بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

بینات

 
 

کاروباری دنیا میں جھگڑوں کے بنیادی اسباب  اور اُن کا حل

کاروباری دنیا میں جھگڑوں کے بنیادی اسباب  اور اُن کا حل

 

ہمارے سماج میں آپس کی رنجشوں، نفرتوں، جھگڑوں اور تنازعات کا جو سلسلہ چل رہا ہے، ان کی تہہ میں اگر دیکھا جائے، تو ان کے اسباب میں سےایک بنیادی سبب کاروباری معاملات کو صاف اور واضح نہ رکھنا ہے، چنانچہ روپیہ، پیسہ، زمین وجائداد اور دیگر مالی معاملات کو صاف نہ رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات جو جھگڑے اور عداوت پیدا ہوتی ہے، وہ کئی پشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اور پرانے تعلقات کو دیکھتے ہی دیکھتے بھسم کرڈالتی ہے، اور اس کی وجہ سے بڑی مثالی دوستیاں آن کی آن میں دشمنیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وجہ وہی زر،زمین اوربزنس کے معاملات کا ابہام اور واضح نہ ہونا ہوتا ہے، حالانکہ اسلام نے معاملات کی صفائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جو بھی معاملہ کیا جائے، خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار،بھائیوں کے درمیان ہو، باپ بیٹے کے درمیان ہو، شوہر اور بیوی کے درمیان ہو، غرض کسی بھی شخص اور فرد کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو، وہ بالکل واضح اور بے غبار ہونا چاہیے۔ اس میں ایسا ابہام نہیں ہونا چاہیے جو آئندہ کسی تنازع اور جھگڑے کا باعث ہو، اسی لیے خرید وفروخت کی ایسی تمام صورتوں کو منع کیا گیا ہے جس میں فروخت کی جانے والی چیز، ادا کی جانے والی قیمت، سامان کی سپردگی کے مقام اور اُدھار کی صورت میں قیمت یا ادائیگی کا وقت مبہم ہو، تجارت کے بہت سے احکام اسی اصول پر مبنی ہیں، اس لیے شرعی نقطۂ نظر سے جو معاملات کسی بھی پہلو سے ابہام کی وجہ سے آئندہ کسی نزاع کا سبب بن سکتے ہیں وہ درست نہیں ہوں گے۔

آپس میں بھائیوں کی طرح رہو،مگرمعاملات اجنبیوں کی طرح کرو

معاملات کے باب میں اہلِ علم حضرات لکھتے ہیں: ’’آپس میں بھائیوں کی طرح رہو، لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔‘‘( التمثیل والمحاضرۃ للثعالبي) مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرو، جیسے ایک مخلص بھائی کو دوسرے بھائی کے ساتھ کرنا چاہیے، جس میں ایثار، محبت، شفقت، مروت، رواداری، تحمل اور انسانیت کا جذبہ ہو، لیکن جب روپے پیسے اور تجارت ونفع کے لین دین، جائداد کے معاملات اور شرکت وحصہ داری کا معاملہ آجائے، تو اچھے تعلقات کی حالت میں بھی انہیں اس طرح انجام دو، جیسے دو اجنبی ا فراد انہیں انجام دیتے ہیں کہ معاملہ کا ہر پہلواور بات صاف اور واضح ہو، نہ کوئی پہلو مبہم رہے، اور نہ معاملہ کی حقیقت میں کوئی اشتباہ باقی رہے۔
اگر محبت، اتفاق اور خوشگوار تعلقات کی حالت میں اس اصول پر عمل کر لیاجائے، تو بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سدِ باب ہو جاتا ہے، لیکن افسوس ناک صورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اصول کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ،جس کی ایک واضح صورت ہمارے معاشرے میں یہ ہے:

کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت

ہمارے ہاں تجارت وکاروبار میں عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کاروبار شروع کیا، اس وقت اس کے بچے چھوٹے تھے، رفتہ رفتہ کاروبار بھی بڑھا اور بچے بھی بڑے ہو کر اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے کاروبار میں پورے طور پر معاونت کرتے ہیں ، اس کاروبار کو اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں اور حسبِ استطاعت اس کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، والد اُن کی جملہ ضروریات کی مکمل کفالت کرتا ہے اور جب تک حالات خوشگوار رہتے ہیں ، ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مشترکہ نظام برقرار رہے، لیکن جب والد کی زندگی میں یا ان کے انتقال کے بعد اس کا روبار کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو بڑے لڑکوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کاروبار میں چھوٹے بھائیوں کی بنسبت ان کا تعاون زیادہ رہا ہے، اس لیے اسی تناسب سے انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہیے،پھر جب تمام بھائیوں کے درمیان کاروبار کی مساوی طور پر تقسیم کی بات ہوتی ہے توان کے احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے ، اور وہ اس میں اپنی حق تلفی محسوس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بھائیوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں ، یوں قریبی رشتہ داروں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم ہوتی ہے اور بات مقدمہ بازی اور خون بہانے تک پہنچ جاتی ہے ، اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ اگر کسی کاروبار میں والد کے ساتھ ان کے بچے بھی شریک ہوں ،تو جس وقت وہ شریک ہوں اسی وقت یہ طے ہونا چاہیے کہ اس کا روبار میں ان کی شرکت کس حیثیت سےہے ؟ کیا وہ اس میں پارٹنر ہیں؟ یا ان کی حیثیت ملازم کی ہے ؟ یاوہ محض اپنے والد کے معاون و مددگار ہیں؟ لیکن جس وقت لڑ کے والد کی خواہش پر کا روبار میں عملی طور پر شریک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت معاملہ کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، چنانچہ ہر شخص اپنی خواہش یا ضرورت کے مطابق کاروبار کی آمدنی استعمال کرتا رہتا ہے۔ اگر کسی وقت کوئی شخص یہ تجویز پیش کرے کہ کاروبار میں حصہ یا تنخواہ وغیرہ متعین کر لینی چاہیے، تو اسے محبت، اتفاقی اور غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے کاروبار کا انجام اکثر وبیشتر یہ ہوتا ہے کہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور رنجشیں پرورش پاتی رہتی ہیں، خاص کر جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے، تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ دوسرے نے کاروبار سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ اندر ہی اندر ان رنجشوں کا لاوا پکتا رہتا ہے اور بالآخر جب رنجشیں بدگمانیوں کے ساتھ مل کر پہاڑ بن جاتی ہیں تو یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔ محبت واتفاق کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ زبانی تو تکار سے لے کر لڑائی، جھگڑے اور مقدمہ بازی تک کسی کام سے دریغ نہیں ہوتا۔ بھائی بھائی کی بول چال بند ہو جاتی ہے، ایک بھائی دوسرے کی صورت دیکھنے کا روادار نہیں رہتا ، جس کے قابو میں کاروبار کاجتنا حصہ آتا ہے وہ اس پر قابض ہو کر عدل وانصاف کا جنازہ نکال لیتا ہے۔ اپنی نجی مجلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات، بد زبانی اور بدگمانی جیسے خطر ناک گناہوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ چونکہ سالہا سال مشترکہ کا روبارکا نہ کو ئی اصول طے تھا اور نہ حساب و کتاب کا خیال رکھا گیا ہو تا ہے، اس لیے بسا اوقات اختلاف کو ختم کرنے کے لیے افہام وتفہیم کی بھی کوشش کی جائے تو بھی مصالحت کا کوئی ایسا فارمولاوضع کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہےجو تمام متعلقہ فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔

معاملہ کرتے وقت کن پہلوؤں کو واضح کرنا ضروری ہے؟

یہ سارا فتنہ وفساد اس وجہ سے پیدا ہوتا ہےکہ کاروبار کےآغاز میں معاملہ صاف اور واضح نہیں رکھا تھا۔ اگر شروع ہی میں یہ بات واضح کی جائے کہ کس کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ ملازمت کےطور پر کام کررہا ہے؟ یا شرکت اور تعاون کے طورپر؟ تو بعد میں پیش آنےوالی پیچیدگیوں اور جھگڑوں کا سدِ باب ہوجائے، لہٰذا اگر کسی کاروبار میں ایک سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں، تو پہلے ہی مرحلے میں ان میں سے ہر شخص کی حیثیت کا تعین ضروری ہے کہ وہ تنخواہ پر کام کرے گا؟ یا کاروبار میں باقاعدہ حصہ دار ہوگا؟ یا محض اپنے والد کی معاونت کرے گا؟ پہلی صورت میں اس کی تنخواہ متعین ہونی چاہیے، نیز یہ وضاحت بھی کرلی جائے کہ وہ کاروبار کا حصہ دار نہیں ہوگا۔ دوسری صورت میں اگراسے ملکیت میں باقاعدہ حصہ دار بنانا ہےتو اس کے لیے شرعاً یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی طرف سے کاروبار میں کچھ سرمایہ شامل ہونا چاہیے (جس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باپ اسے کچھ نقد رقم ہبہ کردے اور وہ اس رقم سے کاروبار کا فیصد کے اعتبار سے ایک متعین حصہ خریدلے اور فیصد کے اعتبار سے نفع کی تعیین بھی کرلے۔ یہ تمام تفصیلات تحریری طورپر ایک معاہدہ کی شکل میں محفوظ کرلینی چاہیے، تاکہ بعد میں کوئی اُلجھن پیدا نہ ہو۔
اگر کسی ایک حصہ دار کو کاروبار میں وقت اور کام زیادہ کرنا پڑتا ہو، تویہ بات بھی طےکرلینی چاہیے کہ زیادہ کام وہ رضا کارانہ طورپر کرےگا؟یا اس کا کوئی معاوضہ اسےدیا جائے گا؟ اگرکوئی معاوضہ دیاجائےگاتووہ نفع کے فیصد حصے میں اضافہ کرکے دیا جائے گا، یا الگ سے متعین تنخواہ کی صورت میں؟ غرض ہر فریق کے تمام امور وحقوق اتنے واضح ہوں کہ ان میں کوئی ابہام واشتباہ باقی نہ رہے۔

معاملات کی صفائی کو محبت، اتفاق اور غیرت کے خلاف سمجھنا دھوکا ہے

اگر بالفرض کسی کاروبار میں اب تک ان باتوں پر عمل نہ کیا گیا ہو، تو جتنی جلدی ہوسکے ان امور کو واضح طور پر طے کرلیا جائے۔ اس میں کسی شرم، مروت اور طعن وتشنیع کو آڑے نہ آنے دینا چاہیے۔ معاملات کے متعلق اس صفائی اور وضاحت کو محبت، اخوت، احترام اور اتحاد واتفاق کے خلاف سمجھنا بہت بڑا دھوکہ ہے، ورنہ آگے چل کر یہ محبت واتحاد عداوت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

والد کے کاروبار میں شرکت کے متعلق اہم مسائل

آج کل دارالافتاؤں میں اس طرح کے مسائل کثرت سے آتے ہیں، خاص کر جب میراث کی تقسیم کا مرحلہ سامنے آتا ہے، تو اس وقت اس طرح کے تنازعات کثرت سے پیش آتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق بھی دارالافتاء سے ہے اور فتوی کے کام سے منسلک ہوں، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ شرعی نقطۂ نظر سے ان مسائل کو تفصیل سے لکھ دوں، تاکہ ان مسائل سے آگاہ ہوکرہم سب اس پر عمل پیرا ہوسکیں، چنانچہ اس سلسلے میں عرض یہ ہےکہ شریعت کا اصل حکم تو وہی ہےکہ کاروبار کےشروع ہی میں ہر ایک کی حیثیت کا تعین کرلینا چاہیے اور معاملہ ہر پہلو سےواضح کردینا چاہیے۔

کاروبار میں شریک اولاد باپ کے زیرِکفالت ہو

تاہم اگر معاملہ کو ابتدا میں ویسی ہی چھوڑ دیا تھا، کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوئی تھی ،تو اس پس منظر میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر والد نے اپنے سرمائےسےکاروبار شروع کیا، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض والد کی خواہش پر کاروبار میں شریک ہوگئے، مگر انہوں نےالگ سے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والد نے بھی ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو، تو اگر یہ لڑکے والد کے زیرِ کفالت ہوں ، تو اس صورت میں لڑکے والد کے معاون شمار کیے جائیں گے، اور ان کی طرف سے یہ عمل تبرُّع شمار کیا جائے گا۔ ان کی حیثیت پارٹنر یا ملازم کی نہیں ہوگی، ہمارے ہاں عرف بھی یہی ہے کہ اس طرح کاروبار کی کل آمدنی باپ کی ملکیت شمار ہوتی ہے اور اولاد محض معاون ومددگار ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں کاروبار کی کل آمدنی باپ کی ملکیت ہوگی، اور اس کے انتقال کے بعد معاونت کرنے والے لڑکوں کو الگ سے کچھ نہیں ملے گا، بلکہ دوسرےبیٹوں کے ساتھ ان کو میراث میں مساوی طور پر حصہ ملے گا، (یعنی سب لڑکوں کو برابر حصہ ملے گا)۔

بزنس میں شریک بعض بیٹے زیرِکفالت نہ ہوں

اگر بیٹےباپ کی کفالت میں نہ ہوں، یعنی باپ ان کی جملہ ضروریات کے اخراجات برداشت نہ کرتا ہو، تو ایسی صورت میں اگر متعین اجرت سے کام کرنا طے ہوا ہو تو لڑکےاسی اجرت کےحقدارہوں گے، تاہم اگر اس صورت میں اجرت طے نہ ہوئی ہو تو جہالت کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہوگا، جس کاحکم یہ ہےکہ کل سرمایہ بمع نفع باپ کا ہوگا اور بیٹے اجرتِ مثل کے مستحق ہوں گے۔ خیال رہےکہ ان دوصورتوں میں اولادکی حیثیت ملازم کی ہوگی ،اور اگر اُجرت کے متعلق بالکل بھی وضاحت نہ ہوئی ہو توایسے میں بیٹوں کا یہ عمل تبرع اوراحسان کے زمر ے میں آئے گااور وہ اجرت کے حقدار نہیں ہوں گے، کیوں کہ اُجرت کا استحقاق عقدِ اجارہ سے ثابت ہوتا ہے، جبکہ یہاں کوئی عقد نہیں ہوا ہے، لہٰذا اس صورت میں بیٹوں کی حیثیت محض معاون اور متبرع کی ہوگی، کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگی۔ علامہ شامی ؒلکھتے ہیں :
’’الأب وابنہٗ يکتسبان في صنعۃ واحدۃ ولم يکن لہما شيء فالکسب کلہٗ للأب إن کان الابن في عيالہٖ لکونہٖ معينا لہٗ، ألا تری لو غرس شجرۃ تکون للأب۔‘‘          (رد المحتار، فصل فی الشرکۃ، مطلب: اجتمعا فی دار واحدۃ واکتسبا ولا یعلم التفاوت: ۶/۴۹۷)

اولاد نے مشترکہ کاروبارمیں کچھ سرمایہ بھی لگایاہو

اگریہی صورت ہو، لیکن بیٹوں نے کاروبار میں شریک ہوتے وقت اپنا کچھ سرمایہ بھی والدکی اجازت سے کاروبار میں لگایا ہو، تو اس صورت میں اگر شرکت کی غرض سےسرمایہ لگایا گیا ہو، تو بیٹوں کی حیثیت شریک اور پارٹنر کی ہوگی اور بیٹے اپنے سرمائے کے تناسب سے کاروبار اور اس کے منافع میں شریک ہوں گے۔ اگر سرمایہ قرض کہہ کر دیا ہے تو قرض شمار ہوگا، البتہ اگر زبانی طور پرشرکت یا قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں، مگر لڑکے کا مقصود سرمایہ لگانے سے والد کی اعانت اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک ہے تو پھر یہ اس کی طرف سے تبرُّع ہے، کل کاروبار والد کا شمار ہوگا۔ تاہم اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہے، یعنی نہ کوئی صراحت ہے اور نہ ہی مقصد اعانت ہے تو پھر حسبِ عرف فیصلہ کیا جائے :
’’فإذا خلطا المالين علی وجہ لا يمکن تمييز أحدہما عن الآخر؛ فقد ثبتت الشرکۃ في الملک؛ فينبني عليہ شرکۃ العقد۔‘‘                       ( المبسوط، کتاب الشرکۃ:۱۱/ ۱۵۲)
’’يقع کثيرا في الفلاحين ونحوہم أن أحدہم يموت فتقوم أولادہٗ علی ترکتہٖ بلا قسمۃ ويعملون فيہا من حرث وزراعۃ وبيع وشراء واستدانۃ ونحو ذٰلک، وتارۃ يکون کبيرہم ہو الذي يتولی مہماتہم ويعملون عندہٗ بأمرہٖ وکل ذٰلک علی وجہ الإطلاق والتفويض، لکن بلا تصريح بلفظ المفاوضۃ ولابيان جميع مقتضياتہا مع کون الترکۃ أغلبہا أو کلہا عروض لا تصح فيہا شرکۃ العقد، ولا شک أن ہٰذہ ليست شرکۃ مفاوضۃ، خلافا لما أفتی بہٖ في زماننا من لا خبرۃ لہٗ، بل ہي شرکۃ ملک کما حررتہٗ في تنقيح الحامديۃ۔
ثم رأيت التصريح بہٖ بعينہٖ في فتاوی الحانوتي، فإذا کان سعيہم واحدا ولم يتميز ما حصلہٗ کل واحد منہم بعملہٖ يکون ما جمعوہ مشترکا بينہم بالسويۃ وإن اختلفوا في العمل والرأي کثرۃ وصوابا کما أفتی بہٖ في الخيريۃ۔
‘‘ (رد المحتار: ۶/۴۷۲، کتاب الشرکۃ، مطلب : فیما یقع کثیرا فی الفلاحین
’’وأما حکم القرض فہو ثبوت الملک للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثلہٖ في ذمۃ المستقرض للمقرض للحال، وہٰذا جواب ظاہر الروايۃ۔‘‘       (البدائع، فصل في حکم القرض: ۷/۳۹۶)

مشترک فیملی میں بعض بھائیوں نے کسبِ معاش کے دوسرے ذرائع اختیارکیے اور بعض نے والد کا ہاتھ بٹایا

۲- دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک بھائی یا کچھ بھائیوں نے کاروبار میں والد کا ہاتھ بٹایا ہے، جبکہ دوسرے دیگر بھائیوں نے کسبِ معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کیے ہیں اور آپس میں ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے، اس صورت میں اگر سب کا کھانا پینا ایک ساتھ ہو اور تمام بھائی کمائی والد کے پاس جمع کرتے ہوں تو کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا ۔ والد کے انتقال کے بعد تمام لڑکے اس مال کے حق دار ہوں گے ۔ 
 یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر بیٹےباپ کے عیال میں ہیں اور آپس میں تقسیم نہیں ہوئی ہے ،تو خواہ سب ایک ہی کاروبار میں مشغول ہوں یا مختلف قسم کے کاروبار میں مشغو ل ہوں، یعنی ایک کا کاروبار دوسرے کے کاروبار سے مختلف ہو، مثلاً: ایک سبزی کے کاروبار میں لگا ہو اور دوسرا مارکیٹ میں فرنیچر کے کاروبار میں مشغول ہو، بہرصورت تمام مال کا مالک باپ ہوگا، اس لیے کہ ہمارے عرف میں سب بھائیوں کو ایک مشترک فیملی کا فرد سمجھا جاتا ہے، ان کو علیحدہ تصور نہیں کیا جاتا۔ رہیں فقہاء کرام ؒکی وہ عبارتیں جن میں لڑکے کےمعاون ہونے کےلیے اتحاد ِصنعت کی صراحت ہے ، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بظاہر اتحادِ ِصنعت کی وضاحت فقہائے کرام نے اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے کی ہے، لہٰذا وہ اپنے زمانے کے عرف پر مبنی ہیں ۔ 
آج کل صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات اولاد کو دوسرے ذرائعِ معاش اختیار کرنے کا مشورہ باپ دیتا ہے ، اس سلسلے میں وہ اپنا مالی تعاون بھی کرتا ہے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بھی ، اس کے نفع و نقصان کی فکر بھی کرتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ میرے مختلف بیٹے مختلف ذرائع سے میرے معاون ہیں ، بلکہ بسا اوقات معاشی پریشانی کی وجہ سے باپ اپنے بعض لڑکوں کو دوسرے ملک بھیجتے ہیں، اور اس کے لیے لمبا چوڑا خرچہ برداشت کرتا ہے، اس کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے، کھانا سب مشترک ہی رہتا ہے، ایسی صورت میں لڑکوں کی دوسرے ممالک کی کمائی پوری باپ کی ملک ہوگی، ایسے لڑکے باپ کے معاون شمار ہوں گے ، وہ اپنی کمائی کے تنہا مالک نہ ہوں گے، البتہ اس صورت میں اگر کوئی لڑکا اپنا کھانا پینا الگ کردے اور باقاعدہ الگ ہونے کا والد سے اظہار کردے ،تو اس کے بعد وہ الگ شمار ہوگا اور اپنی کمائی کا وہ خود مالک ہوگا، لہٰذا آج کل کے عرف میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد ِصنعت کی شرط قابلِ نظرہے۔ 

الگ ذرائع معاش اختیارکرنے والوں کی کمائی کاحکم

اگر الگ ذرائع معاش اختیار کرنے والے بھائیوں کا رہنا سہنا اور کھانا پینا الگ ہو اور انہوں نے اپنا سرمایہ علاحدہ جمع کر رکھا ہو تو پھر وہ کمائی ان کی ذاتی ملکیت ہوگی، دوسرے بھائی اس میں شریک نہ ہوں گے :
’’زوج بنيہ الخمسۃ في دارہٖ و کلہم في عيالہٖ واختلفوا في المتاع فہو للأب ، و للبنين الثياب التي عليہم لا غير ۔‘‘      (رد المحتار، فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:۴/۳۹۲)
’’الأب وابنہٗ يکتسبان في صنعۃ واحدۃ ولم يکن لہما شيء فالکسب کلہٗ للأب إن کان الابن في عيالہٖ لکونہٖ معينا لہٗ، ألا تری لو غرس شجرۃ تکون للأب ۔‘‘  (رد المحتار، فصل فی الشرکۃ، مطلب: اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت:۶/۴۹۷)
’’أب وابن یکتسبان فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہٗ للأب إن کان الابن فی عیالہٖ لکونہٖ معینا لہ، ألا تری أنہٗ لو غرس شجرۃ تکون للأب۔‘‘         (الہنديۃ،الباب الرابع: في شرکۃ الوجوہ وشرکۃ الأعمال: ۲/۳۳۲، مکتبۃ دار الفکر)
’’فإذا کان الأب مزارعا والابن صانع أحذيۃ فکسب الأب من الزراعۃ والابن من صناعۃ الحذاء ، فکسب کل واحد منہما لنفسہٖ و لیس للأب المداخلۃ في کسب ابنہٖ لکونہٖ في عيالہٖ ۔‘‘    (درر الحکام، ۳/۴۴۵، مادۃ:۱۳۹۸)

کاروبارختم ہونے کے بعداولاد میں سے کسی نے اپنے سرمایہ سے دوبارہ کاروبارشروع کیا

اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا ، لیکن کاروبار کی جگہ خواہ مملوکہ ہو یا کرایہ پر حاصل کی گئی ہو ، موجود ہو ، اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگا کر اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا ،اس صور ت میں جس لڑکےنے سرمایہ لگاکرکاروبارشروع کیا ہے، یہ کاروبار اسی کی ملکیت شمار ہوگی ، والد اور دیگر بھائیوں کی ملکیت شمار نہیں ہو گی، البتہ وہ مملوکہ جگہ والد کی ہوگی ۔ یا اگر دوکان کرایہ پر تھی اور اس سلسلے میں کچھ رقم پیشگی والد کو ادا کردی تھی تو وہ رقم بھی والد کی ملکیت شمار ہوگی، اور تمام بھائی والد کے بعد اس میں شریک ہوں گے:
’’عن عائشۃؓ قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: ’’الخراج بالضمان۔‘‘    (سنن أبی داؤد: باب فيمن اشتری عبدا فاستعملہ:۵/۳۶۸)
’’لا يستحق الربح إلا بإحدی ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل۔‘‘      (الدر المختار مطلب شرکۃ الوجوہ:۴/۳۲۴)
’’اعلم أن أسباب الملک ثلاثۃ: ناقل کبيع وہبۃ وخلافۃ کإرث وأصالۃ، وہو الاستيلاء حقيقۃ بوضع اليد أو حکما بالتہيئۃ کنصب الصيد لا لجفاف علی المباح الخالي عن مالک۔‘‘        (الدر المختار :کتاب الصید: ۶/۴۶۳)
’’وما اشتراہ أحدہم لنفسہٖ يکون لہٗ ويضمن حصۃ شرکائہٖ من ثمنہٖ إذا دفعہٗ من المال المشترک۔‘‘    (رد المحتار،کتاب الشرکۃ: ۴/۳۰۷)

ائمہ ،خطباء اورعلماءکرام سے گزارش

ائمہ ، خطباء اور علماء کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں معاملات کی صفائی کے سلسلے میں لوگوں کی ذہن سازی کریں۔ شرکت اور میراث کے متعلق جو شرعی احکام ہیں، ان سے ان کو آگاہ کریں ۔ خاص طور پر والدین، اولاد اور بھائیوں کے درمیان کاروبار اور شرکت کے بنیادی مسائل سے واقف کرائیں ۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین