بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ڈائینٹیک سینٹر کا دعویٰ اور اسلامی تعلیمات

ڈائینٹیک سینٹر کا دعویٰ اور اسلامی تعلیمات


کیا فرماتے ہیں علماء دین ذیل کے مسئلہ کے بارے میں کہ:
یورپ ‘ امریکا میں ڈائینیٹک سینٹر کے نام سے کوئی ادارہ کام کررہا ہے‘ اس کی برانچیں کراچی سمیت پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی سیلف امپرومنٹ Self Imporvement(شخصیت کو بہتر بنانا) کے لئے کام کررہے ہیں‘ یہ لوگ اس کو جدید سائنس کا نام دیتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق انسان کے ساتھ جو زیادتی ہوتی ہے یا کوئی تکلیف دہ واقعہ پیش آتا ہے یا کوئی انسان خود کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے‘ مثلاً کسی کامال ہڑپ کرجانا‘ کسی کو گالی دینا‘ لڑائی جھگڑا کرنا‘ اپنی والدہ‘ بہن ‘ بھائی یا خود کا اپنے والد سے پٹنا‘ اندھیرے‘ یا کسی ان دیکھی چیز سے خوف کھانا اور کسی بھی گناہ کا ارتکاب کرنا وغیرہ وغیرہ یا یہ سارے عمل خود کسی کے کے ساتھ کرنا‘ دونوں صورتوں میں یہ چیزیں انسان کے دماغ میں اسٹور (ذخیرہ) ہوجاتی ہیں‘ جوکہ انسان کی روح کو بیمار کرتی ہے اور انسان کو تمام عمر بے چین ‘ پریشان رکھتی ہے۔ ڈائینیٹک سینٹر سے وابستہ افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانی ذہن میں ذخیرہ ہونے والے گناہ کے کاموں یا کسی بھی تکلیف دہ واقعہ کو دنیا کی کوئی ٹیکنک نکال نہیں سکتی ہے‘ جس کی وجہ سے انسان مرتے دم تک تکلیف ‘ پریشانی اور ٹینشن میں رہتا ہے اور انسان کی موت بھی تکلیف وہ ہوتی ہے‘ یہ کام صرف ڈائینیٹک سینٹر کی ٹیکنک سے ہی ہوسکتا ہے۔براہ کرم اس مسئلہ میں قرآن وحدیث سے مکمل رہنمائی فرمائیں۔
محمد ایوب‘ ۱۱-بی‘ ہاشو سینٹر‘ عبد اللہ ہارون روڈ‘ صدر‘ کراچی۔
الجواب حامدا ومصلیا
مذکورہ ڈائنیٹک سینٹر کے مقاصد جاننے سے پہلے پریشانی اور ابتری کے معنی متعین کرنا ضروری ہے‘ جس کی بناء پر زندگی کی سکون کی راہ خود متعین ہوجائے گی۔ لوگوں نے مصیبت وپریشانی ‘ دکھ درد بیماری افلاس‘ تنگ دستی‘ جیل‘ قید وبند‘ مار دھاڑ‘ قتل وغارت‘ قحط وباء وغیرہ کو سمجھ رکھا ہے‘ حالانکہ ان میں سے ایک چیز بھی مصیبت نہیں‘ یہ صرف واقعات اور حوادث ہیں‘ پریشانی اور مصیبت درحقیقت ان سے دل کا اثر لینا‘ تشویش میں پڑنا اور تنگ دل ہونا ہے۔ پس یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ اسباب مصیبت کہلائی جاسکتی ہے‘ مصیبت نہیں۔ مصیبت درحقیقت اس قلب کی تاثیر کا نام ہے جس کو حضور اکرم ا نے اپنی ایک حدیث میں اس طور پر بیان فرمایا ہے کہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگتا ہے‘ جیساکہ مشکوٰة شریف میں ہے:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا ان المومن اذا اذنب کانت نکتة سوداء فی قلبہ فان تاب واستغفر صقل قلبہ وان زاد زادت حتی تعلو قلبہ فذالکم الران الذی ذکر اللہ تعالیٰ ”کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون“ (باب الاستغفار والتوبة ص:۲۰۴ ط سعید)
اور اسی تاثیر کو یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جس کے وجہ سے روح بیمار ہوجاتا ہے‘ کیونکہ روح کا تعلق بھی اسی قلب کے ساتھ ہوتا ہے‘ جب اس تاثیر اور کیفیت کا تعلق روح کے ساتھ ہے اور روح اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی ایک امر ہے‘ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا“۔ (بنی اسرائیل:۸۵)
تو اس کے علاج کے لئے اور اس قسم کی تاثیر کو ختم کرنے کے لئے سینٹرز بنانے کی ضرورت نہیں اور نہ اس تاثیر کے خاتمے کے لئے یہ تدبیریں کبھی معقول اور کارگر ہوسکتی ہیں‘ بلکہ اس کا علاج بھی روحانی ہونا چاہئے اور اس کے لئے صرف یہی ہوسکتا ہے کہ ان حوادث کے پیش آنے پر قلبی تشویش اور پراگندگی کا راستہ روک دیا جائے اور ان سے بجائے خلاف طبع ضیق اور تشویش کا اثر لینے کے‘ انہیں طبیعت کے موافق بنالیا جائے‘ جس سے دل ان سے گھٹنے کے بجائے لذت لینے لگے۔ اس کی سہل صورت یہ ہے کہ نظر کو ان حوادث سے ہٹاکر اس سر چشمہ کی طرف پھیر دیا جائے جہاں سے بن کر یہ اسباب اور حوادث عالم دنیا پر اترتے ہیں اور وہ ذات اللہ رب العزت کی ہے‘ اگر اس سے رشتہ محبت وعبودیت ورابطہ رضا وتسلیم قائم کرلیا جائے جس کا نام ایمان ہے اور اپنا حال یہ بنایا جائے کہ اس کے تصرف پر اطمینان واعتماد ومیسر آجائے‘ تب حقیقی سکون میسر ہوگا‘ کیونکہ شریعت کی پابندی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد حقیقت میں سکون کا اہم ذریعہ ہے۔ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”الذین آمنوا وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ ( رعد:۲۸)
اسی طرح ایک حدیث شریف میں ہر پریشانی کا علاج استغفار کو بتایا گیا ہے‘ مشکوٰة شریف میں ہے:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجاً ومن کل ہم فرجاً ورزقہ من حیث لایحتسب“(ص:۲۰۴‘ط:سعید)
اسی طرح مذکورہ سوال میں ذکر کئے گئے دعوے بھی شریعت کی تعلیمات سے متصادم ہیں‘ جیساکہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ گناہ کے ارتکاب کے بعد اس کا تصور دماغ میں سٹور ہوکر روح کو بیمار کرتا ہے اور انسان کو تمام عمر پریشان اور بے چین رکھتا ہے۔ اس کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں پر ندامت اور اس کے تصور کی وجہ سے پریشانی روح کی بیماری نہیں‘ بلکہ روح کی صحت کی علامت ہے‘ کیونکہ یہی ندامت خشیت الٰہی کی دلیل ہے اور یہی خوف وخشیت ایمان کامل کی علامت ہے‘ اس لئے کہ یہی خوف انسان کو گناہوں سے روکتا ہے‘ جیساکہ الزواجر میں ہے:
”واعلم ان اعظم زاجر عن الذنوب ہو خوف اللہ تعالیٰ وخشیة انتقامہ وسطوتہ وحذر عقابہ وغضبہ وبطشہ“ (مقدمہ ج:۱‘ ص:۱۶)
اور یہی خوف ہے جس کی بناء پر قرآن کریم کی تعلیمات انسان کے لئے سرچشمہ ہدایت ہیں‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”ہدی ورحمة للذین ہم لربہم یرہبون“
اسی طرح الزواجر میں حضرت حسن  کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
”قال الحسن ان الرجل ای الکامل لیذنب الذنب فما ینساہ ولایزال متخوفا منہ حتی یدخل الجنة“ (کتاب الزواجر مقدمہ ص:۱۵)
اسی طرح اس سینٹر والوں کا یہ دعویٰ کہ یہ پریشانی ڈائینٹک سینٹر کی ٹیکنک ہی سے دور ہوسکتی ہے‘ یہ دعویٰ بھی تعلیماتِ اسلامی کی منافی ہے‘ اس لئے کہ بہت ساری آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ اس پر دال ہیں کہ توبہ سے اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں‘ جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”عن النبی ا قال التائب من الذنب کمن لاذنب لہ“ (مجمع الزوائد ج:۱۰‘ ص:۲۰۰ )
اسی طرح ترمذی شریف میں ہے:
”عن ابی ہریرة ان رسول اللہ ا قال الصلوات الخمس والجمعة الی الجمعة کفارات لما بینہن مالم یغش الکبائر“۔ (باب فضل الصلوات الخمس ج:۱‘ص:۵۲ )
محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری اس کے شرح میں فرماتے ہیں:
”غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ظاہرہ یعم الکبائر والصغائر‘ لکن العلماء خصوا بالصغائر لو رودہ مقیدا باستثناء الکبائر فی غیر ہذہ الروایات ثم ان مغفرة الکبائر تکون بالندم والاستغفار والتوبة یکاد یکون ہذا اجماعا منہم “ ۔ (معارف السنن بحث ان الصلوات کفارات للصغائر ج:۲‘ص:۲۶۱)
اسی طرح اس ادارے کا یہ دعویٰ کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کی موت تکلیف کی حالت میں واقع ہوتی ہے اور یہ انسان اسی تکلیف کی حالت میں مرتاہے‘ یہ دعویٰ بھی تعلیمات اسلامی کے خلاف ہے‘ اس لئے کہ آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان جب حالت ایمان پر مرتا ہے تو فرشتے روح کے قبض کرنے کے وقت آسانی سے روح کو قبض کرتے ہیں اور اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں‘ جیساکہ آیت مبارکہ میں ہے :
”الذین تتوفاہم الملائکة طیبین“ (سورة نمل:۳۲)
اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے:
”عن محمد بن کعب القرظی قال اذا استفاقت نفس العبد المومن جاء ہ الملک فقال السلام علیک یا ولی اللہ‘ اللہ یقرأ علیک السلام ثم نزع بہذہ الایة الذین تتوفا ہم الملائکة طیبین یقولون سلام علیکم“ (الدرالمنثور فی التفسیر الماثور ج:۵‘ص:۱۲۸ سورة نمل)
الجواب صحیح الجواب صحیح
شعیب عالم محمد عبد المجید دین پوری
کتبہ
فضل معبود
المتخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین