بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’کتاب الرد علی سیر الأوزاعی‘‘

’’کتاب الرد علی سیر الأوزاعی‘‘

    یہ کتاب امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم انصاریv متوفی ۱۸۲ ہجری کی تصنیف ہے، جو ’’سیر‘‘ کے حوالے سے ہے۔     ’’سِیَر‘‘ ۔۔۔’’سیرۃ‘‘ کی جمع ہے، اس کو ’’کتاب السیر‘‘ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں مسلمانوں کی سیرت وطرز کا بیان ہے۔ مشرکین،اہل ــــ حرب، مستامنین، ذمیین،مرتدین اور باغیوںکے ساتھ معاملے کی نوعیت کا علم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قسم کے برتاؤکے حقدار ہیں؟ یہ کتاب مسلمانوںکے اندرونی وبیرونی مسائل میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، خار جہ وداخلہ پالیسی کے لیے ایک اَساس کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں جنگی اخلاقیات اور امورِ حرب کی حدود بندی کے لحاظ سے اسوۂ رسول (a) اور آثارِ صحابہؓ کی روشنی میں مسلمہ اصول ہیں، غرض یہ بین الاقوامی قوانین کا مجمو عہ ہے، جس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا بندگی کا نمونہ ہے۔     کتابِ ہذا کی ایک خصو صیت یہ بھی ہے کہ اس میں مذکورہ بالا قوانین کے ساتھ ساتھ علم حدیث، فہمِ حدیث،اصولِ افتاء اور احکام قرآن کے حوالے سے اچھا مواد موجود ہے، جو اس کی افادیت کو مزید نکھار دیتا ہے، مگر یہ مختصر ہے، اس کے مقابلے میں امام سرخسیv کی ’’ شرح کتاب السیر الکبیر‘‘ میں یہ مباحث قدرے تفصیل کے ساتھ بیا ن کیے گئے ہیں، وجہ اس کی یہ ہوئی کہ جب امام اوزاعیv متوفی۱۵۷ہجری نے امام اعظم ابو حنیفہv کی املاء کرائی ہوئی ’’کتاب السیر‘‘ پر رد لکھا تو امام ابویوسف v نے اس کا جواب دیا، جو زیر تبصرہ ہے تو اس میں صرف دونوں اماموں کے ما بین اختلافی مسائل کا بیان ہے اور بس،البتہ چند ایک مسئلے رہ بھی گئے ہیں، جیسے غال( مال غنیمت میں خیانت کے مرتکب شخص)کی سزا کے بارے میں امام اوزاعیv کا موقف یہ ہے کہ اس کا سامان اور کجاوہ جلا دیا جائے، جبکہ احنافw کا مسلک یہ ہے کہ اس کو تعزیراً کچھ سزا دی جائے گی۔     اکثر جگہوں پر امام ابویوسف v نے امام اعظمv کا دفاع کیا ہے، مگر دارالحرب میں ایک درہم کے بدلے دو درہم بیچنے والے مسئلے میںانہوں نے امام اوزاعیv کے قول کو ترجیح دی ہے۔ فہم حدیث     قرآن و سنّت کے تتبُّع سے ایسے متعد د احکام کا پتا چلتا ہے،جو نبی کریم a کے لیے خاص ہیں، ان کو عام قرار دے کر مزید نئی جزئیات کا استنباط نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان کو مستدل ٹھہرانا ہی درست نہیں، جیسے: فرضیتِ تہجد، چار سے زائد عورتوں سے نکاح کرنا، بغیر مہر کے نکاح کرنا وغیرہ، چنانچہ جہاں امام اوزاعیv نے کسی ایسے واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کر کے کوئی مسئلہ مستنبط کرنا چاہاتو امام ابو یوسفv نے مختلف انداز سے ان پر رد فرمایا ، صفحہ: ۲۴ میں فرماتے ہیں: ’’ولیس للأئمۃ فی ھذا ما لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔‘‘     صفحہ: ۱۰۸،۱۰۹ میں رقمطراز ہیں: ’’وقد أخبرتک أنّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ھذا لیس کغیرہٖ،فھٰذا من ذالک۔‘‘     صفحہ: ۱۳۵ میں فرماتے ہیں: ’’وما صنع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فھو حق کما صنع، لیس لاحد بعدہٗ فی مثل ھذا ما لہٗ، واللّٰہ أعلم بالصواب ۔‘‘      جو کلام جتنا زیادہ فصیح وبلیغ ہوتا ہے،اس میں متعدد معانی کا اتنا ہی احتمال ہوتا ہے، مگر سیاق وسباق اور اصولِ عامہ کی روشنی میںکسی ایک معنی کا تعیّن قدرے مشکل ہوتا ہے، ائمہ احناف کو اس باب میں خاص ملکہ حاصل ہے، چنانچہ امام ابو یوسفv ، امام او زاعیv پر رد کرتے ہوئے صفحہ:۱۴ میں فرماتے ہیں: ’’نبی a سے منقول حدیث کے بہت سے معانی، صورتیںاور تفسیریں ہوتی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی مدد وتوفیق ہی سے سمجھی اور واضح ہوتی ہیں۔‘‘ علم حدیث     احناف نے جہاں علوم کے اور باغوں کو سیراب کیا، وہاں علم حدیث کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا، اُصولِ فقہ کی کتابوں میں سنّت کے مباحث کے تحت علم حدیث کے روایتی اور درایتی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے، حدیث کی جانچ پڑتال کے لیے پیمانہ مقرر کیا ہے، چنانچہ زیر تبصرہ کتاب میں بھی صفحہ: ۳۱ میں امام ابو یوسفv ‘امام اوزاعیv کومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیںـ:  ’’روایتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں،غیر معروف حدیثیں بھی سامنے آرہی ہیں،جن کو فقہاء جانتے ہیں اور نہ ہی وہ قرآن اور سنّت مشہورہ کے موافق ہیں،پس آپ شاذ حدیث کو مستدل نہ بنائیں، بلکہ صرف اسی حدیث سے استدلال کیجئے،جسے ایک بڑی جماعت اور فقہاء جانتے ہوں،جو قرآن و سنّت کے موافق ہو،اسی پر اور چیزوں کو قیاس کیجئے، پس سند سے منقول ہونے کے باوجود قرآن کی مخالف حدیث نبی کریم a سے مروی نہیں ہو سکتی۔‘‘      اسی قاعدے کی مزید تشریح کرتے ہوئے صفحہ: ۱۰۵ پر رقمطراز ہیںـ: ’’امام اوزاعیv کی مستدل حدیث ہمارے نزدیک شاذ ہے اور شاذ حدیث سے استدلال نہیں کیا جاتا۔‘‘ اصولِ افتاء     فتویٰ دیتے وقت الفاظ کا انتخاب ایک مشکل امر ہوتا ہے، تھوڑی سی بداحتیاطی دنیوی اور اخروی لحاظ سے پکڑ کا سبب بن سکتی ہے، اسی بات کو امام ابو یوسفv مختلف پیرایوں میںبیان کرتے ہیں، چنانچہ صیرفی الحدیث حضرت ابراہیم نخعیv کے حوالے سے صفحہ: ۷۳ میں لکھتے ہیں:  ’’حضرت ابراہیم نخعیv نے اپنے ساتھیوں کے بارے میں فرمایاکہ جب وہ کسی چیز کے بارے میںفتویٰ دیتے یا کسی چیز سے منع کرتے تو فرماتیــ کہ یہ مکروہ ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں،جبکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ حلال ہے ،یہ حرام ہے،یہ کتنی بڑی بات ہے!!۔‘‘      صفحہ: ۷۶ میںامام اوزاعیv پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کی دلیل یوں نہیں دی جاسکتی ہے کہ لوگ ہمیشہ سے یوں کرتے رہے ہیں، کیونکہ اکثر غیر حلال اور غیر مناسب کام لوگ کرتے رہے ہیں، جن کاموں سے نبی a نے منع فرمایا ہے اُنہیں انجام دیتے رہے ہیں، کسی چیز کی حلت و حرمت کا فیصلہ نبیa کی سنّت، سلف صحابہؓ اور سلف فقہاء کے اقوال کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔‘‘      جنگ کے حوالے سے ایک اہم نکتہ، صفحہ: ۸۴ میں فرماتے ہیں:  ’’کافروں کے درختوں کو اکھاڑنے اور ان کے باغات وسامان جلانے کا شمار اِعدادِ قُوَّت میں ہوتا ہے۔‘‘      غرض یہ کتاب اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پرمطالعہ کیے جانے کے لائق ہے،خصوصاً آج کے دور میں جب دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی فضا ہموار کی جارہی ہے، شاذ واقعات واحادیث سے استدلال کیا جا رہا ہے، قواعد کلیہ سے صرف نظر کرکے مفہوم بگاڑ کراپنا مدعی ثابت کیا جا رہا ہے،تقاربِ ادیان کے لیے نت نئے عنوانات اور دلائل کا سہارا لیا جا رہا ہے، اس کی اور اس جیسی کتب کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کاذہین طبقہ اپنے اسلاف اور تاریخ سے واقف ہو، اہل علم حضرات خیر القرون اور مسلمانوں کے عروج کے دور میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرکے آج کے گھمبیر مسائل کا حل نکالیں۔     یہ کتاب دار الکتب العلمیہ بیروت سے ۱۴۴ صفحات پر مشتمل ۱۹۹۰/۱/۱ء میں بھی شائع ہوئی ہے،مزیّن سر ورق اور عمدہ طباعت ہے ، اس کی تصحیح وتعلیق ابو الوفاء افغانی (استاد مدرسہ نظامیہ ہندوستان) نے کی ہے۔ اور لجنہ احیا ء معارف اسلا میہ نے بھی اس کو شائع کیا ہے، جس کے صفحات۱۳۷ہیں۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین