بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کشمیر ، افغانستان اورشام میں تازہ بربریت!

 

کشمیر ، افغانستان اورشام میں تازہ بربریت!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

اللہ تبارک وتعالیٰ کا مسلمانوں پر بہت بڑا فضل اور انعام ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہمدرد، غم خوار، مونس اور شفیق ہادی و راہنما عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انسان کو پیدائش سے موت تک پیش آنے والے تمام حالات، واقعات اور معاملات کھول کھول کر بتادیئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ترکتُ فیکم أمرین لن تضلوا ماتمسکتم بہما: کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہٖ۔‘‘(مشکوٰۃ،ص:۳۲)
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے ہرگز گمراہ نہیںہوگے: ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور دوسری چیز اللہ تعالیٰ کے رسول کی سنت ہے۔‘‘
یعنی مسلمان جب تک قرآن کریم کے احکامات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں گے تو صحیح راستے پر رہیں گے اور اگر اُنہوںنے ان پر عمل کرنا چھوڑدیا تو سیدھے راستے سے بھٹک جائیں گے۔
آج کی دنیا اور آج کے حالات میں ہم مسلمان بحیثیت حکمران ہوں یا بحیثیت قوم اور فرد ، ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں! کیا ہم سیدھے راستے کو چھوڑے ہوئے نہیں ہیں؟! کیا ہمیں اپنوں اور غیروں میں، اہلِ حق اور اہلِ باطل میں فرق نظر آرہا ہے؟! اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کہیں ہم صحیح اور غلط میں امتیاز کی صلاحیت اور استعداد سے محروم تو نہیں ہوگئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ارشاد ہے:
۱:- ’’تری المؤمنین فی تراحُمِہم وتوادِّہِم وتعاطُفِہم کمثل الجسد إذا اشتکٰی عضوا تداعٰی لہٗ سائر الجسد بالسہر والحمٰی۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ:۴۲۲)
’’تم مومنوں کو آپس میں رحم دلی، محبت اور شفقت میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے، جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم میں بے چینی اور بخار محسوس ہوتاہے۔‘‘
۲:-’’المؤمنون کرجل واحد إن اشتکٰی عینُہٗ اشتکٰی کلُّہٗ وإن اشتکٰی رأسُہٗ اشتکٰی کلُّہٗ۔‘‘ (رواہ مسلم،بحوالہ مشکوٰۃ:۴۲۲)
’’تمام مومن ایک شخص کی طرح ہیں، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔‘‘
۳:- ’’المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدّ بعضُہٗ بعضًا۔۔۔۔‘‘ (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ:۴۲۲)
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔‘‘
علومِ قرآن اور علومِ وحی کے طلبہ کے لیے جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضائل بتلائے ہیں، وہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علم دین کے طلبہ کے لیے خیر کی وصیت بھی فرمائی ہے، جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا:
۱:-’’عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الناس لکم تبع وإن رجالًا یأتونکم من أقطار الأرض لیتفقہون فی الدین ، فإذا أتوکم فاستوصوا بہم خیرا۔‘‘ (رواہ الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ:۳۴)
’’ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ تمہارے پیچھے آئیں گے اور کچھ لوگ تمہارے پاس دین کی سمجھ حاصل کرنے کے لیے زمین کے اطراف سے آئیں گے، تو تم ان کے متعلق بھلائی کا معاملہ کرنا ۔‘‘
۲:- ’’عن کثیر بن قیس قال : کنتُ جالسًا مع أبی الدردائؓ فی مسجد دمشق، فجاء ہٗ رجل، فقال: یاأبا الدردائ! إنی جئتک من مدینۃ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم لحدیث بلغنی أنک تحدثہٗ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ماجئتُ لحاجۃٍ۔ قال: فإنی سمعتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من سلک طریقًا یطلب فیہ علمًا سلک اللّٰہ بہٖ طریقًا من طرق الجنۃ وأن الملائکۃ لتضع أجنحتَہا رضًا لطالب العلم وأن العالم یستغفر لہٗ من فی السمٰوٰت ومن فی الأرض والحیتان فی جوف الماء وأن فضلَ العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃَ البدر علٰی سائر الکواکب وأن العلماء ورثۃ الأنبیاء وأن الأنبیاء لم یورّثوا دینارًا ولا درہمًا وإنما وَرَّثُوا العلمَ فمن أخذہٗ أخذ بحظّ وافر۔‘‘ (رواہ احمد والترمذی وابوداؤد وابن ماجہ والدارمی ، بحوالہ مشکوٰۃ، ص:۳۴)
’’ کثیر بن قیسؒ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ: میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا تھا، ایک شخص آیا، اور کہا: اے ابودردائ! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے ایک حدیث (سننے) کے لیے آیا ہوں، جس کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرتے ہیں۔ میں کسی اور کام کے لیے نہیں آیا۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص کسی راستے پر علم حاصل کرنے کے لیے چلا، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا دیتے ہیں اور فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان وزمین کی مخلوقات اور مچھلیاں پانی میں دعا کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت باقی ستاروں پر۔ اور علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے ، وہ علم کا وارث بناتے ہیں، پس جس نے اسے (علم) حاصل کرلیا تو اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا۔‘‘
۳:- ’’من یرد اللّٰہُ بہٖ خیرا یفقہہ فی الدین وإنما أنا قاسم واللّٰہ یعطی۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ:۳۲)
’’ اللہ تبارک وتعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اُسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرمادیتے ہیں اور میں تو صرف (علومِ خیر)تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’إذا مات العالم انثلم فی الإسلام ثلمۃ لایسدہا إلا خلف مثلہٗ۔‘‘ (کنزالعمال)
’’جب عالم فوت ہوجاتا ہے تو اسلام میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی دراڑیں کہ ان کو اس جیسا بعد میں آنے والا عالم ہی بند کرسکتا ہے۔‘‘
کیا آج کے حالات میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم وستم اور ان کے کرب ودرد کو اپنا کرب اور درد محسوس کررہے ہیں؟! کیا کفار کے مقابلہ میں ہم ان کے لیے کسی بھی اعتبار سے مضبوطی، ڈھال اور سہارے کا کام دے رہے ہیں؟! اگر نہیں تو کیوں؟! آخر کیا وجہ ہے کہ فلسطین کے مسلمان اپنی زمین اور اپنے ملک میں ’’یوم ارض فلسطین ‘‘ منانے کے لیے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو ان پر اسرائیل وحشیانہ بمباری کرکے درجنوں مسلمانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی اور معذور کردیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین وحشی فورسز نہتے دو درجن سے زائد کشمیری نوجوانوں پر آگ وبارود برساکر ان کو موت کے گھاٹ اُتاردیتی ہے۔ بشارالاسد کی بھیڑیا صفت فوج نے شام کے مسلمانوں پر کیمیائی اور مہلک اسلحہ کا استعمال کرکے ایک سو سے زائد بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو ابدی نیند سلادیا۔ اُدھر افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت اور فورسز نے صوبہ قندوز کے ایک مدرسہ ’’جامعہ ہاشمیہ عمریہ‘‘ کی تکمیلِ حفظِ قرآن کی تقریب پر فضائی حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد معصوم طلبہ اور ان کے لواحقین شہید اور تین سو سے زائد انسان زخمی ہوگئے۔ ان معصوم طلبہ کے ہاتھوں میں قرآن، سرپر دستاریں، گلے میں پھولوں کے ہار اور اُن کو ملنے والے تحائف بھی ان کی لاشوں اور جسم کے ٹکڑوں کے ساتھ پائے گئے۔
اس خون ریزی اور ظلم وستم پر بطور احتجاج دوسرے اسلامی حکمرانوں کے علاوہ نہ ہمارے صدر صاحب نے کوئی بیان جاری کیا اور نہ ہی ہمارے وزیراعظم صاحب نے کوئی احتجاج کیا۔ نہ ہی ہماری مقتدر قوتوں نے کوئی پیغام دیا اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے اس اندوہناک واقعہ پر کوئی خبر چلائی۔ آخر کیوں؟ صرف اس لیے کہ مرنے والے قرآن کریم کے حافظ وقاری اور ایک دینی مدرسہ کے طالب علم تھے، ان کے سروں پر پگڑیاں تھیں اور ان کا تعلق دین اسلام سے تھا؟! 
میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس خونی واقعہ اور اس ظلم وبربریت پر مسلم حکمرانوں کو کوئی احساس نہیں یا اس پر کوئی ندامت ، ملال یا دلی طور پر کوئی تکلیف نہیں ہوئی تو ایسے لوگوں کو ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ آیا ان کے دل میں ایمان بھی رہا ہے کہ نہیں؟!
ان واقعات میں حکمرانوں کے طرزِ عمل سے یہ بات بدیہی طور پر عیاں ہوچکی ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران‘ مسلم عوام کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ صرف اپنی اپنی حکومتیں اور بادشاہتیں بچانے کے چکر میں کفار واغیار کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں، یا یہ اپنے اپنے ممالک کی عوام کے نمائندہ نہیں، بلکہ غیروں نے ان کو مسلمانوں پر مسلط کیا ہے اور یہ سب کے سب اپنے اُنہیں آقاؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں، اسی وجہ سے ہر جگہ مسلمانوں کا قتل عام اور انہیں موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ان کی اس خاموش پالیسی سے تو یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے کسی نے کہاوت کہی ہے کہ: ایک بار ایک شکاری جنگل سے ایک تیتر پکڑ کر لاتا ہے اور اسے اپنے گھر میں ایک الگ پنجرے میں رکھتا ہے اور خوب کاجو، کشمش اور بادام کھلاتا ہے، جب تیتر بڑا ہوجاتا ہے تو اسے پنجرے کے ساتھ ہی لے کر جنگل کی طرف جاتا ہے، وہاں جال بچھاتا ہے اور تیتر کو وہیں پنجرے میں رکھ کر خود جھاڑی کے پیچھے چھپ جاتا ہے اور تیتر سے بولتا ہے کہ: ’’بول بیٹا بول‘‘ تیتر اپنے مالک کی آواز سن کر زور زور سے چلاتا ہے۔ اس کی آواز سن کر جنگل کے سارے تیتر یہ سوچ کر کہ یہ اپنی قوم کا ہے، ضرور کسی پریشانی میں ہے، چلو مدد کرتے ہیں، کھنچے چلے آتے ہیں اور شکاری کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ شکاری مسکراتے ہوئے آتا ہے اور پالتو تیتر کو الگ اور سارے تیتروں کو الگ جھولے میں ڈال کر گھر لاتا ہے،پھر اپنے پالتو تیتر کے سامنے پکڑے گئے سب تیتروں کو ایک ایک کرکے کاٹتا ہے، مگر پالتو تیتر اُف تک نہیں کرتا، اسے اپنے حصے کی خوراک :کاجو، کشمش، بادام جو مل رہا تھا۔ کم وبیش یہی حالت آج کے مسلمانوں کی بھی ہوگئی ہے۔ شکاری نے ایسے نہ جانے کتنے تیتر پال رکھے ہیں جن کی وجہ سے قوم دشمن کے جال میں پھنستی ہے اور یہ کٹتا ہوا دیکھتے ہیں، مگر اُف تک نہیں کرتے ، کیونکہ اُن کو ان کے حصہ کی خوراک مل جاتی ہے۔
اس کے برعکس ایک سمجھدار اور عادل حکمران کی سوچ بھی ملاحظہ فرمائیں:کہتے ہیں کہ ایک حاکم اپنے مشیروں اور چند فوجی افسروں کے ساتھ بازار کا گشت کررہا تھا کہ اس نے ایک پرندے بیچنے والے کو دیکھا جو ایک پرندوں سے بھرا ہوا پنجرہ ایک دینار کا بیچ رہا تھا، جبکہ اس کے پاس ایک اور پنجرے میں ویسا ہی ایک اکیلا پرندہ تھا جس کی قیمت وہ دس دینار مانگ رہا تھا، حاکم وقت کو اس عجیب فرق پر بہت تعجب ہوا تو پوچھا: ایسا کیوں؟ پرندوں سے بھرا ہوا ٹوکرا ایک دینار کا اور ویسا ہی ایک اکیلا پرندہ دس دینار کا؟ بیچنے والے نے کہا: حضور! یہ والا اکیلا سکھایا ہوا ہے، جب بولتا ہے تو اس کے دھوکے میں آکر باقی کے پرندے جال میں پھنس جاتے ہیں، اس لیے یہ قیمتی ہے اور اس کی قیمت زیادہ ہے۔ حاکم وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، نیفے سے خنجر نکال کر پرندے کا سر تن سے جدا کیا اور زمین پر پھینک دیا۔ عسکری و سیاسی مصاحبوں نے تعجب سے پوچھا: حضور! یہ کیا کردیا ہے؟ اتنا مہنگا اور سکھلایا ہوا پرندہ خرید کر ماردیا؟ حاکم وقت نے کہا:یہی سزا ہونی چاہیے ہر اس خائن اور چرب زبان منافق کی، جو اپنی ہی قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلاکر اُن سے خیانت کرے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں، گزشتہ سالوں میں سوات میں ایک ڈرامہ رچایا گیا، ایک اسکول پر حملہ کرایا گیا، جس میں ملالہ نامی ایک بچی زخمی دکھائی گئی، پھر کیا تھا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا کا میڈیا صبح وشام، رات دن ایک ہی بات کی رَٹ لگاتا رہا کہ یہ تعلیم پر حملہ ہوا ہے، ایسے لوگوں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے۔ اور پھر ملالہ کی آؤ بھگت یہاں تک کہ اسے نوبل انعام کا حق دار گردانا گیا۔ دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کے بعد اب وہ چند دنوں کے لیے واپس پاکستان آگئی ہے تو ہمارا وزیراعظم اس کا استقبال کررہا ہے، خصوصی پروٹوکول اُسے دیا جارہا ہے۔ افسوس صد افسوس! 
سوال صرف اتنا ہے کہ مدرسہ پر حملہ ہوتا ہے اور ڈیڑھ سو سے زائد طلبہ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوجاتے ہیں تو کوئی جھوٹے منہ بھی اس کی مذمت نہیں کرتا اور اگر یہ حملہ کسی اسکول پر ہوتا ہے تو ساری دنیا چیخ اُٹھتی ہے، نہ صرف اس کی مذمت کی جاتی ہے، بلکہ اسے تعلیم پر حملہ قرار دیاجاتا ہے تو آخر یہ تضادکیوں؟!
ان شہید طلبہ کے ہاتھوں میں جو قرآن کریم ہے، کیا یہ مقدس کتاب نہیں؟! کیا یہ اللہ کا کلام نہیں؟! کیا اس کے کوئی حقوق نہیں؟! کیا یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے احتجاج نہیں کرے گا؟! کیا یہ مسلم حکمرانوں کے اس کردار کو اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں رکھے گا؟! سوچا جائے کہ اس وقت ان حکمرانوں کے پاس کیا جواب ہوگا؟!
لگتا یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوںکا نظریہ اور فلسفہ وہی ہے جو مغرب اور لبرل ازم کے بانیوں کا ہے کہ علم صرف وہی ہے جس سے سرمایہ اور آمدنی میں اضافہ ہوتا ہو، جو سراسر محض عقل انسانی اور تجربہ کی الٹ پلٹ سے اخذ کیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک جو شخص وحی الٰہی اور علوم وحی کا انکار کرتا ہے اور ان سے ہدایت نہیں لیتا، وہی روشن خیال ہے اور جو شخص علوم وحی اور ان کے حاملین سے رجوع کرتا ہے، ان کے نزدیک وہ روشن خیال نہیں۔ ان کے نزدیک نفسِ انسانی ایک آزاد اور خودمختار وجود ہے، اس نفس کو کسی خارجی ذرائع سے ہدایت وراہنمائی کی ضرورت نہیں، لہٰذا ایسی سوچ کے حاملین کے ہاں تزکیہ وتصفیہ اور نفس وذات کی تعمیر وتشکیل بے معنی چیزیں ہیں، اسی لیے علماء اور دینی تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟! ان کے نزدیک خیروشر ، حق وباطل، معروف ومنکر، حلال وحرام، جائز وناجائز کی اصطلاحات احمقانہ اصطلاحات ہیں۔ ان کے نزدیک اصل خیر اور ہدایت صرف آزادی کا عقیدہ ہے۔ اس کے سوا تمام تصوراتِ خیر، جہالت اور ضلالت ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کوئی فرد اپنی ذاتی زندگی میں کوئی مذہب یا امورِ خیر میں سے کوئی راہ یا نظریہ اپناتا ہے تو اپنالے، ریاست اور حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں، لیکن وہ اپنے اس تصورِ خیر یا مذہب کو صرف آزادی کے عقیدے کے تابع رکھے۔ اگر یہ خیر اس کے نظریۂ آزادی کے عقیدے کے لیے خطرہ بنے تو جان راس جو لبرل ازم کا سب سے بڑا سیاسی فلسفی ہے، وہ لکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اس طرح ختم کردیا جائے جس طرح جراثیموں کو ختم کیا جاتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام لبرل ازم کے اس اصول کے تحت اسی لیے ہورہا ہے۔ 
لبرل ازم کا بڑا فلسفی جان رالز اپنی کتاب ’’ پولیٹیکل لبرل ازم‘‘ میں یہی جارحانہ، متشددانہ ، دہشت گردانہ نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: 
’’لبرل ازم کے پیش کردہ آفاقی تصورِ عدل اور لبرل سرمایہ دارانہ معاشرے کی اقدار کے مخالفین ومنکرین جو اس اعلیٰ ترین نظامِ زندگی کو تلپٹ کرنا چاہتے ہیں، ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ پوری طاقت سے اس طرح کچل دینا چاہیے جس طرح جنگوں کو اور جراثیم کو ختم کیاجاتا ہے، تاکہ یہ وحشی اور جنونی‘ لبرل نظامِ عدل کو تہس نہ کرسکیں۔‘‘ (بحوالہ: علماء کی تنخواہیں کم کیوں ہیں؟، ص:۳۷، جناب سید خالد جامعی صاحب)
اس لیے مغرب میں لوگوں کو مذہب کے صرف اتنے حصے پر عمل کی آزادی ہے، جتنا حصہ لبرل تصورِ آزادی اور عقیدۂ عقلیت سے ہم آہنگ ہو، اسی فلسفے کی بناپر مذہب صرف حکومتوں سے ہی نہیں، بلکہ لوگوں کی ذاتی زندگی سے بھی بے دخل ہوتا جارہا ہے، العیاذ باللہ!
بحیثیت مسلمان‘ حکمران ہوں یا عوام، کسی ادارے کا سربراہ ہے یا کسی گھر کا نگران، ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ میں اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کررہا ہوں یا نہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کیا میں اپنے اللہ کے احکامات اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کررہا ہوں یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اپنے خالق ومالک اور اپنے رب کو بھلاکر اس کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر خواہشات کا بندہ بن گیا ہوں، اگر ایسا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَلَاتَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰہَ فَأَنْسَاہُمْ أَنْفُسَہُمْ أُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔‘‘(الحشر:۱۹)
’’(اے مسلمانو!) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ، جنہوں نے خداتعالیٰ کو بھلادیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے نفسوں کی بہتری بھی بھلادی، وہی (یعنی یہ سزا ان لوگوں کو ملتی ہے) جو اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑنے والے ہیں۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
’’أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إلٰہَہٗ ہَوَاہُ وَأَضَلَّہٗ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ۔‘‘ (الجاثیہ:۲۳)
’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفسانی کو اپنا معبود بنالیا ہے اور باوجود سمجھ کے اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہ کردیا ہے (کیونکہ اس گمراہ نے اللہ تعالیٰ سے ہدایات لینا چھوڑدی ہیں)۔‘‘
قرآنِ کریم کی ان دونوں آیات میں غوروفکر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہدایاتِ الٰہیہ سے منہ موڑنے سے انسان گویا اندھا، بہرہ اور بے بصیرت ہوجاتا ہے، یعنی اس کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی تلاش کی فکر ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنی قوم، مذہب اور راہِ حق کو اپنی راہ میں رکاوٹ اور ناکامی کا سبب سمجھتا ہے اور غیروں کی کاسہ لیسی، ان کی خوش نودی اور ان کے ہر عمل اور کام کو صحیح سمت اور کامیابی کا زینہ سمجھتا ہے۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار
اللہ تبارک وتعالیٰ کشمیر، فلسطین، شام اور افغانستان کے شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، ان کے لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے، ان شہداء کے خون کی برکت سے اُمتِ مسلمہ کو بیدار ہونے اور متحد ومتفق ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلم ممالک کے حکمرانوں سمیت ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دشمنانِ دین کی مکاریوں، فریب کاریوں، اور ان کے ناپاک عزائم سے ہم سب کو محفوظ فرمائے، آمین

اللّٰہم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہٗ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہٗ
 وصلٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین