بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، اور بلاک چین (پانچویں قسط)

کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، اور بلاک چین 


تعارف، مغالطے، شرعی نقطۂ نظر اور ہماری ذمہ داری

(پانچویں قسط)

 

مغالطہ نمبر۲: کیاکرپٹو کرنسی حسی طور پر موجود ہوتی ہے؟

 ایک مغالطہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی حسی طور پر موجود ہوتی ہے۔ 
جواب: ’’ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان سے ایک فقہی مقالہ میں کرپٹو کرنسی کے حسی طور پر موجود ہونے کے دلائل دئیے گئےہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ:
’’کمپیوٹر میں محفوظ ہونے والی تمام معلومات 0 اور 1 کی شکل میں ہوتی ہیں۔ 0 کا معنی مطلوبہ جگہ پر بجلی کا چارج نہ ہونا یا انتہائی کم ہونا اور 1 کا معنی مطلوبہ جگہ پر چارج کا ہونا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کمپیوٹر میں اگر انگریزی حرف Aمحفوظ کیا جائے تو کمپیوٹر اسے 01000001 کی صورت میں محفوظ کرے گا۔ جب کمپیوٹر اسےپڑھے گا تو اسے آٹھ سگنلز کا ایک مجموعہ ملے گا جن میں سے چھ مخصوص سگنلز بجلی سے خالی یا کم بجلی والے ہوں گے اور دو سگنلز میں بجلی موجود ہوگی۔ کمپیوٹر اسے اپنے اندر موجود سسٹم کی مدد سے سمجھ کر A کی شکل میں ظاہر کرے گا۔ کمپیوٹر کا ہر پروگرام انگریزی حروف میں تحریر کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر حرف کے پیچھے اسی طرح کا کوڈ ہوتا ہے، جس طرح A کے پیچھے ہوتا ہے اور ہر کوڈ کا حقیقی مطلب بجلی کے سگنلوں کا ایک مجموعہ (پیکٹ) ہوتا ہے۔ بٹ کوائین کرنسی کی ہرٹرانزیکشن بھی کمپیوٹر میں 0 اور 1 کی صورت میں محفوظ ہوتی ہے، جسے کمپیوٹر بٹ کوائین کے مخصوص سافٹ وئیر کی مدد سے سمجھتا ہے۔ ان سگنلز کو 0 اور 1 سے ظاہر کرنے کی وجہ یہ ہےکہ کمپیوٹر میں ہونے والے کام کو سمجھا جاسکے، ورنہ کمپیوٹر خود کسی عدد کو اس کی اصلی حالت میں سمجھ نہیں سکتا، بلکہ وہ اس کی بجلی کے ہونے یا نہ ہونے کو سمجھتا ہے۔ 
اس 0 اور 1 (یعنی بجلی کا چارج ہونے اور نہ ہونے) پر مشتمل کوڈ کو مختلف آلات میں مختلف طریقوں سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ ہر آلے میں کمپیوٹر مختلف مقامات کو مختلف پتے دیتا ہے اور بوقتِ ضرورت اس پتے پر جا کر معلومات کوحاصل کرلیتا ہے۔ بٹ کوائین کی ہر ٹرانزیکشن کو محفوظ ہونے کے لیے کسی آلے میں جگہ اور پتا چاہیے ہوتا ہے۔ اورجب وہ اس مقام پر محفوظ ہو جائے تو اسے وہاں سے منتقل یا ختم کیے بغیر دوسری کسی معلومات کو اس جگہ پر محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ 
بٹ کوائین اور دیگر ورچوئل کرنسیوں کے وجود کی عام فہم مثال بیٹری میں محفوظ بجلی کی ہے۔ بیٹری کے اندر موجود آلات میں بجلی محفوظ ہوتی ہے، لیکن اگر ان آلات کو الگ الگ کر لیا جائے تو اسے نہیں دیکھا جاسکتا، البتہ انہیں ایک خاص انداز سے ترتیب دے کر اس بجلی کو آلات کے ذریعے محسوس اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہارڈ ڈسک یا کسی آلے کے اندر موجود حصوں میں ورچوئل کرنسی کو دیکھا نہیں جا سکتا، لیکن خاص انداز سے ان حصوں کوترتیب دے کر اس کرنسی کو محسوس اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘      (مفتی اویس پراچہ صاحب، ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت، صفحہ: ۴۶ اور ۴۷)
’’پہلے باب کی چھٹی فصل اور اس باب کی پہلی فصل میں ورچوئل کرنسیوں کے بارے میں تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے کہ یہ وجود رکھتی ہیں اور ان کی حیثیت بجلی جیسی ہوتی ہے۔ جو حضرات انہیں فرضی ہندسہ کہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں یہ معروف ہے کہ کمپیوٹر میں محفوظ چیزیں ایک ’’ہندسوں کی شکل کے کوڈ‘‘ میں محفوظ ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے درست بات یہ ہے کہ کمپیوٹر میں موجود اشیاء ہندسوں میں محفوظ نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا اظہار ہندسوں کی شکل میں کیا جاتا ہے، تاکہ انہیں دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا ممکن ہو۔ کمپیوٹر میں تمام ’’ڈیٹا‘‘ برقی اشاروں )سگنلوں(کی صورت میں کام کرتا ہے اور اس کا ثنائی/ بائنری ) 0 اور ایک 1کی شکل میں( ہندسوں کی شکل میں اظہار صرف بآسانی سمجھ آنے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے انہیں ایک معدوم فرضی ہندسہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا۔‘‘                     (مفتی اویس پراچہ صاحب، ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت، صفحہ: ۲۴۸)
’’چونکہ ورچوئل کرنسیاں روشنی، مقناطیسی اور برقی سگنلز وغیرہ کی شکل میں بجلی کی طرح وجود رکھتی ہیں، اس لیےان کا وجود بجلی ہی کی طرح کسی آلے کا محتاج ہوتا ہے۔ ان کے قائم بالغیر ہونے کی وجہ سے ان کا وجود مخصوص آلات ہی محسوس کر سکتے ہیں، لہٰذا یہ کرنسیاں حسی وجود بایں معنی نہیں رکھتیں کہ ان کو انسان حواس سے محسوس کرے، البتہ بجلی کی طرح یہ ایسا وجود رکھتی ہیں کہ انہیں محسوس کرنے کے لیے مخصوص آلات ضروری ہیں۔‘‘        ( مفتی اویس پراچہ صاحب، ورچوئل کرنسیوں کی شرعی حیثیت، صفحہ: ۲۴۹)
یہاں تک تو ہم اتفاق کرتے ہیں کہ سگنلز کی مدد سے مختلف اشیاء یا پیغام کو کمپیوٹر میں ظاہر Represent کرتے ہیں اور اس کو سائنسی دنیا میں تسلیم بھی کیا جاتا ہے، مگر اس کے بعد جب یہ نتیجہ نکالا گیا کہ: ’’بجلی کی طرح یہ ایسا وجود رکھتی ہیں کہ انہیں محسوس کرنے کے لیے مخصوص آلات ضروری ہیں‘‘ اور ’’انہیں ایک معدوم فرضی ہندسہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا‘‘ اور ’’خاص انداز سے ان حصوں کو ترتیب دے کر اس کرنسی کو محسوس اور استعال کیا جاسکتا ہے۔‘‘ تو ہمیں نہیں معلوم کہ کیسے یہ نتائج اخذکیے گئے؟ نیزان تمام نتائج کے سائنسی حوالہ جات بھی فراہم نہیں کیے گئے۔ ہماری رائےمیں یہ تمام باتیں درست معلوم نہیں ہوتیں اور یہاں پرکمپیوٹر سائنس کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے۔ اصل میں سگنلز صرف ایک طرح کا ’’Representation ‘‘ اظہار کا طریقہ ہے اور اس اظہار کو کسی مختلف ذرائع کی مدد سے بھی کیا جاسکتا ہے، مثلاً مورس کوڈ ( Morse Code) اس کی ایک واضح مثال ہے جس کے اندر ڈاٹ اور ڈیش کی مدد سےاشیاء یا پیغام کا اظہار کیا جاتا ہے، تاکہ مواصلاتی رابطہ کیا جائے اور پچھلی ایک صدی سے بحری جہازوں کے مواصلاتی رابطہ کے لیے اس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تو جب ہم پیغام کو مورس کوڈ میں اظہار کریں گے تو کیا ہم اس کو بھی کہیں گے کہ وہ بھی بجلی کی طرح وجود رکھتی ہیں؟! اس کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً اگر ہم کرپٹو کرنسی کو بھی مورس کوڈ کے ذریعے سے ’’Represent‘‘ اظہار کرسکتے ہیں تو کیا ہم یہ کہنے لگ جائیں کہ کہ مورس کوڈ کو خاص انداز سے ترتیب دے کر ہم کرپٹو کرنسی کو محسوس اور استعمال کرسکتے ہیں؟ نہیں، کبھی نہیں۔ آئیے! ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں۔ جب کوئی جہاز کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے تو وہ ایس او ایس SOS کا سگنل دیتا ہے، جس کا مطلب ہے Save Our Souls or Save Our Ship اور اس کا سگنل مورس کوڈ میں یہ بنتا ہے: ▄ ▄ ▄ . اب اس سگنل کا اظہار کمپیوٹر میں صفر اور ایک سے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کا اظہار بجلی کے سگنلز کی مدد سے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کا اظہار ریڈیو کی کی key کھول بند کر کے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کا اظہار شیشے کو منعکس کر کے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کا اظہار لائٹ کو کھول بند کر بھی کیا جاسکتا ہے، اور بھی اس کے اظہار کے کئی طریقے ہیں۔ تو اس اظہار کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ کوڈ بھی ایک حسی حیثیت رکھتا ہے اور اس کو خاص انداز سے ترتیب دے کر ہم اس کوڈ کو محسوس اور استعمال کرسکتے ہیں اور یہ کوڈ بجلی کی طرح اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ 
 تصویر نمبر ۴ کو دیکھیے جس کے اندر ہم نے بلب کے جلنے اور بجھنے کے میکانزم کو دکھایا ہے۔ ہم آٹھ سیکنڈ کی Time Slot ٹائم سلاٹ لیتے ہیں جس کے اندر آٹھ سلاٹ ہوں گی اور ہر سلاٹ ایک سیکنڈ کی ہوگی اور اس ہر سیکنڈ میں یا تو بلب جلے گا یا بجھے گا۔ اگر بلب بجھا ہوا ہوگا تو اس کا مطلب صفر ہوگا اور اگر بلب جلا ہوا ہوگا تو اس کا مطلب ایک ہوگا۔ تو اب ہم بلب کو اس طرز پر بجھاتے اور جلاتے ہیں: بجھاؤ، جلاؤ، بجھاؤ، بجھاؤ، بجھاؤ، بجھاؤ، بجھاؤ، جلاؤ۔ اب اس سے جو سگنل وجود میں آئے گا وہ  0100 0001 ہوگا جو کہ انگریزی حرف A کا کوڈ ہے۔ تو قارئین آپ نے دیکھا کہ ہم نے صرف بلب کو ایک خاص ترتیب سے آٹھ سیکنڈ میں بجھا جلا کرانگریزی حرف A کو حاصل کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس بلب کے خاص جلنے بجھنے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلب کے اندر انگریزی حرف A موجود ہے؟ یہ بلب تو صرف انگریزی حرف A کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور اس حروف کا کوئی حسی وجود نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی اس خاص طرز پر بلب کو جلائے بجھائے گا اس سے مراد انگریزی حرف A ہی ہوگا۔ اسی طریقے سے ہمارے پاس بٹ کوائن کا بھی ایک کوڈ ہوگا تو اس بٹ کوائن کے کوڈ کو بھی ہم بلب کے ذریعے سے جلا بجھا کر ظاہر کرسکتے ہیں۔ تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اصل میں تو بٹ کوائن اس بلب میں اپنا وجود رکھتا ہے اور یہ بلب نہیں بلکہ بٹ کوائن ہے؟ کیا اس بلب سے وجود میں آنے والی کرنسی بٹ کوائن کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں: ’’بجلی کی طرح یہ ایسا وجود رکھتی ہیں کہ انہیں محسوس کرنے کے لیے مخصوص آلات ضروری ہیں‘‘ اور ’’انہیں ایک معدوم فرضی ہندسہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا‘‘ اور ’’خاص انداز سے ان حصوں کو ترتیب دے کر اس کرنسی کو محسوس اور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘ نہیں، ہر گز نہیں۔ اب اسی طرح سے میں یہ بلب کی خاص ترتیب آپ کو بتا دوں تو کیا میں نے آپ کو حرف A منتقل کردیا اور آپ کا اس پر قبضہ ہوگیا؟
تصویر نمبر۴: بجلی کے بلب کو جلانا اور بجھانا، تاکہ انگریزی حرف A کا اظہار کیا جاسکے جس کا بائینری Binary کوڈ  0100 0001 ہے، جبکہ اس کا ASCII کوڈ 065 ہے۔ 
آئیے! اب ہم ایک اور طریقے سے اس ساری بات کی وضاحت کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل Digital کے معنی مختلف انگریزی ڈکشنریوں میں یوں موجود ہے: 

Cambridge Dictionary [1]
recording or storing information as a series of the numbers 1  and 0, to show that a signal.
present or absent  using or relating to digital signals and computer technology .
using or relating to computers and the internet  .
Merriam Webster Dictionary [2]
of, relating to, or utilizing devices constructed or working by the methods or principles of electronics.
composed of data in the form of especially binary digits.
Collins Dictionary [3]
Digital systems record or transmit information in the form of thousands of very small signals .

ان تمام معنوں سے یہ بات واضح ہے کہ ڈیجیٹل سے مراد معلومات کو ڈیجیٹ (صفر اور ایک) کی شکل میں محفوظ کرنا اور ان ہی سگنلز کی مدد کے معلومات کی ترسیل کرنا ہے۔({ FR 12350 })
 صفر اور ایک کا عدد سگنل کی غیرموجودگی اور موجودگی کو ظاہر کرے گا اور اس طرح کے سرکٹ بنانے کے لیے الیکٹرونکس ڈیوائسس کی مدد لی جاتی ہے۔ ڈیجیٹل کے متضاد جو حروف ہوگا وہ فزیکل Physical ہو گا اور اس سے مراد وہ چیز ہو گی جس کو محسوس کیا جاسکے۔ تو کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں یہ بات بالکل ہی واضح ہے کہ ڈیجیٹل کو غیر حسی تسلیم کیا جاتا ہے اور فزیکل کو حسی تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی ڈیجیٹل کو کسی فزیکل شے کی ورچوئل virtual فارم کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، مثلاً گاڑی فزیکل طور پر موجود ہوتی ہے جس کو ہم محسوس کرسکتے ہیں، جبکہ اگر اسی گاڑی کو اگر ہم ڈیجیٹل فارم میں کمپیوٹر میں ظاہر کریں گے تو وہ اصلی گاڑی کی ورچوئل فارم یعنی مجازی فارم ہوگی، یعنی کہ جو اپنی ماہیت اور روح میں تو اصل یا حقیقی جیسی ہو یا اس سے قریب ہو مگر حقیقی نہ ہو۔ ورچوئل Virtual کے معنی مختلف انگریزی ڈکشنریوں میں یوں موجود ہے: 
Cambridge Dictionary [4]
created by computer technology and appearing to exist but not existing in the physical world .
Merriam Webster Dictionary [5]
being on or simulated on a computer or computer network.
Collins Dictionary [6]
Virtual objects and activities are generated by a computer to simulate real objects and activities.
اب سب سے پہلے تو اس بات پر اتفاق ہونا چاہیے کہ ’’ڈیجیٹل‘‘ یا ’’ورچوئل‘‘ غیر حسی اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو کہ اصل میں اور حقیقی طور پر موجود نہ ہوں اور ’’فزیکل‘‘ حسی اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کہ اصل دنیا میں موجود ہوں۔ پوری سائنسی دنیا ڈیجیٹل اور فزیکل کےان ہی معنوں کو تسلیم کرتی ہے اور اسی تناظر میں اس کا استعمال بھی کرتی ہے۔ اب اسی تناظر میں آپ ڈیجیٹل کرنسی کو بھی لے لیں۔ اس کو ڈیجیٹل کرنسی اس وجہ سے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ حسی طور پر موجود نہیں ہوتی یا اگر آپ ورچوئل کرنسی کا نام لے لیں تو اس کو ورچوئل کرنسی اس وجہ سے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ مجازی طور پر کمپیوٹر میں موجود ہوتی ہے، نہ کہ حقیقی طور پر۔ 
یہاں پر میں ایک بات خدمت میں عرض کروں گا کہ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ بٹ کوائن حسی طور پر موجود ہوتے ہیں اور ڈیجیٹل سے مراد حسی ہے۔ ‘‘ تو عرض یہ ہے کہ اس بات کی عالمی سطح پر سائنسی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہےاور یہ کمپیوٹر سائنس کے مسلمہ اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ ({ FR 12351 })
خیر! آپ سائنسی طور پر ایک ایسا دعویٰ کررہے ہیں جو کہ کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کردے گا، لہٰذا آپ اگر اپنی تحقیق کو کہ بٹ کوائن حسی طور پر موجود ہوتے ہیں اور ڈیجیٹل سے مراد حسی ہے، کمپیوٹر سائنس کے بہترین عالمی سائنسی تحقیقی جرائد مثلاً IEEE Transactions on Image Processing یا IEEE Transactions on Networking یا IEEE Transactions on Computers کو بھیجئے۔ ہمیں یقین ہے کہ چھاپنا تو درکنار آپ کی اس تحقیق کو فوراً ہی مسترد کردیا جائے گا، کیونکہ سائنسی طور پر اس بات کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ 
کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ورچوئل سے مراد غیر حقیقی (غیر حسی) کےہیں اور خاص طور پر ہم کمپیوٹر سائنس والے اس کا استعمال اتنا کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی وضاحت بھی نہیں کرنی پڑتی کہ ورچوئل سے کیا مراد ہے؟ مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ورچوئل نیٹ ورک ہے تو اس سے ہماری مراد محض ایک مجازی، تخیلاتی اور غیر حقیقی (جو کہ فزیکل یعنی حسی طور پر موجود نہ ہو) مراد ہوتی ہیں۔ تو جب ہم ورچوئل کرنسی کہتے ہیں تو ہم کمپیوٹر سائنس والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی کرنسی ہے جو کہ حسی طور پر موجود نہیں اور ڈیجیٹل طور پر موجود ہو۔ اس پر مزید برآں کہ اس کومؤلف بجلی کی صورت پر محمول کر کے اس کے حسی ہونے کو بھی ثابت کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ تمام سائنسدان بجلی کو فزیکل عمل Physical Phenomenon کہتے ہیں اور بجلی کوئی تخیلاتی شے کا نام نہیں، بلکہ حسی طور پر موجود ہوتی ہے۔ 
پھر یہاں پر دوسرا بنیادی نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ کمپیوٹر میں ہم صفر اور ایک (یعنی بجلی کے سگنلز) کی مدد سے چیزوں کوظاہر Represent کرتے ہیں۔ اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ صفر اور ایک عدد واقعی میں فزیکل طور پر اصل شے کی حقیقت دھار لیتے ہیں۔ آئیے! اس کو ایک بہت ہی آسان سی مثال سے سمجھتے ہیں، مثلاً ہمارے پاس ایک سیب ہے، اب اس سیب کو ہم کاغذ پر بناتے ہیں اور اس کا اظہار صفر اور ایک سے کرتے ہیں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ ہم صفر اور ایک کے اظہار کے ساتھ سیب کو نہ صرف یہ کہ کاغذ پر اظہار کرسکتے ہیں، بلکہ اگر وہ صفر اور ایک کا خاص کوڈ کسی کو دیں تو وہ بھی کاغذ پر وہی تصویر سیب کی بنا ڈالے گا۔ اس مثال کو آسانی سے سمجھانے کے لیے ہم نے تصویر نمبر۵ کا سہارا لیا ہے، جس کے اندر ہم انگریزی حرف L کو مثال کے طور پر لے رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے انگریزی حرف L کو لیا، پھر اس کے گرد ایک گرڈ بنائی 2x2 کی۔ پھراس گرڈ میں جہاں پر انگریزی حرف L آرہا تھا وہاں پر ایک لکھ دیا اور جہاں پر جگہ خالی تھی وہاں پر صفر لکھ دیا۔ تو اس سے جو ہمیں کوڈ حاصل ہوا وہ 1011 تھا، پھر اسی کوڈ کو ہم نے ڈی کوڈ کیا تو ہمارے پاس ایک شکل آگئی، جو کہ انگریزی حرف L کی اتنی مشابہ نہیں تھی۔ پھر ہم نے وہی حرف دوبارہ لیا اور گرڈ سائز کو 5x5 تک بڑھادیا۔ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے ہم گرڈ سائز بڑھاتے ہیں، ہم آسانی کے ساتھ اصل انگریزی حرف L کا اظہار آسانی سے کرسکتے ہیں۔ جب ہم نے گرڈ سائز 11x11 کیا تو ہمیں انگریزی حرف L کی واضح تصویر مل رہی ہے۔ اسی کو کمپیوٹر کی زبان میں Resolution کہتے ہیں۔ جتنا زیادہ گرڈ سائز ہوتا ہے یعنی Resolution ، اتنی ہی زیادہ تصویر کی کوالٹی اعلیٰ ہوتی ہے۔ تو اسی طریقے سے ہر چیز کا اظہار کمپیوٹر کے اندر کیا جاتا ہے۔ ابھی تو ہم نے صرف صفر اور ایک کا ہندسہ لیا، اگر ہم ۲۵۶ ہندسوں کو لے لیں اور ہر ہندسے سے مراد ایک کلر ہو تو ہم کلر تصویروں کا اظہار کمپیوٹر پر کرسکتے ہیں اور یہ بہت ہی بنیادی چیز ہوتی ہے جو کہ ہر کمپیوٹر سائنسدان کو معلوم ہوتی ہے۔ تو اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر ہم ایک حقیقی سیب لیں اور اس کو کوڈ کی شکل میں کمپیوٹر پر محفوظ کریں تو اس سیب کی تصویر کو ہم کمپیوٹر پر نہ صرف یہ کہ محفوظ کرسکتے ہیں، بلکہ وہ کوڈ ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیج بھی سکتے ہیں، مگر یہ کوڈ کبھی بھی حقیقی سیب نہیں کہلائے گا اور اگر کسی کے پاس اس سیب کا کوڈ ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ اس سیب کا مالک ہے اور اس کا اس حقیقی سیب پر قبضہ ہے۔ بس یہی صورت کرپٹو کرنسی کی بھی ہے، لہٰذا ہماری رائے میں یہ کہنا کہ کرپٹو کرنسی حسی طور پر موجود ہوتی ہے اور ہم اس کو محسوس اور استعمال کرسکتے ہیں اور یہ کوڈ بجلی کی طرح اپنا ایک وجود رکھتا ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔ 
تصویر نمبر ۵: انگریزی حرف L کا کمپیوٹر کے اندر صفر اور ایک سے اظہار کا طریقہ

دیکھیے! بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اگر ایک سیب کی ڈیجیٹل تصویر ہے تو آپ اس کا اظہار ایک مخصوص کوڈ یعنی صفر اور ایک کی ایک خاص ترتیب سے کررہے ہیں۔ آپ اس سیب کی ڈیجیٹل تصویر کو ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر پر منتقل کرسکتے ہیں، اسی سیب کی ایک جیسی ہزاروں نقل بنا سکتے ہیں، مگر اس ڈیجیٹل سیب کی تصویر کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتے، کیونکہ اس مخصوص کوڈ کو ہر کوئی اپنے کمپیوٹر پر اظہار کرسکتا ہے۔ اس مسئلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کمپیوٹر سائنسدان این ایف ٹی کا تصور لے کر آئے، جس کے اندر ہم اپنے اس ڈیجیٹل اثاثے کے اس خاص کوڈ کو بلاک چین پر رجسٹرڈ کریں گے کہ یہ سیب کی ڈیجیٹل تصویر فلاں شخص کی ملکیت ہے، تو اب اگر کوئی شخص اس جیسے سیب کی نقل بناتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ڈیجیٹل سیب کی تصویر اس کی ملکیت ہے تو ہم اس کو بلاک چین کے کھاتے میں دیکھ کر بتائیں گے کہ نہیں یہ تو فلاں شخص کی ملکیت ہے، یعنی تصویر تو یقیناً ایک جیسی ہی ہے، مگر چونکہ کھاتے میں اس شخص کی ملکیت لکھی ہے تو ہم اس کی ملکیت تصور کریں گے۔ اب پھر یہاں پر وہی مسئلہ آتا ہے کہ یہ کھاتا بنانے والا کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہے تو اس کی قانونی اور شرعی حیثیت قابلِ اعتبار ہوگی کہ نہیں؟

مغالطہ نمبر۳: کرپٹو کرنسی کا نہ صرف یہ کہ انتقال ہوتا ہے، بلکہ قبضہ بھی ہوتا ہے؟

ایک مغالطہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کا نہ صرف یہ کہ انتقال ہوتا ہے، بلکہ قبضہ بھی ہوتاہے۔ 
جواب: کرپٹو کرنسی کا نہ صرف یہ کہ انتقال ہوتا ہے، بلکہ قبضہ بھی ہوتا ہے، اس دلیل کو قائم کرتے ہوئے فقہی مقالہ ’’ورچول کرنسیوں کی شرعی حیثیت‘‘ میں یہ لکھا ہے:
’’اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں۔ زید کے پاس ایک ٹرانزیکشن(معلومات کا مجموعہ) ہے جس کی قیمت ایک بٹ کوائین ہے۔ مثال کے طور پر اس ٹرانزیکشن کا کوڈ 01000010 ہے۔ زید کے پاس ایک اور کوڈ ہے جسے پرائیوٹ ’’کی‘‘ کہتے ہیں جو کہ abcdef123 کوڈ کی شکل میں ہے۔ اس ٹرانزیکشن کی نقل دنیا کے ہر صارف کے پاس موجود ہے۔ زید اس ٹرانزیکشن کو خالد کو منتقل کرنا چاہتا ہے۔ زید اپنی پرائیوٹ ’’کی‘‘ کے ذریعے اس ٹرانزیکشن کو خالد کے ایڈریس 1234 پر بھیجتا ہے۔ ٹرانزیکشن میں ملکیت زید کی درج تھی، اس نے ملکیت تبدیل کر کے خالد کا ایڈریس ڈالا، یہ کام اس نے اپنے کمپیوٹر میں کیا۔ اب اس کے پاس بعینہ 01000010 کوڈ والی ایک نئی ٹرانزیکشن آگئی (کیوں کہ پچھلی غائب تو ہو ہی نہیں سکتی، بلاک چین میں غائب ہونے کا تصور ہی نہیں ہے) جس میں خالد کی ملکیت درج ہے۔ اس ٹرانزیکشن کی نقول بننا شروع ہوں ا اور یہ نیٹ ورک کے ذریعے ہر کمپیوٹر میں پہنچ گئی جن میں ایک خالد کا کمپیوٹر بھی ہے۔ 
اب ٹرانزیکشن 01000010 خالد کے پاس ہے، لیکن اس کا سفر تمام ہو چکا ہے۔ یہ مزید آگے نہیں جا سکتی ورنہ ایک کوڈ والی دو ٹرانزیکشن جمع ہو جائیں گی۔ حقیقت میں یہ ٹرانزیکشن بھی دنیا میں ہر صارف کے پاس ہے، لیکن اس کو استعمال کرنے والی ’’کی‘‘ صرف خالد کے پاس ہے جو کہ qwerty123 ہے۔ ٹرانزیکشن کے اندر اس کے مالک کی شناخت بدل چکی ہے اور خالد کا اس پر قبضہ ہو چکا ہے، اس معنی میں کہ اب وہ ہی اسے استعمال کر سکتا ہے۔ چونکہ یہ خالد کے قبضے میں ہے، اس لیے ہم اس کے پاس موجود ٹرانزیکشن کو اصل اور با قی دنیا میں موجود ٹرانزیکشنوں کو اس کی نقل کہیں گے۔ 
اب خالد ٹرانزیکشن 01000010 کو بکر کو منتقل کرنا چاہتا ہے۔ خالد کے پاس آ کر یہ ٹرانزیکشن از خود (یعنی سافٹ وئیر یہ کام کرتا ہے) ایک نئی ٹرانزیکشن میں تبدیل ہو چکی ہے جس کا کوڈ 10111101 ہے۔ اس کا کوڈ مختلف ہے، لیکن قیمت اس کی وہی ایک بٹ کوئین ہے (بالکل اس طرح جیسے سونے کے ایک تولے کی ڈلی کو ایک سکے کی شکل دے دی جائے تو اس کی حیثیت و قیمت وہی رہتی ہے)۔ خالد اپنی اس ٹرانزیکشن کو اپنی پرائیوٹ ’’کی‘‘ کے ذریعے بکر کو منتقل کرتا ہے۔ ایک بار پھر تمام عمل جاری ہوتا ہے اور ٹرانزیکشن بکر سمیت دنیا کے ہر کمپیوٹر میں اس حالت میں پہنچ جاتی ہے کہ اس پر قبضہ بکر کا ہے۔ ٹرانزیکشن 10111101 کا سفر بھی تمام ہوا اور وہ اگلے کوڈ 11110000 میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ 
اس مکمل تفصیل کے مطابق یہ کہنا کہ صرف ایک عالمی ریکارڈ میں نام تبدیل ہوتا ہے‘ مکمل طور پر غلط ہے۔ اس کا باقاعدہ انتقال ہوتا ہے اور قبضہ ہوتا ہے۔ ‘‘(مفتی اویس پراچہ صاحب، ورچول کرنسیوں کی شرعی حیثیت، صفحہ:۲۵۳ اور ۲۵۴)
ہم نے مغالطہ نمبر ۲ کے جواب میں پہلے ذکر کیا ہے کہ سائنسی طور پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ڈیجیٹل یا ورچول سے مراد حسی نہیں ہوتا۔ اب چونکہ کمپیوٹر کے اندر ہم حقیقی اشیاء کا اظہار کررہے ہیں تو محض اس اظہار کے کوڈ کوایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر پر بھیجنے سے اس حقیقی شے کا انتقال اور قبضہ نہیں ہوجائے گا، ہاں! البتہ ڈیجیٹل اثاثہ مثلاً ڈیجیٹل تصویر، ویڈیو وغیرہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتی ہیں۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ جب کوئی ٹرانزیکشن واقع ہوتی ہے، یعنی زید نے بکر کو آئن لائن پیسے ٹرانسفر کیے تو مروجہ بینکوں کی اصطلاح میں دیکھیں تو اسے کہا جائے گا کہ بینک کا ڈیٹا بیس اپڈیٹ ہوگیا ہے، اسی طرح بلاک چین کے تناظر میں لیجر یعنی کھاتہ کی اسٹیٹ اپڈیٹ ہوتی ہے یا آسان الفاظ میں عالمی ریکارڈ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹرانزیکشن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگئی۔ تو آپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ بٹ کوائن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے، یہ بات اس طرح سے نہیں ہے جس طرح آپ نے لکھی ہے۔ 
تیسری بات یہ ہےکہ آپ کو مغالطہ ہوا کہ ’’پبلک کی‘‘ اور ’’پرائیوٹ کی‘‘ کے تصور کو سمجھنے میں آپ ہی کی حوالہ دی گئی کتاب میں سے ہم نے ذیل کے یہ اقتباسات نقل کیے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ’’پبلک کی‘‘ یہ آپ کے بینک اکاؤنٹ نمبر سے ملتی جلتی ہے اور ’’پرائیوٹ کی‘‘ آپ کے پاس ورڈ یا خفیہ پن یا دستخط کی طرح ہے۔ 


‘‘Keys come in pairs consisting of a private (secret) key and a public key. Think of the public key as similar to a bank account number and the private key as similar to the secret PIN, or signature on a check, that provides control over the account. These digital keys are very rarely seen by the users of bitcoin. For the most part, they are stored inside the wallet file and managed by the bitcoin wallet software  ."
‘‘In bitcoin,  we use public key cryptography to create a key pair that controls access to bitcoin. The key pair consists of a private key and—derived from it—a unique public key. The public key is used to receive funds, and the private key is used to sign transactions to spend the funds [7].’’

’’کی‘‘ دو جوڑوں پر مشتمل ہوتی ہے، ایک ’’پبلک کی‘‘ اور دوسری خفیہ یعنی ’’پرائیوٹ کی۔ ‘‘ 
’’پبلک کی‘‘ کے بارے میں سوچیں کہ بینک اکاؤنٹ نمبر سے ملتی جلتی ہے اور ’’پرائیوٹ کی‘‘ کو خفیہ PIN کی طرح، یا چیک پر دستخط کی طرح، جو آپ کو اکاؤنٹ پر کنٹرول فراہم کرتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل کیز بٹ کوائن استعمال کرنے والوں کے عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتیں۔ زیادہ تر یہ والٹ فائل کے اندر محفوظ ہوتی ہیں اور بٹ کوائن والٹ سافٹ وئیر اس کا انتظام سنبھالتا ہے۔ 
بٹ کوائن کے اندر ہم پبلک کی کرپٹوگرافی کا استعمال کرتے ہوئے ’’کی‘‘ کے جوڑے بناتے ہیں، جو کہ ہماری بٹ کوائن تک ہماری رسائی کو ممکن بناتے ہیں۔ ’’کی‘‘ کا جو جوڑا ہوتا ہے وہ ’’پرائیوٹ کی‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے اور پھر اسی سے ایک انفرادی ’’پبلک کی‘‘ بھی بنائی جاتی ہے۔ ’’پبلک کی‘‘ کی مدد سے ہم فنڈ حاصل کرتے ہیں، جب کہ ’’پرائیوٹ کی‘‘ کی مدد سے ٹرانزیکشن کو سائن کرتے ہیں، تاکہ فنڈ کو خرچ کرسکیں۔ 


‘‘When you first buy cryptocurrency, you are issued two keys: a public key, which works like an email address (meaning you can safely share it with others, allowing you to send or receive funds)  and a private key, which is typically a string of letters and numbers (and which is not to be shared with anyone). *You can think of the private key as a password that unlocks the virtual vault that holds your money*. As long as you — and only you — have access to your private key, your funds are safe and can be managed anywhere in the world with an internet connection [8]."

جب آپ پہلی بار کرپٹو کرنسی خریدتے ہیں، تو آپ کو دو’’کیز‘‘ جاری کی جاتی ہیں: ایک ’’پبلک کی‘‘، جو ایک ای میل ایڈریس کی طرح کام کرتی ہے (یعنی آپ اسے دوسروں کے ساتھ بلا جھجک شیئر کر سکتے ہیں، اور اس کی مدد سے آپ فنڈ کو وصول اور بھیج سکتے ہیں) اور ایک ’’پرائیوٹ کی‘‘، جو عام طور پر حروف اور اعداد پر مشتمل ہوتی ہے (اور جسے کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرنا ہوتا ہے)۔ آپ ’’پرائیوٹ کی‘‘ کو پاس ورڈ کے طور پر سوچ سکتے ہیں جو آپ کے پیسے رکھنے والے ورچوئل والٹ کو کھول دیتا ہے۔ جب تک آپ — اور صرف آپ — کو اپنی ’’پرائیوٹ کی‘‘ تک رسائی حاصل ہے، آپ کے فنڈز محفوظ ہیں اور انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی ان تک رسائی اور انتظام کیا جا سکتا ہے۔ 

مغالطہ نمبر۴: جواز کے قائل مفتیانِ کرام کی رائے پر عوام عمل کرسکتے ہیں؟

یہ مغالطہ بھی ہے کہ’’کچھ مفتیانِ کرام نے کرپٹو کرنسی کو جائز قرار دیا ہے، لہٰذا چونکہ اختلافِ امت رحمت ہے تو عوام الناس ان مفتیانِ کرام کی رائے پر بھروسہ کرتےہوئےنہ صرف یہ کہ کرپٹو کرنسی اور این ایف ٹی کو استعمال کریں بلکہ اس میں بلا کسی تردد کے سرمایہ کاری بھی کریں۔ ‘‘ 
جواب: تو اس سلسلے میں عوام کے لیے اصول یہ ہے کہ وہ ہر مسئلے میں جمہور علمائے کرام کی رائے پر عمل کریں گے۔ اگر کسی عالم کی اپنی ایک رائے ہے تو وہ تفرُّد کہلائے گا اور ہم ان کی رائے کا بھی احترام کریں گے، مگر عوام کے ذمے لازم ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے میں جمہور علمائے کرام کی ہی رائے پر عمل کریں، لہٰذا جمہور علمائے کرام چونکہ کرپٹو کرنسی کو سٹے بازی کہتے ہیں، لہٰذا عوام کو ان علمائے کرام کی رائے پر عمل کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری اور لین دین سے احتراز کرنا چاہیے۔ 
 

حواشی وحوالہ جات

]1]  Cambridge Dictionary, https//:dictionary.cambridge.org/dictionary/english/digital .
]2] Marriam Webster Dictionary, https//:www.merriam-webster.com/dictionary/digital .
]3]Collins Dictionary, https//:www.collinsdictionary.com/dictionary/english/digital .
]4] Cambridge Dictionary, https//:dictionary.cambridge.org/dictionary/english/virtual .
]5] Marriam Webster Dictionary, https//:www.merriam-webster.com/dictionary/virtual .
]6] Collins Dictionary, https//:www.collinsdictionary.com/dictionary/english/virtual .
  ]7]Andreas M. Antonopolos, Mastering Bitcoin, 2nd Edition, Chapter 4, Page, O’Reilly, June 2017.https//:www.oreilly.com/library/view/mastering-bitcoin-2nd/9781491954379/ch04.html 
]8] https//:www.coinbase.com/learn/crypto-basics/what-is-a-private-key .
                                (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین