بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

بینات

 
 

کرپٹو کرنسی کے حامیوں کا طریقۂ واردات

کرپٹو کرنسی کے حامیوں کا طریقۂ واردات

اسلامک فنائنس اور معیشت کی اسلامائزیشن کی آڑ میں 

 

ابھی حال ہی میں وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے سود کے معاملے پر حکومتِ پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پانچ سال کی مدت میں ملکی معیشت کو سود سے پاک کرکے غیر سودی اسلامی نظامِ معیشت قائم کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے پر پاکستان کے عوام اورعلمائے کرام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب ان شاء اللہ پاکستان کو سودی بینکاری کے نظام سے نجات دلائی جائے گی اور معیشت کی اسلامائزیشن کی جائے گی۔ اسی تناظرمیں کراچی میں حُرمتِ سود سیمینار کا انعقاد ہوا، اس حد تک یہ یقیناً خوش آئند بات ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۷۵) اس تناظر میں علمائے کرام اورمفتیانِ کرام کی پوری توجہ اس سودی نظام کو ختم کرنے کی طرف ہے اور مبیَّنہ طور پر اس کے متبادل نظام یعنی غیر سودی اسلامی نظامِ معیشت کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
البتہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اسلامک فنائنس اور معیشت کی اسلامائزیشن کی آڑ میں کرپٹو کرنسی کے حامی اور فروغ دینے والے حلقے اب بہت تیزی سے سرگرمِ عمل ہوگئے ہیں۔ گو کہ یہ حضرات پہلے بھی بہت کوششیں کرتے رہے ہیں، مگر اس نازک مرحلہ یعنی غیر سودی اسلامی نظامِ معیشت کو عملی طور پر نافذ کرتے وقت جو بنیادی ذہن سازی وہ کررہے ہیں، وہ یہ کہ کرپٹو کرنسی بیع اور تجارت کی ایک شکل ہے، یہ سودی نظام کا متبادل ہے اور اسلامی معیشت میں کرپٹو کرنسی کو بطور آلۂ مبادلہ کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ تشویش مزید گہری ہوجاتی ہے، جب کچھ حکومتی کمیٹیوں، شریعہ ایڈوائزری کمیٹی کے ممبران اور مختلف مالیاتی اداروں اور بینکوں کے شریعہ ایڈوائزری بورڈز میں ایسے مفتیانِ کرام موجود ہیں جو کہ کرپٹو کرنسی کے پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر ہیں اور بہت ہی شَدّ و مَد کے ساتھ پارٹی بن کر کرپٹو کرنسی کے جواز کی تحریک چلا رہے ہیں۔ راقم کی یہ تشویش محض ذہنی اختراع نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک پسِ منظر ہے جس کو ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے، جس کی کچھ تفصیلات تمہیداً پیش کیے دیتا ہوں۔
حال ہی میں ایک صاحبِ علم کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اُن کو سن ۲۰۱۶ ء میں تخصص کرتے وقت امریکی پروفیسر چارلس ایوان کا تحقیقی مقالہ [۱] بعنوان ’’اسلامک بینکنگ اور فنائنس میں بٹ کوائن‘‘ Bitcoin in Islamic Banking and Finance جو کہ سن ۲۰۱۵ء میں ’’جرنل آف اسلامک بینکنگ اور فنائنس‘‘ میں چھپا تھا، حوالے کیا گیا تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے کرپٹو کرنسی پر اپنی تحقیق شروع کی۔ پھر اسی تحقیقی مقالے کی بنیاد پر سن ۲۰۱۸ء میں ایک فقہی مقالہ لکھا گیا اور پھر پاکستان کے اندر کرپٹو کرنسی کے جواز کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی اور بہت زور وشور کے ساتھ کرپٹو کرنسی کی ترویج و اشاعت پر کام شروع ہوا۔ بنیادی طور پر مدارس کے نوجوان علمائے کرام اور خاص طور پر اسلامک فنائنس کے شعبے میں کام کرنے والے مفتیانِ کرام کو کرپٹو کرنسی کے جواز پر قائل کرنے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں۔ اسی تناظر میں اسلامک فنائنس اور معیشت کی آڑ میں ایک پوری کھیپ ایسے علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی تیار کی گئی جن کو یہ باور کروایا گیا کہ اصل نجات کرپٹو کرنسی کو اختیار کرنے میں ہی ہے اور یہ مروجہ سودی بینکاری نظام کے خلاف ایک مضبوط نظام ہے۔
 اگر بات کچھ علمائے کرام تک محدود ہوتی تو سمجھ میں آتی، مگر کچھ ادارے بھی کرپٹو کرنسی کے جواز کے قائل حضرات کی پشت پناہی کرنے لگے اورایسے لوگوں کو اسلامی تحقیق کے نام پر اپنے اداروں میں پنپنے دیا گیا اور پھر انہی لوگوں نے ان اسلامی اداروں میں کئی سالوں تک کرپٹو کرنسی سے متعلق دیگر لوگوں کی ذہن سازی کی، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب علم ہوگیا کہ کرپٹو کرنسی جُوا اور سٹے بازی کی بدترین شکل ہے تو ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی اور ادارہ جاتی سطح پر اُن حضرات کے ایجنڈے کو مزید پنپنے نہ دیا جاتا، مگر معاملہ تاحال اس کے برعکس ہے، مگر ہم اللہ رب العزت کی ذات سے اُمید رکھتے ہیں کہ ان شاءاللہ! حق غالب ہوکررہے گا اور کرپٹو کرنسی کے اس ہندسوں کے گورکھ دھندے، اور قمار بازی کی خطرناک نئی شکل سے امتِ مسلمہ کو نجات ملے گی، آمین۔ دیکھیے! یہ سب کچھ الزام تراشیاں نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایسے نوجوان مفتیانِ کرام کے اخلاص پر کوئی شبہ کرتے ہیں، مگر صورت حال یہ ہے کہ ان نوجوان مفتیانِ کرام کی اس حد تک ذہن سازی کی گئی ہے کہ اگر ان کے سامنے کوئی سائنسدان صحیح بات پیش کرتا ہے تو وہ ان باتوں کو قبول نہیں کرتے، بلکہ ایسے سائنسدانوں اور معاشی ماہرین پر یہ تنقید شروع کردیتے ہیں کہ یہ سائنسدان اُمتِ مسلمہ کو سودی نظام، عالمی معاشی اداروں کی اجارہ داری، اور یہودی نظام کے مخالف نظام کو اپنانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
پھر انہی کچھ کرپٹو کرنسی کے حامی حضرات نے یہ تأثر پیش کرنے کی کوشش کی کہ کرپٹو کرنسی ایک بہت مشکل تکنیکی مضمون ہے اور پرانے طرزِ خیال رکھنے والےمفتیانِ کرام کی سوچ وفکر اس تک نہیں پہنچ سکتی کہ وہ کرپٹو کرنسی کی مبادیات کو بھی سمجھ سکیں اور نہ ہی اُن مفتیانِ کرام میں ایسے جدید موضوعات کو سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ اسی فکر کو مزید پُراثر کرنے کے لیے ایسے نوجوان مفتیانِ کرام کو خاص طور پر اپنا ہم خیال بنایا گیا جن کو انگریزی زبان پر بھی عبور تھا، جو میڈیا سے بھی وابستہ تھے اور اسلامی معیشت، ڈیجیٹل فنائنس اور عصری علوم پر بھی کام کررہے تھے۔ اس پروپیگنڈہ کا اتنا اثر ہوا کہ سوشل میڈیا پر کچھ مشہور مفتیانِ کرام نے کرپٹو کرنسی کے جواز کا فتویٰ بھی جاری کردیا۔ نتیجتاً پاکستان کے نوجوان بے دریغ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے لگ گئے۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ کچھ اداروں میں کرپٹو کرنسی کے حامی لوگوں نے نئی ٹیکنالوجی کو مفتیانِ کرام کو متعارف کروانے کی آڑ میں (تاکہ مفتیانِ کرام مسئلہ کی ماہیت کو سمجھ کر اس کی فقہی تکییف کرسکیں) ایسے کورسز بھی متعارف کروائے جن میں کرپٹو کرنسی کی خرید وفروخت اور اس کے ذریعے سے پیسہ کمانے کو نوجوان علمائے کرام کو سکھایا گیا اور ایسے ہزاروں نوجوان علمائے کرام کے لیے ٹیلی گرام، واٹس اپ اور فیس بک گروپ بنائے گئے جن میں ان حضرات کو کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرکے پیسہ بنانے کا طریقہ سکھایا گیا۔
 جب ایسے کچھ علمائے کرام سے رابطہ کیا گیا جو اس پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر آگئے تھے تو جن حضرات کے کرپٹو کرنسی سے مفاد وابستہ نہیں تھے، انہوں نے کرپٹو کرنسی کی ماہیت کو سمجھنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنے جواز کے فتویٰ سے رجوع کرلیا الحمدللہ، بلکہ انہوں نے اس کاوش کو بھی سراہا کہ ان تک کرپٹو کرنسی کی صحیح تکنیکی تفصیلات پہنچائی گئیں۔ البتہ کئی سالوں کےاس وسیع اور منظم پروپیگنڈہ کا یہ اثر ہوا کہ پورے پاکستان کے علمائے کرام تین حصوں میں بٹ گئے: اول وہ علمائے کرام جنہوں نے کرپٹو کرنسی کے جواز کی رائے اختیار کی اور ان میں خاص طور پر نوجوان متخصص علمائے کرام کی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ دوم اور سوم وہ جید مفتیانِ کرام ہیں جن کے تقویٰ و فراست اور فقہی بصیرت نے اُن کو مدد فراہم کی کہ وہ اس طریقۂ واردات کو بھانپ جائیں، اور اُن میں سے دوم کیٹیگری نے کرپٹو کرنسی سے متعلق توقف کی رائے اختیار کی، تا آنکہ اس پروپیگنڈہ کی دھند چھٹ جائے اورسوم کیٹیگری وہ جید مفتیانِ کرام تھے جنہوں نے اپنے طور پر کرپٹو کرنسی کے نظام کو سمجھا اور پھر اس کے عدمِ جواز پر فتویٰ جاری کیا۔ 
اسی اول کیٹیگری میں جو نئے نوجوان مفتیانِ کرام تخصص سے فارغ ہوئے انہوں نے اپنے اداروں میں اور اپنی سطح پر کرپٹو کرنسی کی ترویج و اشاعت شروع کی، کیونکہ ان تمام حضرات پر یہ باور کروایا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی سودی نظام کے خلاف لائی گئی ہے، جو عالمی معاشی اداروں کی اجارہ داری ختم کرتی ہے اور معاشرے میں معاشی مساوات پیدا کرتی ہے۔ اُن کو مزید تقویت دینے کے لیے کچھ خودساختہ کمپیوٹر ماہرین کے ذریعے اُن حضرات پر مزید پروپیگنڈہ کروایا گیا اور یہ باور کروایا گیا کہ کرپٹو کرنسی ہی مستقبل ہے، پھر اس بات کو مزید تقویت دینے کے لیے عصری علوم کے اداروں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی معیشت سے متعلق ماہرین اور پروفیسر حضرات کے ذریعے سے نہ صرف یہ کہ کرپٹو کرنسی کو سپورٹ کیا گیا، بلکہ ان نوجوان مفتیانِ کرام کو یہ بھی باور کروایا گیا کہ آپ کی یہ سوچ اور فکر درست ہے اور یہ سب کچھ ایک وسیع اور منظم پروپیگنڈہ کے ذریعے کیا گیا۔ نیز اسی تناظر میں کئی نوجوان مفتیانِ کرام کو عصری علوم و اسلامک فنائنس کے مختلف موضوعات پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی تفویض کی گئیں۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ نوجوان مفتیانِ کرام کی ایک پوری کھیپ تیار ہوچکی ہے جو کہ کرپٹو کرنسی کو اسلام معاشی نظام کی اَساس سمجھتی ہے اور اُن کی سائنسی استعداد ہی بننے نہیں دی گئی کہ وہ صحیح رُخ پر اور معیاری سائنسی تحقیق کرسکیں، الا ماشاءاللہ۔ 
عالمی تناظرمیں کئی اسلامی ممالک میں کرپٹو کرنسی کو اسلامی معیشت کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور چونکہ عالمی سطح پر اسلامی ممالک میں سائنسی تحقیق کا فقدان ہے اور ایسے محققین و سائنسدان کمیاب ہیں جو کہ عالمی سطح پر مانے جاتے ہوں، لہٰذا خاص طور پر اسلامی ممالک میں پروپیگنڈہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سائنسدانوں اور محققین سے رجوع کیا جاتا جو کہ عالمی سطح پر کمپیوٹر سائنس، بلاک چین اورکرپٹو کرنسی کے موضوع پر ماہر مانے جاتے ہیں، اس کے برعکس نوجوان مفتیانِ کرام کو ٹارگٹ کیا گیا اور اُن کے ذریعے سے کرپٹو کرنسی کو اسلامی بینکنگ اور معیشت کے ساتھ جوڑا گیا۔
اب ہم امریکی پروفیسر چارلس ایوان کے اُس تحقیقی مقالہ بعنوان ’’اسلامک بینکنگ اور فنائنس میں بٹ کوائن‘‘  Bitcoin in Islamic Banking and Finance  جوکہ سن ۲۰۱۵ ء میں ’’جرنل آف اسلامک بینکنگ اور فنائنس‘‘ میں چھپا تھا، کی طر ف آتے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان کے تناظر میں کرپٹو کرنسی کے جوازکی بنیادیں استوار کی گئیں۔ راقم چونکہ دنیا کےایک فیصد بہترین سائنسدانوں میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتا ہے، لہٰذا نہ صرف یہ کہ راقم کو سائنسی تحقیق سے متعلق وسیع تجربہ ہے، بلکہ دنیا کے بہترین سائنسی جرائد کے اندر کلیدی ایڈیٹوریل عہدوں پر بھی فائز ہے۔ اس کے علاوہ راقم پچھلے کئی سالوں سے سائنسی اصولِ تحقیق اور سائنسی اخلاقیات بھی ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلباء کو بطور مضمون پڑھا رہا ہے۔ اس مضمون کی تدریس میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلباء کرام کو جب سائنسی تحقیق کرنا سکھائی جاتی ہے تو سب سے پہلا درس جو دیا جاتا ہے، وہ یہ کہ طلبائے کرام نے معیاری سائنسی تحقیق پڑھنی ہے اور معیاری سائنسی تحقیق ہی کرنی ہے۔ سائنسی تحقیق شروع کرتے ہوئے جو بنیادی سوالات کے جوابات ڈھونڈنےہوتے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
۱: جو سائنسی مقالہ پڑھا جارہا ہے وہ کس سائنسی جریدے میں چھپا ہے؟
۲: جو تحقیقی مقالہ پڑھا جارہا ہے اس میں کس معیار کی تحقیق پیش کی گئی ہے؟
۳: اس تحقیقی مقالہ میں سائنسی اصول وضوابط کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے کہ نہیں؟
۴: اس سائنسی جریدے کا عالمی سائنسی دنیا میں کیا معیار ہے؟ 
۵: اس سائنسی جریدے کا ایمپکٹ فیکٹر کتنا ہے؟
۶: اس سائنسی جریدے میں کس معیار کے تحقیقی مقالے چھپتے ہیں؟
۷: یہ سائنسی جریدہ کس سائنسی پبلشر کے نظم کے تحت شائع ہورہا ہے ؟
۸:  اُس پبلشر کی اپنی وقعت سائنسی دنیا میں کیسی ہے؟
۹: اس سائنسی جریدے کے ایڈیٹوریل بورڈ میں کس معیار کے سائنسدان اور محققین شامل ہیں؟
۱۰: اس مقالے کو لکھنے والے محقق اور سائنسدان کا خود عالمی سائنسی دنیا میں کیا مقام ہے؟
۱۱:  وہ کسی ادارے سے منسلک ہے؟ 
۱۲: اور اس موضوع پر وہ کتنی مہارت رکھتا ہے؟ اور اس سے پہلے وہ اس موضوع پر کتنے تحقیقی مقالے لکھ چکا ہے؟
۱۳: اس سائنسدان اور محقق نے کس سائنسدان کی سرپرستی میں پی ایچ ڈی کی اور کس یونیورسٹی سے اس نے پی ایچ ڈی کی؟
۱۴: پی ایچ ڈی کرنے کے بعد تدریس و تحقیق سے وابستہ ہونے کے بعد اس سائنسدان اور محقق نے کتنی تحقیق اور کس معیار کی تحقیق کی؟ 
اب جب اس طرح کے سوالات کے جوابات ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کو ڈھونڈنے آجاتے ہیں تو اُن میں یہ سائنسی استعداد اور صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ کسی بھی تحقیقی مقالہ کو پڑھ کر اس بات کی نشاندہی کرسکتے ہیں کہ وہ تحقیقی مقالہ کس معیار کا ہے؟ اور اس کی سائنسی اہمیت کتنی ہوگی؟ اور پھر اسی بنیاد پروہ خود اچھی اور معیاری سائنسی تحقیق کرنا سیکھتے ہیں اور پھر نتیجتاً اچھی اور معیاری سائنسی تحقیق مزید پروان چڑھتی ہے اور پھر ایسی سائنسی تحقیق انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
جب ہم سن ۲۰۱۵ ء میں چھپنے والے پروفیسر چارلس ایوان کے اس تحقیقی مقالے کا سائنسی طور پر جائزہ لیتے ہیں، یعنی اوپر پیش کیے گئے سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں توکئی چونکادینے والے حقائق سامنے آتے ہیں۔ 
سب سے اہم بات یہ کہ پروفیسر چارلس ایوان کا یہ تحقیقی مقالہ انتہائی غیر معیاری سائنسی جریدے میں چھپا ہے اور سائنسی دنیا میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ سائنسی جریدہ ۲۲۰ امریکی ڈالر [۲] لے کر غیر معیاری مقالے بھی چھاپ دیتا ہے، جو کہ پروفیسر چارلس ایوان کے مقالے کو پڑھنے سے ہم پر عیاں ہے کہ یہ مقالہ غیرمعیاری ہے۔اس طرح کے سائنسی جرائد کی پوری ایک کھیپ دنیا میں موجود ہے جو کہ پیسے لے کر غیر معیاری سائنسی مقالے عالمی سطح پر چھاپ دیتی ہے۔ دیکھیے! ہم قطعاً یہ نہیں کہہ رہے کہ Fee Charing Open Access Journals  ’’پیسوں کے عوض کھلی رسائی والے‘‘ تمام سائنسی جرائد غیر معیاری ہوتے ہیں، بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ پیسے لے کر بہت سارے سائنسی جرائد غیر معیاری سائنسی مقالے چھاپ دیتے ہیں اور اگر ہم سائنسی شعبے میں کام کررہے ہیں تو ہمیں اس طرح کے غیر معیاری پیسوں والے سائنسی جرائد کی نشاندہی کرنی آتی ہو اور اس طرح کے جرائد کو جعل ساز جرائد یعنی پری ڈیٹری جرائد Predatory Journals کہا جاتا ہے اور اس کی پوری فہرست موجودہے۔اسی وجہ سے صرف اچھے معیار والے سائنسی جرائد میں ہی چھاپنا چاہیے۔ اس جریدے کی کلیریٹیو Clarivate Journal Citation Report میں بھی انڈیکسنگ نہیں ہے جو کہ عالمی سائنسی جرائد کے معیارات متعین کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی سائنسی جرائد کی رینکنگ کے اندر بھی اس جریدے کا شمار نہیں ہوتا۔
اسی تحقیقی مقالے پرپروفیسر چارلس ایوان کی وابستگی بیری یونیورسٹی امریکہ میں موجود ایک کیتھولک یونیورسٹی سے کی گئی ہے۔[۳، ۴] البتہ انٹرنیٹ پر اور یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ان کے نام پر کوئی سائنسی تحقیقی مواد ہمیں نہیں ملا۔ یہ کافی حد تک تشویشناک بات ہے، کیونکہ سائنسدان اور محققین اپنے سائنسی تحقیقی کاموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور یہ ساری معلومات انٹرنیٹ پر بآسانی مل جاتی ہیں۔ نیز ان کا عالمی سائنسی دنیا میں کوئی قابل مقام نہیں ہے۔ محض کسی عالمی جریدے میں مقالہ چھاپ دینا پیسے دےکر اور انگریز نام ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ جو مقالہ لکھا گیا، جہاں پر چھپا، اور جس نے لکھا وہ سب سائنسی طور پر درست ہیں، لہٰذا کسی کی تحقیق کی بنیاد اگر ایسے غیر معیاری مقالہ پر رکھی گئی ہے تو وہ بنیاد ہی غیر معیاری اور غیر سائنسی ہے۔ ہم ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں ’’گی گو‘‘ یعنی GIGO  جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر کچرا ڈالا جائے گا تو کچرا نکلے گا اور اس کا مفہوم اس طرح لیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم معیاری سائنسی تحقیق پڑھیں گے تو ہماری سائنسی بنیاد بھی مضبوط ہوگی اور اس سے سائنسی استعداد بھی بڑھے گی۔ اگر ہم غیر معیاری سائنسی مقالہ جات پڑھیں گے اور انہیں غیرمعیاری سائنسی جرائد میں چھاپیں گے تو ہم عالمی سطح پر اپنا لوہا سائنس میں نہیں منوا سکیں گے۔
اب ہم قارئین کی خدمت میں پروفیسر چارلس ایوان کے اس تحقیقی مقالے کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں، اس سے آپ خود ہی اندازہ لگالیجئے کہ کس طریقے سےخاص اسلامی فقہی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی کے بارے میں اسلامک فنائنس اور بینکنگ کے حلقوں میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان چند اقتباسات کا ترجمہ اور مفہوم درجِ ذیل ہے:
It concludes that Bitcoin or a similar system might be a more appropriate medium of exchange in Islamic Banking and Finance than riba-backed central bank fiat currency, especially among the unbanked and in small-scale cross-border trade.
’’اس تحقیقی مقالہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اسلامک بینکنگ اور فنائنس کے نظام میں مروجہ کاغذی کرنسی (جو کہ سینٹرل بینک جاری کرتا ہے اور جس کی بنیاد رِبا ہے) کے مقابلے میں بٹ کوائن یا اس جیسا نظام ایک مناسب آلۂ مبادلہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو بینک پر انحصار نہ کرتے ہوں اور چھوٹے پیمانے پر کراس بارڈر تجارت کرتے ہوں۔‘‘
XBT is free of riba, whereas fiat is lent into existence in exchange for riba.
’’ایکس بی ٹی (بٹ کوائن) رِباسے پاک ہے، جبکہ فیاٹ کرنسی ربا کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔‘‘
With regard to risk-sharing and cost sharing, at its foundation Bitcoin operates according to musharakah, in which 'miners' operate as general partners in loose confederation, who share the costs and benefits of maintaining the system.
’’جہاں تک رسک کے اشتراک اور لاگت کے اشتراک کا تعلق ہے، بٹ کوائن بنیادی طور پر مشارکہ کے تحت کام کرتی ہے جس میں مائنرز عمومی شراکت داری کے تحت کام کرتے ہیں، جو کہ لاگت اور فوائد کو آپس میں بانٹتے ہیں، تاکہ نظام برقرا ررہے ۔‘‘
Bitcoin incorporate the principles of maslaha (social benefits of positive externalities) and mutual risk-sharing (as opposed to risk-shifting).
’’بٹ کوائن میں مصلحہ(سماجی فوائد) اور باہمی رسک شئیرئنگ (رسک دوسروں پر ڈالنے کے برعکس) کے اصول شامل ہیں ۔‘‘
The executives of a group of Islamic Banks—either an affiliated group or a loose confederation—could organize a virtual currency exchange under the principal of musharakah, in order enable those banks' customers to buy and sell XBT efficiently, in order to transfer value amongst themselves and to bypass the inefficiencies of the status quo banking system.
’’ اسلامی بینکوں کے ایگزیکٹوز، مشارکہ کے اصول کے تحت ایک ورچول کرنسی ایکسچینج بناسکتے ہیں، تاکہ ان اسلامی بینکوں کے صارفین مؤثر طریقے سے بٹ کوائن کی خریدوفروخت کرسکیں اور قدر کو ایک دوسرے تک منتقل کرسکیں اور جو مروجہ اسٹیٹس کو بینکنگ نظام میں خرابیاں ہیں، ان سے بچ سکیں۔‘‘
دیکھیے! صرف اس تحقیقی مقالے میں ایک شوشہ چھوڑ دیا گیا کہ بٹ کوائن اسلامی معاشی نظام کے تحت آلۂ مبادلہ کے طور پر کام کرسکتا ہے، جب کہ اس بات کے کوئی سائنسی شواہد اور دلائل فراہم نہیں کیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مضبوط سائنسی دلائل اور شواہد کی بنیاد پر ثابت کیا جاتا کہ کیوں بٹ کوائن سود اور رِبا کے بالکل مخالف ہے؟ اور کیسے یہ آلۂ مبادلہ کے طور پر کام کرسکتا ہے؟
 قارئین یہ بات یاد رکھیں کہ یورپی یونین کی اقتصادی اور مالیاتی امور کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ یورپین پارلیمنٹ میں جمع کروائی ہے جس میں عالمی معاشی ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل کرنسیوں کو بطور آلۂ مبادلہ Medium of Exchange استعمال نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے۔[۵] نیز کرپٹو کرنسیوں کو بطور قدر شمار کرنے کے Unit of Account استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔خلاصہ یہ کہ کرپٹو کرنسیاں، کرنسی کے بنیادی اوصاف پر پورا نہیں اُترتیں۔ ایک اور سائنسی تحقیق کے مطابق بٹ کوائن کو بطور کرنسی استعمال نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ تقریباً دو سے پانچ فیصد لوگوں نے بٹ کوائن کو چیزوں اور اشیاء کی خریداری کے لیے استعمال کیا، جبکہ پچانوے فیصد لوگوں نے اس کو بطور سرمایہ کاری کے استعمال کیا۔ [۶] یورپی سپروائزری اتھارٹیز صارفین کو خبردار کرتی ہیں کہ بہت سے کرپٹو اثاثے انتہائی رسکی اور سٹے بازی یعنی قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔ یہ زیادہ تر ریٹیل صارفین کے لیے بطور سرمایہ کاری یا ادائیگی یا تبادلے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔[۷]
عالمی معاشی ماہرین نے کئی سائنسی تحقیقات کی ہیں جن کے اندر اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ بٹ کوائن کرپٹو کرنسی دیگر کرنسیوں اور اثاثوں کے مقابلے میں کیسی ہے۔ ایک سائنسی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بٹ کوائن سونا Gold  اور امریکی ڈالر US Dollar اور دیگر اثاثوں سے کسی طرح بھی مماثلت نہیں رکھتا[۸]۔ ایک دوسری سائنسی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ دیگر ۱۶ اقسام کے دیگرروایتی اثاثوں جن میں قیمتی دھاتیں، کرنسی، بونڈ وغیرہ (Currency, Metal, Equity, Energy, Bond) کے مقابلے میں کرپٹو کرنسی ہرگز مماثلت نہیں رکھتی اور بہت زیادہ ریٹرن دیتی اور اُتار چڑھاؤ بہت زیادہ ہے۔[۹]
 جب ہم پروفیسر چارلس ایوان کے تحقیقی مقالہ میں کیے گئے دعووں پرغور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ یہ دعوے بالکل بے بنیاد ہیں اور اسی وجہ سے دنیا بھر کے عالمی معاشی ماہرین اور سائنسدان اس طرح کے دعووں کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہی سائنسی طور پر بے بنیاد دعووں کی وجہ سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کیوں دنیا کے بہترین سائنسی جرائد میں اس تحقیقی مقالے کو نہیں چھاپا گیا؟ اور کیوں ایک ایسے جریدے میں چھاپا گیا جس کی کوئی سائنسی اہمیت نہیں؟ حتیٰ کہ ایچ ای سی کی رینکنگ کے مطابق بھی اس جریدے کی کوئی وقعت نہیں۔ دیکھیے! یہ ہمارے اُن صاحبِ علم کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کو سمجھتے اور پڑھنے سے پہلے اس بات پر غور فرماتے کہ اس مقالے کی سائنسی اہمیت کیا ہے؟
 مسلمان شراب کو حرام مانتے ہیں، شراب پینا تو درکنار، اس کو چکھنے کے بارے میں کوئی مسلمان سوچے گا بھی نہیں، چہ جائیکہ کسی مسلمان سے یہ امید کی جائے کہ وہ شراب کی بھلائیوں کی ترویج و اشاعت کرے گا۔ اب اگر کوئی مسلمان اٹھے نعوذباللہ، امریکہ اور یورپ کے غیر مسلم لوگوں کو یہ سمجھائے کہ دیکھیے! شراب پیجئے، اس میں آپ کی بھلائی بھی ہے اور نجات بھی، اور وہ مسلمان ایک فقہی مقالہ پاکستان کے کسی فرضی سائنسی جریدے میں شراب کے فوائد پر شائع بھی کردے تو ہم اس سارے عمل کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ بس یہی کچھ یہاں پر ہوا ہےکہ ایک کٹر غیر مسلم پروفیسر چارلس ایوان بٹ کوائن کے بارے میں جو کہ جُوا اور سٹے بازی کی بدترین شکل ہے، ہم مسلمانوں کو ہماری ہی اسلامی و فقہی اصطلاحات کے اندر فوائد گنوارہا ہے اور یہ ترغیب دے رہا ہے کہ یہ بٹ کوائن سودی نظام کے خلاف ہے اور اپنے اس تحقیقی مقالے کو انتہائی بوگس اور غیرمعیاری سائنسی جریدے میں شائع کررہا ہے اور پھر اس مقالے کی مسلمانوں میں ترویج شروع کردی جاتی ہے۔ پھر ایک مدرسہ کے تخصص کرنے والے صاحبِ علم کو تحقیق کے نام پر چارلس ایوان کا یہ تحقیقی مقالہ حوالہ کردیا جاتا ہے اور پھر وہ صاحبِ علم اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کرکے بٹ کوائن کو اسلامی شرعی احکامات کے تابع کرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ اور پھر جب کوئی کمپیوٹر سائنس، بلاک چین و کرپٹو کرنسی کا ماہر اُن کی خدمت میں گزارش کرتا ہے کہ یہ ساری باتیں سائنسی طور پر درست نہیں تو اس سائنسدان پر نہ صرف یہ کہ الزامات کی منظم بوچھاڑ کردی جاتی ہے، بلکہ بہت ہی منظم طور پر اور تندہی کے ساتھ کرپٹو کرنسی کو اختیار کرنے کے لیے تحریک چلائی جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح اسلاف کے پاس جب کوئی شخص بات لے کر جاتا تو وہ پارٹی نہ بنتے تھے، بلکہ اگر حق بات ہوتی تو اپنی رائے سے رجوع فرمالیتے۔ یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیکھیے! جب پاکستان کے ہی بڑے بڑے اکابر کرپٹو کرنسی کو جُوا اور سٹہ بازی کہیں، جب اُم المدارس دارالعلوم دیوبند کرپٹو کرنسی کو محض فرضی نمبروں کا کھیل کہے اور بڑے بڑے جید مفتیانِ کرام اور دارالافتاء کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز کے قائل ہوں تو کرپٹو کرنسی کے پروپیگنڈہ سے متاثر مفتیانِ کرام کا کرپٹو کرنسی کے جواز پر نہ صرف یہ کہ اصرار کرنا بلکہ اسی کو مستقبل قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اس کو کس چیز سے تعبیر کریں؟
اب ہم ایک اور مثال کے ذریعے سےبتاتے ہیں کہ کس طریقے سے ہمارے محترم نوجوان مفتیانِ کرام کرپٹو کرنسی کے اس بھیانک پروپیگنڈے میں آچکے ہیں اور کس طریقے سے بے خبری میں اس پروپیگنڈہ کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ ہم اللہ رب العزت سے خاص طور پر دعا گو ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو سیدھے راستے پر چلائے اور صحیح سمجھ بوجھ عطا فرمائے، آمین۔ چونکہ راقم ساری دنیا کے مضامین پڑھتا ہے تو ایک صاحبِ علم کا انگریزی کا تحقیقی مقالہ بھی نظر سے گزرا۔ [۱۰] یہ مقالہ ایک پاکستانی جریدے کراچی اسلامیکس’’Karachi Islamicus‘‘ میں شائع ہوا۔ میں دردِ دل کے ساتھ قارئین کی خدمت میں عرض کروں گاکہ اس تحقیقی جریدے کی عالمی سائنسی دنیا میں کوئی وقعت نہیں ہے۔نیزعالمی سطح پر پاکستانی جرائد اور دیگر اس طرح کی غیر معیاری عالمی سائنسی جرائد کو سائنسی دنیا تسلیم نہیں کرتی، لہٰذا اگر کوئی اس طرح کے جرائد کے اندر اپنے تحقیقی مقالے چھاپتا ہے تو عالمی سائنسی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی ورلڈ رینکنگ میں ان جرائد کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے، لہٰذا اللہ کے لیے کوئی بھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ اس نے ایک تحقیقی مقالہ ایک پاکستان سائنسی جریدے میں چھاپ دیا اور پھر وہ بٹ کوائن کے جواز کے دلائل دے، کل آخرت میں ہم سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، تو کہیں یہ خوش فہمی آخرت میں پکڑ کا ذریعہ نہ بن جائے۔
اس مقالے کا مقصدمصنف نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے عربی، انگریزی اور اردو میں کرپٹو کرنسی سے متعلق مقبول آراء (کام) کو اکھٹا کیا اور ان کے نتائج کو ترتیب دیا، تاکہ آسانی سے آگے اس موضوع پر کام ہوسکے۔ پہلے مصنف نے بٹ کوائن اور بلاک چین کا تعارف کروایاہے، پھر مصنف نے Money  اور بٹ کوائن کا تذکرہ فرمایا ہے۔ پھر مصنف نے بٹ کوائن اور ورچول کرنسیوں سے متعلق شرعی آراء کا ذکر فرمارہے ہیں اور آخر میں خلاصہ پیش کیا ہے۔ نیز ایک ضمیمہ بھی آخر میں موجود ہے، جس میں ۹ شریعہ اسکالرز سے اپنے پوچھے گئے ۱۴ سوالات کے جوابات درج کیے گئے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے جو مقالہ لکھا ہے وہ تحقیقی اعتبار سے غیر معیاری ہے، مثلاً: سوالات کرنے کے اندر عالمی سائنسی معیار کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔ جن ۹ شریعہ اسکالرز کو منتخب کیا گیا اور پھر ان کے جوابات لکھے گئے ہیں تو ان کی آراء مجموعی طور پر کم و بیش کرپٹو کرنسی کے جواز سے متعلق ہی آنی تھیں۔ اگر مصنف ان ۹ شریعہ اسکالرز کے بجائے وہ ۹ شریعہ اسکالرز اختیار کرتے جو کہ کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز کے قائل ہیں (مثلاً دارالعلوم دیوبند کے مفتیانِ کرام وغیرہ) تو سو فیصد کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز کی رائے ملتی، لہٰذا جس کسی نے بھی مصنف کو سروے کے ایسے غیر سائنسی طریقہ کار کو اختیار کرنے کا کہا ہے کہ سوالات کو اس طرح ترتیب دیں اور سروے اس طرح ترتیب دیں، اور پھر شریعہ اسکالرز کو اس طرح منتخب کریں کہ سب کی رائے کرپٹو کرنسی کے جواز کے بارے میں آئے اور پھر اس سے یہ نتیجہ پیش کریں کہ اسلامک اسکالرز کرپٹو کرنسی کے جواز کے قائل ہیں، یہ طریقۂ استدلال اور طریقۂ تحقیق غیرمعیاری ہے۔ راقم مصنف کی خدمت میں یہ عرض کرے گا کہ مستقبل میں ایسے لوگوں سے بچ کر رہیں، تاکہ مصنف کی تحقیقی کاوشیں ضائع نہ ہوں۔ سائنسی سوالات کس طرح مرتب کیے جاتے ہیں، اس کے لیے یہ کتب مطالعہ کے لیے مفید ہوں گی۔ [۱۱، ۱۲، ۱۳] 
پھر جو سوالات مصنف نے شریعہ اسکالرز سے پوچھے اور جو اُن کے جوابات آئے، وہ بھی بہت حیران کُن تھے، مثلاً: ایک سوال یہ کیا گیاکہ کیا بٹ کوائن کو لوگ تسلیم کرتے ہیں جو اس کے جواب میں تمام شریعہ اسکالرز نے رضامندی ظاہر کی۔ افسوس، صدافسوس! پوری دنیا میں عالمی معاشی ماہرین اور سائنسدان کرپٹوکرنسی کو کرنسی ہی تسلیم نہ کریں اور اس پر سائنسی شواہد پیش کریں اور مصنف یہ نتائج پیش کررہے ہیں جن کی کوئی بھی سائنسی بنیاد بھی نہیں۔ پھر ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا کرپٹو کرنسی ذخیرۂ قدر یا مالیت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ Store of Value  بن سکتی ہیں؟ اس کے جواب میں ان تمام حضرات نے کہا کہ ہاں وہ کرسکتی ہیں۔ یہ بھی سائنسی اور عالمی معاشی ماہرین کی رائے سے بالکل مختلف نتیجہ ہے اور اس پر بھی کوئی سائنسی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ حد تو یہ کہ اسپیکولیٹو سرمایہ کاری Speculative Investment کو بھی تمام شریعہ اسکالرز نے جائز قرار دیا ہے۔ آپ حضرات یہ کیا کررہے ہیں؟ کیوں مسلمانوں کے لیے سٹے بازی کو جائز قرار دے رہے ہیں؟ 
آخر میں قارئین کی خدمت میں دست بستہ گزارش ہے کہ ہم ایسے حضرات پر نظر رکھیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر معیشت کی اسلامائزیشن کی آڑ میں کرپٹو کرنسی کو جائزقرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تاکہ ایسے تمام منظم منصوبوں کو روکا جاسکے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق کو حق سمجھنے اور حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور باطل کو باطل سمجھنے اور باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ 

 

حواشی و حوالہ جات

 

[1] Charles W. Evans, Bitcoin in Islamic Banking and Finance, Journal of Islamic Banking and Finance, 3(1), 2015.
[2] Journal of Islamic Banking and Finance, Publication Fees, Link: https://jibfnet.com/in/jibf/faq .
[3] Barry University, USA, https://www.barry.edu /en/ academics/business/ 
[4] Dr. Charles W. Evans, Barry University News Item, https://my.barry.edu/news/article. html ?id =26604 .
[5] GERBA, E. and RUBIO, M., Virtual Money: How Much do Cryptocurrencies Alter the Fundamental Functions of Money?, Study for the Committee on Economic and Monetary Affairs, Policy Department for Economic, Scientific and Quality of Life Policies, European Parliament, Luxembourg, 2019.
[6] Dirk G. Baur, KiHoon Hong, Adrian D. Lee, Bitcoin: Medium of exchange or speculative assets?, Journal of International Financial Markets, Institutions and Money, Volume 54, 2018.
[7] European Supervisory Authorities Warnings on Cryptocurrency, Source: https:// www.eba. europa .eu/eu-financial-regulators-warn-consumers-risks-crypto-assets .
[8] Dirk G. Baur, Thomas Dimpfl, Konstantin Kuck, Bitcoin, gold and the US dollar – A replication and extension, Finance Research Letters, Volume 25, June 2018, Pages 103-110.
[9] Dirk G. Baur, KiHoon Hong, Adrian D. Lee, Bitcoin: Medium of exchange or speculative assets?, Journal of International Financial Markets, Institutions and Money, Volume 54, 2018.
[10] Owais Paracha, Tri Lingual Categorization of Opinions on Bitcoin and Crypto Currencies: An Islamic Perspective, Karachi Islamicus, 1(1), 22-34, 2021. 
[11] Martyn Denscombe 2014, The Good Research Guide, 5 Ed., Open University Press, McGraw-Hill Education [ISBN: 9780335264704].
[12] Steven J. Taylor, Robert Bogdan, Marjorie DeVault 2016, Introduction to Qualitative Research Methods: A Guidebook and Resource, 4 Ed., Wiley [ISBN: 9781118767214].
[13] Jan Recker, Scientific Research in Information Systems: A Beginner's Guide, Second Edition, 2021, Springer.
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین