بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ڈاکٹر خالد محمود سومرورحمۃ اللہ علیہ کی شہادت

ڈاکٹر خالد محمود سومروv کی شہادت

میں خاک نشیں ہوں مری جاگیر مصلیٰ شاہوں کو سلامی مرے مسلک میں نہیں ہے ۶؍ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۴ء جامعہ اسلامیہ اشاعت القرآن والحدیث کے مہتمم، جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے جنرل سیکرٹری، سابق سینیٹر، حضرت مولانا عبدالکریم v بیر شریف والوں کے تربیت یافتہ اور معتمد، حضرت خواجہ خان محمدv کے مرید ومسترشد، دین اسلام میں شامل ہونے والے افراد اور خاندانوں کے سرپرست، مربی اور کفیل، صرف صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ ملک اور بیرونِ ملک یکساں مقبول خطیب، نڈر قائد حضرت مولانا ڈاکٹر خالدمحمود سومرو کو سفاک قاتلوں نے عین اس وقت جب آپ فجر کی نماز کی سنتوں کی دوسری رکعت کے سجدہ میں تھے، فائرنگ کرکے شہید کردیا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمٰی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیک وقت کئی خوبیوں سے نوازا تھا، آپ جہاں ایک سیاسی جماعت کے محبوب ومقبول لیڈر تھے، وہاں آپ بہترین مدرس اور مقبول خطیب بھی تھے۔ آپ کا خطاب اور بیان سننے کے لیے عوام آپ کے بیان سے ایک گھنٹہ قبل آکر آپ کے ادارہ کی جامع مسجد میں بیٹھ جاتی تھی اور جب بیان شروع ہوتا تو مسجد کے اندر جگہ مشکل سے ملتی تھی۔ حضرت ڈاکٹر خالد محمود سومرو ۸؍ مئی ۱۹۵۹ء کو لاڑکانہ کے قریب عاقل نامی گاؤں میں حضرت مولانا علی محمد حقانی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول میں حاصل کی، میٹرک لاڑکانہ شہر کے پائلٹ ہائر اسکینڈری اسکول سے کیا۔ ایف ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج سے حاصل کی۔ ۱۹۸۴ء میں چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، درسِ نظامی کا مکمل کورس اپنے ادارہ میں اپنے والد صاحب سے پڑھا۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے (اسلامک کلچر) کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ طالب علمی آپ جے ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری رہے اور اس دوران آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، صوبائی اور قومی اسمبلی لاڑکانہ سیٹ پر آپ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقابلہ میں الیکشن لڑے۔۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۲ء تک آپ سینیٹ کے رکن رہے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومروvسے راقم الحروف کی پہلی شناسائی اس وقت ہوئی جب لاڑکانہ میں ایک ہندو گھرانے کے تین بھائی اور ایک ان کی پھوپھی کا بیٹا ہندو ازم ترک کرکے اسلام کی آغوش میں آئے۔ ان چاروں کی کفالت اور سرپرستی حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمائی۔ ان کو دینی تعلیم دلانے کے لیے آپ نے ان چاروں کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ معارف العلوم پاپوش نگر میں داخل کرایا، چونکہ میں وہاں استاذ اور ناظم تھا، حضرت اقدس مولانا سعید احمد جلالپوری شہید نور اللہ مرقدہٗ اس ادارہ کے نگران اور استاذ تھے، تو حضرت ڈاکٹر صاحب پندرہ بیس دن بعد ان سے ملنے آتے تھے، جہاں ہماری بھی دیر تک ان سے ملاقات رہتی، بلامبالغہ اپنے حقیقی بیٹوں سے زیادہ ان نومسلم بچوںسے محبت کرتے تھے، نہ ان کے کھانے میں کبھی کمی آنے دی، نہ پہننے میں کبھی پریشانی آئی، بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ چیز ان کے لیے خرید کر لاتے تھے، یہاں تک کہ وہ چاروں قرآن کریم کے حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر، دو انجینیئر اور ایک عالم دین بننے کے ساتھ عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب لاڑکانہ یونیورسٹی میں استاذ اور حضرت ڈاکٹر صاحب کے مدرسہ میں ناظم تعلیمات ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی تعلیم مکمل کرائی اور ان کو اعلیٰ ڈگریاں دلائیں، بلکہ ان سب کی شادیاں بھی کرائیں، اب سب بیوی بچوں والے ہیں۔ اس زمانہ میں ایک بار حضرت قدس مولانا سعید احمد جلالپوری شہیدvکے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں لاڑکانہ کا سفر ہوا اور آپ اپنے ہمراہ ہم دونوں کو حضرت مولانا عبدالکریمؒبیرشریف والوں کے ہاں ان کی خانقاہ میں لے گئے۔ پہلی دفعہ راقم الحروف نے حضرت بیرشریف والوں کی زیارت کی۔ گرمی کا زمانہ تھا، حضرت باہر ایک کچے سائبان کے نیچے تشریف فرماتھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ نے جب ہمارا تعارف کرایا تو حضرت نے کمالِ شفقت سے روح افزاء کے شربت سے ہماری میزبانی فرمائی، واپسی پر حضرت ڈاکٹر صاحب نے سندھی اجرک اور ٹوپی کا ہدیہ عنایت فرمایا۔ اسی طرح اکثر وبیشتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی دفتر بھی تشریف لایا کرتے اور دفتر کے ساتھیوں سے حال احوال لیا کرتے تھے۔ آپ کی شہادت کا سنتے ہی میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے نائب رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری زید لطفہ کی خدمت میں گیا تو آپ نے ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر بڑے دکھ اور افسوس کا اظہار فرمایا اور مجھ سے جنازہ میں شرکت کا معلوم کیا تو راقم الحروف نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: میرا بھی ارادہ ہے۔ الحمد للہ! راقم الحروف کو ڈاکٹر صاحب کے جنازہ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ صاحب، جامعہ کے ایک پھرپور وفد نے لاڑکانہ جاکر حضرت ڈاکٹر صاحب کے بیٹوں سے تعزیت کی۔ آپؒ کی شہادت پر پارلیمنٹ میں محترم جناب کیپٹن صفدر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ ہمارے دل کی آواز ہے، جی چاہتا ہے کہ ان کی وہ تقریر قارئین بینات کی خدمت میں پیش کی جائے، پارلیمنٹ کے رکن جناب کیپٹن (ر) صفدر صاحب نے کہا: ’’ قاری یوسف صاحب کی بات کو میں آگے بڑھائوں گا اور خالد محمود سومرو کی شہادت پر بات کروں گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کسی ایک شخص کی شہادت نہیں ہے، کسی ایک جماعت کی شہادت نہیں ہی، کسی ایک فرد کی شہادت نہیں ہے۔ ایک عالم دین جو صبح کی نماز کے لیے مسجد میں جارہا ہے اور سجدے میں اس کا سر ہے اور اس کو شہید کردیا جاتا ہے۔ جناب ڈپٹی اسپیکر! اس سے کیا ہم سبق لیں گے؟ کس طرف ہم دیکھیں گے، کیا اس شخص کا قصور یہ تھا کہ وہ ننگے پائوں چل کے مدارس میں حدیث پڑھنے گیا تھا؟ قرآن سیکھا، اب اللہ کے دین کو آگے پھیلارہا تھا؟ آج اگر بات کریں تو ایسٹ انڈیا کمپنی والا نظریہ سامنے آرہا ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی والے برصغیر میں آئے تو انہوں نے پہلی رپورٹ میں لکھا کہ : ان کے جو علماء ہیں، ان کو جو پڑھانے والے ہیں، ان کو اللہ اور اس کے رسول (a) کا راستہ دکھانے والے ہیں، ان کی تذلیل کی جائے، ان کی محبتیں دل سے ختم کی جائیں ۔اور جب علماء کی محبتیں دل سے ختم ہوئیں تو پھر ہمیں تاریخ بتاتی ہے مسلمانوں کی برصغیر کے اندر کتنی تذلیل ہوئی، اس لیے کہ ان کے دلوں سے علماء کی محبت نکل گئی تھی۔ آقا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میری امت کے علماء نبیوں کے وارث ہیں۔‘‘خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ جناب ڈپٹی اسپیکر! آج دل خون کے آنسو رورہا ہے، ہم بھی انہی آستانوں، انہی ولیوں، انہی بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں۔ ہمارا دل دکھا کہ ایک شخص کے بیٹے کی شادی بھی ہے، وہ ایک شاعر نے بڑا اچھا کہا تھا: اے شمر بد نہاد! ذرا ہاتھ روک لے سجدے میں سر ہے محوِ عبادت حسینؓ ہے جب سجدے میں سر ہوتا ہے تو کون لوگ ان پر فائرنگ کرتے ہیں؟ جناب ڈپٹی اسپیکر! اس کو بہت دور تک دیکھنا پڑے گا، کل مجھے بڑا دکھ ہوا، ہمارے صوبے کا نام نہاد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کہتا ہے: ہم علماء کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ کوئی مائی کا لال پیدا ہوا ہے جو ہمارے اماموں کو سڑکوں پر گھسیٹے؟ پرویز خٹک صاحب! کیا ہوا اگر آپ ناچ گانے کی محفل میں ذرا لیٹ پہنچ گئے، لوگ احتجاج کر رہے تھے، دل خون کے آنسو رورہا تھا اور جناب ڈپٹی اسپیکر! ۲۹؍ نومبر ہمارے پاکستان اور صوبہ خیبرپختونخوا کے لیے ایک تاریخ ساز دن تھا، جب پرائم منسٹر آف پاکستان تاشقند سے گوادر روڈ کی ابتدا آپ کے حلقے حویلیاں سے کر رہے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص افتتاح پر آنے والے لوگوں کو خطاب کررہا تھا، مگر اس کا دل دکھ رہا تھا، کیونکہ اس کے ساتھ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دوسری نشست پر نہیں تھے، جنہوں نے جانا تھا مگر اپنے ایک ساتھی کے شہید ہونے کے باعث وہ نہ جاسکے۔ جناب! اب وہ افتتاح کی تقریب بھی آہوں اور سسکیوں میں گزر رہی تھی۔ ڈاکٹر خالد ایک چھوٹی شخصیت نہیں تھے۔ ایک شخص کی شہادت، ایک شخص کا قتل، پوری امت اور پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ ہمارا دین کہتا ہے۔ اگر ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی چلی تھی تو انہی علماء کے قدموں کا فیض تھا کہ وہ تحریک چلی اور تاجِ برطانیہ کے خلاف بغاوت ہوئی۔ جناب ڈپٹی اسپیکر! ذرا پیچھے چلیں، تحریک خلافت کا سہرا کس کے سر ہے؟ تحریک پاکستان کا سہرا کس کے سر ہے؟ لوگ کہتے ہیں: ۷۳ء کا آئین، ۷۳ء کے آئین کے اندر تحریک تحفظ ختم نبوت کا سہرا بھی انہی لوگوں کے سر ہے۔ آج ان کی قبریں منور ہیں، میں اگر جائوں سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی ہسٹری پر، حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی ہسٹری پر، شاہ احمد نورانی کی ہسٹری پر، بابا عبدالستار خان نیازی، جو پورا نیازی تھا، دوستو! آدھے راستے کا نیازی نہیں تھا، اس کی ہسٹری پر جائوں تو آج ۷۳ء کے آئین کو جو رونق بخشی، آج لوگ اُسے آئین کہتے ہیں، میں مقدس آئین کہتا ہوں۔ جناب اسپیکر! ذوالفقار علی بھٹو ہوں، ہمارے علماء ہوں، رہتی دنیا تک اُٹھا کے دیکھ لیں، یہ ان میں واحد آئین ہے جو ان علماء کی محنتوں کا (نتیجہ ہے) جن کی کاوشوں کا جن کی قربانیوں کا کہ ۱۹۵۳ء کی وہ مسلم مسجد جو خون سے نہلادی گئی تھی، جس کا خون باہر سڑکوں پر آگیا تھا کون لوگ تھے اس میں ؟ یہی علماء تھے، جنہوں نے پاکستان بنایا تھا، جو پاکستان بچارہے تھے، جو تحفظ ختم نبوت کے مجاہدین بن کر نکلے، آج ڈاکٹر خالد محمود کو پوری قوم، پوری امت سلام پیش کرتی ہے شہادت پر۔ یہ ہماری امت کے علماء جن کی اگر تذلیل ہوگی تو اس امت کی بھی تذلیل ہوتی رہے گی؟ اگر ان پیروں، بزرگوں، علماء کا احترام ہوگا تو پھر رہتی دنیا تک ہمارا احترام جاری رہے گا۔ میں آج بڑے دکھ کے ساتھ ان کی اولاد کو، ان کے مشن کو جاری رکھنے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اللہ کا دین، حدیث پاک، اللہ کا قرآن ان راستوں سے پھیلتا رہے گا، ایک ڈاکٹر کی شہادت سے یہ نہیں رکے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ! کئی ڈاکٹر پیدا ہوں گے۔‘‘     راقم الحروف آپ کی تعزیت کے لیے جب نمائندہ وفد کے ساتھ لاڑکانہ حاضر ہوا تو آپؒ کے صاحبزادہ مولانا محمد راشد محمود نے آپؒ کے کمرہ کی زیارت کرائی اور آپؒ کی ڈائری سے دیکھ کر حضرت  ڈاکٹر صاحبؒ کے قلم سے لکھے ہوئے یہ اشعار سنائے: چلتی بندوق کے میں دھانے پہ ہوں مجھ کو معلوم ہے میں نشانے پہ ہوں قاتلو! قتل گاہیں سجاتے رہو سینے حاضر ہیں گولی چلاتے رہو میں اسلام پر تن من لُٹانے پہ ہوں مجھ کو معلوم ہے میں نشانے پہ ہوں میں خاک نشیں ہوں مری جاگیر مصلیٰ شاہوں کو سلامی مرے مسلک میں نہیں ہے     اسی طرح حضرت ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ:’’وہ قوم سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کیسے کرسکتی ہے جو موالی کو مولائی ، ڈرائیور کو استاذ، استاذ کو ماسٹر، جابر اور ظالم زمیندار کو سائیں اور داداگیر کو کامریڈ سمجھے۔‘‘ اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا:’’آپ کے خوش رہنے میں، آپ کے دشمن اور آپ کے بارہ میں غلط سوچنے والوں کے لیے بڑی سزا ہے۔‘‘ بہرحال آپ کی بالکل سادہ اور محنت سے معمور زندگی تھی۔مولانا ڈاکٹر خالد محمود ایک تاریخ تھے، ہم نے آپ کے کمرہ کی زیارت کی جو آپ کا دفتر بھی تھا، لائبریری بھی ، قیام گاہ بھی وہی تھی، وہی مطالعہ گاہ بھی اور تمام اہل خانہ کی ملاقات کی نشست بھی وہی تھی۔دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت ڈاکٹر صاحب کا جنازہ ایک مثالی جنازہ تھا، لاڑکانہ کا اسٹیڈیم حاضرین کے سامنے اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا اور جنازہ میں شریک عوام اپنے محبوب قائد کی جدائی میں نوحہ کناں تھی۔     حضرت ڈاکٹر صاحب نے پسماندگان میں ایک بیوہ، چھ بیٹے،اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت ڈاکٹر صاحب کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور ان سے اپنی رضا ورضوان کا معاملہ فرمائے۔ ٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین