بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کچھ ہماری ’’یادیں‘‘

کچھ ہماری ’’یادیں‘‘


ماہ نامہ البلاغ کراچی میں ’’یادیں‘‘ کے نام سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا مضمون قسط وار شائع ہورہا ہے۔ ماہِ صفر المظفر و ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق اکتوبر ۲۰۲۲ء کے شمارہ میں اور باتوں کے علاوہ کچھ باتیں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے متعلق بھی شامل اشاعت تھیں، ضروری معلوم ہوا کہ ریکارڈ کی درستگی کی غرض سے ان کی تصحیح وضروری وضاحت کردی جائے، تاکہ تاریخی نقطۂ نظر سے ہر پہلو واضح ہو:
1:  جن دینی حلقوں کی طرف سے مروجہ اسلامی بینکاری کی بابت‘ حمایت کا تأثر دیا گیا ہے، ان کی فہرست‘ ان کے علمی و عملی کارناموں اور طریقۂ حمایت وغیرہ سے قصداً صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کریں گے کہ جن مقتدر ہستیوں کا تائید کے طور پر تذکرہ ہے،ان کے متعلق حضرت مفتی صاحب زیدمجدہم بخوبی آگاہی کے باوجود شاید کچھ نہ کہہ سکیں، اس لیے ہم بھی فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے، بلکہ صرف حضرت سے اختلاف رائے رکھنے والے حلقے سے متعلق چند تسامحات کی نشان دہی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ نیز یہ کہ اسلامی بینکاری کی تائیدی تحریروں کے بعد حضرت نے خود جو تحریر لکھی ہے، اس کے بعض مندرجات پر گفتگو ہوتی رہی ہے، اور مزید ہوتی رہے گی، ان شاء اللہ! اس لیے بھی مضمون میں ذکر کردہ تائیدی تحریروں پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
البتہ مفتی صاحب زیدمجدہم نے اسلامی بینکاری کے نظریاتی و دفعاتی مؤیدین میں حضرت مفتی سیاح الدین کاکا خیل، مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہم اللہ، اور مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ کے شریک علماء کو شمار کیا ہے، حالانکہ ان حضرات کی وہ سخت تحریریں بھی موجود ہیں جو نہ صرف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم کے بیان کے برعکس ہیں، بلکہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ کی جن مجالس کی روئیدادوں کا حوالہ دیا گیا ہے، ان روئیدادوں میں مرتبین کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ تساہل کا بیان بھی موجود ہے، مگر مذکورہ ’’یادوں‘‘ میں ان کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ملتا۔ اسی طرح مفتی سیاح الدین کاکاخیل کا مرابحہ مؤجلہ / سودی حیلے پر مضمون ’’فکر و نظر‘‘ اسلام آباد کی اشاعتوں میں شامل ہے، ان کی یہ رائے بھی ’’یادوں‘‘ میں جگہ نہیں پاسکی، نیز اس مجلس کے شرکاء میں ڈاکٹر مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ بھی تھے جن کا تذکرہ نہیں کیا گیا، حالانکہ اس مجلس، اسلامی بینکاری اور حضور والا کی بعض تحریرات سے متعلق ان کی شدید نکیریں اور تنقیدیں طبع شدہ ہیں، بایں ہمہ اس مجلس (۱۴۱۲ھ) کے اٹھارہ شرکاء میں سے بارہ شرکاء صرف جامعہ دار العلوم کراچی کے تھے، اس کے باوجود مروجہ اسلامی بینکاری کے جواز کو مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ سے جوڑنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ 
2:  مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ کے ضمن میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کا ذکرِ خیر بھی فرمایا گیا،جامعہ کا اس کے علاوہ بھی متعدد مرتبہ ذکر فرمایا گیا ہے، مجلسِ تحقیق مسائل حاضرہ میں حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ کی عدمِ شرکت کا باعث ان کی علالت تھی، یہ بات تو درست ہے، مگر دارالافتاء بنوری ٹاؤن اس وقت سے تاحال مصروفِ عمل ہے، اس کے باوجود شعبان ۱۴۱۲ھ والی مجلس میں دار الافتاء بنوری ٹاؤن کو اگر مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ میں نمائندگی اور مفتی ولی حسن رحمہ اللہ کی نیابت کے قابل نہیں سمجھا گیا تو ۱۴۲۹ھ (مطابق ۲۰۰۸ء) والی مجلس میں عدمِ شرکت اور اس کے رف مسودے کے عدمِ حصول پر گلہ مند نہیں ہونا چاہیے تھا۔
بہرحال اب یہ گلہ متعدد مرتبہ سامنے آرہا ہے، تو اس بارے میں ریکارڈ کی درستگی کے لیے صرف اتنا عرض ہے کہ جس کتاب کے مہیا نہ کرنے پر حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم دارالافتاء بنوری ٹاؤن سے شکایت فرما رہے ہیں، (یاد داشت کے مطابق) اس کتاب کے چھپتے ہی پانچ نسخے دارالافتاء کے دو ارکان کے ذریعے جامعہ دار العلوم کراچی میں حضرت کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تھے، اس سے قبل جب رمضان ۱۴۲۹ھ میں حضرت والا بنوری ٹاؤن تشریف لائے تھے، اس وقت کتاب چھپی ہی نہیں تھی اور ان سے حضرت مولانا مفتی عبد المجید دین پوری شہید رحمہ اللہ نے محض معذرت نہیں کی، بلکہ زبانی طور پر یہی وعدہ فرمایا تھا کہ کتاب چھپتے ہی آپ کو پہنچا دی جائے گی، جو بعد میں پورا کر دیا گیا تھا۔ اس وقت حضرت مفتی صاحب کا اصرار اگر مطبوعہ کتاب کی بجائے رف مسودے کا تھا تو ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ پورا ہونا ضروری نہیں تھا، کوئی بھی مؤلف ایسا کرنے کا روا دار ہو تو پھر دار الافتاء بنوری ٹاؤن کو موردِ شکایت ٹھہرانا بجا ہوگا، لیکن ہمارے خیال میں رف مسودے کے مہیا نہ ہونے کا شکوہ بھی درست نہیں، کیوں کہ یہ رف مسودہ بھی حضرت کی حسبِ خواہش انہیں مہیا ہو گیا تھا،جس کا حوالہ حضرت نے’’غیر سودی بینکاری‘‘ کتاب میں صفحہ: ۷۶ میں دیا ہے۔بہر حال جو بھی صورت ہو،کتاب کی طباعت سے قبل یہ رف مسودہ بھی حضرت کو مہیا ہو گیا تھا۔
3:   ۲۰۰۸ء کی روئیداد میں ایک بڑا نقص اور تساہل یہ بھی ہے کہ اس روئیداد میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا تذکرہ تو بارہا فرمایا گیا ہے، مگر اس مجلس کے اصل محرک اور اس سلسلے کی مجالس کے میزبان ادارے اوراس وقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے بھی استاذگرامی یعنی حضرت شیخ المشائخ مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ، جامعہ فاروقیہ کراچی اور ان کے دار الافتاء یا دیگر شرکائے مجلس کا کہیں بھی تذکرہ نہیں فرمایا گیا، حالانکہ اس مجلس کے شرکاء میں دار الافتاء جامعہ فاروقیہ، جامعہ عربیہ احسن العلوم، جامعہ حمادیہ، جامعہ خلفاء راشدینؓ، جامعہ خیر المدارس،جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، دار الافتاء ربانیہ کوئٹہ، وغیرہ جیسے ملک کے چیدہ چید ہ دار الافتاؤں کے نمائندے شامل تھے، ان تمام امور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کو شکایت کا محور بنانا کیسے مناسب ہوسکتا ہے؟ ہمارے خیال میں یہ روئیداد اس مجلس کی پوری حکایت نہیں کررہی، یا بالفاظِ دیگر شاید اس دورانیے کے پورے احوال یاد نہ رہ سکے، واللہ اعلم۔ 
4:  مذکورہ ’’یادوں‘‘ میں جہاں کئی واجب الذکر شخصیات اور اداروں کے نام‘ ذہول کا شکار ہو گئے ہیں، وہیں دیگر بعض ضروری مواقع پر ضروری نام بھی ابہام کی نذر نظر آتے ہیں، مثلاً کسی موقع پر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مخالفت میں دستخط کرنے والے بعض حضرات نے اپنے دستخطوں یا تائیدات سے لا تعلقی کا اعلان و اظہار بھی فرمایا تھا، یہ اعلان یا اظہار کب اور کہاں ہوا؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے، اگر ایسا کوئی نام سامنے ہوتا تو اس پر گزارش کی جاتی، مگر ہمارے علم کے مطابق مروجہ اسلامی بینکاری کو ناجائز قرار دینے والے اہلِ افتاء میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا، ان حضرات کے ساتھ اس وقت سے تا حال جو زندہ ہیں، رابطہ رہا ہے اور رہتا ہے۔ 
5:  تحریرِ مذکور میں چند عرب علمائے کرام کے اسمائے گرامی کے تذکرے کے ضمن میں یہ تأثر عام ہو رہا ہے کہ گویا عرب علماء کی اکثریت یا مقتدر نمائندگی‘ مروجہ اسلامی بینکاری کو جائز اور درست سمجھتی ہے، یہ تأثر بظاہر واقعہ کے مطابق نہیں ہے، ہمارے سامنے استاذ جعفر جزار کی ’’البنوک في العالم‘‘ کی وہ طویل فہرست موجود ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے عرب کی ایک بڑی تعداد اور ان کی مقتدر نمائندگی اس نظام کو ناجائز قرار دیتی ہے۔ نیز مروجہ اسلامی بینکاری کے نظام کو سودی نظام اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا معاون ثابت کرنے والی وقیع کتابیں اور تحریریں بھی موجود ہیںجو اس بات کی شاہد ہیں کہ غیر سودی بینکوں کی اسلامیت کی بابت جو کچھ جس انداز سے بتایا جاتا ہے، یہ تصویر کا ایک ہی رخ ہے۔ واللہ اعلم

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین