بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، اور بلاک چین (چھٹی اور آخری قسط)

 کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، اور بلاک چین 

تعارف، مغالطے، شرعی نقطۂ نظر اور ہماری ذمہ داری

(چھٹی اور آخری قسط)

 

مغالطہ نمبر۵
کیا کرپٹو کرنسی کے رائج ہونے، متوقع قانون سازی اور عرف کی وجہ سے اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے؟

یہ مغالطہ بھی ہے کہ چونکہ کرپٹو کرنسی رائج ہوجائے گی اور اس سلسلے میں کئی ممالک میں اس پر قانون سازی کا عمل کیا جاچکا ہے اور کئی میں اس پر کام جاری ہے اور عرف میں کرپٹو کرنسی کو ’’زر‘‘ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اس کا استعمال اور اس میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ 
جواب: ہم اس بات کو بنیاد بنا کر کہ کوئی چیز رائج ہے یا رائج ہو کر رہے گی، عمومی طور پراس کی حلت و حرمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے، جب تک کہ وہ اسلامی اصولِ و ضوابط کے مطابق نہ ہو۔ اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ ’’نصوص کی موجودگی میں عرف و عادت کی وجہ سے احکام میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی، یعنی جو عرف نصِ شرعی کے خلاف ہو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘ [1] دیکھیے! جب فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ عرف کی تبدیلی سے احکام بدل جاتے ہیں تو ذہن میں رہے کہ ہر طرح کے احکام نہیں بدلتے، بلکہ ایسے احکام ہی بدلیں گے جن کی بنیاد عرف پر ہو، مثلاً اس وقت پوری دنیا خاص طور پر مغرب میں شراب عام ہے اور پیشتر ممالک میں اس کا استعمال باقاعدہ قانون کے تحت جائزہے اور یہ عوام الناس میں رائج بھی ہے تو کیا اس کے وسیع استعمال سے علمائے کرام نے اس کی حلت کا فتویٰ دے دیا ہے؟ نیز جوا، قمار اور سود‘ اسلامی شریعت میں جائز نہیں، تو کیا اس کے وسیع اور عام استعمال سے سود، جوا، سٹےبازی حلال ہوگئی؟ عالمی معاشی نظام میں اس وقت بینکوں کا قبضہ ہے تو کیا اس وجہ سے کہ چونکہ اب پورا معاشی نظام باطل کے قبضہ میں ہے اور حتیٰ کہ اسلامی ممالک بھی ان بینکوں کو استعمال کررہے ہیں، کیا سودی بینک کے نظام کو حلال قرار دے دیا گیا؟ اسی طریقے سے جن علمائے کرام نے سود کو اور بینکنگ سسٹم کو سو سال پہلے ناجائز قرار دیا وہ آج بھی یہی خیال کرتے ہیں اور ابھی حال ہی میں تیسری دفعہ وفاقی شرعی عدالت نے ربا سے متعلق جو فیصلہ دیا وہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ بعینہ اگر کرپٹو کرنسی عوام میں مقبول ہے، اس کو لوگ ’’زر‘‘ سمجھیں، اور اس کا عرف ہے تو اس دلیل سے اس کے جواز کو قبول نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ وہ شریعت کے تمام اصولوں کے مطابق نہ ہوجائے۔ 
اگر یہ دلیل دی جائے کہ دیکھیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے بینکنگ کے نظام کو اپنایا ہوا ہے تو کرپٹو کرنسی کو بھی اپنا لیا جائے، تاکہ دیر نہ ہوجائے۔ تو اس میں یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ اگرچہ مملکتِ پاکستان نے قانون کے تحت بینکنگ کے نظام کو اپنایا، مگر چونکہ یہ نظام سود پر مبنی تھا اور چونکہ سود کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں اور آئینِ پاکستان بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا الحمدللہ تیسری مرتبہ وفاقی شرعی عدالت نے پھر یہ فیصلہ سنایا کہ ہمیں اس نظام کو چھوڑ کر اسلام کے معاشی نظام کو اپنانا ہوگا، لہٰذاکرپٹو کرنسی کو اگر پوری دنیا اپنا بھی لے اور پاکستان میں اس کو قانونی حیثیت بھی دے دی جائے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ شریعت کےاصولوں کے متصادم تو نہیں؟ اگر متصادم ہوگی تو بھلے پوری دنیا اس کو اپنا لے اور حکومتِ پاکستان اس کو قانونی حیثیت بھی دے دے، مگر اسلامی رو سے اس کے جائز ہونے کے بارے میں ہم مفتیانِ کرام ہی کی رائے پر عمل کریں گے اور اس سے احتراز کریں گے۔ 

مغالطہ نمبر۶: 

ہر کوئی نئی کرپٹو کرنسی بنا سکتا ہےاور ہر کسی کو نئی کرنسی بنانے کے مساوی مواقع ملتے ہیں؟

یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ ہر کوئی نئی کرپٹو کرنسی بناسکتا ہے اور ہر کسی کو کرپٹوکرنسی بنانے کےمساوی مواقع ملتے ہیں۔ 
جواب: یہ کہنا کہ بٹ کوائن ایک عوامی کرنسی ہے اور ہر کوئی مائننگ کے ذریعے سے اس میں نئے پیسے بنا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بٹ کوائن کے مائننگ پراسس کے اندر صرف کچھ مائننگ پولز کی ہی اجارہ داری ہےاور وہ ہی نئے بلاک کو بلاک چین میں شامل کررہے ہیں اور یہ آپ مائننگ پولز کو دیکھ کر بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ آپ کو کتنا اختیار ہے بٹ کوائن مائن کرنے کا؟ گیارہ کھرب احتمالات میں سے ایک احتمال؟

 

ٹیبل نمبر ۳: مائننگ پولز یعنی مائننگ کرنے والی کمپنیاں اور ان کے بلاک مائن کرنے کی تعداد

 

مائننگ پول

بلاک مائن کرنے کی تعداد

Unknown

234

AntPool

82

F2Pool

74

ViaBTC

62

Poolin

55

SlushPool

32

SBI Crypto

10


یہ اعدادو شمار مورخہ ۵ ؍جون ۲۰۲۲ کے ہیں جس کے اندر چار دن کے ڈیٹا کو اکھٹا کیا گیا ہے اور یہ ڈیٹا ہم نے https//:www.blockchain.com/charts/pools ویب سائٹ سے لیا ہےجواس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ کون کون سے مائننگ پولز کا کتنا فیصد تناسب ہے بٹ کوائن مائننگ کے اندر۔ 
آپ ٹیبل نمبر :۳ کے اندر مائننگ پولز یعنی مائننگ کرنے والی کمپنیاں اور ان کے بلاک مائن کرنے کی تعداد دیکھ سکتے ہیں۔ نیز آپ تصویر نمبر:۶ کے اندر مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کچھ مائننگ پولز کی بٹ کوائن کے مائننگ پراسس کے اندر اجارہ داری ہے۔ آسان الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ جتنی نئی بٹ کوائن کرپٹو کرنسی اس وقت مائننگ کے ذریعے سے بن رہی ہے، اس میں ان بڑے بڑے مائننگ پولز کا حصہ ہے۔ آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ۵۷ فیصد نئی کرپٹو کرنسی چھ بڑے مائننگ پولز بنارہے ہیں اور نئی کرپٹو کرنسی بنانے میں انہی کا کردار ہے، یعنی چھ مائننگ پولز پوری دنیا کی ۵۷ فیصد نئی بٹ کوائن کرپٹو کرنسی بنا رہی ہے، تو ہم یہ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی میں ہر کوئی نئی کرنسی بنا سکتا ہے اور اس کو مساوی مواقع ملتے ہیں؟

تصویر نمبر ۴: بٹ کوائن کے مائننگ پول کے اعداد 


تصویر نمبر ۴: بٹ کوائن کے مائننگ پول کے اعداد و شمار مورخہ ۵ ؍جون ۲۰۲۲ جس کے اندر چار دن کے ڈیٹا کو اکھٹا کیا گیا ہے اور یہ ڈیٹا ہم نے https:||www.blockchain.com/charts/pools ویب سائٹ سے لیا ہےجواس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ کون کون سے مائننگ پولز کا کتنا فیصد تناسب ہے بٹ کوائن مائننگ کے اندر۔ 

مغالطہ نمبر۷: 

کیا کرپٹو کرنسی کا نظام حقیقی طور پر ایک ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم ہے؟

یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کا نظام حقیقی طور پر ایک ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم ہے۔ 
جواب: کرپٹو کرنسی کے نظام کو ایک حقیقی ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے، مگر اگر ہم ٹیکنیکل گہرائی میں جائیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حقیقی طور پر بٹ کوائن یا اس جیسی دوسری کرپٹو کرنسیوں میں ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم حقیقی طور پرموجود نہیں ہے یا اس کو بننے نہیں دیا گیا۔ دیکھیے! بلاک چین تو ڈی سینٹرلائزڈ ہے، مگر جب بلاک چین کا استعمال کرکے کرپٹو کرنسی بنائی گئی تو اس کے اندر مائننگ پولز کو شامل کرکے بلاک چین کی اہم خصوصیت یعنی ڈی سینٹرلائزڈ ہونا، اس کو ایک طریقے سے ختم کیا گیا، تاکہ کرپٹوکرنسی کے عالمی معاشی نظام پر کچھ کمپنیوں کی اجارہ داری ہوجائے۔ اس کی مثال ہم نے مغالطہ نمبر:۶ کے تحت آپ کو دی ہے (دیکھیے: تصویر نمبر: ۴) جس کو دیکھنے کے بعد یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کچھ مائننگ کمپنیوں کی نئی کرپٹو کرنسی بنانے کے اندر مکمل اجارہ داری ہے۔ نیز یہ ہی مائننگ کمپنیاں اصل میں بٹ کوائن کرپٹو کرنسی کے اندر نئے بلاک شامل کررہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ہی مائننگ کمپنیوں کا مکمل کنٹرول ہے کہ کون کون سے بلاک اور ٹرانزیکشن بٹ کوائن بلاک چین کے اندر شامل ہوں گے، لہٰذا یہ ایک طریقے سے عالمی معاشی نظام کو کنٹرول کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔ 

مغالطہ نمبر۸: 

کیا کرپٹو کرنسی عالمی معاشی اداروں، بینکوں اور حکومتوں کی اجارہ داری ختم کرتی ہے؟

یہ بھی مغالطہ ہے کہ کرپٹو کرنسی عالمی معاشی اداروں، بینکوں اور حکومتوں کی اجارہ داری Monopoly کو ختم کرتی ہے۔ 
جواب: یہ کہا جاتا ہے کہ کرپٹو کرنسی کا نظام بنیادی طور پر عالمی معاشی اداروں اور بینکوں کی اجارہ داری ختم کردے گا، لہٰذا ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ عالمی معاشی ادارے، بینک اور حکومتیں کرپٹو کرنسی کے نظام کو پنپنے نہیں دے رہے۔ اسی تناظر میں یہ لکھا گیا ہے کہ[2]:
’’بٹ کوئین! ایک لفظ نہیں، ایک مکمل تحریک ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ایک کونے سے اٹھی اور دنیا بھر پر چھا گئی۔ یہ ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی حکومت کی محتاج نہیں ہے۔ یہ عالمی مالیاتی نظام کے مقابلے میں ایک بھرپور نظام ہے۔ ایک ایسا نظام جسے کوئی مصنوعی طور پر چلا نہ رہا ہو، ایک ایسا زر جسے کچھ طاقت ور لوگ کہیں بیٹھ کر لمحوں میں ختم نہ کر سکیں، ایک ایسا سلسلہ جسے استعمال کرنے والے عوام ہی اسے بقا بخشیں اور ایک ایسی آن لائن کرنسی جس میں نقد کی خصوصیات موجود ہوں۔ یہ اگرچہ اب تک پردے میں ہے کہ اس کے اجراء کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ لیکن یہ بات مخفی نہیں کہ یہ ایک ایسی طویل جد و جہد کا حصہ ہے جو برسوں سے چلتی آئی ہے۔ موجودہ کرنسی نظام سے تنگ دنیا میں ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اس نظام پر تنقیدیں کیں، درہم و دینار اور سونے چاندی کو واپس لانے کی مساعی کیں یا کوئی ایسی ڈیجیٹل کرنسی بنانے کی کوشش کی جو اس نظام سے آزاد ہو۔ ’’ستوشی ناکاموٹو‘‘نے بھی بٹ کوائین کو بناتے ہوئے ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے ہونے والے کام سے مدد لی، لیکن اس نے کچھ ایسی مشکلات کو حل کیا جو پہلے نہ کر سکے تھے۔ نتیجۃً ایک نسبتاً آزاد کرنسی آج ہمارے سامنے ہے۔ بٹ کوائین ایک ابتدا تھی، اس کے بعد تیزی سے کئی کرنسیاں بنتی گئیں۔ انہیں ہم ’’ورچوئل کرنسیاں‘‘ یا ’’کرپٹو کرنسیاں‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ ستوشی نے اپنی ذات کو تو گمنام بنا دیا، لیکن اپنے کام کو اتنا کھول کر سامنے رکھا کہ جو چاہے اس سے مدد حاصل کر سکے اور ایک نئی کرنسی کو وجود دے سکے۔ نئی بننے والی کرنسیوں میں بہت سی ختم ہو گئیں، بہت سی دھوکہ اور فراڈ تھیں اور کئی ابھی تک باقی ہیں۔‘‘ 

مغالطہ نمبر: ۶ اور ۷کے جواب کے اندر ہم نے آپ کے سامنے یہ دلائل پیش کیے تھے کہ ہرکوئی نئی کرپٹو کرنسی نہیں بنا سکتا، کرپٹوکرنسی مائننگ پر چند مائننگ پولز کا قبضہ ہے اور حقیقتاً کرپٹو کرنسی ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم نہیں ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ’’ یہ عالمی مالیاتی نظام کے مقابلے میں ایک بھرپور نظام ہے۔ اورکرپٹو کرنسی حکومتوں کی اجارہ داری ختم کرتی ہے۔‘‘ یہ سراسر حقائق کے منافی ہے۔ 
پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ ایک ایسا زر جسے کچھ طاقت ور لوگ کہیں بیٹھ کر لمحوں میں ختم نہ کرسکیں۔ ‘‘ یہ بھی سراسر حقائق کے منافی ہے۔ آپ حال ہی میں لونا LUNA کرنسی کا جو حال ہوا وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طریقے سے کچھ طاقت ور لوگوں نے کہیں بیٹھ کر کچھ لمحوں میں اس کرنسی کو بالکل ختم کردیا۔ پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ عوام ہی اسے بقا بخشیں۔ ‘‘ یہ بھی سراسر غلط ہے، کیونکہ صرف کچھ مائننگ پولز کا اس پر قبضہ ہے۔ ہم آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسی آزاد کرنسی ہے کہ جس پر چند مائننگ پولز کا قبضہ ہے؟ جس میں ایک لمحے میں پوری کرپٹو کرنسی LUNA لونا ڈوب گئی؟ ’’درہم و دینار اور سونے چاندی کو واپس لانے کی مساعی کیں‘‘ کی بات آپ کررہے ہیں تو درہم ودینار اور سونے چاندی کو واپس لائیں نہ کہ کرپٹو کرنسی، جو کہ موجودہ بینکنگ نظام سے بھی زیادہ اجارہ داری پر منحصر ہے اور سٹے بازی پر مشتمل ہے، اس کی ترویج و اشاعت کریں!

مغالطہ نمبر۹: 

مستقبل کی ہر خریدوفروخت میں این ایف ٹی سے جو منافع آئے گا وہ جائز ہوگا؟

ایک مغالطہ یہ ہے کہ این ایف ٹی کے اندر اگر ہم اسمارٹ کانٹریکٹ کے ذریعے سے منافع پروگرام کردیں تو جب بھی اس این ایف ٹی کی آگےمستقبل میں خریدوفروخت ہوگی اس سے جو منافع حاصل ہوگا، وہ جائز ہوگا۔ 
جواب: ایک صورت این ایف ٹی خریدوفروخت کی یہ ہوتی ہے کہ این ایف ٹی بیچتے وقت ایک اسمارٹ کانٹریکٹSmart Contract لکھ دیا جاتا ہے کہ جب بھی این ایف ٹی کی آگے خرید و فروخت ہوگی، اس کا مثلاً دس فیصد سے سب سے پہلے مالک کو دیا جائے گا، یعنی زید نے ایک این ایف ٹی بنایا اپنے ڈیجیٹل اثاثے کا جو کہ ایک ویڈیو تھی۔ اب زید نے بکر کو یہ این ایف ٹی ایک قیمت میں فروخت کردیا۔ اس کے بعد یہ ڈیجیٹل اثاثہ یعنی ویڈیو بکر کی ملکیت ہوگئی۔ اب بکر اس ڈیجیٹل اثاثہ یعنی ویڈیو کو عمرو کو فروخت کرتا ہے تو جب یہ معاملہ ہوجائے گا تو اس خرید و فروخت کا دس فیصد زید کو ملے گا اور اس طرح سے یہ سلسلہ آگے چلتا رہے گا اور جب جب اس ویڈیو کی آگے خرید و فروخت ہوگی اس کا دس فیصد زید کو ملے گا۔ یہ ایک طرح سے پگڑی کی مثال ہے اور پگڑی سے متعلق ہمیں مسئلہ معلوم ہے کہ نہ تو یہ مکمل خرید وفروخت کا معاملہ ہے اور نہ ہی مکمل اجارہ (کرایہ داری) ہے اور سارا معاملہ گڈ مڈ ہو گیا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں این ایف ٹی کی خرید وفروخت میں شرعی قباحت ہو گی۔ 

مغالطہ نمبر۱۰: 

کرپٹو کرنسی کا استعمال‘ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت میں نہیں ہوتا

ایک مغالطہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال منی لانڈرنگ اوردہشت گردوں کی مالی معاونت میں نہیں ہوتا۔ 
جواب: جب دلیل دی جاتی ہے کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال ناجائز کاموں اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں ہوتا ہے تو جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو مروجہ بینکنگ نظام کے ذریعے سے بھی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کی جاتی رہی ہے اور کاغذی کرنسی کو بھی ایسی چیزوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے تو عرض یہ ہے کہ بینک کے نظام کے اندر ( Know Your Customer KYC) یعنی جو بینک میں اکاؤنٹ کھول رہا ہے، اس کو جاننے کا نظام ہوتا ہے۔ اس نظام کے موجود ہونے کی وجہ سے جب کبھی مالی یا ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں کڑوروں روپے رکھے جاتے ہیں تو آپ اس کو باآسانی ٹریک کرلیتے ہیں اور منی ٹریل Money Trail تک پہنچ جاتے ہیں اوربینک کے نظام کے تحت آپ اس جعلی کرنسی اکاؤنٹس کو ٹریس کرلیتے ہیں، مگر کرپٹو کرنسی کے نظام میں ٹریس کرنا آسان نہیں ہے، اسی وجہ سے کرپٹو کرنسی کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے کالے دھن کو سفید بنایا جاتا ہے اور دیگر غیر قانونی کاموں میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ 
بینک کے نظام کے تحت جب آپ کے ساتھ کوئی دھوکہ ہوتا ہے کہ بینک اس کی گارنٹی لیتا ہے اور اگر کوئی بینک لیت و لعل سے کام لے تو سینٹرل بینک یا وفاقی محتسب صارف کی مدد کو آجاتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کے نظام میں آپ کے پاس کوئی سہولت ہی نہیں ہے کہ آپ کسی کے پاس اپنی فریاد یا دادرسی کے لیے جاسکیں۔ 

مغالطہ نمبر۱۱: 

کیا کرپٹو کرنسی کے نظام کو منع اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کو ناجائزکاموں میں استعمال کرتے ہیں؟

ایک مغالطہ یہ ہے کہ چونکہ لوگ کرپٹو کرنسی کا ناجائز کاموں میں استعمال کرتے ہیں، لہٰذا اس کا استعمال منع کیا جاتا ہے۔ 
جواب: یہ سوال کیا جاتا ہے کہ: ’’کچھ لوگ کرپٹو کرنسی کو ناجائز کاموں میں بھی استعمال کرتے ہیں، مثلاً نشہ آور چیزوں کی خریدوفروخت یا جرائم کی ادائیگی، ایسی صورت میں ان کا یہ مخصوص استعمال ناجائز ہوگا یا خود کرپٹو کرنسی ہی ناجائز ہوجائے گی؟ ‘‘
بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی سے پہلے بھی تو لوگ نشہ آور چیزوں کی خریدوفرخت کرتے تھے یا جرائم کی ادائیگی کرتے تھے تو کیا مفتیانِ کرام نے کاغذی کرنسی (یورو، امریکی ڈالر) کو اس وجہ سے ناجائز قرار دے دیا کہ لوگ اس سے ناجائز کام کرتے ہیں؟ ہم نے پچھلے مغالطوں کے جواب میں یہ گزارش کی تھی کی کرپٹو کرنسی کے نظام کے اندر ہی کچھ شرعی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کرنا، اس سے خریدوفروخت کرنے سے مفتیانِ کرام منع فرماتے ہیں، لہٰذا صرف یہی ایک وجہ نہیں کہ چونکہ کرپٹوکرنسی سے لوگ نشہ آور چیزیں خریدتے ہیں یا اس سے جرائم کی ادائیگی کرتے ہیں تو کرپٹو کرنسی کا نظام غلط ہے۔ 

مغالطہ نمبر۱۲: 

کیا کرپٹو کرنسی کا نظام اسلام کے قریب ہے؟

ایک مغالطہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کا نظام اسلام کے قریب ہے۔ 
جواب: آپ یہ کہتے ہیں کہ: 
’’حکومتوں کی کرپشن، لوٹ مار اور بے راہ روی کی وجہ سے لوگوں کا مرکزی اداروں سے اعتماد اٹھ رہا ہے، ایسے میں وہ متبادل نظام کی طرف سرگرداں ہیں۔ کرپٹو کرنسی اور بلاک چین وہ نظام مہیا کرتا ہے:
"This is as close to Islam as it can get."
کیا ہم ظلم برداشت کرتے رہیں یا اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کسی اور نظام کی طرف مائل ہوسکتے ہیں؟‘‘
 ہمارے پاس کیا اعداد و شمار ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کا مرکزی اداروں سے اعتماد اٹھ رہا ہے؟ پوری دنیا کا معاشی نظام اس وقت مرکزی اداروں کے ہی مرہونِ منت ہے، گو کہ اس بات میں وزن ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے اندر حکومتوں کی کرپشن، لوٹ مار حد درجہ بڑھی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری عالمی معاشی نظام کو اور حکومتوں کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا گیا ہے، مگر اس کا حل یہ نہیں کہ ہم کرپٹوکرنسی کے نظام کو اختیار کریں جس کے اندر بہت ساری شرعی قباحتیں ہیں۔ ہم نے قانون پر چلنا ہے اور کبھی بھی ملک کے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ اگر ظلم ہورہا ہے تو ہم قانونی چارہ جوئی اختیار کریں گے اور یہی بات ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے اندر بھی کہی گئی ہے کہ بغاوت نہیں کرنی، بلکہ شرعی، آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی جہدوجہد کرنی ہے۔ لہٰذا اس کا حل یہ ہے کہ ہم اسلامی معاشی نظام کی طرف پیش قدمی کریں جو کہ آئینِ پاکستان میں بھی درج ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ مروجہ کرپٹو کرنسی کا نظام اسلامی معاشی نظام کے قریب نہیں ہے!

مغالطہ نمبر۱۳: 

کیاکرپٹو کرنسی کو کوئی شخص ختم کرسکتا ہے اور کیا اس کی قیمت میں کمی زیادتی کرسکتا ہے؟

ایک مغالطہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کو کوئی حکومت، ادارہ، یا شخص ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی قیمت میں کمی زیادتی کرسکتا ہے۔ 
جواب: فقہی مقالہ ’’ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت‘‘ میں یہ لکھا ہے:
’’ورچوئل کرنسی کی ایک مثال مشہور ورچوئل کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ہے۔ بٹ کوائن کو خریدا جا سکتا ہے، بیچا جاسکتا ہے، منتقل کیا جا سکتا ہے، حفاظت کی جاسکتی ہے اور اشیاء کے ثمن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا کوئی مادی (یعنی ظاہری و خارجی) وجود نہیں ہوتا اور اسے نہ تو کسی سرکاری ادارے نے جاری کیا ہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کا اس پر کوئی اختیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حکومت، ادارہ یا شخص اس کو نہ تو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی قیمت میں کمی یا زیادتی کر سکتا ہے۔ ‘‘                            (مفتی اویس پراچہ صاحب، ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت، صفحہ:۱۸)
ہم نے مغالطہ نمبر: ۶ اور ۷کے جواب کے اندر ہم نے آپ کے سامنے یہ دلائل پیش کیے تھے کہ کرپٹوکرنسی مائننگ پر چند مائننگ پولز کا قبضہ ہے اور وہ لوگ بٹ کوائن کرپٹو کرنسی پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ نیز بٹ کوائن کی قیمت میں کمی یا زیادتی پر کچھ لوگوں کا کنٹرول ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا کرپٹوکرنسی مارکیٹ میں زیادہ سرمایہ لگا ہوا ہے اور وہی لوگ سٹے بازی کے تحت اور مارکیٹ میں خریدوفروخت کے ذریعے سے بٹ کوائن کی قیمت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ 
اب حال ہی میں یعنی ۱۵؍ مئی ۲۰۲۲ کوایک بٹ کوائن کی قیمت ۳۰ ہزار یورو تھی۔ صرف ایک مہینے میں اس کی قیمت ۲۰ ہزار یورو تک آگئی ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کرپٹو کرنسی بیچنے والے سیلسیئس نیٹ ورک Celsius Network نامی پلیٹ فارم نے اپنے صارفین کے اکاؤنٹ منجمد کردیئے، جس کی وجہ سے اس کے سترہ لاکھ صارفین اپنے اکاوئنٹ سے پیسے نکلوانے، منتقل کرنے یا کرپٹو کرنسی کو پیسے میں تبدیل کرنے کی سہولت سے محروم ہوگئے اور اس فیصلے کی وجہ سے بٹ کوائن کی قیمت ۵۰ فیصد اور ایتھیریم قیمت میں ۶۰ فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔[3،4] تو یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ:
 ’’ کوئی حکومت، ادارہ یا شخص اس کو نہ تو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی قیمت میں کمی یا زیادتی کر سکتا ہے۔ ‘‘ 

مغالطہ نمبر:۱۴

کیاکرپٹو کرنسی بجلی اور گیس کی طرح عمدہ اموال کی طرح ہے؟

ایک مغالطہ ہے کہ کرپٹو کرنسی، بجلی اور گیس کی طرح عمدہ اموال میں سے ہے۔ 
جواب: فقہی مقالہ ’’ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت‘‘ میں پہلے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ:
’’بجلی اور گیس ایسے عمدہ اموال میں سے ہو چکے ہیں جن میں لوگوں کی خواہش پائی جاتی ہے۔ انہیں ان اعیان میں داخل کرنا مشکل ہے جو بذاتِ خود قائم ہوتی ہیں، اس کےباوجود ان کی خرید و فروخت درست ہے اور لوگوں کا ان پر بغیر کسی نکیر کے تعامل ہے۔ ‘‘
پھراس قول پر قیاس کرتے ہوئے یہ دلیل قائم کی گئی ہے:
’’ ورچوئل کرنسیاں بھی بجلی کی طرح ہی اپنی ذات رکھتی ہیں، لیکن اپنے اظہار کے لیے آلات کی محتاج ہوتی ہیں۔ کسی ورچوئل کرنسی مثلاً بٹ کوائن کی جب تخلیق ہوتی ہے تووہ ایک ٹرانزیکشن بناتی ہے۔ ٹرانزیکشن معلومات کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جس میں مالک کا نام اور ٹرانزیکشن کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ ٹرانزیکشن بظاہر ایک کوڈ کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ کوڈ چارج، مقناطیسی سگنلز یا روشنی وغیرہ کی شکل میں آلات میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ کوڈ درحقیقت خود بھی بجلی کے سگنلز کا مجموعہ ہوتا ہے، کیوں کہ کمپیوٹر ایک مشین ہونے کی وجہ سے اعداد یا الفاظ کو نہیں سمجھ سکتا، وہ صرف برقی اشاروں کو ہی سمجھ سکتا ہے۔ یہ محفوظ شدہ چارج، مقناطیسی اشارے یا روشنی وغیرہ بوقتِ ضرورت کمپیوٹر اِن آلات سے بجلی کے سگنلز کی شکل میں واپس حاصل کر لیتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ورچوئل کرنسیاں وجود رکھتی ہیں، قابلِ انتفاع ہوتی ہیں اور لوگوں کے تعامل کی وجہ سےمال ہیں۔ ‘‘ (مفتی اویس پراچہ صاحب، ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت، صفحہ:۲۳۷)
جو دلیل دی جارہی ہے کہ ’’ورچوئل کرنسیاں بھی بجلی کی طرح اپنی ذات رکھتی ہیں، وجود رکھتی ہیں، قابلِ انتفاع ہوتی ہیں اور لوگوں کے تعامل کی وجہ سے مال ہیں‘‘ تو ہم پہلے مغالطہ نمبر: ۲ اور ۳ کے جواب میں یہ گزارش کرچکے ہیں کہ کرپٹوکرنسی نہ تو حسی طور پر موجود ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا انتقال اور قبضہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے حکومت ہوتی ہے، لہٰذاعلمائے کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اس بنیاد پر قیاس کرنا کہ کرپٹو کرنسی بھی بجلی اور گیس کی طرح عمدہ اموال میں سے ہے، درست معلوم نہیں ہوتا ۔ 

خلاصۂ مضمون اور اہم نکات

کرپٹو اثاثے Crypto Assets (کرپٹو کرنسی، ورچوئل کرنسی، این ایف ٹی، ٹوکن، ڈی سینٹرلائزڈ فنانس اور اس سے متعلقہ پروڈکٹس اور سروسز) اس وقت دنیا میں خاصی مقبولیت پا چکے ہیں اور اس کی بنیاد پر نت نئےخریدوفروخت کے طریقے رواج پارہے ہیں۔ نیز عوام میں ان کی مقبولیت اس بنا پر بھی بڑھ رہی ہے کہ ان کے اندر سرمایہ کاری سے جو نفع حاصل ہورہا ہے اس کی نظیر ماضی قریب میں ملنا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کا معاشی نظام انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا محتاج ہونے کی وجہ سے اس سے متعلق شرعی احکامات کا جاننا، تاکہ جائز ناجائز کی پہچان ہوسکے، اس لیے بھی ضروری ہے، تاکہ ہم اپنے مروجہ معاشی نظام کو اسلامی اصولوں کے تابع بنا سکیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ چیزوں میں جو قدر ہے یا کس طریقے سے ہم چیزوں کی قدر کا تعین کرتے ہیں وہ بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ اس ساری صورت حال میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ آیا یہ قدر حقیقی قدر بھی ہے یا نہیں؟ اور شریعت اس بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہے؟
 اس مضمون میں ہم نے ان تمام باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے اثاثے جمع کرنے کی مختصرتاریخ، اثاثوں کی مختلف اقسام، کمپیوٹر پر اثاثوں کو محفوظ کرنے جیسے اہم موضوعات پر معلومات فراہم کی ہیں۔ کرپٹو کرنسی (ڈیجیٹل کرنسی یا ورچوئل کرنسی)، بلاک چین، این ایف ٹی اور میٹاورس جیسے موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس مضمون کی خاص بات یہ ہےکہ اس کے اندر ان اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے جن کی بنیاد پر مفتیانِ کرام آسانی سے ان ٹیکنالوجیوں کی ماہیت اور کام کرنے کے طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام چیزوں سے متعلق شرعی احکامات اور جواز اور عدمِ جواز پر فتویٰ جاری کرسکتے ہیں۔ ذیل میں ہم بطورخلاصہ اہم نکات پیش کررہے ہیں: 
l    بلاک چین ( Blockchain) ایک ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے اعداد و شمار (ریکارڈ) یا ڈیٹا کو محفوظ کرتے ہیں۔ علمائے کرام کے بقول اس کا استعمال بذاتِ خود جائز ہے، ہاں البتہ اس کا استعمال ایسی چیزوں میں ہو یا اس سے ایسے کمپیوٹر پروگرامز (سافٹ وئیر) بنائے جائیں جو کہ غلط کاموں میں استعمال ہوں، مثلاً شراب کی ترسیل کا ریکارڈ رکھنے کے لیے یا انشورنس کا سافٹ وئیر بنانے کے لیے تو ہمیں ایسی صورت حال میں اس کے احکامات مفتیانِ کرام سے پوچھنے چاہئیں۔ 
l    کرپٹو اثاثے جن میں خاص طور پر کرپٹو کرنسی (بٹ کوائنBitcoin، ایتھرEther، لائٹ کوائنLitecoin، Ripple, XRPوغیرہ) شامل ہیں، ان سے اجتناب برتنا چاہیے اور راقم کی دانست میں ان مفتیانِ کرام کی رائے میں وزن ہے جو کہ اس کی موجودہ شکل میں اس کے عدمِ جواز کا فتویٰ جاری کررہے ہیں۔ ہماری رائے میں کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز قرار دینے میں مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات ہیں: 
    یورپی یونین جو کہ ۲۷ ممالک کا مجموعہ ہے جن میں فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، سوئیڈن، ڈنمارک، فن لینڈ، آئرلینڈ، پولینڈ اور دیگر ممالک شامل ہیں انہوں نے حال ہی میں کرپٹو اثاثوں (کرپٹو کرنسی وغیرہ) کو سٹے بازی قرار دیا ہے اور وہ اس کو  volatile , Highly Speculative کہہ رہے ہیں اور پورے یورپ کے ۴۴ کروڑ سے زیادہ عوام کوسرکاری سطح پر اس بات کی نصحیت کررہے ہیں کہ وہ اس میں حتی الوسع سرمایہ کاری، لین دین اور اس کی خریدوفروخت سے اجتناب کریں۔ 
    اس کے پیچھے حکومتوں کا عدمِ اعتماد ہے۔ نیز بیشتر ممالک کے سینٹرل بینک اس کی قانون سازی اور اس کو ریگولیٹ کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔ 
    اس کے اندر ذاتی قدر  Intrinsic Value   موجود نہیں ہے۔ 
    اکثر ممالک میں ہم کرپٹو کرنسی کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹیکس ادا نہیں کرسکتے۔ 
    یورپ نئی کرپٹو کرنسی بنانے کے طریقہ کار یعنی مائننگ Cryptographic Mining پراسس پر ماحولیات پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے سخت قانون سازی کرنے کی راہیں ہموار کررہا ہے، تاکہ کسی طرح سے یہ مائننگ پراسس کو یورپی ممالک میں روکا جاسکے، تاکہ ماحولیاتی آلودگی اور کرۂ ارض پر اس کی وجہ سے پھیلنے والے اثرات جن میں اوزان تہہ کا بڑھنا اور گلئیشرز کا پگھلنا اور درجۂ حرارت کا بڑھنا جیسے عوامل شامل ہیں، ان ہی عوامل کی وجہ سے یورپ مائننگ پراسس (نئی کرپٹو کرنسی بننے کا عمل) کی حوصلہ شکنی کررہا ہے۔ 
    کرپٹو کرنسی حسی طور پر کمپیوٹر میں موجود نہیں ہوتی، نہ اس کا انتقال ہوتا ہے اور نہ اس پر قبضہ ہوتا ہے اور محض لیجرledger کھاتے میں (ریکارڈ میں) تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ 
    اگر بفرضِ محال عوام میں اس کی مقبولیت ہو بھی رہی ہے تو اس کو بنیاد بنا کر اس کو شرعی طور پر جائز نہیں بنایا جاسکتا، جب تک کرپٹو کرنسی تمام شرعی معیارات اور اصول وضوابط پر پورا نہیں اُترتی۔ 
    اس میں غرر ہے اور نفع نقصان کی شرح میں قیاس اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اس کے بارے میں عالمی معاشی ماہرین (غیر مسلم) حضرات بھی لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کررہے ہیں اور اس کو سٹے بازی قرار دے رہے ہیں۔ 
    اس کا استعمال ناجائز کاموں مثلاً منی لانڈرنگ اور کالے دھن کو سفید بنانے میں ہورہا ہے، نیز اس کے ذریعے دہشت گردوں کی معاشی معاونت بھی کی جارہی ہے۔ 
    کرپٹو کرنسی کی وجہ سے کوئی بھی کاروبار یا معاشی سرگرمی Tax Regimeٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ سے حکومتوں کی قانونی اور معاشی عملداری اور ملکوں کے چلانے کے نظام کو خطرہ لاحق ہے۔ اور اس سے جو معاشی نظام میں خرابیاں پیدا ہونے کا امکان ہے وہ اَن گنت ہے۔ 
    اس سے نت نئے خیالی کاروبار کے طریقے رائج ہورہے ہیں جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اور اس کی وجہ سے امیر‘ امیر سے امیر تر اور غریب‘ غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ نیز اگر گہرا تجزیہ کیا جائے تو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے اور ایک خاص طبقے کو اس سے فائدہ ہورہا ہے۔ 
    کرپٹو کرنسی کی حمایت کرنے والے افراد اس کے Decentralized ڈی سینٹرلائزڈ ہونے کے فائدے گردانتے ہوئے تھکتے نہیں، حالانکہ اگر کرپٹوکرنسی پر ہونے والے سنجیدہ تحقیقی کاموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اعداد و شمار سے عیاں ہوتی ہے کہ ڈی سینٹرلائزڈ ہونا مکمل طور پر درست نہیں ہے اور کرپٹو کرنسی پر محض چند افراد اور گروہوں کا قبضہ ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہ مائننگ پولز ہیں جو کہ اپنی کمپیوٹیشنل پراسسنگ پاور ہونے کی وجہ سے مائننگ پراسس میں بڑا حصہ رکھتے ہیں۔ 
    یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ کرپٹو کرنسی کو کوئی بھی مائن Mine کرسکتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی کرپٹو کرنسی کے مائننگ پراسس میں شرکت کرسکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس کا کتنے فیصد امکان ہے کہ وہ مائننگ پراسس میں کامیابی حاصل کرکے نیا بلاک بلاک چین میں شامل کرپائے گا اور نئی کرپٹو کرنسی بنا پائے گا؟ اس کا بہت کم فیصد امکان ہے کہ وہ مائننگ پراسس میں کامیاب ہوسکے۔ گو لوگ اس میں کاروبار کرکے پیسے کما رہے ہیں، مگر مائننگ پراسس کے ذریعے سے اس میں پیسے کمانے کی انفرادی شرح عوامی طور پر بہت کم ہے۔ نیز یہ کہ ہر شخص کو مائننگ کے ذریعے سے برابر مواقع مل رہے ہیں، یہ بات بھی کسی حد تک درست معلوم نہیں ہوتی۔ 
    اس میں مسلمانوں کےحفظ المال کا فقدان ہے، لہٰذا اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے مسلمانوں کو اجتناب برتنے کی ترغیب دیں۔ 
    یہ کہنا کہ اگلا معاشی نظام کرپٹو کرنسی پر مبنی ہوگا اور اس کے بغیر مسلمان معاشی ترقی نہیں کرسکیں گے، یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگر بفرضِ محال ایسا ہو بھی جائے (جیسا کہ سودی بینکاری نظام اس وقت عالمی دنیا میں چھایا ہوا ہے) تو اس کی حلت ہونے کا حکم اس کے عام ہونے کی وجہ سے نہیں دیا جاسکتا۔ ابھی حال ہی میں وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے جو تیسری دفعہ یہ فیصلہ آیا ہے کہ سودی نظامِ مالیات غیراسلامی ہے تو یہ بات بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ کسی نظام کے عام ہونے سے اس کو حلال قرار نہیں دیا جاسکتا، جب تک کہ تمام شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہوجائے۔ 
    کرپٹو کرنسی کو علمائے کرام اساسِ اصلی قرار دینے سے اجتناب برتتے ہیں، کیونکہ اس میں وہ حقیقی کرنسی کی خصوصیات شامل نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس کے جواز کے استعمال کو تسلیم کیا جاسکے۔ 
    کرپٹو کرنسی عالمی معاشی اداروں، بینکوں اور حکومتوں کی اجارہ داری ختم نہیں کرتی، بلکہ یہ اجارہ داری سکڑ کر صرف چند ہاتھوں میں رہ جاتی ہے۔ 
    یہ فقہی دلیل قائم کرنا کہ چونکہ لوگ اس کو عرف میں تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا یہ زر کی تعریف میں داخل ہے اور اس کو حکومتیں روکتی بھی نہیں، لہٰذا اس کو کرنسی نہیں بلکہ زر کہنا چاہیے اور اس کی تجارت فقہی طور پر جائز ہے۔ مفتیانِ کرام سے رجوع کرنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کہنا مناسب نہیں ہے۔ 
    اگر کرپٹو کرنسی کو تسلیم کرلیا جائے کہ یہ حسی طور پر موجود ہوتی ہے تو اس وجہ سے دیگر مروجہ کاروبار کے طریقوں مثلاً فاریکس ٹریڈنگ، کموڈیٹی ٹریڈنگ وغیرہ کے احکامات میں بھی تبدیلی واقع ہونے کا امکان ہے۔ 
    این ایف ٹی میں سرمایہ کاری، خرید وفروخت اور اس سے منافع کمانے سے بھی اجتناب برتا جائے، ہاں! البتہ کسی کو اپنے ڈیجیٹل اثاثوں کو محفوظ بنانا ہو تو وہ اس کے لیے حقوقِ مجردہ کے قوانین اور این ایف ٹی کا سہارا لیتے ہوئے اس کو محفوظ بنانے سے متعلق احکامات مفتیانِ کرام سے دریافت کرسکتا ہے۔ 
    میٹاورس ایک ورچوئل تخیلاتی دنیا ہے اور اس میں اس کے غیر حسی ہونے کی وجہ سے بہت سارے خریدوفروخت کے احکامات شرعی اصولوں پر پورا نہیں اُترتے، لہٰذا میٹاورس میں سرمایہ کاری کرنا، خریدوفروخت کرنا اور منافع کمانے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے، جب تک اس میں رائج خرید وفروخت اور بیع کے معاملات شریعت کے اصولوں کے تابع نہ ہوجائیں۔ 

حواشی و حوالہ جات

[1] علامہ محمد امین بن عمر بن عابدین دمشقی شامی رحمہ اللہ۔ مترجم و شارح حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب، آپ فتویٰ کیسے دیں؟ شرح عقود رسم المفتی، مکتبہ رحمانیہ، لاہور

]2] http//:algazali.org/index.php?threads/16296/ 
]3] Celsius Network, https//:www.bbc.com/urdu/pakistan-61793441 
]4] https//:www.rte.ie/news/business/2022/0613/1304518-cryptocurrency-market -value -slumps-under-1-trillion /

نوٹ: چونکہ سائنسی دنیا میں سائنسی تحقیقی مقالہ جات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا سائنسدان ہمیشہ انہی مقالہ جات کے حوالے دیتے ہیں، تاکہ سائنسی طور پر بات میں وزن ہوسکے۔ اس وجہ سے اس مضمون کے آخر میں ہم قارئین کے پیشِ خدمت کچھ سائنسی حوالہ جات بھی پیش کریں گے تاکہ جو حضرات اس کا حوالہ دیکھنا چاہتے ہوں وہ دیکھ سکیں۔
بٹ کوائن سے متعلق مضبوط اور سنجیدہ سائنسی حوالہ جات، بٹ کوائن کا حسّی طور پر کوئی وجود نہیں ا ور اس میں ذاتی قدر بھی نہیں، اس پر سائنسی حوالہ جات


Eng-Tuck Cheah et al Speculative bubbles in Bitcoin markets? An empirical investigation into the fundamental value of Bitcoin, Economics Letters, 2015.
F. Tschorsch and B. Scheuermann, "Bitcoin and Beyond: A Technical Survey on Decentralized Digital Currencies," in IEEE Communications Surveys & Tutorials, vol. 18, no. 3, pp. 2084-2123, thirdquarter 2016.
Ethereum White Paper mentioning that ‘‘Ethereum is maintain a value without intrinsic value’’.
https//:ethereum.org/669c9e2e2027310b6b3cdce6e1c52962/Ethereum_Whitepaper_-Buterin _2014.pdf 

بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں میں تیز اُتار چڑھاؤ ہے جس کی وجہ سے اس کا استعمال سٹہ بازی میں ہورہا ہے، اس پر سائنسی حوالہ جات

Dirk G. Baur and Thomas Dimpfl, The volatility of Bitcoin and its role as a medium of exchange and a store of value, Empirical Economics, 2021.
Neil Gandal et al Price manipulation in the Bitcoin ecosystem, Journal of Monetary Economics, Volume 95, May 2018, Pages 86-96.
Paul Delfabbro et al Cryptocurrency trading, gambling and problem gambling, Addictive Behaviors, 2021.
European Banking Authority Advise on the Speculative Nature of Bitcoin
https//:www.eba.europa.eu/eu-financial-regulators-warn-consumers-risks-crypto-assets 

بٹ کوائن پر محض کچھ لوگوں کی اجارہ داری ہے اور یہ حقیقی ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم نہیں، اس پر سائنس حوالہ جات

A. Gervais, G. O. Karame, V. Capkun and S. Capkun Is Bitcoin a Decentralized Currency in IEEE Security & Privacy, vol. 12, no. 3, pp. 54-60, May-June 20149.
L. J. Valdivia, C. Del-Valle-Soto, J. Rodriguez and M. Alcaraz, Decentralization: The Failed Promise of Cryptocurrencies," in IT Professional, vol. 21, no. 2, pp. 33-40, 1 March-April 2019.
مائننگ سسٹم کے اندر کی خرابیاں اور اجارہ داری، اس پر سائنسی حوالہ جات
Altman Eitan, Menasché Daniel, Reiffers-Masson Alexandre, Datar Mandar, Dhamal Swapnil, Touati Corinne, El-Azouzi Rachid, Blockchain Competition Between Miners: A Game Theoretic Perspective, Frontiers in Blockchain, 2020.
N. Tovanich, N. Soulié, N. Heulot and P. Isenberg, The Evolution of Mining Pools and Miners’ Behaviors in the Bitcoin Blockchain, in IEEE Transactions on Network and Service Management, 2022, in Press.

بٹ کوائن کے پیسوں کی تقسیم، اس پر سائنسی حوالہ جات

N. Tovanich, N. Soulié, N. Heulot and P. Isenberg, MiningVis: Visual Analytics of the Bitcoin Mining Economy, in IEEE Transactions on Visualization and Computer Graphics, vol. 28, no. 1, pp. 868-878, Jan. 2022.
Sai Ashish Rajendra, Buckley Jim, Le Gear Andrew, Characterizing Wealth Inequality in Cryptocurrencies, Frontiers in Blockchain, 2021.
..

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین