ کلمات میں لفظی اور معنوی لحاظ سے کوئی خلل بھی واقع نہیں ہورہا، نیز خورد نوش کی نعمت صغریٰ اور زمرۂ مسلمین میں شامل ہونے کی نعمتِ عظمیٰ پر حمد وشکر کا اصل مقصود بھی پورا ہورہا ہے، جیسا کہ اوپر علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے گزرا کہ اصل مقصد (شکرِ باری تعالیٰ) میں الفاظ کا تقیُّد ضروری نہیں، بلکہ صرف ’’الحمد للّٰہ‘‘ بھی کافی ہے، اس لیے ’’جعلنا مسلمین‘‘ میں لفظ ’’مِنْ‘‘کے اضافے اور موجودگی پر اصرار نہیں کیا جاسکتا۔

لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے پر مشتمل حوالہ جات :

مگر بعض اہلِ علم کا یہ ارشاد محلِ نظر ہے کہ اس دعا میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ کہیں بھی نہیں ہے، قطعی غلطی ہے یا محض تصحیف ہے یا پھر ناسخین کے تصرُّف کا نتیجہ ہے، اس لیے کہ لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ کئی معتبر، معتمد اور محقق ناقلین اور شارحین کی نقول اور شروح میں موجود ہے۔ 

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

٭ کنز العمـال في سنن الأقوال والأفعال، ج: ۷، ص: ۱۰۴، رقم الحدیث : ۱۸۱۷۷، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ :
’’ کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من طعامہٖ قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین۔ حم ۴ والضیاء عن أبي سعید۔‘‘
٭ جمع الفوائد من جامعِ الأصول ومجمع الزوائد، ج:۸۹ ،۴ ، رقم الحدیث: ۹۴۲۲، طبعۃ: دار ابن حزم، بیروت:
’’ أبو سعید: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب، قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین۔ للترمذي وأبي داود۔‘‘
٭ حجَّۃ اللّٰہ البالغۃ، للشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، ج: ۲، ص:۲۱۴ ، طبعۃ: دار الجیل، بیروت:
’’ وإذا أکل أو شرب’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا، وجعلنا من المسلمین۔‘‘
٭ الشمـائل النبویَّۃ، للترمذي، ص:۱۱۸، رقم الحدیث : ۱۹۲، نسخۃٌ مخطوطۃ في المکتبۃ الأزہریۃ:
’’ عن أبي سعید الخدري ؓ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من طعامہ قال: ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من مسلمین ۔‘‘
٭ أشرف الوسائل إلی شرح الشمـائل لابن حجر الہیتميؒ، ص:۲۷۱، طبعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت:
’’ (قال: الحمد للّٰہ ۔۔۔ إلخ) ، وختمہٗ بقولہٖ: (وجعلنا من المسلمین)؛ للجمع بین الحمد علی النعم الدنیویۃ والأخرویۃ، وإشارۃ إلٰی أن الحامد لا ینبغي أن یجود بحمدہٖ إلٰی أصاغر النعم، بل یتذکر جلائلہا فیحمد علیہا أیضا؛ لأنہا بذٰلک أحرٰی وأحق وأولٰی۔‘‘
٭ حاشیۃُ السِّندي علی ابن ماجۃ، ج: ۲، ص: ۳۰۷، رقم الحدیث : ۳۲۸۳، طبعۃ: دار الجیل، بیروت:
’’ قولہ: (وجعلنا من المسلمین) للجمع بین الحمد علی النعمۃ الدنیویۃ والأخرویۃ۔
٭ کنز الدرر وجامع الغرر لابن أیبک، ج: ۱۳، ص: ۱۰۴، طبعۃ: عیسی البابي الحلبي:
’’ وإذا رفع الطعام من بین یدیہ قال: ’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وآوانا وجعلنا من المسلمین ۔‘‘
٭ الکلم الطیب لابن تیمیۃ، ص:۸۲، طبعۃ: دار الفکر، بیروت:
’’ وعن أبي سعید ؓ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فرغ من طعامہٖ قال:’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا، وجعلنا من المسلمین۔ خرجہ أبو داود والترمذي۔‘‘
٭ الحصنُ الحصین، لإمام المقرئین الجزري، ص:۱۱۱، طبعۃ: نجم العلوم، لکہنوء :
’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا، وجعلنا من المسلمین۔ عہ، ی۔‘‘
٭ السنن والمبتدعات المتعلقۃ بالأذکار والدعوات للحوامدي، ص:۲۸۶، طبعۃ: دار الفکر:
’’ وعن أبي سعید ؓ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فرغ من طعامہٖ قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا، وجعلنا من المسلمین۔ رواہ أبو داود والترمذي۔‘‘

٭    یہ تمام ناقلین، شارحین اور محققین معتمد اور مستند لوگ ہیں، ان کے نقل کردہ اقوال، حوالہ جات، اور آثار واحادیث کو قبول کیا جاتا ہے، بلکہ انہیں ثانوی مراجع کا درجہ بھی حاصل ہے، اس لیے ایسے معتمد اصحابِ علم کی نقل کو غلطی کی بجائے تحقیق پر محمول کرنا زیادہ مناسب ہے۔
٭    مزید یہ کہ لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے اضافہ کو درست مان لینے سے روایت کی معنوی اور ترکیبی حیثیت میں ایسا بڑا خلل بھی نہیں آتا جسے تصحیف یا مردود اضافہ کا مورد ٹھہرایا جائے، بلکہ نعمتِ طعام پر حمد وشکر جیسے مقصودِ اصلی کواگر پیشِ نظر رکھا جائے تو اس مقصدِ اصلی کی ادائیگی کے لیے الفاظ کا تفاوت، خود مأثور دعاؤوں کی صورت میں موجود ہے۔
٭    کھانے اور پینے کے بعد متعدد دعاؤوں کا منقول ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان دعاؤوں کا اصل مقصد نعمت طعام پر حمد وشکرادا کرنا ہے، الفاظ کا تقیُّد بذاتِ خود مطلوب نہیں ہے، (کما مر عن النوويؒ وابن جوزي)چنانچہ کھانا کھانے کے بعدجو دعائیں پڑھنا منقول ہیں، وہ ملاحظہ ہوں:
ففي مسند أحمد(۲۱): 
’’عن أبي سعید الخدري ؓ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فرغ من طعامہٖ قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا، وجعلنا مسلمین ۔‘‘
وفي سنن الترمذي(۲۲): 
’’عن معاذ بن أنس ؓ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من أکل طعامًا، فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا ورزقنیہ من غیر حولٍ ولا قوَّۃ: غُفر لہٗ ما تقدَّم من ذنبہٖ۔‘‘
وفي مسند أحمد(۲۳): 
’’عن أبي أمامۃ ؓ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفعت المائدۃ قال: الحمد للّٰہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی ولا مودع ولا مستغنی عنہ ربنا۔‘‘
وفي جمع الجوامع(۲۴):۱۴۲/۱۰۶۲۲- 
’’الحمد للّٰہ حمدًا طیبًا مبارکًا فیہ، غیر مکفور ولا مودع ولا مستغنی عنہ ربنا۔‘‘ کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقولہ إذا رفع مائدتہ۔ خ، طب عن أبی أمامۃ۔‘‘
وفي سنن ابن ماجۃ (۲۵): 
’’عن أبي أمامۃ الباہلي، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، أنہ کان یقول إذا رفع طعامہ أو ما بین یدیہ، قال: الحمد للّٰہ حمدا کثیرا، طیبا مبارکا، غیر مکفی، ولا مودع، ولا مستغنی عنہ ربنا۔‘‘

مؤخر الذکر روایت میں ’’حمدًا‘‘کے بعد کہیں پر ’’کثیرًا‘‘کے الفاظ منقول ہیں اور کہیں پر صرف ’’حمدًا طیبًا‘‘وارد ہے، کہیں پر ’’الحمد للّٰہ کثیرًا‘‘ کے الفاظ ہیں، ’’حمدًا‘‘نہیں ہے۔
٭    مؤخر الذکر دعا کو الفاظ کے حذف و اضافہ کی دونوں صورتوں کے ساتھ بلانکیر نقل و قبول کرنا، اس بات کے لیے مؤید ہے کہ اس نوعیت کی روایات میں اس درجے کی معمولی کمی بیشی سے اگر روایت میں لفظی یا معنوی خلل پیدا نہ ہوتا ہو اور مقصودِ اصلی صحیح طور پر ادا ہورہا ہو، بالخصوص ایسی روایات کہ جن پر کسی حکم کی بنیاد بھی نہ رکھی جارہی ہو، تو ایسی روایات کو نقلِ روایات کے ضوابط اور اُصولِ تحقیق کے قواعد کے موجب اس درجے کی کمی بیشی کے ساتھ نقل کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، بطورِ خاص جن اہلِ علم کے ہاں روایت بالمعنی کا جواز موجود ہو اور ایسی روایات کے ناقلین کی ثقاہت و فقاہت بھی مسلم ہو، تو ایسے موقع پر کسی غیر مخل لفظ کی کمی بیشی میں شدت کے ساتھ اُلجھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا و سقانا و جعلنا مسلمین‘‘ میں لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے پر دو وزنی اشکال اور اُن کا جواب 

تاہم روایتِ بالا (الحمد للّٰہ الذي أطعمنا و سقانا و جعلنا مسلمین) کے بارے میں روایتی پہلو سے دو وزنی اشکال سامنے آتے ہیں، ایک یہ کہ جب مذکورہ دعا کو بطور روایت و حکایت بیان کیا جارہا ہو تو اس میں روایت و نقل کے دیانتی اُصول کے مطابق معمولی کمی بیشی کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے، یہ روایت کا وہ اصول ہے جس کی رعایت ہر جگہ رکھی جاتی ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ جن کتب میں لفظِ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ درج ہے،ا ن کتابوں میں جن مصادر کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان مصادرِ اصلیہ کے دستیاب نسخوں میں لفظِ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ موجود نہیں ہے، یہ دونوں اشکال علمی واُصولی نوعیت کے ضرور ہیں، مگر ان کے بجا ‘ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان الفاظ کی نفی کے لیے استقراء کی بجائے استقصاء واحصاء تام کا مؤقف قائم کیا جائے، مگر ہمارا خیال یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی عالمِ دین شاید ہی ایسا ہو جو یہ مؤقف رکھتا ہو کہ دنیا کے سارے نسخے ہم نے دیکھ لیے ہیں، اور اضافہ نقل کرنے والے ہمارے ناقلینِ عظام کے سامنے بھی مراجعِ اصلیہ کے وہی نسخے موجود تھے جو ہمارے سامنے موجود ہیں۔
اگر یہ جازِمانہ رائے قائم نہ ہوسکے تو پھر یہ احتمالی رائے زیادہ وقیع ہے کہ لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے حذف واضافہ کو نسخوں کا اختلاف قرار دیا جائے، اور یہ کہا جائے کہ ہمارے متأخرین و معاصرین، ناشرین و ناسخین کے سامنے جو نسخے تھے ان میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ نہیں تھا یا محذوف تھا، جبکہ ’’جمع الفوائد، کنز العمـال، الحصن الحصین، الکلم الطیب ،حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ وغیرہا کے مؤلفین ومحققین کے سامنے سنننِ اربعہ، مسند احمد، شمائل اور بیہقی وغیرہ کے بعض ایسے نسخے بھی موجود تھے جن میں لفظِ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ موجود تھا، یہ اضافہ محض احتمالی نہیں ہے، بلکہ اس کے شواہد بھی موجود ہیں:

الف: ۔۔۔۔۔ حضرت شیخ الحدیث مو لانا زکریا ؒ نے شمائلِ نبوی کی شرح خصائلِ نبوی میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ مذکورہ دعا میں لفظ ’’مِنْ‘‘ ہمارے ہندی ومصری نسخوں میں نہیں ہے، مگر بعض حواشی میں نسخے کے اشارے کے ساتھ ’’من المسلمین‘‘ بھی موجود ہے۔

’’قال شیخُ الحدیث محمد زکریا الکاندہلوي في خصائل نبوي‘‘ (ص:۱۹۹) طبعۃُ: مکبتۃ البشرٰی:
’’قولہ: (مسلمین) ہٰکذا في جمیع النسخ الموجودۃ من الہندیۃ والمصریۃ، وفي بعض الحواشي بطریق النسخۃ: من المسلمین، اہـ۔‘‘

ب: ۔۔۔۔۔ نسخوں کے اسی اختلاف کی تحقیق کرتے ہوئے شیخ ابو عبد اللہ السید بن احمد حمودہ فرماتے ہیں کہ شمائل کے متعدد نسخوں میں سے ایک نسخے میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ موجود و محفوظ ہے، یہ نسخہ (۱۰۴) صفحات پر مشتمل ہے، مصر کے مکتبہ ازہریہ میں موجود ہے، جو (۱۲۳۲ھ) میں کاتب احمد بن محمد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے، چنانچہ شیخ ابو عبد اللہ السید بن احمد حمودہ شمائل نبوی کی تحقیق کرتے ہوئے مقدمہ میں اس نسخہ کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، جس میں لفظِ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ ہے :
’’نسخۃ کاملۃ محفوظۃ بالمکتبۃ الأزھریۃ تحت رقم: (۸۳۳)، (۳/۸۴)، عدد أوراقہا (۱۰۴) ورقۃ، في کل ورقۃ صفحتان عدا الأولٰی والأخیرۃ وعدد الأسطر في الورقۃ (۱۵) سطرا، وفي کل سطر (۹) کلمات تقریبًا، وقد کتبت ہٰذہ النسخۃ عام ۱۲۳۲ھ علٰی ید أحمد بن محمد ، وکتبہٗ بخط نسخ ، وبعضہ ثلث، ورمزت لہٰذہ النسخۃ (ت)، وتکرر أحادیث من المخطوطۃ، ووجدت فیہا سقطا مخلا ومخالفۃ لکثیر من النسخ فتجاہلتہ خشیۃ الأطالۃ۔‘‘ (ص :۲۳، ط:مکتبۃ العلوم والحکم)
ج: ۔۔۔۔۔ علامہ احمد بن محمد بن علی بن حجر الھیتمیؒ (متوفی:۹۷۴ھ) نے مذکورہ دعا کے کلمات نقل کرتے ہوئے اپنی تعلیقات میں ’’وجعلنا من المسلمین‘‘ کے الفاظ نقل کیے ہیں، اور اسی ترکیب کی روشنی میں تعلیق وتفصیل نقل فرمائی ہے:
 أشرف الوسائل إلی شرح الشمـائل لابن حجر الہیتمیؒ، (ص:۲۷۱)، طبعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔
’’(قال: الحمد للّٰہ ۔۔۔ إلخ)، وختمہٗ بقولہ: (وجعلنا من المسلمین)؛ للجمع بین الحمد علی النعم الدنیویۃ والأخرویۃ، وإشارۃ إلٰی أن الحامد لا ینبغي أن یجود بحمدہٖ إلی أصاغر النعم، بل یتذکر جلائلہا فیحمد علیہا أیضا؛ لأنہا بذٰلک أحرٰی وأحق وأولٰی۔‘‘

د: ۔۔۔۔۔ علامہ ہیتمی ؒ کی طرح سنن ابن ماجہ کے محشی علامہ نور الدین السندی ؒ نے بھی حاشیہ میں ’’وجعلنا من المسلمین‘‘ کے الفاظ نقل کرتے ہوئے ان کلمات کی تفہیم وتبیین فرمائی ہے۔
حاشیۃُ السِّندي علی ابن ماجۃ، ج:۲،ص:۳۰۷، رقم الحدیث: ۳۲۸۳، طبعۃ: دار الجیل، بیروت۔
’’ قولہ: (وجعلنا من المسلمین) للجمع بین الحمد علی النعمۃ الدنیویۃ والأخرویۃ۔‘‘

ہ: ۔۔۔۔۔ ان دونوں حواشی کا حاصل یہ ہے کہ مذکورہ دعا ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین‘‘ میں ایک چھوٹی اور ایک بڑی نعمت پر حمد وشکر کا بیان ہے، چھوٹی نعمت اکل وشرب اور بڑی نعمت مسلمان ہونا ہے، چھوٹی نعمت کا فائدہ دنیوی ہے، اور بڑی نعمت کی منفعت کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے، اس لحاظ سے یہ دعا دنیا وآخرت دونوں کی نعمتوں کو شامل ہے۔
و: ۔۔۔۔۔ مسلمان ہونا یقینا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، دنیا کی راحت اور آخرت کی نجات اسی میں مضمر ہے، مگر اس نعمتِ عظمی کا ایک پہلو اور بھی ہے، جس سے اس کی عظمت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، اور فلاح وکامیابی کا امکان‘ غالب ہوجاتا ہے، وہ پہلو یہ ہے کہ انسان‘ مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں کی صنف میں شمار بھی ہو، کیونکہ صاحبِ فضیلت ہونا جتنا کمال ہے اس سے بڑھ کر کمال یہ ہے کہ انسان کو اصحابِ فضیلت کے زمرے میں شمار کیا جائے۔ اس مفہوم کو قرآن وسنت کے مختلف بیانات میں ذکر فرمایا گیا ہے:
’’یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۔‘‘ (سورۃ التوبۃ: ۱۹۹)
’’ وَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَأٰتُوا الزَّکَاۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ۔‘‘ (سورۃ البقرۃ:۴۳)
’’تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًـا وَّأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ ۔‘‘ (سورۂ یوسف:۱۰۱)
’’رَبِّ ہَبْ لِيْ حُکْمًـا وَّأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ۔‘‘ (سورۃ الشعراء :۸۳)
’’وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِإِیمَـانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ۔‘‘ (سورۃ الطور:۲۱)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤوں میں ’’اللّٰہم أحیني مسکینًا وأمتني مسکینًا، واحشرني في زمرۃ المساکین یوم القیامۃ۔‘‘ (۲۶) بھی وارد ہے۔
اس مضمون کی سب سے واضح تائید قنوتِ نازلہ کے الفاظ سے ہوتی ہے:
’’اللّٰہم اہدني فیمن ہدیت، وعافني فیمن عافیت، وتولَّني فیمن تولیت، وبارک لي فیمـا أعطیت، وقني شرَّ ما قضیت، إنک تقضي ولا یقضٰی علیک، وإنہٗ لا یذل من والیت، ولا یعز من عادیت، تبارکت ربنا وتعالیت۔‘‘ (۲۷)
اس تفصیل سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اسلام ایک عظیم نعمت ہے، اس نعمت کے بعد زمرۂ مسلمین میں شمردگی اس سے بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ اسلام کی نعمت‘ نصیب ہونے کے بعد اہلِ اسلام میں شامل اور شمار رہنے کی دعا وتعلیم اس کا واضح ثبوت ہے۔

 

’’جعلنا من المسلمین‘‘ کی ترجیح

اس توضیح کے تناظر میں مذکورہ دعا میں ’’وجعلنا مسلمین‘‘ کی بجائے ’’وجعلنا من المسلمین‘‘ میں زیادہ جامعیت ہے، ان الفاظ کے ذریعہ دنیا وآخرت کی نعمتوں کا کمال کے ساتھ شکر اداہورہا ہے، یعنی خورد نوش کی نعمت پر شکر، مسلمان ہونے کی نعمت پر شکر، اور مسلمانوں میں شمار ہونے کی نعمت پر شکر کا فائدہ ہورہا ہے، انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت میں بے شمار فوائد ہیں، کبھی انسان کا ذاتی کمال اور عمل نجات وقبولیت کا رتبہ نہیں پاسکتا، مگر اجتماعیت کی بدولت وہ ذاتی کمال وعمل اس رتبہ سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے، جیسے اجتماعی نماز، اجتماعی جنازہ اور اجتماعی دعا وغیرہ، اس کے متعدد نظائر ہیں۔

خلاصۂ کلام

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا ورزقنیہ من غیر حولٍ ولا قوَّۃ‘‘ یہ دعا کھانے سے پہلے نہیں، بلکہ کھانے کے بعد پڑھنا مسنون ومأثور ہے۔
جبکہ دوسری دعا ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین‘‘ میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کے حذف واضافہ سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ ہمارے ہاں رائج مطبوعہ متداول نسخوں موجود نہیں ہے، اگر کوئی صاحبِ علم لفظ’’مِنْ‘‘ کی موجودگی کی نفی ازیں جہت کرے کہ یہ ہمارے متداول نسخوں میں مکتوب وموجود نہیں ہے، اس لیے ہم نہیں پڑھتے تو ان کی یہ با ت اپنی جگہ درست ہے، اور ان کا لفظِ’’مِنْ‘‘ کا بغیر پڑھنا بھی درست ہے، روایت کا اصل مقصد اور معنی بھی اپنی جگہ باقی وبرقرار اور صحیح ہے۔
لیکن ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے الفاظ کی سرے سے موجودگی کی نفی یا تصحیف ونسخ کی غلطی کا تأثر دینا درست نہیں ہے، کوئی بھی صاحبِ علم دنیا کے تمام نسخوں پر اطلاع واحاطہ کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
دوسرا یہ ہے کہ متعدد معتبر ناقلین ان الفاظ کو عرصہ سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں، اور بعض مکتبات میں ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے اضافے والے نسخوں کی موجودگی بھی ثابت ہے، جس سے ’’وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ والے الفاظ کی موجودگی اور درستگی کی رائے کو تقویت وتائید مل رہی ہے۔
لہٰذا اس سب کچھ کے باوجود تحقیق کے اصول اور روایت کے قواعد کے مطابق اگر متداول مطبوعہ نسخوں میں سے ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے حذف کرنے کی ذمہ داری کسی پر عائد نہیں کی جاسکتی، تو کم ازکم ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘کے الفاظ کی کہیں نہ کہیں موجودگی اور صحت کا انکار بھی قطعاً نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ حذف وسقط کی ذمہ داری‘ مؤلف ومرتب کی بجائے ناسخ وناشر کے ذمہ میں ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے، جیسے ’’مصنف ابن أبي شیبۃ‘‘ کے بعض مخطوطات میں ’’باب ماجاء في وضع الیدین تحت السرۃ‘‘ کا باقاعدہ عنوان اور متعلقہ آثار موجود تھے، مگر مطبوعہ نسخوں میں یہ عنوان ہے نہ معنون، جبکہ اس کے مقابلے میں زیرِ بحث مسئلہ اس درجہ کا مدار حکم بھی نہیں ہے، اس لیے اس میں نزاع ونکیر کی کوئی وجہ اور ضرورت نہیں ہے۔ مذکورہ دعا کو ’’جَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ‘‘ اور ’’جَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ دونوں طریقوں سے پڑھنا درست ہے۔

ہٰذا ما ظہر لي، والحقُّ والحقیقۃ عند اللّٰہ العلیم الخبیر، وصلی اللّٰہ وسلم علٰی سیدنا محمد، وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

حوالہ جات

۱:- سنن الترمذي کتاب الأطعمۃ، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، (۵/۵۰۸)، رقم الحدیث (۳۴۵۸)، طبعۃُ: دار إحیاء التراث العربي، بیروت۔
۲:- مسند أحمد، (۱۷/۳۷۵)، رقم الحدیث (۱۱۲۷۶)، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ۔
۳:- سنن الترمذي کتاب الأطعمۃ، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، (۵/۵۰۸)، رقم الحدیث (۳۴۵۸)، طبعۃُ: دار إحیاء التراث العربي، بیروت۔
۴:- بذل المجہود في حل سنن أبي داود، کتاب اللباس، (۱۲/۵۲) مؤسسۃ الخیریۃ۔
۵:- شرح صحیح البخاري لابن بطال، کتاب الأطعمۃ، باب ما یقول إذا فرغ من طعامہ، (۹/۵۰۷)، مکتبۃ الرشد۔
۶:- تحفۃ الأحوذي، کتاب الأطعمۃ، (۵/۴۳۷)، طبعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔
۷:- مسند أحمد، حدیث رجل من بني سلیم، (۲۹/۶۱۳)، رقم الحدیث (۱۸۰۷۱) ، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ۔
۸:- الدعاء للطبراني، باب القول عند الفراغ من الطعام والشراب، (ص:۲۸۰)، رقم الحدیث (۸۹۹ ) ۔
۹:- مسند أحمد، مسند عمر بن الخطاب ؓ، (۱/۳۹۶)، رقم الحدیث (۳۰۵)۔
۱۰:- سنن ابن ماجۃ، باب ما یقول إذا خرج من الخلاء ، (۱/۱۱۰)، رقم الحدیث (۳۰۱)۔
۱۱:- المستدرک علی الصحیحین، کتاب الأطعمۃ، (۴/۱۲۰)، رقم الحدیث (۷۰۸۴)، طبعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔
۱۲:- سنن أبي داود، باب ما یقول إذا خرج من بیتہ، (۴/۳۲۵)، رقم الحدیث (۵۰۹۵)، طبعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت۔
۱۳:- مسند أحمد، (۱۷/۳۷۵)، رقم الحدیث (۱۱۲۷۶)، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ۔
۱۴:- مصنف ابن أبي شیبۃ، (۵/۱۳۸)، رقم الحدیث (۲۴۵۰۴)، مکتبۃ الرشد، الریاض۔
۱۵:- سنن أبي داود، (۳/۳۶۶)، رقم الحدیث: (۳۸۵۰)، طبعۃُ المکتبۃ العصریۃ، بیروت۔
۱۶:- سنن الترمذي، (۵/۵۰۸)، رقم الحدیث (۳۴۵۷)، طبعۃ: مصطفی البابي الحلبي۔
۱۷:- السنن الکبری، (۹/۱۱۶)، رقم الحدیث (۱۰۰۴۷)، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ۔
۱۸:- سنن ابن ماجۃ، (۲/۱۰۹۲)، رقم الحدیث (۳۲۸۳)، طبعۃ: دار إحیاء الکتب العربیۃ۔
۱۹:- عمل الیوم واللیلۃ، (ص:۴۱۵)، رقم الحدیث (۴۶۴)، طبعۃ: دار القبلۃ۔
۲۰:- شعب الإیمـان، (۸/۱۶۴)، رقم الحدیث (۵۶۳۹)، طبعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض۔
۲۱:- مسند أحمد، (۱۷/۳۷۵)، رقم الحدیث (۱۱۲۷۶)، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ۔
۲۲:- سنن الترمذي ، کتاب الأطعمۃ، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، (۵/۵۰۸)، رقم الحدیث (۳۴۵۸)، طبعۃُ: دار إحیاء التراث العربي، بیروت۔
۲۳:- مسند أحمد، حدیث أبي أمامۃ الباہلي، (۳۶/۵۳۷)، رقم الحدیث (۲۲۲۰۰)، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ۔
۲۴:- سنن ابن ماجۃ، کتاب الأکل، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، (۲/۱۰۹۲)، رقم الحدیث (۳۲۸۴)۔ 
۲۵:- سنن ابن ماجۃ، کتاب الأکل، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، (۲/۱۰۹۲)، رقم الحدیث (۳۲۸۴)۔ 
۲۶:- سنن الترمذي، باب ما جاء أن فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ قبل أغنیائہم ، (۴/۵۷۷)، رقم الحدیث (۲۳۵۲)۔
۲۷:- سنن أبي داود، کتاب الوتر، باب القنوت في الوتر، (۲/۶۳)، رقم الحدیث (۱۴۲۵)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین