بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کلیئرنگ فارورڈنگ کمپنی کا مختلف بروکروں سے کام کروانا

کلیئرنگ فارورڈنگ کمپنی کا مختلف بروکروں سے کام کروانا


کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
ہماری ایک کلیئرنگ فارورڈنگ کی کمپنی ہے، جس کے ذریعہ مختلف ملکوں سے مختلف پارٹیوں کے سامان بھرے کنٹینرز کو ہم پاکستان کسٹم سے کلئیر کروا کر افغانستان بھیجتے ہیں، کنٹینر کلیئرنگ میں پانچ یا چھ کام ہوتے ہیں:
۱:کراچی کسٹم سے کلیئر کرانا             ۲:شپنگ کمپنی سے کلیئر کرانا
۳:پورٹ سے کلیئر کرانا             ۴:کراچی سے بارڈر تک کی ٹرانسپورٹ
۵:بارڈر کے کسٹم سے کلیئر کروانا۔
اس کے علاوہ بھی چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں، اب پارٹی سے تو سارے پیسے ہم لیتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ پانچ چیزوں میں سے کچھ کام ہم خود کروادیتے ہیں، اور کچھ باہر بروکروں سے کروادیتے ہیں، مثال کے طور پر کراچی کسٹم کا کام، پورٹ کا کام، اور کچھ چھوٹے موٹے کام ہیں وہ میں کرواتا ہو ں، باقی ٹرانسپورٹ کا اپنا بروکر ہوتا ہے، پانچ ہزار ہر گاڑی پر لیتا ہے، شپنگ کا اپنا بروکر ہوتا ہے، وہ شپنگ لائن کے حساب سے کمیشن لیتا ہے، وہ الگ الگ ہے۔
شپنگ لائنوں کے نام اور کمیشن فی الحال ریٹ درج ذیل ہیں:
YML:  پچیس ہزار             Merchant:  دس ہزار 
Hyundai:  چالیس ہزار         Evergreen:  پینتالیس ہزار
Cosco:  پندرہ ہزار
اس کے علاوہ بھی کئی اور شپنگ کمپنیاں ہیں، ہر ایک کے ریٹ مختلف ہوتے ہیں۔
اور بارڈر کلیئرنگ کا پنا ایجنٹ ہے، وہ بھی سات ہزار یا دس ہزار کمیشن لیتا ہے۔
ابھی کسی نے بتایا کہ یہ جو بروکرز کو کام دے رہے ہو ، یہ صحیح نہیں ہے، یہ سارا کام آپ نے کرنا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے، جتنا کمیشن ہم بروکرز کو دیتے ہیں، اتنا ہی پارٹی سے لیتے ہیں، اس میں غلطی کہاں ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔                                                     مستفتی: کفایت اللہ حنفی

الجواب باسمہٖ تعالٰی

 

واضح رہے کہ کلیئرنگ فارورڈنگ کمپنی کی شرعی حیثیت اجیرِ عام کی ہوتی ہے، اجیرِ عام اُجرت کا حقدار شرعاً اس وقت ہوتا ہے، جبکہ وہ کلائنٹ کی جانب سے دی گئی ذمہ داری ادا کردے، اجیرِ عام پر سارا کام بذاتِ خود انجام دینا شرعاً ضروری نہیں ہوتا، بلکہ مجوزہ کام کی تکمیل اس پر لازم ہوتی ہے، پس اگر وہ اپنی مجوزہ ذمہ داری پوری کرنے میں کسی اور سے معاونت لیتا ہے، تو شرعاً اس کی اجازت ہوتی ہے، الا یہ کہ کلائنٹ اسے پابند کردے کہ مجوزہ کام تمہیں ہی کرنا ہے، اس صورت میں اجیرِ عام کے لیے کسی اور سے کام کروانے کی شرعاً اجازت نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل یا اس کا ادارہ کلیئرنگ فارورڈنگ کی جو ذمہ داری لیتا ہے، اور مجوزہ کاموں میں کچھ کام سائل یا اس کا ادارہ بذاتِ خود کرتا ہے، اور کچھ کام مختلف بروکروں سے کرواتا ہے، تو ایسا کرنا جائز ہوگا۔
’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’(الأجراء علی ضربين: مشترک وخاص، فالأول من يعمل لا لواحد) کالخياط ونحوہ (أو يعمل لہ عملا غير مؤقت) کأن استأجرہ للخياطۃ في بيتہٖ غير مقيدۃ بمدۃ کان أجيرا مشترکا وإن لم يعمل لغيرہٖ (أو موقتاً بلا تخصيص) کأن استأجرہٗ ليرعٰی غنمہ شہرا بدرہم کان مشترکا، إلا أن يقول: ولا ترعی غنم غيري وسيتضح۔
’’وفي جواہر الفتاوی: استأجر حائکا لينسج ثوباً ثم آجر الحائک نفسہ من آخر للنسج صح کلا العقدين؛ لأن المعقود عليہ العمل لا المنفعۃ (ولا يستحق المشترک الأجر حتی يعمل کالقصار ونحوہٖ) کفتال وحمال ودلال وملاح (قولہٗ: من يعمل لا لواحد) قال الزيلعي: معناہ من لا يجب عليہ أن يختص بواحد عمل لغيرہ أو لم يعمل، ولا يشترط أن يکون عاملا لغير واحد، بل إذا عمل لواحد أيضاً فہو مشترک إذا کان بحيث لا يمتنع ولا يتعذر عليہ أن يعمل لغيرہ... (قولہ: وفي جواہر الفتاوی إلخ) أراد بہ التنبيہ علی حکم الأجير المشترک والمعقود عليہ، قال الزيلعي: وحکمہما أي المشترک والخاص أن المشترک لہٗ أن يتقبّل العمل من أشخاص؛ لأن المعقود عليہ في حقہ ہو العمل أو أثرہ فکان لہ أن يتقبل من العامۃ؛ لأن منافعہ لم تصر مستحقۃ لواحد، فمن ہٰذا الوجہ سمي مشترکا والخاص لايمکنہ أن يعمل لغيرہ؛ لأن منافعہ في المدۃ صارت مستحقۃ للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولہٰذا يبقی الأجر مستحقا وإن نقض العمل ۔
’’قال أبو السعود: يعني وإن نقض عمل الأجير رجل، بخلاف ما لو کان النقض منہ فإنہ يضمن کما سيأتي (قولہ حتی يعمل) ؛ لأن الإجارۃ عقد معاوضۃ فتقتضي المساواۃ بينہما، فما لم يسلم المعقود عليہ للمستأجر لايسلم لہ العوض والمعقود عليہ ہو العمل أو أثرہ علی ما بينا، فلا بد من العمل زيلعي والمراد لا يستحق الأجر مع قطع النظر عن أمور خارجيۃ... ال
خ‘‘  ( کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجير : ۶/۶۴، ط: دار الفکر)

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد شفیق عارف

محمد داؤد

سید مزمل حسن

 

 

 

دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

  

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین