بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

چند باتیں محدث العصرؒ کی

چند باتیں محدث العصرv کی

وسیلہ کا مدلل ثبوت (حدیث ِنبوی l سے مثال) یوں تو تصوف کا کوئی ایک مسئلہ بھی کتاب و سنت سے باہر نہیں، لیکن وسیلہ کے متعلق بعض اوقات ایسی باتیں بھی منکرین تصوف کردیتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ توحید خالص کے خلاف ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، ذیل کا واقعہ اس مسئلہ میں راہنما ہے۔توسل بالصالحین کا ثبوت تفصیل سے اہل ِحق کی کتابوں میں موجود ہے اور تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کے ذیل میں موجود ہے، مَنْ شَآئَ فَلْیُرَاجِعْ۔ البتہ ایک عجیب استدلال جو احقر نے حضرت علامہ محمد یوسف بنوری v سے سنا ہے، وہ تحریر کرتا ہوں:  جوازِ توسل بالصالحین کے متعلق ایک عجیب استدلال (علامہ انور شاہ کشمیری v کی تحقیق)     ایک مرتبہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوریv کی خدمت میں محدثِ کبیر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحبv تشریف فرما تھے، اس وقت میرے شیخ ثالث حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی v بھی تشریف رکھتے تھے، میں بھی موجود تھا کہ ایک شخص نے پوچھا کہ وسیلہ پکڑنا کہاں سے جائز ہے؟ آپ لوگ جو شجرہ پڑھتے ہیں اور بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں، یہ کہاں سے جائز ہے؟ میرے شیخ vنے فرمایا:’’ہمارے بڑے مولانا محمد یوسف صاحب بنوری ہیں، یہ اس کا جواب دیں گے۔‘‘ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری v نے فرمایا کہ: میں وہ جواب دیتا ہوں جو امام العصر حضرت مولانا علامہ سیّد محمد انور شاہ صاحب کشمیری v نے دیا تھا کہ:’’امام العصر حضرت علامہ سیّد محمد انورشاہ صاحب کشمیری v نے فرمایا کہ: بخاری شریف میں روایت ہے کہ تین آدمی پہلی اُمت کے کہیں سفر کررہے تھے کہ ایک پہاڑ کے غار میں آرام کرنے لگے، اچانک ایک بڑا پتھر گر گیا جس سے وہ تینوں اشخاص بند ہوگئے، نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ پھر ان لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عملِ صالح کے وسیلہ سے دعا کرے۔’’فَقَالُوْا: إِنَّہٗ لاَ یُنْجِیْکُمْ مِّنْ ہٰذِہِ الصَّخْرَۃِ إِلاَّ أَنْ تَدْعُوا اللّٰہَ بِصَالِحِ أَعْمَالِکُمْ۔‘‘         (صحیح البخاری،ج:۱، ص:۳۰۲) ایک نے کہا کہ: اے اللہ! میں اپنے بوڑھے ماں باپ کو رات میں دودھ پلاکر سلاتا تھا، پھر اپنے اہل و عیال کو، لیکن ایک دن مجھے دیر ہوگئی، پس میں نے ان کو سوتا ہوا پایا اور میں دودھ کا پیالہ لے کر رات بھر کھڑا رہا۔ جب صبح کو بیدار ہوئے تو پلادیا، پھر اپنے اہل و عیال کو پلایا۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ یہ عمل میں نے صرف آپ کی رضا کے لیے کیا ہے تو اس عمل کی برکت سے اس پتھر کی چٹان کو ہٹادیجیے۔ بس وہ پتھر اس قدر ہٹ گیا کہ نکلنا ممکن نہ تھا۔ پھر دوسرے نے دعا کی کہ اے اللہ! میری چچازاد بہن تھی جو ’’کَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَیَّ‘‘ ۔۔۔۔ ’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب تھی۔‘‘ اس سے میں نے اپنا مطلب چاہا، لیکن اس نے میری خواہش سے انکار کردیا، پھر بعد مدت میرے پاس آئی، میں نے اس کو ایک سو بیس دینار دیئے کہ وہ میری خواہش پوری کردے، بس وہ راضی ہوگئی، لیکن جب تنہائی میں اس پر پوری قدرت پالی تو اس نے کہا: میں تیرے لیے حلال نہیں ہوں، پس میں الگ ہوگیا اور وہ مجھے ’’احب الناس‘‘ تھی، حالانکہ وہ میرے لیے دنیا میں سب سے زیادہ محبوب تھی اور میں نے وہ دینار بھی اس سے واپس نہیں لیے۔ اے اللہ! اگر آپ جانتے ہیں کہ یہ کام میں نے صرف آپ کے لیے کیا ہے تو آپ اس چٹان کو الگ فرمادیجیے۔ اس عمل کی برکت سے پتھر اور ہٹ گیا، لیکن پھر بھی خروج ممکن نہ تھا۔ پھر تیسرے شخص نے دعا کی کہ اے اللہ! میں نے مزدور رکھے تھے کسی کام کے لیے، سب کو مزدوری دی تھی، ایک مزدور کی مزدوری باقی رہ گئی تھی اور وہ بدون مزدوری لیے چلا گیا۔ میں نے اس کے اس مال کو بڑھایا، یہاں تک کہ جب ایک عرصہ بعد وہ آیا اور اس نے مزدوری طلب کی تو میں نے کہا کہ: یہ اونٹ اور بیل اور بکریاں اور غلام سب تیری ملک ہیں یعنی تیری مزدوری سے یہ سب ہیں۔ اس نے مذاق سمجھا، لیکن جب میں نے پیش کردیا تو وہ سب لے کر چلاگیا۔ اے اللہ! اگر یہ عمل میں نے صرف آپ کی رضا کے لیے کیا ہے تو اس کی برکت سے یہ پتھر ہٹادیجیے۔ پس وہ اس قدر ہٹ گیا کہ بآسانی یہ سب نکل گئے اور اس غم سے نجات پاگئے۔ پس اعمالِ صالحہ سے دعا میں توسل جب بخاری شریف سے ثابت ہے تو اسی حدیث سے استدلال کرتا ہوں کہ یہ اعمالِ صالحہ تو قالب کے اعمال ہیں اور اہل اللہ اور مقبولانِ بارگاہِ حق سے ہم کو جو محبت ہے یہ قلب کا عمل ہے اور قلب کا عمل قالب کے عمل سے افضل ہے، کیونکہ قلب جوارح کا بادشاہ ہے لہٰذا بدرجۂ اولیٰ اعمالِ قلب یعنی محبت ِمشائخ کا واسطہ اور وسیلہ‘ دعا میں جائز ہے، کیونکہ بزرگوں کا وسیلہ دراصل اس محبت کا وسیلہ ہے جو ہمارے قلوب کو ان کے ساتھ ہے۔‘‘حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی v بھی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب v کے اس استدلال سے بہت مسرور ہوئے۔ (کشکولِ معرفت: ۳۹) ہمارے اکابر کاطریقہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھول پوری v فرماتے ہیں کہ: کوئی بھی صاحبِ باطن چندے کے لیے دروازے دروازے نہیں پھر سکتا، اگر اس کے قلب میں مولیٰ ہے تو اُسے غیرت آتی ہے، بتا ئیے! آپ نے مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع v کو دیکھا کہ دروازے دروازے پھر رہے ہوں؟ محدث کبیر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری صاحب v کو دیکھو زکوٰۃ کا دس ہز ار چندہ آیا تھا، حضرت مولانا بنوری v نے واپس کر دیا کہ اس سال جتنے طلبہ ہیں، اُن کے لیے جتنی رقم سال بھر کے لیے چاہیے وہ میرے پاس ہے، اس لیے کسی اور مدرسے میں دے دو جہاں ضرورت ہو۔ حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری v، حضرت مفتی محمد حسن صاحب امرتسری v لاہو ر میں جامعہ اشرفیہ کے بانی، ہمارے جتنے اکابر گزرے ہیں آپ بتاؤ! یہ رسید بک لے کر دروازوں پر گئے ہیں؟(خزائن معرفت و محبت: ۳۹۸) درود سے پہلے استغفار پڑھنے کا راز ایک دفعہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میںحضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری v، حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری v اور حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی v موجود تھے، مصر کے علماء اور غیر عرب کے علماء بھی تھے، وہاں ایک سوال چلا کہ صاحب! پہلے ہم استغفار پڑھیں یا پہلے درود شریف پڑھیں، اس میں کیا ترتیب رکھیں؟ چونکہ ہمارے شیخ سب سے بڑے تھے، لہٰذا حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v اور سب نے میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری v  سے کہا کہ حضرت! آپ بیان کیجئے! آپ ہم سب میں بڑے ہیں اور حضرت حکیم الامت v کے بڑے خلیفہ ہیں تو حضرت نے جواب دیا کہ اس کا جواب میں وہی دے رہا ہو ں جو حضرت مولانا گنگوہی v  نے دیا تھا، جب ان سے کسی نے ایسا ہی سوال کیا تھا تو حضرت گنگوہی v نے فرمایا کہ: تم کپڑا پہلے دھوتے ہو یا عطر پہلے لگاتے ہو؟ یعنی گندا کپڑا پہلے دھوؤگے یا عطر پہلے لگاؤگے؟ تو اس نے کہا کہ پہلے کپڑا دھوئیں گے، تو فرمایا کہ اسی طرح پہلے استغفار کرکے اپنی روح کو دھولو، پھر درود شریف کا عطر لگاؤ۔       (معارفِ ربانی، ۲۲۵) یہ ہیں علوم ہمارے اکابر کے ’’ھٰؤُ لَائِ أٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ‘‘ یہ جواب میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری v نے نیو ٹاؤن کی مسجد میں محدث کبیر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری v کے سوال پر دیا تھا، حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی vبھی موجود تھے، بڑے بڑے علماء حاضر تھے اور اختر بھی اس وقت موجود تھا، کیونکہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری v نے حضرت مولانا ماجد علی  v سے حدیث پڑھی تھی، انہوں نے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی v سے حدیث پڑھی تھی، اس لیے میں حضرت گنگوہی v کی بات دو واسطوں سے آپ کو نقل کر رہا ہوں۔                                 (عظمتِ صحابہ رضی اللہ عنہم، ص:۱۴) اسی پر میری فارسی مثنوی کا شعر ہے: اہل دل آں کس کہ حق را دِل دہد

دل دہد اورا کہ دِل را می دہد اہلِ دل وہ ہیں جو اللہ کو اپنا دل دیتے ہیں اور مرنے والی لاشوں پر نہیں مرتے، جس نے ماں کے پیٹ میں دل بخشا اسی کو دل دیتے ہیں، تو حضرت مولانا بنوری v نے جو اتنے بڑے عالم اور امام العصر حضرت علامہ سیّد محمد انور شاہ صاحب کشمیری v کے شاگردِ رشید تھے، میری فارسی کی مثنوی دیکھ کر فوراً فرمایا کہ ’’لَا فَرْقَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ مَوْلَا نَا رُوْمٍ ‘‘یعنی: مجھے اختر میں اور مولانا رومؒ میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا یعنی کلام کے اعتبار سے، مقام کے اعتبار سے نہیں۔ اپنی تقریظ میں تحریر فرمایا: ’’برادر ِمحترم جناب مولانا حکیم محمد اختر صاحب کی تالیف لطیف ’’معارفِ مثنوی‘‘ پڑھ کر موصوف سے اتنی عقیدت ہوئی کہ جس کا مجھے تصو ّر بھی نہ ہوسکتا تھا، فارسی واردو میں قدرتِ شعر، حسن ذوق، پاکیزگیِ خیالات، دردِ دل کا بہترین مرقع ہے۔ اب موصوف نے دیوانِ شمس تبریزؒ جو عارف رومی متکلمؒ کے شیخ ہیں، ان کے حقائق ومعارف کا انتخاب وتشریح وبیان لکھ کر اپنے حسن ِذوق، لطافت ِطبع، سلامت ِفکر کا ایک اور شاہد عدل پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اربابِ ذوق کو ان کی شگفتہ تالیفات وانتخابات سے مزید مستفید فرمائے، آمین‘‘۔                                                  محمد یوسف بنوری، سہ شنبہ ۸؍ ربیع الاول ۱۳۹۶ھ اللہ کا شکر ہے کہ بڑوں نے ہماری عزت افزائی کی ہے۔ مفتی حسین بھیات کہہ رہے ہیں کہ جب حضرت مولانا محمد یوسف بنوری v نے یہ فرمایا تو مفتی حسین بھیات بھی وہاں موجود تھے، یہ ابھی زندہ شاہد ہیں، الحمدللہ۔ دعا کرلیجئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس مسافر مریض کی دعا قبول فرما کر اللہ ہم سب کو، ہمارے گھر والوں کو اللہ والا بنادے۔ اپنی رحمت سے ہر مومن کو، تمام مسلمانانِ عالم کو اللہ والا بنادے اور کافروں کو بھی ایمان عطا فرماکر ان کو بھی جنت کے قابل بنادے۔ ’’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔‘‘(مورخہ۸ ۲ ؍ربیع الاوّل ۱۴۲۵ھ مطابق ۱۸؍ مئی ۲۰۰۴ء بروز منگل، ماخوذ: پردیس میں تذکرۂ وطن: ۲۵۷) تکبیر اُولیٰ کا معنی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب v نے میرے شیخ کے سامنے فرمایا، میں بھی وہاں موجود تھا کہ: لوگ تکبیر اولیٰ کے معنیٰ یہ سمجھتے ہیں کہ جب امام ’’اللہ اکبر‘‘ کہے اسی وقت وہ بھی ’’اللہ اکبر‘‘ کہیں۔ تو فرمایا کہ تکبیرِ اولیٰ کے یہ معنیٰ نہیں ہیں، بلکہ جب تک تکبیرِثانیہ نہ ہو، یعنی امام رکوع میں نہ جائے اس وقت تک جو جماعت میں شامل ہوجائے گا اسے تکبیر اولیٰ مل جائے گی۔ تو تکبیرِ اولیٰ کا دورانیہ تکبیرِ ثانیہ کے قبل تک ہے۔ آہ! یہ بزرگوں کی صحبت کا اثر ہے۔ الحمد للہ! اختر کو بزرگوں کی اتنی صحبت نصیب ہوئی۔  (سفر افریقہ ) میر مجلس کے متعلق     حکیم الامت، مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی v کی مجلس میں حضرت علامہ سید سلیمان ندوی، حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی، حضرت مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری w جیسے بڑے بڑے علماء سب خاموش رہتے تھے۔ میر مجلس کے متعلق یہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم کی بارش ہو رہی ہے، تم بولو گے تو اس بارش میں دخل انداز ہو گے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فضل میں دخل انداز مت ہو، خاموشی سے سنو۔                                     (الطافِ ربانی:۷۴)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین