بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوریؒ آہ!


ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوریؒ
آہ! قلم شل ہوگیا، اور مؤرخِ ملت رخصت ہوگیا


۱۹؍جمادی الاخریٰ ۱۴۴۲ھ مطابق۳؍فروری۲۰۲۱ء بروز منگل دو پہر سے پہلے گیارہ بجے، ماہرِ ابوالکلامیات، جماعتِ شیخ الہندؒ کے معتبر مؤرخ، مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحبؒ کے قلم کے جانشین، امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے محقق شیدائی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور اُن کے خانوادے کے خوشہ چیں، میرے جدِ امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ کے متوسل، محقق ومؤرخِ ملت استاذ ڈاکٹر حافظ ابو سلمان صاحب شاہجہاں پوریؒ اس دنیائے فانی کی نوے بہاریں دیکھ کر عالمِ آخری کی طرف منتقل ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون .
سرکاری کاغذات کے مطابق ڈاکٹر صاحبؒ ۳۰؍جنوری ۱۹۴۰ء کو ہندوستان کے مردم خیز علاقے ’’شاہجہاں پور‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ گرامی جناب محمد حسین خاں (خاں میں نون غنہ ہے۔ خان اور خاں میں فرق ہے) مرحوم یوسف زئی تھے، لیکن ہندوستان ہجرت کی، اس لیے خان ’’سے‘‘ خاں‘‘ ہوگئے۔ یہ باریک نکتہ آج اہلِ قلم نظر انداز کرچکے ہیں۔
راقم الحروف نے ’’سرکاری کاغذات‘‘ کے مطابق تاریخِ پیدائش لکھی ہے، جس سے معقول دلیل کے ساتھ مجھے اتفاق نہیں ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی پیدائش ۱۹۴۰ء سے پہلے کی ہے، اس لیے کہ ڈاکٹر صاحبؒ اپنے برادرِ بزرگ جناب احمد حسین خاں صاحب مرحوم کے ساتھ ۱۹۵۰ء میں پاکستان آگئے تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ جب ہجرت کرکے پاکستان آئے تو اس وقت ان کی تعلیمی سرگرمیاں مدرسہ شاہی مراد آباد میں گزررہی تھیں۔ اس سے پہلے مدرسہ سعیدیہ، جامع مسجد شاہجہاں پور میں اپنے چچا حضرت مولانا عبد الہادی خاں شاہجہاں پوری (تلمیذِ رشید مفتیِ اعظم حضرت مولانا محمد کفایت اللہ دہلویؒ) کی سرپرستی اور اہتمام میں قرآن مجید حفظ کر چکے تھے۔ پھر مدرسہ شاہی میں ابتدائی عربی وفارسی کی تعلیم جاری تھی۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ۱۹۳۳ء ڈاکٹر صاحب کی پیدائش ہے۔ سرکاری کاغذات میں تاریخِ پیدائش بعد کی لکھوانے میں شاید ملازمت وغیرہ کے لیے حکمت ہو۔
میرے لیے اس کی دلیل وہ واقعہ ہے جو ڈاکٹر صاحبؒ نے مجھ ۲۶؍اپریل ۲۰۰۴ء کو سنایا تھا اور میں نے اُسے اپنی ڈائری میں درج کرلیا تھا، اس سے نقل کرتاہوں، ڈاکٹر صاحبؒ فرمانے لگے:
’’بمبئی کے ایک تاجر نے مراد آباد کے مدرسہ شاہی کے اساتذہ کرام کے لیے اپنی طویل وعریض حویلی کا ایک حصہ دے رکھا تھا۔ اسی حصے میں مولانا عبد الحق صاحب مدنیؒ (جو اس وقت مدرسہ شاہی کے مہتمم تھے) اور اُن کی فیملی رہتی تھی۔ ایک کمرہ مولانا نے مجھے بھی دے رکھا تھا۔ بمبئی کے ان تاجر کا انتقال ہوچکا تھا، ایک مرتبہ مولانا حج کو گئے، تو اُن تاجر کی بیوہ، جو بہت بوڑھی تھیں نے اسماعیل (ابن مولانا عبد الحق صاحبؒ) سے کہا: تیرے ابا تجھے چھوڑ گئے، تو مجھ سے نکاح کرلے، میں تجھے حج پر لے جاؤں گی۔ وہ سن کر خاموش ہوگئے، پھر کئی مرتبہ اسی طرح کہا، گھر میں عورتیںہنس کر خاموش ہوجاتی تھیں۔ میں نے اسماعیل سے کہا: اب کہیں تو ہاں کہہ دینا۔ بڑی بی نے پھر کہا، تو انہوں نے ہاں کہہ دیا۔ نکاح کا ایجاب وقبول ہوگیا، خاموشی ہوگئی۔ ایک دن میں نے مولوی اسماعیل سے کہا کہ: بھئی! نکاح تو ہوگیا، تم ایک استفتاء لکھو اور مدرسے سے جواب لو، پھر میں نے ہی استفتاء مرتب کیا، جواب لکھا گیا، مولانا حج سے آگئے، ’’الجواب صحیح‘‘ پر ان کے دستخط بھی ہوگئے۔ جب فتویٰ رجسٹر میں درج ہونے گیا تو رجسٹرار نے پوچھا کہ یہ استفتاء کس نے دیا تھا؟ بہت تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ مولوی اسماعیل نے دیا تھا اور تصدق حسین نے مرتب کیا تھا، انہوں نے کہا: اچھا! واقعہ کس کے ساتھ پیش آیا؟ بہت اصرار کے بعد مولوی اسماعیل نے سارا قصہ سنادیا۔ رجسٹرار نے مولانا عبد الحق صاحب مدنیؒ کو کہا: بھئی ! مبارک ہو، آپ نے بیٹے کی شادی کردی اور ولیمہ بھی نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا: کیا کہتے ہو؟ میں نے شادی نہیں کی۔ انہوں نے اُنہی کے دستخط والا فتویٰ سامنے رکھ دیا کہ دیکھئے! مولانا گھر گئے اور جاکے بیوی سے پوچھا کہ کیا ایسا واقعہ پیش آیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ: ہاں! مذاق مذاق میں بڑی بی کہتی تھیں اور اسماعیل نے ایک دن کہا کہ: ٹھیک ہے۔ مولانا عبد الحق صاحبؒ نے کہا: تو ٹھیک ہے، آپ کو بہو مبارک ہو۔ بڑی بی کو پتا چلا تو بڑی بھنائیں، کہنے لگیں کہ یہ سب ’’تصدق‘‘ کا کیا دھرا ہے۔ میں جب تک وہاں رہا تو طلاق نہیں دی گئی تھی۔ بڑی بی کے بیٹے بڑے فکر مند تھے کہ بڑی بی مرگئیں تو وراثت میں اُن کے نئے شوہر کا بھی حصہ ہوگا۔                                (یادِماضی، قلمی نسخہ ، ج:۱، ص:۱۱۲)
اس واقعے کی گہرائی سے یہ پتا چلتا ہے کہ دس سال کا بچہ ایسا پیچیدہ استفتاء مرتب نہیں کرسکتا، اس لیے میں کہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحبؒ سرکاری کاغذات میں لکھے گئے سنِ پیدائش سے سات آٹھ سال بڑے ہیں، واللہ اعلم۔
مولانامحمد اسماعیل صاحبؒ ڈاکٹر صاحبؒ کے ہم سبق تھے، مدرسہ شاہی میں ساتھ پڑھتے تھے، شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں صاحبؒ کے برادرِ نسبتی تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کا اصل نام ’’تصدق حسین خاں‘‘ تھا، پھر ابوسلمان کیسے ہوگئے؟ اس کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ کی بات معتبر ہے، فرماتے تھے: ’’اصل نام تصدق حسین خاں ہے، لوگ شیعہ سمجھتے تھے، لکھنے پڑھنے کے شوق میں ابوسلمان کنیت اختیار کرلی۔‘‘                                             (یادِ ماضی، ج:۱، ص:۱۰۷)
تقسیمِ ہند کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ ناگہاں ہنگاموں کی زد میں رہے اور اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ پاکستان آمد کے بعد مئی ۱۹۵۰ء میں سندھ کے شہر نواب شاہ میں سکونت اختیار کی۔ ہجرت کے بعد معاش کی پریشانی رہی، مدرسہ شاہی میں تعلیم کا حصول اب ممکن نہیں تھا، اسی زمانے میں نواب شاہ کی ایک مسجد میں پیش امام بھی رہے۔ دس گیارہ سال کا بچہ امام بننے کی شرعی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ بھی میرے لیے ایک دلیل ہے کہ ان کی پیدائش ۱۹۴۰ء کی نہیں ہے۔ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری کرلیا، لیکن درسِ نظامی نہیں کیا، بلکہ عصری تعلیم ۱۹۶۲ء میں میٹرک کیا، بی اے کا امتحان ۱۹۶۸ء میں پاس کیا۔ ایم اے ۱۹۷۰ء میں کیا۔ پی. ایچ.ڈی ۱۹۸۰ء میں اپنے استاذ گرامی ڈاکٹر سخی احمد صاحب ہاشمی مرحوم کی زیرِ نگرانی کیا۔ آپ کا پی. ایچ. ڈی کا مقالہ ’’تذکرۂ خانوادۂ ولی اللّٰہی‘‘ (از:سرسید احمد خاں مرحوم) کی تحقیق پر تھا۔
ڈاکٹر صاحبؒ ۱۹۶۰ء سے پہلے نواب شاہ سے کراچی منتقل ہوگئے تھے، اور پھر کراچی ہی کو اُن کے مسکن کا شرف مل گیا۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ معاش میں سہولت کے لیے مختلف مقامات پر خدمات بھی انجام دیں، ان پر ایک نظر ڈال لیجئے:
تدریس: مدرسہ تعلیم القرآن، ہولی قرآن سوسائٹی، کراچی (۱۹۵۷ء سے ۱۹۶۲ء)۔ انسپکٹر: مدارس ہولی قرآن سوسائٹی، کراچی (۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۲ء)۔ جزوقتی: انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی (شعبہ قاموس الکتب، ۱۹۶۵ء سے اگست ۱۹۸۸ء تک)۔ نائب مدیر: سہ ماہی اردو کراچی (۱۹۸۵ء سے اگست ۱۹۸۸ء تک)۔ تدریس کالج: یکم فروری ۱۹۷۲ء سے ۲۹؍جنوری ۲۰۰۰ء(ریٹائرمنٹ) تک، نیشنل کالج اور مولانا عبد الحامد بدایونی کالج کراچی۔(کل اٹھائیس سال) 
ڈاکٹر صاحبؒ کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کتابوں میں لگتا تھا، آپ کتابوں کے پبلشر بھی تھے اور آپ کی لائبریری پاکستان کی گراں قدر لائبریریوں میں ایک تھی۔ پروفیسر محمد ایوب صاحب فاروقیؒ آپ کے کتب خانے کے بڑے قدر دانوں میں سے ایک تھے۔ آپ کے قائم کیے ہوئے ادارے یہ تھے:
۱-: مکتبہ سعدیہ لیاقت آباد، کراچی (۱۹۶۱ء)۔ ۲-:مکتبۃ الشاہد، کراچی (۱۹۷۲ء)۔ ۳-:ادارہ تصنیف وتحقیق پاکستان، کراچی (۱۹۸۳ء)۔۴-: مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ اکیڈمی، کراچی (۱۹۸۶ء)۔۵-:مجلسِ یادگارِ شیخ الاسلام، پاکستان، کراچی (۱۹۸۶ء)۔۶-:ادارہ تحقیقاتِ افکار وتحریکاتِ ملی، کراچی (۱۹۸۸ء)۔۷-:مجلسِ یادگار محمد امین خان کھوسوؒ، کراچی (۱۹۹۱ء)۔۸-:مولانا دین محمد وفائیؒ اکیڈمی، کراچی (۱۹۹۲ء)۔۹-:مجلسِ یادگارِ مہرؒ، کراچی (۱۹۹۲ء)۔۱۰-: مولانا احتشام الحق تھانویؒ اکادمی، کراچی (۱۹۹۳ء)۔۱۱-:مولانا ابو الکلام آزادؒ ،ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی (۱۹۹۶ء)۔۱۲-: مولانا عبیداللہ سندھیؒ اکادمی، کراچی (۱۹۹۷ء)۔ ۱۳-:مجلسِ یادگارِ شورش پاکستان، کراچی (۱۹۹۹ء)۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ ’’مقتدرہ‘‘ جب کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اس سے علاحدہ ہوگئے تھے، کیونکہ اسلام آباد جانا اور وہاں سکونت اختیار کرنا ممکن نہیں تھا۔
ڈاکٹر صاحبؒ کا موضوع برِاعظم پاک وہند کا وہ زمانہ تھا، جس میں ہمارے اکابر اور بزرگوں نے انگریز ملعون سے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر صاحبؒ اپنے موضوع کو آزادیِ بر اعظم تک محدود رکھتے تھے۔ آزادی کے بعد کی سیاست کو موضوع نہیں بنایا، البتہ ہمارے بزرگوں نے آزادی کے بعد جو خدمات انجام دیں، وہ اس تاریخ کے بھی طالب علم تھے۔
ڈاکٹر صاحبؒ نے جس مجاہدِ آزادی کی خدمات کو اُجاگر کیا، اس میں حق ادا کرتے چلے گئے۔ مخدومی ومرشدی حضرت اقدس مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم (صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیت علمائے ہند) سے میں نے خود سناہے، فرمانے لگے کہ: 
’’آپ کے ہاں تاریخ کو زندہ رکھنے والے اور اس کو تحریر میں لانے والے ڈاکٹر ابوسلمان صاحب ہیں، اور انہوں نے حق ادا کردیا ہے، ہمارے ہندوستان میں مولانا سید محمد میاں صاحبؒ پر یہ خوبی ختم ہوگئی، اب ہمارے ہاں لکھاری کوئی نہیں ہے۔‘‘ 
اس لیے راقم نے مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ؒ کا جانشین حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کو سمجھا ہے اور اسی لیے ڈاکٹر صاحبؒ    ’’مؤرخِ ملت‘‘ ہیں۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی کتابی خدمات کے اعداد وشمار ایک نظر ڈال لیجئے:تالیفات کی تعداد :۳۶۔ تصنیفات کی تعداد :۹۔ مرتبات کی تعداد :۹۱۔ تدوینات کی تعداد: ۲۴۔ کل تعداد کم وبیش :۱۶۵۔وہ مقالات جو میں نے جمع کیے، یا اُن کی معلومات مجھے ہوگئی، اُن کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔ صرف کتابوں کے صفحات (چھوٹے بڑے ملاکر) ۳۳۰۰۰ بنتے ہیں۔ مقالات کے صفحات اس کے علاوہ ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ؒ نے پاکستان میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کی خدمات وفکر کو بلاخوف اُجاگر کیا۔ مولانا آزادؒ پر ڈاکٹر صاحبؒ کی خدمات اس نہج پر پہنچ گئی تھیں کہ اُن کی تحریر اور قول کو سند کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ۱۹۸۶ء میں ’’آزاد صدی‘‘ کے سلسلے میں تن تنہا وہ خدمات انجام دیں کہ ہندوستان کے اہلِ قلم بھی اُن سے ایک عدد میں پیچھے رہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے قلم سے حضرت امام الہند مولانا آزادؒ کے لیے خدمات اپنے معاصر سے کہیں زیادہ ہیں۔ مولانا آزاد پر ڈاکٹر صاحبؒ کی کتابوں کی تعداد ۳۸ ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بہت تعلق تھا، اُن کی فکر اور اُن کی عظمت ڈاکٹر صاحبؒ کے ہاں سب سے زیادہ تھی، بات بات پر حضرت شیخ الاسلام ؒ کا حوالہ دیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی زندگی کا پہلا مقالہ حضرت شیخ الاسلامؒ پر اُن کی وفات پر لکھا، جو ۲۳ دسمبر ۱۹۵۷ء کو ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور میں شائع ہوا۔
حضرت شیخ الاسلامؒ پر ڈاکٹر صاحبؒ کی کتابوں کی تعداد ۱۰ ہے۔ اس میں حضرت شیخ الاسلامؒ کے استاذِ گرامی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن محدث دیوبندیؒ اور اُن کی فکر وخدمات پر بھی کتب ہیں۔
ڈاکٹر صاحبؒ کا ایک ملفوظ مجھے اس وقت یاد آرہا ہے، جو اُن سے بارہا میں نے سنا ہے، فرماتے تھے: 
’’حضرت شیخ الہندؒ اوراُن کی جماعت کی فکر کے خلاف جس جس نے کام کیا ہے ( بطور مؤرخ) میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ وہ حضرت شیخ الہندؒ اور دارالعلوم دیوبند کے خلاف پسِ پردہ کام کرتا رہا ہے، میں کیسے نرمی کرسکتا ہوں؟۔‘‘
ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ: جب حضرت شیخ الاسلامؒ کی ذاتی ڈائری پر کام شروع ہوا، میں ہندوستان گیا اور حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنیؒ نے جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں قیام کرایا، مولانا بیماری کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے، میں پاس بیٹھا تھا، مولانا نے فرمایا: ’’ڈاکٹر صاحبؒ! آپ نے والد صاحب (حضرت مدنیؒ) کو پڑھا ہے، اُن کی فکر کو گھول کر پی لیا ہے، آپ کو کہیں اُن کی بات میں جھول نظر آیا ہو تو بتایئے۔‘‘ڈاکٹر صاحبؒ نے جواباً عرض کیا: ’’ہاں ! ایک جگہ ایسا ہوا کہ حضرت شیخ الاسلامؒ غلطی کرگئے۔‘‘حضرت فدائے ملت مولانا اسعد صاحب مدنیؒ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور سوال کیا: وہ کیا؟‘‘ڈاکٹر صاحبؒ نے جواب دیا: ’’جب قاری طیب صاحبؒ پاکستانی ہوگئے تھے، اس کے بعد اُنہیں واپس بلانے کی غلطی حضرت شیخ الاسلامؒ سے ہوئی۔‘‘ حضرت فدائے ملتؒ  مسکرا کر خاموش ہوگئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحبؒ اپنے محبوب اکابر کو معصوم نہیں سمجھتے تھے، پھر یہ بھی پتا چل گیا کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے ہاں تاریخ میں چشم پوشی نہیں تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے، ان کی کتابوں کے مطالعے سے بہت بڑی تاریخ سامنے آجاتی ہے۔
ڈاکٹر صاحبؒ دلائل کے ساتھ حضرت سندھی نور اللہ مرقدہ سے عقیدت رکھتے تھے، حضرت سندھیؒ پر ڈاکٹر صاحبؒ کی کتابوں کی تعداد ۹ ہے۔اس کے علاوہ مختلف کتب ہیں، راقم نے ڈاکٹر صاحبؒ کی ’’قلمی خدمات‘‘ کے عنوان سے ان کو جمع کردیا ہے۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی خدمات پر مشاہیر نے جو تأثرات پیش کیے، ان کا خلاصہ یہ ہے:
ہندوستان میں آزاد صدی کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی، لیکن پاکستان میں اس کامنایا جانا خالص ادبی اور تہذیبی روایت کے پس منظر میں تھا، یایوں کہیے کہ یہ مولانا آزادؒ کے علم وفضل کی ایک کرامت تھی۔محترم پروفیسر ڈاکٹر ریاض الرحمن شروانیؒ آزادی صدی موقع پر تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستان میں اس جشن کے کسی بڑے پیمانے پراہتمام کی توقع کم تھی، حال آں کہ وہاں بھی مولانا کے عقیدت مندوں کی کمی نہیں ہے، تاہم وہاں کی سیاسی فضا کے پیش نظر خیال ہوتا تھا کہ شاید وہ کچھ زیادہ نہ کرسکیں۔ مولانا کے معروف پاکستانی عقیدت مندوں میں مولانا غلام رسول مہر، جناب عبداللہ بٹ اور آغا شورش کاشمیری پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، اب جو کچھ توقع ہوتی تھی، ایک ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری سے ہوتی تھی، وہ پہلے بھی مولانا پر بہت کام کرچکے تھے۔ ابوسلمان صاحب نے نہ صرف اس توقع کو پورا کرلیا، بلکہ اس پیمانے پر پورا کیا جس پیمانے پر ہندوستان میں بھی کوئی فردِ واحد نہیں کرسکا۔‘‘                     (اسلام ور عصرِ جدید، ج: ۲۴، شمارہ: ۱، جنوری ۱۹۹۲ء، ص:۵۵،۵۶)
ڈاکٹر صاحبؒ نے ایک منظم منصوبے کے تحت آزاد نیشنل کمپنی پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک وسیع اشاعتی منصوبہ بنایا، اس کا آغاز ۱۹۸۶ء میں کیا اور آخری کتاب ۱۹۹۱ء میں شائع کی۔ اس طرح پانچ سال میں محنت ولگن کے ساتھ چوبیس کتابیں ’’آزاد صدی‘‘ کے سلسلے میں شائع ہوئیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحبؒ اس اہم علمی اور تاریخی منصوبے میں ممتاز اور نمایاں مقام پر نظر آتے ہیں، جب کہ ہندوستان میں ’’آزاد صدی‘‘ کے سلسلے میں تئیس کتابیں شائع ہوئی تھیں۔
ڈاکٹر صاحبؒ کے علمی اور تحقیقی کاموں پر اصحابِ ذوق اور اہلِ علم نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا ہے، جو ڈاکٹر صاحبؒ کی قلمی خدمات پر اعتماد کی دلیل ہے۔ محترم ڈاکٹر ریاض الرحمٰن صاحب شروانیؒ لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری علم وعمل کا ایسا سنگم ہیں، جس کی مثالیں اگر نایاب نہیںتو کم یاب ضرور ہیں۔ انہوں نے مولانا ابو الکلام آزادؒ کے محقق اور ترجمان کی حیثیت سے جو امتیاز اور شہرت حاصل کی ہے، وہ موجودہ دور میں کسی اور کو حاصل نہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۸ء میں ’’مولانا آزاد صدی‘‘ کے موقع پر کراچی (پاکستان) میں بیٹھ کر آزاد پر دو درجن اہم اور قابلِ مطالعہ کتابوں کی اشاعت کا کارنامہ انجام دیا۔ مولانا آزادؒ کے سلسلے میں اُن کی خدمات تاحال جاری ہیں۔‘‘             (کتاب نما دہلی کا ڈاکٹر ابوسلمان نمبر: ص:۶۱)
محترم شروانی صاحبؒ مزید لکھتے ہیں:’’ڈاکٹر ابوسلمان صاحب کی علمی اور عملی کاوشوں کا مرکز تنہا مولانا ابو الکلام آزادؒ کی ذات گرامی نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ وسیع تر ہے۔ دراصل وہ ’’تحریکِ دیوبند‘‘ جس کا رشتہ تحریکِ ولی اللّٰہی سے جاملتاہے کے مناد ونقیب ہیں۔ اس مناسبت سے انہوںنے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ سب کے علمی، دعوتی اور عملی کارناموں کو اُجاگر کرنے کا بیڑا اُٹھایاہے۔‘‘    (کتاب نما نمبر، ص:۶۱)
راقمِ سطور بہ بانگِ دہل کہتا ہے کہ علمی وعملی جدوجہد میں ڈاکٹر صاحبؒ سرخ رو ہوئے۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ! خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کے سابق ڈائریکٹر جناب محمد ضیاء الدین صاحب انصاری لکھتے ہیں:’’ہمارے کرم فرما ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری علمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ متعدد اہم کتابوں کے مؤلف، مرتب اور مدون ہیں، اور یہ تمام کتابیں برصغیر ہندوپاک میں قبولِ عام حاصل کرچکی ہیں، اور بڑی دل چسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ خدا بخش لائبریری کو بھی آپ کی کئی کتابوں کو شائع کرنے کی سعادت نصیب ہوچکی ہے، اور یہ اعتراف کرتے ہوئے مجھے مسرت ہوئی ہے کہ ان کتابوں کی اشاعت سے لائبریری کے اشاعتی منصوبوں کی افادیت اور وقعیت میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘                                              (کتاب نما نمبر،ص: ۶۲)
ممتاز ادیب اور صاحبِ قلم حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں: ’’مجلہ علم وآگہی کراچی کا ادارے نمبر) جلد اول کا آغاز جناب ابوسلمان شاہجہاں پوری کے مقدمے سے ہوا ہے، جس میں برِصغیر کے علمی، ادبی اور تعلیمی اداروں او ران کے مختلف نقطہ ہائے نظر کا مجموعی جائزہ بڑے سلیقے اور سلامتِ فکر کے ساتھ پیش کیاگیاہے۔ اس مضمون سے معلوم ہوتاہے کہ فاضل مضمون نگارنے برِصغیر کی مختلف تحریکوں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے، اور اُسے سنے سنائے نعروں پر اعتماد کرنے کے بجائے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ علی گڑھ، دیوبند اور ندوہ تینوں کے بارے میں ان کی رائے نہایت متوازن اور سنجیدہ مطالعے کی آئینہ دار ہے۔‘‘     (ماہ نامہ البلاغ کراچی، اگست ۱۹۷۶ء)
استاذی حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی شہیدؒ    تحریر فرماتے ہیں:
’’جناب پروفیسر ابوسلمان شاہجہاں پوری ہمارے ملک کی قابلِ قدر علمی شخصیت ہیں، جن کے قلم سے کئی کتابیں نکل کر اہلِ علم سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔‘‘   (ماہ نامہ بینات کراچی، جنوری ۱۹۷۹ء)
مرشدی ومخدومی حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم (صدر جمعیت علمائے ہند) ہندوستان کے وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ وانسانی وسائل (۲۰۱۲ء) جناب ای احمد صاحب کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:’’ڈاکٹر ابوسلمان صاحب شاہجہاں پوری برِاعظم ہندو پاک کے نام ور مصنف ومحقق ہیں۔ تاریخ وسوانح ان کا خاص موضوع ہے۔‘‘                       (۴؍ستمبر ،۲۰۱۲ء)
ڈاکٹر صاحبؒ کے نام مشاہیر کے خطوط کا ایک ذخیرہ ہے، جو حالات سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے، ان خطوط کی تعداد کم و بیش ایک ہزار ہے۔ اگر تمام خطوط محفوظ ہوتے تو ان کی تعداد تین گنا تک پہنچ جاتی، ان میں مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاںؒ، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ، سید ابو الاعلیٰ مودودی، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی  ؒ، ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمیؒ، ڈاکٹر ریاض الرحمٰن شروانیؒ، حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ جیسی شخصیات شامل ہیں۔ یہ ترتیب کے مراحل میں ہیں، ان شاء اللہ! جلد طبع ہوں گے۔
ڈاکٹر صاحبؒ نے جس ماحول میں تربیت پائی تھی، اس ماحول کا اثر بزرگوں کے عقائد اور اعمال و افعال پر ہمیشہ رہا اور سنت کے مطابق رہا، اور نہایت معتدل رہے۔ ان بزرگوں کے ہاں قرآن کریم کے حکم کے مطابق تزکیۂ نفس پر بہت توجہ رہی، اس کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ نے ۸؍ جولائی۲۰۰۶ء کو میرے جدِامجد حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  سے بیعت کرلی تھی، اور حضرت قاری صاحبؒ نے چاروں سلسلوںمیں بیعت کیا تھا، جو اعلیٰ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ سے بہ واسطہ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ اور حضرت جی مولانا سید حامد میاں صاحب ؒ حضرت قاری صاحبؒ تک پہنچا تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ اپنے شیخ کے بتائے ہوئے اذکار پر عامل تھے۔
ڈاکٹر صاحب ؒ کئی سال سے مختلف عوارض کا شکار تھے۔ تقریباًدو سال کا عرصہ ہوتا ہے کہ ذہول بھی ہونے لگا تھا، پھر رفتہ رفتہ ضعف میں اضافہ ہوتا رہا، اور آخر میں بات چیت اور لکھنا پڑھنا سب ختم ہوگیا تھا۔ میری اُن سے آخری ملاقات ۱۰؍ جنوری ۲۰۲۱ء (وفات سے بائیس دن پہلے) ہوئی تھی، ان کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ کھانا تقریباً بند ہوچکا تھا، صرف ہونٹ اور زبان حرکت میں تھی اور کسی کسی وقت قرآن مجید کی آیت کی ابتدا یا انتہا سمجھ میں آجاتی تھی، اور اسم ذات اللہ اللہ کا ذکر سمجھ میں آجاتا تھا، اس سے محسوس ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت جاری ہے۔
اللہ رب العزت نے ڈاکٹر صاحبؒ کو ۲؍ فروری کو اپنے پاس بلالیا، جو حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ  کی بھی تاریخِ وفات ہے۔ اُمید ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ سے ان کے اور ہمارے رب باری تعالیٰ نے وہ معاملہ فرمایا ہوگا جس کی خواہش ڈاکٹر صاحبؒ نے بہ طور دعا یہ فرمائی تھی:
’’میرے طالب علمانہ ذوق اور مولانا ابوالکلامؒ سے میری عقیدت اور مجھ پر مولانا (غلام رسول) مہر مرحوم کی شفقت کی اس سے بڑی کوئی سند نہیں ہوسکتی، آں مرحوم میرے لیے مثل استاذ اور شفیق مربی کے تھے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں بزرگوں کو اعلیٰ علّییّن میں جگہ دے اور مجھے ان کا قرب اور معیت نصیب فرمائے، آمین!‘‘                          (مکتوباتِ سامی، ص:۹۵، حاشیہ)
ڈاکٹر صاحبؒ کے ایک ہی صاحب زادے جناب شاہد حسین خاں تھے، جو مارچ ۲۰۱۱ء میں فوت ہوگئے۔ڈاکٹر صاحبؒ کی پانچ صاحب زادیاں ہیں، اور سب صاحبِ اولاد ہیں، ایک کے علاوہ باقی حیات ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا صدقۂ جاریہ اُن کی تالیفات و تصنیفات ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحبؒ کی علمی و تاریخی لائبریری (کتب خانہ) بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ اپنی زندگی کے اس حصے میں جب بھاگ دوڑ پر قادر تھے، وہ لائبریری راقم الحروف کو عنایت فرما دی تھی، میں نے اُسے اپنے جدِ امجد حضرت قاری صاحبؒ کے مدرسے میں قائم کردیا۔ ڈاکٹر صاحبؒ اُسے مرتب کرنے کے لیے اتوار اتوار تشریف لاتے تھے، کتابوں کو چھانٹ کر مجھے دیتے تھے اور میں الماری میں لگاتا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے اس عمل سے مجھے لائبریری میں ڈاکٹر صاحبؒ کا ذوق سمجھ آگیا۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے پھر اپنی صحت کی وجہ سے اتوار کو آنا چھوڑ دیا تھا، یہ آج سے پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد میں نے وہ لائبریری مرتب کرلی تھی، اب اس کی فہرست شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تاکہ استفادہ آسان ہو، اگرچہ اب بھی وقتاً فوقتاً اصحابِ ذوق استفادے کے لیے آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی لائبریری میں ساڑھے نو ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ اے کاش! ڈاکٹر صاحبؒ کی لائبریری کو حادثہ پیش نہ آیا ہوتا تو یہ تعداد دگنی ہوتی۔ کراچی میں ۱۹۸۰ء کے بعد لسانی فسادات ہوئے، علی گڑھ کالونی میں جہاں ڈاکٹر صاحبؒ کا مکان تھا، ہنگامے شدید تھے، اسی موقع پر ڈاکٹر صاحبؒ کے مکان کو بھی شر پسندوں نے آگ لگادی تھی، اور کتابیں اور رسائل کی فائلیں سڑک پر رکھ کر جلائی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ بے بس سامنے کھڑے دیکھ رہے تھے، اس وقت ڈاکٹر صاحبؒ کے صبر کی کیا کیفیت ہوگیـ؟ اللہ ہی جانتا ہے۔اس لائبریری کو نقصان پہنچانے میں کراچی کی ایک جماعت، جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر فسادات کرانے کی ماہر ہے، پوری پوری شریک تھی۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ: اس کے کارکن( جنھیں میں جانتا تھا) کتابیں نکال کر لاتے تھے اور آگ لگاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اُن کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین