بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کائناتِ روحانی (پہلی قسط)

کائناتِ روحانی      (پہلی قسط)

قرآن کریم‘ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، یہ انتہائی مضبوط رسی ہے، اپنے اندر بے پناہ روحانی طاقت سموئے ہوئے ہے، بے شمار روحانی خزائن اور بے انتہا معارف وحکم پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم کی روحانی طاقت ‘درحقیقت حق تعالیٰ شانہٗ کی غیرمرئی طاقت کا ایک مظہر ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات سے شناسائی کے لیے قرآن کریم عموماً دو طرح کے دلائل پیش کرتا ہے: ۱:… دلائل آفاقی ومشاہداتی: ’’سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ‘‘۲:… دلائل انفسی:’’وَفِیْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔‘‘ دلائل نفسیہ انسان کو اپنے من میں غوروفکر کا درس دیتے ہیں، انسان نتائج تک پہنچے یا نہ پہنچے، لیکن یہ بات ناچار تسلیم کرتا ہے کہ انسان کا وجود بلکہ ہر حیوان(ذی روح) کا وجود ایک مرئی اور ایک غیرمرئی ترکیب کا مرقع ہے۔ مرئی عنصر/ جزء (Visible Element Factor) کو ’’جسم اور مادہ ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ غیر مرئی عنصر / جزء (Non-Visible Element Factor)کو ’’روح ‘‘سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جسم اور مادہ کی حقیقت وکنہ سمجھنے اور سمجھانے میں تو حواسِ انسانیہ تعاون کرتے ہیں، مگر ’’روح‘‘ کی حقیقت کے کلی وحقیقی ادراک کا دعویٰ نہ کسی نے کیا اور نہ ہی کوئی کرسکتا ہے، مگر اتنا ضرور ہے کہ چلتے پھرتے حیوانوں اور انسانوں کو زندہ کہنے اور ماننے کے لیے جسم وروح کے ظاہری ارتباط کو لازمی جانا جاتا ہے، اگر روح حیوانی جسم سے الگ ہوجائے تو ایسے حیوانی جسم کو جسم کے بجائے ’’لاشہ ‘‘ سے یاد کیاجانے لگتا ہے، ایک ہی لمحہ میں کسی جسم کے بارے میں یہ تأثر اور تعارف کا بدل جانا اعلانیہ یا اعلانیہ غیرمرئی حقیقت (روح )کی موجودگی کا اقرار ہے، بلکہ اقرار سے بڑھ کر اس غیر مرئی حقیقت کے اصل اصیل ہونے اور متعلقہ بلاروح جسم کے بارے محض تابع، فرع اور فالتو ہونے کا عملاً اقرار بھی ہوتا ہے۔ جو اہل عقل، اہل تدبر اور اہل علم اپنے من میں ڈوب کر مادہ اور روح کی حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، انہیں چار چیزیں سمجھ آئیں گی:  ۱:… جو مادہ‘ روح سے خالی ہو، وہ بے جان اور بے حقیقت ہے۔ ۲:… روحانی عالم‘ مادی عالم سے برتر اور عظیم تر ہے۔ ۳:… مادیت فناپذیر چیز ، اور روحانیت لازوال لافانی شے ہے۔ ۴:… مادہ کا حیطۂ وجود محدود ہے، جبکہ روح کی منزل کا کوئی اندازہ نہیں: ’’قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ۔‘‘ روح اور مادہ کا یہی تقابلی تعلق قدرتِ الٰہیہ کے دلائل آفاقیہ کے ذریعہ مزید وسعت ووضاحت کے ساتھ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے، مگر تعجب انگیز امریہ ہے کہ ’’عقل مند‘‘ انسان اپنے ’’من‘‘ سے لے کر عالم دنیا کے اطراف واکناف تک فکری پرواز اور بصری مشاہدات کے باوصف کارخانۂ عالم کی کارکردگی میں روحانیت کے وجود اور کردار کا منکر بناپھرتا ہے ، خود کو صاحب عقل اور ہنرمند بھی باور کراتا ہے اور کائنات کی ساری کارگزاری کو محض مادی ترکیب وترتیب کا شاخسانہ قرار دیتا ہے اور دنیا کی ساری ترقیات، ایجادات اور ہنرمندی کو انسانی عقل اور مادی وسائل کا نتیجہ قرار دیتا ہے، حالانکہ انسان کا اپنا وجود پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ تیرا مختصر سا وجود‘ حس وحرکت میں جب روح کی طاقت کا محتاج ہے تو اتنی بڑی کائنات اور کائنات کے اجزاء واجسام اپنی صلاحیت، کارکردگی اور افادیت میں کسی غیر مرئی روحانی طاقت سے کیسے خالی ہوسکتے ہیں؟ یقینا کائنات کے وجود وبقا اور فائدہ مند کارکردگی کے پیچھے ایک غیبی روحانی قوت ہے، جس کا ادراک مادی حواس کے ذریعہ مادی دنیا میں ناممکن ہے، مگر وجود کے انکار کی گنجائش بھی نہیں۔ قرآن حکیم نے اس روحانی حقیقت سے آگاہی کے لیے اپنے بیان میں مختلف اسالیب، متعدد دلائل اور کثیر تعداد امثال وعبر بیان فرمائی ہیں، قرآن کریم اپنے بیان میں یہ یقین کرواتا ہے کہ انسان جس طرح مادی کائنات کے محدود ہونے کے باوصف اسے ایک وسیع عالم مانتا ہے، روحانی کائنات کا علم اس سے وسیع تر ہے، اس کا اقرار بھی عقلاً ناگزیر ہے، اس حقیقت کا درس چونکہ قرآن کریم دیتا ہے، اس لیے قرآن کریم ایک مستقل عالم ہے اور مادی کائنات کے مقابلے میں اس کی آیات وسور‘ روحانی کائنات ہیں اور قرآن کریم انسان کی روحانی ضروریات کو ایسے ہی پورا کرتا ہے،جس طرح زمین اس کی جسمانی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ انسانی عقل کا تقاضا ہے کہ انسان مادی، فانی اور عارضی وجود میں کھوئے رہنے کی بجائے روحانی، لازوال اور دائمی کائنات کا رُخ کرے اور اپنی تگ ودو کا ہدف، ناپائیدار کی بجائے پائیدار کو بنائے، اس سیدھے سادے مدعا کو سمجھنے کے لیے حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی v کا علمیت ومعنویت سے لبریز ایک ’’منظرِ احسن‘‘ ،’’کائناتِ روحانی‘‘ کے نام سے ملاحظہ فرمائیے: کائناتِ روحانی الحمد للّٰہ والصلاۃ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی اس مضمون میں مندرجہ ذیل نظریات پر بحث کی گئی ہے: قرآن مجید ایک مستقل عالم ہے اور کائناتِ مادی کے مقابلہ میں اس کے آیات و سور کائنات روحانی ہیں۔قرآن مجید اسی طرح مجمل ہے جس طرح مثلاً زمین مجمل ہے، پھر جس طرح انسان کی تمام جسمانی ضروریات اسی زمین سے نکلتے ہیں، اسی طرح روحانی ضروریات قرآن سے پورے ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیات میں بعض اوقات جو بے ربطی پیدا ہوجاتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ قرآن مجید سے بعض لوگ کیوں گمراہ ہوجاتے ہیں؟  مسلمانوں کی موجودہ تباہیوں کا راز کیا ہے؟ ’’وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَائٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘(بنی اسرائیل)’’ہم قرآن میں ان چیزوں کو اُتار رہے ہیں جو ایمان داروں کے لیے شفاء ورحمت ہیں۔‘‘ اس کی قوتوں کی غیر محدود رسائیاں جس حد تک بھی پہنچتی ہوں، لیکن اس میں باوجود اس کے بھی اگر غور کیاجائے تو نظر آتا ہے کہ انتہا وہ کچھ بھی نہیں ہے۔کائنات، ہر ذرۂ عالم کی ہرچیز اس کی مدد ومعاونت میں مصروف ہے اور وہی اسے پیغام عمل دیتی ہیں، حتیٰ کہ ان ہی کے بل بوتے پر وہ وہاں پہنچتا ہے جہاں دوسرے نہیں پہنچتے۔وہ اپنی قوتِ دید کے متعلق مدعی ہے کہ کروڑوں میل دور سے آفتاب کی طویل وعریض رقبہ کا احاطہ کرلیتا ہے اور یقینا کرلیتا ہے، لیکن فضا میں پھیلنے والی روشنی اگر بجھادی جائے تو اس کے بعد بھی اسے اس دعوی کی جرأت ہوسکتی ہے؟ ابر اور رات کی تاریکی میں وہی انسان جو دن کو اپنے دائرۂ بینائی میں نصف کرۂ عالم کو گھیرے ہوئے تھا، اگر کسی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دیا جائے تو پھر اس میں اور اس اندھے میں کچھ بھی فرق باقی رہ جاتا ہے جو بے چارہ سرے سے اس قوت پر ماتم کرکے بیٹھ چکا ہے؟انسان سنتا ہے اور اپنی قوتِ سامعہ کی بنا پر مدعی ہے کہ علاوہ عالم الوان وانوار کے ایک اور عالم اصوات (آواز) کا موجود ہے، لیکن اگر درمیان کی ہوا، یا سالمات کی حرکتِ ارتعاشی، یاذراتِ اثیریہ کے ذبذیوں کو معدوم کردیا جائے تو کیا ا س کے بعد بھی وہ اپنی اس قوت پر اسی قدر اَکڑ سکتا ہے؟ وہ اپنی ایجادات واختراعات پر نازاں ہے، وہ ریل بناتا ہے، انجن ہنکاتا ہے، ہوائی جہاز اُڑاتا ہے، وہ منٹوں میں سینکڑوں میل کی آواز کو ایک خطہ سے دوسرے خطہ میں پہنچاتاہے، یقینا یہ اس کے حیرت انگیز کارنامے ہیں، لیکن فرض کرو کہ کوئلہ نہیں ہے، آگ نہیں ہے، لوہا نہیں ہے، لکڑی نہیں ہے، الغرض انسان کے علاوہ اس عالم میں اور کچھ نہیں ہے، کیا اس کے بعد بھی وہ یہ کرسکتا ہے یا وہ کرسکتا ہے؟! میں تم سے سچ کہتا ہوں اور تم بھی اس کو جانتے ہو کہ ایجاد واختراع تو خیر! شاید اس کے بعد وہ چند گھنٹے بھی اپنی زندگی کے نظام کو قائم نہیں رکھ سکتا۔اور یہی وہ بلند پایہ نتھرا ہوا تخیُّل ہے، جہاں پر انسان کے غرور وانانیت کا ایوان یکایک دھم سے گر جاتا ہے۔ احمق اپنے کو سب کچھ سمجھتا ہے، لیکن ایک عقلمند اپنے کو کچھ نہیں دیکھتا، آہ! کہ جب وہ اپنے ہرسانس میں غیر کا دستِ نگر ہے، اپنی حرکت وسکون میں دوسروں کا محتاج ہے تو پھر یہ غرور وبدمستی کس پر؟! پھر ہنگامۂ انانیت کیوں؟! یہ سوزشِ لمن الملکی کس بنیاد پر؟! تنگ ظرف چھلک پڑتے ہیں، اَکڑتے ہیں، غراتے ہیں، لیکن عمیق روحیں مطمئن ہیں، وہ سب کچھ کرتی ہیں، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی جانتی ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ’’قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَمَا لِہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا۔‘‘(النسائ) ترجمہ:’’کہہ دو کہ سب کچھ اللہ ہی کے یہاں سے ہے، پھر اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ بات سمجھنے کے قریب بھی نہیںآتے؟۔‘‘ بہرحال اس مختصر تبصرہ سے میری غرض اس وقت فقط اس قدر ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، کائنات کی امداد واعانت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ انسان عقل وتدبیر، ہوش وحواس، ادراک واحساس کے آلات کو لے کر کرۂ زمین پر آتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے مواد کا ایک غیر محدود ذخیرہ پھیلا ہوا ہے، وہ اپنی ادراکی قوتوں کو ان ہی مادوں میں سے کسی ایک ساتھ جوڑتا ہے، ربط دیتا ہے، پھر کبھی تو اسی ارتباط کے بعد کائنات کا کوئی ناموس (راز) اس کے سامنے بے نقاب ہوجاتا ہے، مثلاً وہ گلاب کی شاخوں سے ایک پھول توڑتا ہے کہ اس پھول میں ایک اور عالم (بو) ہے جس کو نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اورنہ کان سن سکتے ہیں، نہ ہاتھ چھوسکتے ہیں، نہ زبان چکھ سکتی ہے۔ اور کبھی فقط جوڑنے سے کام نہیں چلتا، بلکہ وہ اپنی روح کو اس مادہ میں غرق کردیتا ہے، اس کے ظاہر وباطن میں پیوست ہوتا ہے، جس کے بعد بسااوقات وہ ایسے عجوبہ طراز اسرار کا اعلان کرتا ہے جس کو اس سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ مثلاً :دیکھتے ہو کہ یہی زمین جو ظاہراً فقط خاک اور دھول کا ایک تیرہ گوں مجموعہ ہے، کون باور کرسکتا تھا کہ مٹی کے اسی ڈھیر میں گھی کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور دودھ کی نہریں جاری ہیں؟! کون یقین کرسکتا تھا کہ اسی مشت خاک کے ساتھ بالوشاہی اور شکرپارے رَلے ملے ہیں، اسی میں مرچ کی تلخی بھی ہے اور املی کی ترشی بھی! اسی کے اندر تیلوں کے سرچشمے بھی ہیں اور بادام وپستے کے مغزیات بھی۔ لیکن انسان اسی میں ڈوبا اور گھسا ،حتیٰ کہ اب وہ ان تمام چیزوں کو اسی گرد وغبار سے چھان بین کرنکال لیتا ہے، وہ اسی زمین سے گھاس، چارے اُکھاڑتا ہے اور اپنی گائے بھینس کی منہ میں اُسے ڈال دیتا ہے، پھر تھوڑی دیر کے بعد اسی گھاس، بھونسے کو جو زمین کے اجزاء سے تیار ہوئے تھے‘ دودھ کی شکل میں نچوڑ لیتا ہے، وہ ایکھ اورگنوں کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اسی زمین پر نصب کردیتا ہے اور چند ہی دنوں کے بعد اس کے گھر میں شیرینی کی ریل سیل ہوجاتی ہے، گویا زمین میں اس نے ایک شکر کش مشین گاڑدی ہے، جو دھڑا دھڑ زمین کے اجزاء شیریں کو مٹی سے الگ کرکر کے باہر پھینکتے رہتے ہیں۔ اسے کپڑے کی ضرورت ہوتی ہے، خد جانے پہلے کیا کرتا ہوگا؟ لیکن اب توہم دیکھتے ہیں کہ وہ بنولے کے سیاہ اور کالے دانوں کو اسی مٹی میں ملادیتا ہے اور اس کے بعد وہ روئی کی گانٹھوں کو اندر سے باہر لے آتا ہے، پھر اس کو مختلف ترکیبوں سے، شیروانی، کوٹ، کرتے، پائجامے کی شکل میں ڈھال لیتا ہے اور اسی کی طرف توجہ دلائی گئی: ’’وَفِيْ الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنّٰتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَائٍ وَّاحِدٍ وَّنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِيْ الْأُکُلِ إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔‘‘                                                      (الرعد) ترجمہ: ’’اور زمین میں ملے قطعات اور تختے ہیں (جن میں) انگوروں کے باغ ہیں اور کھیتیاں ہیں اور درخت ہیں، بعض چند شاخوں کے ساتھ نکلتے ہیں اور بعض اکیلے، یہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں، مگر پھر بھی ہم بعض کو بعض پرمزے کے اعتبار سے برتری عطا کرتے ہیں، اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ اور جوں جوں زمانہ آگے بڑھ رہا ہے، انسان کی قوتِ فکریہ، ایجاد شدہ چیزوں سے الگ ہوکر مادے کی نامعلوم نوامیس واسرار کے ساتھ متعلق ہوتی ہے اور آئے دن نت نئے اکتشافات وغوامض کا اعلان کرتی رہتی ہے، کچھ دن اس کا غلغلہ عالم میں بلند رہتا ہے، یہاں تک کہ جب کثرتِ استعمال کے بعد وہ راز بھی ایک پیش افتادہ حقیقت ہوجاتا ہے تو دوسری چیزیں سامنے آتی ہیں۔ یقینا کسی زمانہ میں مٹی اور کیچڑ کے اندر سے برفی کی قاشوں کے مواد کا بہم پہنچانا ایک عجیب وغریب نظریہ خیال کیاگیا ہوگا، لیکن اب یہ ایک معمولی بات ہے، حتیٰ کہ اسی طرح رفتہ رفتہ انسان نے آتش وآب کی باہمی ارتباط سے بخار (اسٹیم) کی قوت کا پتہ چلایا اور زمانہ اس پر محو حیرت ہوگیا، پھر اس نے مواد کی باہمی مصاکت ومصاومت کے قانون سے برق (سٹی) کا راز دریافت کیا اور اب دنیا اسی پر دھن رہی ہے اور کسی کو کیا معلوم کہ اولادِ آدم آئندہ چل کر کن کن چیزوں پر سردھننے والی ہے، ’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ‘‘ کی تاویل وتصدیق کے لیے ابھی ہم کو بہت کچھ دیکھنا ہے، کیوںکہ اس قضیہ کو کلیہ ہونا ہے اور ہو کر رہے گا۔آسمانی اشاروں میں ارتقاء واکتشاف کی اسی حقیقت کی طرف’’ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعًا‘‘ (اور تمہارے فائدہ کے لیے ہم نے وہ تمام چیزیں پیدا کی ہیں جو زمین میں ہیں)سے راہنمائی کی گئی اورزمین ہی نہیں، شوقین بصیرتوں کے سامنے تو اس سے بھی بڑا میدان پیش کیا گیا ہے: ’’وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ۔‘‘                (الجاثیہ) ترجمہ:’’(اللہ) نے تمہارے فائدہ کے لیے (نہ صرف مادۂ ارضیہ) بلکہ تمام چیزوں کو جو آسمان اور زمین میں ہیں مفتوح ومسخر کردیا ہے۔‘‘ پس جو چاہے ان اشیاء کے دریچہ ہائے کمال میں جھانکے، خود اس سے فائدہ اُٹھائے اور دوسروں کو مستفید ہونے کا موقع دے، یہ بتایاگیا ہے کہ انسان نہ صرف زمین، بلکہ فضائے آسمانی کے تمام کائنات سے ہرقسم کے منافع حاصل کرسکتا ہے، وہ اس کی اعانت وامداد سے کبھی سرتابی نہیں کرسکتے اور یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی اہمیت سے انسان روز بروز واقف ہورہا ہے۔ وہ ہوا، بادل، آفتاب، اس کی گیس، بلکہ تمام سیارات کو اپنے منافع کے لیے کار آمد بنانے کی کوشش میں مصروف ہے اور ہمیشہ رہے گا، خواہ سائنس کے ذریعہ سے ہو، یعنی حواسِ خمسہ کی مدد سے، یا باطنی قویٰ اور مخفی طاقتوں کی اعانت سے، لیکن جد وجہد کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور جاری رہے گا کہ دراصل اس سے انسان کے کمالات اور کائنات کے کمالات کا انکشاف ہوتا ہے اور دونوںمل کر میں کیا بتاؤں کہ کس کے کمالاتِ قدوسیہ جبروتیہ کے آئینہ بنتے ہیں۔     کیا ہوتا ہے اگر آئینہ نے یہ نہیں سمجھا کہ میرے سامنے کس کی طلعت جہاں آرانے برقعہ اُلٹ دیاہے، وہ اپنے اندر جھانکنے والی نگہ مست سے شرمسار نہیں ہوتا تو نہ ہو، وہ جاہل ہے تو اسے جاہل رہنے دو، لیکن اسی ظلوم وجہول آئینہ میں صورت دیکھنے والا اپنی صورت بھی دیکھ رہا ہے،صاحب جلوہ بھی ہے اور اس کا جلوہ بھی ہے، وہ روشن بھی ہے، ظاہر بھی ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا۔کس شان کے ساتھ اسی آیت کے بعد ’’نظر بازوں‘‘ کو پیغام نظر دیاجاتا ہے:’’إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔’’ اس میں (یعنی گزشتہ بالا اعلان میں) یقینا کثرت سے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو اپنی قوتِ فکریہ سے کام لیتے ہیں۔‘‘  (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین