بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کراچی ۔۔۔۔۔۔علماء کی قتل گاہ

کراچی ۔۔۔۔۔۔علماء کی قتل گاہ

    استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ کو بھی شہید کردیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ مادرِ علمی جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نے دین محمدی کے چمنستان کو اپنے شہداء کے لہو سے سینچنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ایک کے بعد ایک شخصیت دین دشمن قوتوں کے گھناؤنے ارادوں کی بھینٹ چڑھ گئی، مگر الحمدللہ! جامعہ اور اس کے فضلاء کے حوصلوں اور عزائم کو پسپا کرنے میں کوئی کامیاب نہ ہوسکا۔     کراچی کی صورتحال پر لکھنے والوں کا قلم سوکھ اور بولنے والوں کے حلق سوج گئے، مگر حالات ہیں کہ بگاڑ اور فساد کی آخری حدوں کو پہنچے ہوئے ہیں اور کسی طورقابو میں نہیں آرہے۔ گزشتہ دو عشروں سے جاری اس قتل وغارت میں حالیہ دنوں میں ایک عجیب تیزی اور اہداف کے تعین میں ایک غیر معمولی یکسانیت وہم آہنگی دیکھنے میں آرہی ہے۔ واضح طور پر نشانہ معلوم ہے، مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ غفلت اور انتہا درجے کی نا اہلی کہ آج تک کسی قاتل تک رسائی تو درکنار ان قوتوں کو بے نقاب کرنے میں بھی کوئی کارکردگی نہیں دکھائی دی جو اس قتل و غارت کی ذمہ دار ہیں۔     گزشتہ کافی عرصے سے جاری اس خانہ جنگی نما کیفیت میں ایک جوہری تبدیلی جو دیکھنے میں آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ اب فقط معروف اور ہائی پروفائل علمی شخصیات کو نشانہ بنانے کی پالیسی ترک کر کے غیر معروف علمائے کرام اور مساجد کے ائمہ اور مؤذنین تک کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے۔ یہ اہلِ دین کے نام دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کا واضح پیغام ہے کہ دین محمدی کی خدمت واشاعت سے باز آجاؤ۔ مساجد میں اللہ کانام بلند کرنے، قرآن پاک پڑھانے اور حدیث وفقہ کی خدمت کرنے کو نا قابلِ معافی جرم سمجھو، ورنہ اس کے عواقب ونتائج بھگتنے کے لئے ہر دم تیار رہو۔ جو لوگ عوامی مجمعوں میں جاکر اللہ اور اس کے رسول ا کا پیغام پہنچاتے ہیں اور ان کی بات توجہ واحترام کے ساتھ سنی جاتی ہے، ان کے سروں پر تو ننگی تلواریں لٹکا دی گئی ہیں اور اب ایسے تمام افراد ہر بیان، زندگی کا آخری بیان سمجھ کر کرتے ہیں۔     دہشت گردوں کے عزائم واضح ہیں، وہ مساجد کو ویران اور مدارس کو اُجاڑنا چاہتے ہیں، وہ کراچی میں موجود اہلِ حق کی چھ ہزار مساجد کے منبر ومحراب سے بلند ہونے والی صدائے حق کو خاموش کردینا چاہتے ہیں، وہ شہرِ قائد میں موجود سیکڑوں مدارسِ دینیہ میں زیر تعلیم لاکھوں طلبۂ علومِ نبوت سے خوف زدہ ہیں، وہ اس ملک میں جس قسم کی لادینیت، بے راہ روی، آوارگی اور عریانی کے مناظر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ انہی مساجد ومدارس کو سمجھتے ہیں۔     گزشتہ بیس سالوں میں انہوں نے دینی اور علمی قیادت کو نشانہ بنایا، روحانی شخصیات کو جو اصلاحِ نفس اور تزکیہ کے پاک مشاغل میں مصروف تھے، ان کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کو جس پیرانہ سالی اور معذوری کی حالت میں دن دَہاڑے جس بے دردی سے شہید کیا گیا، اس پر تو آج تک دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مگر باوجود اس منظم ٹارگٹ کلنگ کے جس میں کراچی کی علمی ودینی قیادت کے کم از کم پندرہ بیس سرکردہ افراد کو شہید کیا گیا، دین دشمنوں کو مطلوبہ بتائج حاصل نہ ہوئے، نہ کوئی مدرسہ بند ہوا اور نہ پڑھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی ہوئی، نہ کسی مسجد کو تالا لگا اور نہ کوئی منبر خاموش ہوا، بلکہ دیکھا جائے تو گزشتہ دو عشروں میں مدارسِ دینیہ کی تعداد اور ان میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا، حالانکہ خوف ودہشت کی فضاء بنانے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔     اب ایک نئی خونی پالیسی تشکیل دی گئی ہے۔ ہر دین دار، ہر عالم، ہر طالب علم اب نشانے پر ہے۔ کراچی کو جہنم بنانے کے لئے روزانہ دس پندرہ لاشیں چاہئیں۔ پہلے یہ لاشیں بلا تعیین گرائی جاتی تھیں، اب اُن کا ہدف متعین کردیا گیا ہے کہ یہ کن لوگوں اور کس طبقے کی ہونی چاہئیں؟ گویا ایک تیر سے دو شکار کئے جا رہے ہیں، جو بد امنی اور لاقانونیت کی فضاء درکار ہے، وہ بھی بنتی جائے گی اور شہر اہلِ دین سے بھی خالی ہوتا چلا جائے گا۔     حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے پالیسی میکرز ایک غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم اس شہر کی فضا ایسی بنادیں گے کہ یہاں دین پڑھنے، دین پڑھانے اور دین کی خدمت کرنے کے لئے دوسرے شہروں سے آنا تو درکنار خود اس شہر کے باشندے بھی توبہ تائب ہوجائیں گے، یہ ہرے بھرے اور آباد مدرسے ڈھونڈتے پھریں گے اور ان کو طلبہ نہیں ملیں گے، اگر چند پڑھنے والے آبھی گئے تو پڑھانے کو کوئی راضی نہیں ہوگا، علماء مساجد میں امامت سے انکار کردیں گے، کسی مسجد کو اذان دینے کے لئے مؤذن نہیں ملے گا، درس قرآن اور درس حدیث کے عنوان سے اللہ اور اس کے رسول ا کے ارشادات کو لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ موقوف ہو جائے گا، فقہ اور فتویٰ کی خدمت کرنے والے اور مسائل پر شرعی رہنمائی فراہم کرنے والے اپنے قلم کھینچ کر اپنی مسندیں سمیٹ لیں گے، اللہ اللہ کرنے والے اور اللہ کانام سکھانے والے اپنے حلقے ختم کر کے کسی دوسرے شہر کی راہ لیں گے۔اب آپ بتائیے! یہ کس درجے کی خام خیالی ہے ؟ یہ اللہ کا دین ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، اس سے کہیں سخت ترین حالات اہلِ دین پر آئے ہیں، مگر ان کے پائے استقامت میں معمولی کپکپاہٹ بھی نہیں آئی، تاریخِ اسلام شاہد ہے کہ ان ناپاک حرکتوں سے اس پاک دین کی راہ روکنے کی ہر کوشش نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے۔     استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوری شہیدؒ کی مظلومانہ شہادت پر دل حزیں ہے، کانوں میں اب تک ان کی آواز گونجتی ہے۔ ہم نے فقہ حنفی کی مشہور ترین کتاب ’’ہدایہ ثالث‘‘ اور پھر دورۂ حدیث میں ترمذی شریف جلد ثانی حضرت استاذ شہیدؒ سے پڑھی تھی۔ اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر خصوصاََ فقہی مسائل پر منعقد ہونے والی مجالس میں وقتاًفوقتاً ملاقات اور زیارت کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا، سیدھی سادی اور بے ضرر طبیعت تھی۔ دو سال ان سے پڑھا، مگر کبھی جماعت میں ان کا طلبہ پر غصہ ہونا یاد نہیں۔ دین پور شریف کی مردم خیزسر زمین کا ایک اور سپوت اللہ کے حضور پہنچ گیا۔ان کی تدفین دین پور شریف کے اس شہرۂ آفاق اور تاریخی قبرستان میں ہوئی، جہاں آسمانِ علم وفضل، جہادوحرّیت اور روحانیت کے شمس وقمر محوِ خواب ہیں، اسی لئے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اس قطعہ کو جنت کہا کرتے تھے کہ ایسے ایسے انفاسِ قدسیہ محو استراحت ہیں جو ان شاء اللہ! سب کے سب جنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت استاذ شہیدؒ کے درجات بلند فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔ ٭٭…٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین