بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کارٹون اور ویڈیو گیم ... ہماری نسلوں کے لیے مہلک زہر


کارٹون اور ویڈیو گیم ... ہماری نسلوں کے لیے مہلک زہر


کارٹون دیکھنا کیسا ہے؟

جب کوئی خط میں مجھ سے پوچھتا ہے کہ ہم ویڈیو گیم کھیل سکتے ہیں یا کارٹون دیکھ سکتے ہیں؟ تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے کیا بننا ہے؟ ان کا جواب آتا ہے کہ ہمیں اللہ والا بننا ہے۔ پھر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے کسی اللہ والے کو گیم کھیلتے ہو ئے دیکھا ہے؟ کیا کبھی دیکھا ہے کہ مریدین شیخ کے انتظار میں ہوں اور وہ کہے کہ مجھے ابھی بیس ہزار کا اسکور پورا کرنے دو، پھر مجلس ہوگی؟!
کارٹون کے بارے میں تو مفتی صاحبان کی طرف سے حرام کا فتویٰ ہے، دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ میرے پاس موجود ہے، لیکن پھر بھی بعض لوگ اپنی اولاد کو کہتے ہیں کہ بیٹا! کارٹون دیکھتے رہو، مجھے تنگ مت کرو!

ویڈیو گیم کی تھو ڑی سی بھی گنجائش دینے کا نقصان

ایک دوست ہیں جو عالم بھی ہیں، انہوں نے اپنے بچوں کو بیس منٹ ویڈیو گیم کھیلنے کی اجازت دے دی، میں نے انہیں سمجھایا کہ بیس منٹ میں ویڈیو گیم کون چھوڑتا ہے؟ آپ کے چار بچے ہیں، پہلے بچے کے بیس منٹ شرو ع ہوئے توباقی تین بچے وہیں بیٹھے ہوں گے، گیم کھیلنے کے دوران ماں بار بار آواز دے گی کہ بیٹا!کھانا کھا لو، بہت دیر ہو گئی ہے، ایسے وقت بچے کھانا کیوں کھائیں گے؟ابھی اس کا چار ہزار اسکور ہوا ہے، جبکہ پہلے بچے کا آٹھ ہزار اسکور تھا، اسے یہ ریکارڈ توڑنا ہے، پھر کیا بیس منٹ میں وہ ایک ہی ویڈیو گیم کھیلے گا؟ پھر تین بچوں کے بیس بیس منٹ جمع کریں تو ساٹھ منٹ تو یہی ہوگئے، نماز کا وقت آئے گا تو نماز بھی نہیں پڑھیں گے، ماں باپ کسی کام کا کہیں گے تو کیا بچہ ویڈیو گیم کھیلنے کے دوران کوئی کام کرے گا؟ ان دوست نے یہ باتیں سن کر توبہ کی اور کہا: ان حالات میں تو ویڈیو گیم کھیلنے ہی نہیں دینا چاہیے۔ 

ساری رات جاگنا، سارا دن سونا

بچوں کو اسکول وغیرہ سے جو چھٹیاں ملتی ہیں، ایک ایک بچے کا انٹرویو لیں تو معلوم ہوگا کہ ساری رات جاگتے ہیں اور سارا دن سوتے ہیں، جب بچوں کے پاس موبائل ہو گا تو کیا وہ فحش گیم نہیں کھیلیں گے؟ جامعہ بنوری ٹاؤن سے گیمنگ زون کے بارے میں فتویٰ بھی آگیا ہے، میر ے پاس بھی ہے۔ اس میں یہی خرابیاں لکھی ہیں کہ ویڈیو گیم کھیلنے میں نہ دین کا فائدہ ہے نہ دنیا کا، گیم کھیلنے کے دوران استنجا روکنا، نمازیں نہ پڑھنا، دماغ میں ہر وقت ویڈیو گیم کی چیزیں گھومنا۔ اس سے بہترہے کہ شرعی لباس میں فٹ بال کھیل لو، کرکٹ کھیل لو یا کوئی اور جائز کھیل کھیل لو، جس میں جسم کی ورزش بھی ہو، مگر ان خرافات کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

بغیر تصویر والے کارٹون دیکھنا کیسا ہے؟

بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ بغیر تصویر والے کارٹون دیکھ سکتے ہیں؟میں کہتا ہوں کہ آج بچے یہ کارٹون دیکھیں گے، کل پھر تصویر والے کارٹون بھی دیکھیں گے، ان کو کیسے روکیں گے؟ کارٹون دیکھنے کے لیے گھر میں کمپیوٹر آئے گا، بڑا موبائل آئے گا، جب آپ گھر پر موجود نا ہو ئے تو پھر کیسے کنٹرول کریں گے؟ آپ اس کو الماری میں بند کر کے تو نہیں جائیں گے؟! جب ہم آپ چھوٹے تھے تو اس وقت کیا یہ سب چیزیں تھیں؟ ہمارا آپ کا بچپن ان خرافات کے بغیر کیسے گزر گیا؟

بچوں کے تعلیمی انحطاط کا سبب

ایک شہر سے فون آیا کہ ہمارے مدرسے میں آ کر بیان کریں۔ ہم وہاں گئے، ارادہ تھا کہ پندرہ منٹ کچھ دین کی بات کریں گے، لیکن ایک گھنٹہ کا بیان ہوا۔ وجہ یہ ہوئی کہ وہاں کے مہتمم صاحب نے بتایا کہ ہمارے مدرسہ کا نتیجہ دن بدن گرتا جا رہا ہے، بچے گھر جا کر ویڈیو گیم، کارٹون، فلموں میں لگ جاتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ مالداروں کے بچے بھی حفظ کر رہے ہیں، لیکن ان کو اسمارٹ فون، ٹی وی، لیپ ٹاپ سب کچھ دیا ہوا ہے، جس سے بچے تباہ ہو رہے ہیں۔ 

حفظِ قرآن میں سخت نقصان کا سبب

جب دماغ میں موبائل ہو گا تو دل میں قرآن پاک کیسے آئے گا؟آج کل بچے اس لیے حافظ جلدی نہیں بنتے یا اگر یاد کر بھی لیا تو بھول جاتے ہیں، اس کی بھی زیادہ وجہ یہی چیزیں ہیں کہ مدرسے سے آنے کے بعد ٹوپی پھینک کر گیم لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مدرسہ میںہوتے ہو ئے بھی دل و دماغ ویڈیو گیم میں ہوتا ہے، اب آپ ہی بتائیے! اس کو قرآن پاک کیسے یاد ہوگا؟ اس لیے حفا ظ کو اس لعنت سے خاص طور پر دور رکھیں۔

بچے پر کی گئی محنت کو برباد کرنا 

ایسے والدین بھی ہیں جو اس دور میں بھی اپنی اولاد کو نیٹ، کارٹون اور ویڈیو گیم سے بچاتے ہیں، لیکن یہی بچے جب نانا، نانی کے گھر جاتے ہیں تو ایک ہی دن میں اتنے دنوں کی محنت برباد کر دیتے ہیں، ان بچوں پر شیطان کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ باپ کا روتے ہوئے فون آتا ہے کہ میںنے بچوں کی تربیت میں اتنی محنت کی اور جب موقع آیا تو اس طرح ہوا۔ ان سے کہتا ہوں کہ مایوس نا ہوں، آج کے دور میں شیطان کے ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، آپ ننھیال میں کہہ دیں کہ ہم اس شرط پر ننھیال آئیں گے، جب یہ خرافات آپ بند کریں گے، ہمارے بچوں کا شدید نقصان ہوتا ہے۔ کئی گھروں میں خواتین نے ننھیال میں کہا تو ماشاء اللہ! اس پر عمل ہو رہا ہے، جب بیٹی ماں باپ کے گھر آتی ہے تو ان دنوں میں ٹی وی، ویڈیو گیم، کارٹون ہر چیز بند رکھتے ہیں۔ 

کارٹو ن اور ویڈیو گیم کے صحت پر مضر اثرات

ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں پیدا کیا کہ ہم کارٹون اور ویڈیو گیم میں لگے رہیں۔ آپ یہود و نصاریٰ کی ریسرچ دیکھ لیں کہ کارٹون اور ویڈیو گیم والے بچوں کی صحت کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ان کے دماغ اور بینائی کا کیا حال ہے؟ ان کا وزن کیوں بڑھ رہا ہے؟ کھانا کیوں ہضم نہیں ہوتا؟ ان کا جسم پھول تو رہا ہے، مگر کمزور کیوں ہے؟ ان کی یادداشت کیوں متاثر ہو رہی ہے؟ جوانی میں ہارٹ اٹیک، برین ہیمبر یج، جوڑوں کا درد، بلڈ پریشر کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ فلم، کارٹون، ویڈیو گیم میں لڑائی دیکھ رہے ہیں، لڑائی اور جوش والے گیم کی وجہ سے بلڈ سرکولیشن بڑھ جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، دل و دماغ پر دباؤ آ جاتا ہے۔ ویڈیو گیم اور کارٹون وغیرہ کی وجہ سے ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں کی نقل و حرکت اور ورزش نہیں ہوتی اور ان کی جسمانی نشوونما شدید متاثر ہوتی ہے۔ 
پہلے بچے فٹ بال کھیلتے تھے، دوڑ لگاتے تھے جس سے ان کی صحت اچھی رہتی، اب تو بچے اور جوان سب مرجھا ہوئے پھول لگتے ہیں۔ بعض بچے کھانا نہیں کھاتے تو مائیں کارٹون دکھا کر کھلا تی ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر وہ اس کے عادی بن کر کارٹون دیکھے بغیر کھانا ہی نہیں کھاتے، اس کے علاوہ ضدی بن جاتے ہیں، اس لیے ہر گز ان کی یہ ضد پوری نہ کریں، چند دن تنگ کریں گے، لیکن پھر یہ عادت چھوٹ جائے گی۔ جس چیز سے شریعت نے منع کیا ہے‘ ہمارے فائدے کے لیے ہی منع کیا ہے۔ 

ڈراؤنی فلموں اور سنسنی خیز گیم کے نقصانات

آج کل بچے اکثر ڈر جاتے ہیں، رات کو روتے ہیں، کبھی ان کو کچھ نظر آتا ہے، کبھی کچھ، اگر غور کریں تو وجہ یہ نکلے گی کہ ہم نے ان سے رحمت اور حفاظت کے فرشتے خود بھگا دئیے ہیں۔ ویڈیو گیم، کارٹون میں لگا دیا، ان کو ہر چیز تصویر والی لا کر دی، بت نما کھلونے لائے، ان میں موسیقی بجتی ہے، ان سب چیزوں کے پاس تو سرکش شیاطین ہی جمع ہوتے ہیں جو بچوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ڈراؤنی فلمیں، سنسنی خیز گیم، گندے مناظر، چڑیل اور جن وغیرہ کے ڈرامے دیکھتے ہیں، دیر تک جاگنے کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ 
ڈراؤنے مناظر بچوں اور خواتین کے لیے سخت نقصا ن دہ ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے اعصا ب پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں، ڈراؤنے مناظر ان کے دماغ پر سوار ہو جاتے ہیں۔ بچہ اگر بیمار ہو جاتا ہے تو صحت کے لیے خوب خرچہ کریں گے، لیکن اسمارٹ فون، کارٹون، ویڈیو گیم گھر سے ختم نہیں کریں گے، جبکہ جس گھر میں تصویر یا کتا ہو، اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، پھر رب کی رحمت کیسے آئے گی؟ 

کارٹون بینی، ویڈیو گیم، کفّار کی سازش

مفتی محمد شہزاد شیخ نے ایک کتاب ’’کارٹون بینی، ویڈیو گیم اور مسلمان بچے ‘‘لکھی ہے۔ بہت اہم کتاب ہے۔ اس میں قرآن و حدیث سے دلائل دئیے ہیں کہ کارٹون حرام ہیں، پھر بتایا ہے کہ ہندوؤں کے بھگوان کرشنا اور ہنو مان یہ کارٹون کے ذریعے مسلمان بچوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ ایسے واہیات کارٹون دیکھ کر ہمارے بچے آپس میں کھیلتے ہیں کہ میں کرشنا ہوں، ایک کہتا ہے میں ہنو مان ہوں۔ مفتی صاحب نے اس کتاب میں چھ مختلف انداز کے کارٹون اس طرح چھاپے ہیں کہ ان کی تصویر سے چہرے مٹا دئیے ہیں، وہ چھ کارٹون سور کے ہیں۔ اس کے علاوہ بتایا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے جومیٹری باکس، بستوں، شرٹوں اور ان کے جوتوں پریہ سور بنے ہوئے ہیں۔ بچوں کو سور والے کارٹون دکھا رہے ہیں، اب بچے کو کیا معلوم کہ اس کارٹون میں جو ہیروہے وہ حرام جانور سور ہے۔ رفتہ رفتہ وہ ایسے ناپاک اور حرام جانور سے مانوس ہو رہے ہیں۔ اس پر بھی ہم سے کہا جاتا ہے کہ بچوں کو کارٹون دیکھنے سے کیوں منع کرتے ہو؟

ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی ویڈیو گیم

اب ذرا دل تھام لیجیے! ایسے ویڈیو گیم بھی ہیں جن میں بیت اللہ کی تصویر پر، روضۂ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصو یر پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ نعوذ باللہ! بعض میں اللہ تعالیٰ کا نام اُلٹا لکھا ہوا ہے، کہیں آیات غلط لکھی ہوئی ہیں اور اس پر نعوذ باللہ!فائرنگ کی جا رہی ہے۔ ایک گیم تو ایسا ہے کہ اس میں ایک مسجد سے داڑھی والے نمازی باہر آ رہے ہیں جن کو دہشت گرد دکھا کر ویڈیو گیم کھیلنے والا فائرنگ کرتا ہے۔ بعض گیم ایسے ہیں جس میں بت کو سجدہ کرنا پڑتا ہے، جس سے ایمان اور نکاح بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے، ان بتوں سے مانگنا پڑتا ہے، نیز ہندوؤں نے اپنے باطل خدا کرشنا، ہنومان وغیرہ کو کارٹون کی شکل میں پیش کیا ہے۔ بچوں کے بیگ، مگ وغیرہ پر ان کی تصویر ہوتی ہے، جس سے بچوں کو ان سے محبت ہو جاتی ہے۔ کفّار نے یہ محنت اس لیے کی تاکہ مسلمان بچوں کے دلوں سے ان چیزوں کی نفرت ختم ہو جائے۔ سور کی شکل والے یہ کھلونے، کتابیں کون چھاپ رہا ہے؟ ہم مسلمان چھاپ رہے ہیں، اللہ سے ڈرنا چاہیے، گناہ میں تعاون بہت خطرناک ہے۔

بچوں کی مار دھاڑ کا اہم سبب

پھر مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ’’ ٹام اینڈ جیری ‘‘کارٹون کی وجہ سے بچے گھر کی چیزوں کو پھینک رہے ہیں، ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، کارٹون میں جو دیکھ رہے ہیں، وہی ان کے دماغ میں بھر رہا ہے، جیسا ان کارٹونوں میں شرارتیں دکھائی جاتی ہیں، ویسا ہی گھر میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ’’سپر مین ‘‘کارٹون کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بغیر سہارے کے دیوار پر چڑھ جاتاہے اور بچے اس کی نقل کرتے ہیں، گرتے ہیں، ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ کارٹون’’ ٹام اینڈ جیری‘‘ اور’’ سپر مین‘‘ پر ۱۹۷۰ء میں بعض ملکوں نے پابندی لگا دی کہ ہمارے بچے برباد ہو رہے ہیں۔ ان چیزوں کو ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے، دکھ تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم میں جو دیندار ہیں اور بچوں کو دیندار بنانا چاہتے ہیں، وہ بھی ان چیزوں سے اپنی اولاد کو نہیں بچاتے۔ اپنے بچوں کو کارٹونوں کی شکل والے لباس اور نیکریں پہنا رہے ہیں !

کفّار کی مشا بہت، کفّار و فسا ق ہمارے آئیڈیل

فلموں، ڈراموں اور کارٹونوں میں یہود و نصاریٰ، کفّار اور ہندؤوں کا کلچر، ثقافت، لباس، عادات و اطوار دیکھ کر لڑکے اور لڑکیاں ہر بات میں ان کی مشابہت کرتے ہیں، جس پر شدید وعید احادیث میں وا رد ہے۔ سرورِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا، میڈیا نے کرکٹر، فلم اسٹارز کو اتنا اُبھا ر ا، سائن بورڈ پر ان کی بڑی بڑی تصویریں، سڑک کنارے اور چونگیوں پر ان کے مجسمے لگا ئے کہ آج کا نوجوان یہی سمجھتا ہے کہ یہی لوگ کامیاب ہیں، انہی کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور نیک لوگوں سے اتنی محبت نہیں، جتنی ان کفّار سے ہے، اپنا حلیہ بھی ان جیسا بناتے ہیں، سنّت جیسا نہیں بناتے۔ لگتا ہے مدینے والے پیارے پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہمارا کوئی تعلق اور رشتہ ہی نہیں ہے۔ 

پلک جھپکنے میں نفس کی بدمعاشی

ایک اللہ والے سے کسی نے کہا کہ آپ اسمارٹ فون کیوں نہیں استعمال کرتے؟انہوں نے فرمایا: یہ ایسا سمندر ہے جس میں مجھے تیرنا نہیں آتا، پھر اس میں بڑ ے بڑ ے مگر مچھ ہیں، جن سے بچنا نا ممکن ہے، ایسا نہ ہوڈوب جاؤں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ: ’’ وَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِيْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ‘‘، ’’اے اللہ! مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔‘‘ اس دعا کا مفہوم اس زمانے میں آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ والدین خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا رات دیر تک کمپیوٹر پر فزکس، کیمسٹری کی اسٹڈی کرتا ہے، حالانکہ وہ تو فلمیں دیکھ رہا ہے، جیسے ہی کسی کو آتے دیکھا تو ایک بٹن دبانے سے کیمسٹری کی کتاب اسکرین پر آ گئی، ذرا اندازہ کیجیے کہ پلک جھپکنے کی دیر میں نفس نے کیسا دھوکہ دیا!

فحش ویڈیو گیم اور فحش کارٹون

پھر آج کل تو فلمیں ہی فحش نہیں ہیں، کارٹون اور ویڈیو گیم تک گندے ہوگئے، جس میں لباس فحش ہوتا ہے، اس میں نازیبا حرکات ہوتی ہیں، جن سے بچوں کی حیا کا جنازہ نکل رہا ہے۔ والدین کہتے ہیں کہ یہ تو کارٹون ہے، اس میں کیا حرج ہے؟لیکن اس کا بھی بچے کے دماغ پر اثر پڑتا ہے، ان میں غلط خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کئی تو قبل از وقت بالغ ہو گئے، پھر جوانی میں شادی کے قابل نہیں رہے۔ یہ سب حقائق ہیں، ایسے نوجوان اس شعر کا مصداق ہوتے ہیں:

طفلی گئی علامت پیری ہوئی عیاں
ہم منتظر ہی رہ گئے عہدِ شباب کے
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین