بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کلام: ’’سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقشِ روئے محمد بنایا گیا‘‘ کا شاعر کون ہے؟

کلام: ’’سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقشِ روئے محمد بنایا گیا‘‘ کا شاعر کون ہے؟


جب سے ہوش سنبھالا ایک نعتیہ کلام حجۃ الاسلام، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ (بانیِ دارالعلوم دیوبند) کی طرف منسوب سنتے اور پڑھتے آئے، کلام درج ذیل ہے:

سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقشِ روئے محمد بنایا گیا
پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا
وہ محمد بھی احمد بھی محمود بھی حسنِ مطلق کا شاہد بھی مشہود بھی
علم و حکمت میں وہ غیرمحدود بھی ظاہراً اُمیوں میں اٹھایا گیا
اس کی شفقت ہے بے حد و بے انتہا اس کی رحمت تخیل سے بھی ماورا
جو بھی عالَم جہاں میں بنایا گیا اس کی رحمت سے اس کو بسایا گیا
کس لیے حشر کا ڈر ہو قاسم مجھے میرا آقا ہے وہ میرا مولا ہے وہ
جس کے قدموں میں جنت بسائی گئی جس کے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا

نہ صرف عوامی نعت گو حضرات کو اسے قاسم العلوم والخیرات حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ‘ کی طرف منسوب کرتے پایا، بلکہ بعض اہل ِ علم شخصیات نے بھی اس کلام کی نسبت حضرت نانوتوی  رحمۃ اللہ علیہ  ہی کی طرف کردی۔
 حضرت علامہ مولانا شبیر احمد عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد ِ رشید، ڈابھیل کے فاضل حضرت مولانا مجاہد الحسینی  رحمۃ اللہ علیہ  (۱۹۲۶ء - ۲۰۱۹ء) نے اپنی کتاب ’’علمائِ دیوبند، عہد ساز شخصیات‘‘ (مطبوعہ سیرت مرکز، فیصل آباد، ۲۰۰۴ء) ص:۲۰۴ پر حضرت نانوتوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے یہ نعت نقل فرمائی ہے، مکتبہ رشیدیہ کراچی سے چھپنے والے سالانہ مجلہ ’’ یادگارِ اکابر‘‘ کے حجۃ الاسلام نانوتوی نمبر (ص:۳۳، ۱۴۳۶ھ/۲۰۱۵ء) میں بھی یہ کلام حضرت نانوتوی قدس سرہٗ کے نام سے شائع ہوا ہے، نیز معروف عالم اور خطیب مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنی بعض تقاریرمیں اس کو حضرت نانوتویؒ کی طرف نسبت کرتے ہوئے پڑھا ہے، اپنے ایک خطاب میں مولانا ضیاء الرحمٰن شہیدؒ فرماتے ہیں: ’’مولانا محمد قاسم نانوتوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے حضور علیہ السلام کی شان میں ایک شعر کیا ایک قصیدہ ہے، کئی قصیدے قصائد ِ قاسمی میں ہیں، یہ کلام غیرمطبوعہ کلام ہے۔‘‘ (آگے یہی کلام ہے)۔ (جواہراتِ فاروقی،ج: ۱، ص:۹۸، اقرأ بکڈپو، دیوبند) 
چند روز قبل ہمارے نہایت محسن اور کرم فرما دوست منصورالحق سلمہٗ ( جو غیرعالم ہونے کے باوصف ذوقِ مطالعہ و شوقِ کتب بینی میں اپنی مثال آپ ہیں، ماشاء اللہ ) نے باحوالہ یہ انکشاف کیا کہ یہ کلام حضرت نانوتوی قدس سرہٗ کا ہے ہی نہیں، بلکہ یہ مشہور شاعرپروفیسر کرم حیدری کا کلام ہے جو ان کے کلام کی کتاب ’’نِعَم‘‘کے ص: ۳۹پر موجود ہے، جسے تاج کمپنی لاہور پاکستان نے ۱۴۰۰ھ میںشائع کیا ہے اور اس میں آخری شعر یوں ہے:

حشر کا غم مجھے کس لیے ہو کرم میرا آقا ہے وہ میرا مولیٰ ہے وہ
جس کے دامن میں جنت بسائی گئی جس کے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا 

اس کے مزید کچھ اشعار بھی ہیں جو عام طور پر پڑھے نہیں جاتے،کرم حیدری اردو اور پنجابی کے شاعرتھے،اصل نام محمد کرم داد اور ان کے والد کا نام ملک حکیم داد تھا،پیدائش ۱۲؍اگست ۱۹۱۵ء تریٹ، راولپنڈی پاکستان میں ہوئی، متعدد تصانیف سپردِ قلم کیں، ۳۱؍جنوری ۱۹۹۴ء اسلام آباد پاکستان میں وفات ہوئی۔
 ظاہر ہے کہ حضرت مولانا مجاہد الحسینی  رحمۃ اللہ علیہ  ودیگر حضرات نے اس کلام کو حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ کی طرف جو منسوب کیا ہے وہ تسامح ہے، جس کی وجہ تسامع اور عمومی شہرت ــتھی، جس پر یہ حضرات بجاطور پر معذور ہیں۔
 ویب سائٹ ’’اردو ویب‘‘ پر اٹک کے شاعر جناب سید شاکرالقادری تبصرہ کرتے ہیں کہ: 
’’مولانا قاسم نانوتویؒ قادر الکلام شاعر تھے، وہ اتنا بے وزن مقطع تو نہیں کہہ سکتے، لگتا ہے کسی عقیدت مند نے ان کا نام مقطع میں فٹ کر دیا ہے، ورنہ ہم نے تو اس مقطع کو یوں سنا ہے:’’حشر کا غم مجھے کس لیے ہو کرم، میرا آقا ہے وہ میرا مولا ہے وہ‘‘ اس میں قاسم کی بجائے کرم تخلُّص ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ کرم حیدری کی نعت ہو اور اگر مولانا کی نعت ہے تو ان کی کونسی کتاب یا رسالے سے نقل کی گئی ہے؟۔‘‘ 
سید شاکر القادری کا اصل نام سید ابرار حسین گیلانی ہے، یہ اردو،فارسی اور پشتو پر یکساں مہارت رکھتے ہیں اور اردو اور فارسی کے خوش گو شاعر ہیں۔
نیز حضرت نانوتویؒ کے کلام اور طرز و اسلوب سے یہ کلام کسی طرح مناسبت و موافقت نہیں رکھتا، ہمارے ایک عالم مولانا عبدالجبار سلفی زیدمجدہٗ فرماتے ہیں کہ: 
’’مدت گزری کہ ایک مرتبہ سلطان العلماء علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ کے ساتھ ایک اسٹیج پہ بیٹھے ہوئے تھے، ایک خطیب صاحب نے اپنی تقریر میں جب یہی اشعار امام نانوتوی علیہ الرحمۃ سے منسوب کرکے پڑھے تو علامہ صاحبؒ نے مخصوص انداز میں ہمارے کان میں فرمایا: ’’یہ اردو بھلا اس زمانے کی ہے سہی؟ ۔‘‘
عہد ِحاضر کے عظیم مؤرخ و محقق مولانا نورالحسن راشد کاندہلوی مدظلہم سے اس کلام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی حضر ت نانوتوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف اس کی نسبت مشکوک قراردی۔
اس کلام کے بعض مصرعوں پر نظریاتی حوالے سے بھی کلام ہوسکتا ہے، بندہ نے اپنے استاذِ گرامی قدر مولانا مفتی سید عبدالقدوس ترمذی مدظلہم (رئیس دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال، سرگودھا) سے اس کلام کی بابت استفسار کیا تو فرمایاکہ: 
’’لگتا یہ ہے کہ یہ حضرت کا کلام نہیں ہے، ایسے ہی کسی نے ادھر منسوب کردیا ہے، اس کلام کے بعض مصرعے بھی لفظی اور معنوی اعتبار سے محل ِ نظر ہیں۔‘‘
بہرحال تجوُّز و توسُّع سے کام لیتے ہوئے کلام میں اگر کوئی تاویل بھی کرلی جائے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ کلام حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی قدس سرہٗ کا ہے، بلکہ دلائل و قرائن سے اس کی نفی ہوتی ہے۔
ریڈیو پاکستان نے بھی اس کلام کو کرم حیدری کے نام سے نشرکیا ہے، ملک پاکستان کے نامور نعت خواں سید منظور الکونین مرحوم نے بھی اس کو ’’کرم‘‘ تخلُّص کے ساتھ پڑھا ہے۔
الحاصل اس کلام کی حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف نسبت نہ صرف مشکوک بلکہ غلط ہے، اس لیے ریکارڈ میں اس کی درستی ضروری ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین