بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’پیغامِ پاکستان‘‘دستاویز


’’پیغامِ پاکستان‘‘دستاویز

ریاست کے ساتھ گہری وابستگی ووفاداری کا اظہار!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں زمامِ قیادت وراہبری اور عنانِ حکم وحکومت اہل علم اور علمائے کرام کے ہاتھ میں رہی، خلقِ خدا کو اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں نہ صرف یہ کہ کامیابی وفتح یابی سے نوازا، بلکہ سرفرازی وکامرانی نے ان کے قدم چومے۔ اس کے برعکس جب بھی کسی معاملے کو اہل علم اور علمائے کرام کی رائے اور مشاورت کے بغیر سلجھانے اور حل کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسے لوگوں کو سوائے اُلجھنوں اور پیچیدگیوں کے اضافے کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس پر ایک دو نہیں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ علمائے کرام نے ہر دور میں انسانیت کی خدمت اور ملک وملت کی فلاح وبہبود اور اُنہیں مشکلات ومصائب سے نکالنے کے لیے ہمیشہ خلوص واخلاص اور محض رضائے مولیٰ کی غرض سے اپنی خدمات بھرپور انداز اور بلاخوف لومۃ لائم پیش کیں۔ 
متحدہ ہندوستان پر انگریز کے تسلُّط اور غلبہ کے بعد ۱۸۰۳ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویv کا انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ ہو یا ۱۸۳۱ء میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کا بالاکوٹ کے میدان میں سکھوں کے خلاف جہاد ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس اللہ سرہم کا ۱۸۵۷ء کا جہادِ آزادی ہو یا تحریکِ پاکستان میں علمائے کرام کا کردار ۔ اسی طرح پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد قراردادِ مقاصد ہو یا پاکستان کو نسلی، لسانی، فرقہ واریت کے عفریت سے بچانے اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ۳۳علمائے کرام کے بائیس دستوری نکات۔ پاکستان کی پارلیمنٹ سے پاس کردہ ۱۹۷۳ء کا متفقہ دستور ہو یا ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں اور لاہوریوں کو پارلیمنٹ سے غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا متفقہ فیصلہ، ہر جگہ، ہر مقام اور ہر معاملے میں علمائے کرام نے اپنی بساط سے بڑھ کر راہبری وراہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔
تاریخ اس پر بھی شاہد ہے کہ علمائے کرام کی مشاورت کے بغیر جنرل ایوب خان نے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بناکر اور ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر فضل الرحمن کو صرف اس لیے درآمد کیا کہ اہل پاکستان کو ماڈرن اسلام کا تحفہ پیش کیا جائے، جس کی ایک جھلک عائلی قوانین ہیں، جو آج تک مسلم پاکستانی عوام کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سادہ لوح مسلمان جب کسی دارالافتاء سے قرآن وسنت کی روشنی میں خلع یا پوتے کی میراث کا مسئلہ دریافت کرتا ہے تو جواب کچھ اور ملتا ہے اور آئے دن ہماری عدالتوں سے جو فیصلے ہورہے ہیں، وہ کچھ اور ہیں۔ اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے علماء کرام کی مشاورت کے بغیر جو زکوٰۃ آرڈی نینس نافذ کیا وہ آج تک ایک معمہ سے کم نہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا عازم ہر آدمی پریشان ہے کہ آیا بینکوں کی کٹوتی سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں؟ اور اسی آرڈی نینس کی آڑ میں زکوٰۃ نہ دینے والے حیلوں، بہانوں سے اس کٹوتی سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرالیتے ہیں۔
بہرحال مسلم معاشرہ کی حیثیت سے ہر مرد، عورت، امیر، غریب، آجر، اجیر، افراد، جماعت، ادارہ، راعی اور رعایا ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے راہبری وراہنمائی کے لیے اور اسلامی طرزِ زندگی اور معاشرہ تشکیل دینے کے لیے علمائے اُمت کی سیادت وقیادت اور ہدایات ومشاورت کو اپنا اُصول اور فریضہ بنائے۔
چونکہ ہمارا ملک پاکستان ملک دشمنوں کی کارستانیوں اور ان کے آلہ کاروں کی گھناؤنی سازشوں کی وجہ سے ایک دَہائی سے زیادہ کشت وخون، قتل وغارت ، ظلم وفساد، خودکش بم دھماکے اور کئی ایک آفتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ریاستی اداروں نے ایک استفتاء اور مسودہ تیار کرایا، جو ملک کی بڑی جامعات، دینی اداروں، اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے تحت تمام وفاقوں، تمام مکاتبِ فکر کی سرکردہ شخصیات اور مذہبی تنظیموں کے سربراہوں کے پاس بھیجا گیا، سب کے اتفاق سے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے نام سے یہ دستاویز تیار کی گئی۔
اس دستاویز کے ٹائٹل، ان ٹائٹل، فہرست، پیشِ لفظ، صدرِ پاکستان کے پیغام، مضامین اور ۱۸۲۱علمائے کرام کے دستخطوں کو ملاکر کل ۹۰؍ صفحات بنتے ہیں۔
یہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ دستاویز اپنی فہرست کے مطابق درج ذیل عنوانات پر مشتمل ہے:
۱:… اسلامی ضابطۂ حیات
۲:… اسلامی جمہوریہ پاکستان، اس کی ذیلی فصلوں میں: [الف]قیام پاکستان کا منظر، [ب]قیام پاکستان، [ج]اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کامیابیاںجیسے عناوین شامل ہیں۔ 
۳:… ریاستِ پاکستان اور پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل، اس کے ذیلی عناوین میں: [الف] ریاست کے خلاف جنگ، [ب]ریاستی اداروں اور عوام الناس کے خلاف دہشت گردی، [ج] فرقہ پرستی اور تکفیریت کا رجحان، [د] جہاد کی غلط تشریح، [ہ]امربالمعروف کے عنوان سے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا رجحان، [و] قومی میثاق کو نظر انداز کرنے کا رجحان۔ 
۴:… متفقہ اعلامیہ
۵:… متفقہ فتویٰ ، اس کی ذیلی سرخیوں میں: [الف] استفتائ، [ب] متفقہ فتویٰ (جوابِ استفتائ)، [ج]متفقہ فتویٰ (اہم نکات)
۶:… پیغام پاکستان، متفقہ اعلامیہ اور فتویٰ کی تیاری میں شریک محققین مختلف دینی مدارس کے وفاقوں کے ناظمین، علمائے کرام، مفتیانِ عظام اور قومی جامعات کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی۔
۷:… متفقہ فتویٰ (جوابِ استفتائ) جاری اور اس کی توثیق کرنے والے علمائے کرام کے دستخطوں کا عکس۔  
۸:… ۲۶؍ مئی ۲۰۱۷ء کے متفقہ فتویٰ (اہم نکات) کی تیاری میں شریک مختلف دینی مدارس کے وفاقوں کے ناظمین، علمائے کرام، مفتیانِ عظام اور قومی جامعات کے اساتذہ کرام کے دستخطوں کا عکس۔  
۹:… ۲۶؍ مئی ۲۰۱۷ء کے متفقہ اعلامیہ کی تیاری میں شریک مختلف دینی مدارس کے وفاقوں کے ناظمین، علمائے کرام، مفتیانِ عظام اور قومی جامعات کے اساتذہ کرام کے دستخطوں کا عکس۔
۱۰:… متفقہ فتویٰ اور اعلامیہ کی توثیق کرنے والے علمائے کرام، مفتیانِ عظام اور اساتذۂ کرام کے اسمائے گرامی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ’’پیغام پاکستان‘‘ دستاویز میں شامل استفتاء اور اس کا جواب یہاں نقل کیا جائے:

’’استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ہمارے ملک پاکستان میں عرصۂ دراز سے بعض حلقوں کی جانب سے حکومتِ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف مسلسل خونریز کارروائیاں جاری ہیں، یہ حلقے نفاذِ شریعت کے نام پر پاکستان کی حکومت اور اس کی افواج کو اس بناپر کافرومرتد قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک ملک میں شریعت کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا، اس کی بناپر ان کے خلاف مسلح کارروائیوں کو جہاد کا نام دے کر نوجوانوں کو ان کارروائیوں میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز ان کارروائیوں کے دوران خودکش حملے کرکے بے گناہ شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بناتے اور اُسے کارِ ثواب قراردیتے ہیں۔ اس صورت حال میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
۱:- کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے یا غیر اسلامی؟ نیز کیا شریعت کو مکمل طورپر نافذ نہ کرسکنے کی بناپر ملک کو غیراسلامی ملک اور اس کی حکومت یا افواج کو غیر مسلم قرار دیاجاسکتا ہے؟
۲:- کیا موجودہ حالات میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے نام پر حکومت یا افواج کے خلاف مسلح بغاوت جائز ہے؟ 
۳:- پاکستان میں نفاذِ شریعت اور جہاد کے نام پر جو خودکش حملے کیے جارہے ہیں، قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا کوئی جواز ہے؟
۴:- اگر مذکورہ تین سوالات کا جواب نفی میں ہے تو کیا حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے جو مسلح کارروائیاں کی جارہی ہیں ، وہ شریعت کی رُو سے جائز ہیں؟ اور کیا مسلمانوں کو اُن کی حمایت اور مدد کرنی چاہیے؟ 
۵:- ہمارے ملک میں مسلح فرقہ وارانہ تصادم کے بھی بہت سے واقعات ہورہے ہیں، جن میں طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلَّط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیا اس قسم کی کارروائیاں شرعاً جائز ہیں؟

الجواب حامدًا ومصلیًا

سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
۱:- اسلامی جمہوریہ پاکستان یقینا اپنے دستور وآئین کے لحاظ سے ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز ہی قراردادِ مقاصد کے اس جملے سے ہوتا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکتِ غیرحاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو اختیار واقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے۔‘‘
یہ قراردادِ مقاصد ملک کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے دستور کا حصہ بنائی گئی اور ۱۹۵۶ء سے لے کر ۱۹۷۳ء تک ہر دستور میں موجود رہی اور آج بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ دستور کی دفعہ: ۳۱ میں مسلمانوں کو اسلامی طرزِ زندگی اپنانے کے لیے مختلف پالیسی کے اُصول وضاحت کے ساتھ درج ہیں، نیز دفعہ: ۲۲۷ میں اقرار کیا گیا ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت کے تحت اسلامی احکام کے مطابق بنایاجائے گا اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلامی احکام کے خلاف ہو، اس اصول پر عمل کروانے کے لیے دستور کے تحت وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت بینچ کا راستہ کھلا ہوا ہے، جس کے تحت ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف قوانین کو عدالت میں چیلنج کرکے اُنہیں تبدیل کروائے۔
ان اُمور کے پیشِ نظر پاکستان کسی شک وشبہ کے بغیر ایک اسلامی ریاست ہے اور کسی قسم کی عملی خامیوں کی بناپر اُسے، اس کی حکومت یا افواج کو غیر مسلم قراردینا ہرگز جائز نہیں، بلکہ گناہ ہے۔
۲:- چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور پاکستان کی حکومت اور افواج‘ دستورِ پاکستان کے پابند اور اس کے مطابق حلف اُٹھاتے ہیں، اس لیے پاکستان کی حکومت یا افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں یقینا بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں، جو شرعاً بالکل حرام ہیں۔ دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو مکمل طو رپر نافذ کرنا بلاشبہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے پرامن اور آئینی جدوجہد بے شک مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے، لیکن اس مقصد کے لیے ہتھیار اُٹھانا فساد فی الارض ہے اور رسولِ کریم a کی واضح احادیث میں اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور جو لوگ اس مسلح بغاوت میں شریک یا اس کی کسی بھی طرح مدد یا حمایت کرتے ہیں، وہ آنحضرتa کے ارشادات کی کھلی نافرمانی کررہے ہیں، سرکارِ دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ألا من ولی علیہ والٍ فرأٰہ یأتی شیئًا من معصیۃ اللّٰہ فلیکرہ ما یأتی من معصیۃ اللّٰہ ولا ینزعن یداً من طاعۃ۔‘‘                (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر: ۴۷۶۸)
’’خوب سن لو کہ جس شخص پر کوئی حاکم بن جائے اور وہ اُسے گناہ کرتے دیکھے تو جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وہ کررہا ہے، اُسے برا سمجھے، لیکن اطاعت سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچے۔‘‘ 
تقریباً متواتر احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ کسی مسلمان حکومت کے خلاف مسلح کارروائی اور خونریزی بدترین گناہ ہے۔
۳:- اسلام میں خودکشی بدترین گناہ ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے:
{لَاتَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ} (سورۂ نسائ، آیت نمبر: ۲۹)
’’تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘
اور بہت سی احادیث میں خودکشی کو بدترین عذاب کا موجب قرار دیا گیا ہے، ایک حدیث میں ارشاد ہے:
’’من قتل نفسہٗ بحدیدۃ فحدیدتہٗ فی یدہٖ یتوجأ بہا فی بطنہٖ فی نار جہنم خالداً فیہا أبداً۔‘‘                                            (جامع الاصول بحوالہ بخاری ومسلم)
’’جو شخص کسی لوہے کے ہتھیار سے خودکشی کرے، تو جہنم کی آگ میں اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا، جس سے وہ اپنے پیٹ میں ضرب لگارہا ہوگا، اور اس آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘ 
 نیز جن لوگوں کے بارے میں آنحضرت a کو بتایا گیا کہ انہوں نے خودکشی کی ہے، ان کے بارے میں آپ a نے سخت وعید ارشاد فرمائی، اور ایک ایسے شخص کی آپa نے نمازِ جنازہ بھی نہیںپڑھی۔                                                               (ابوداؤد، حدیث: ۱۳۹۵)
یہ تو عام خودکشی کا حکم ہے اور اگر یہ خودکشی کسی دوسرے مسلمان کو مارنے کے لیے کی جائے تو یہ دوہرے گناہ کا سبب ہے: ایک خودکشی کا گناہ، اور دوسرے کسی مسلمان کی جان لینا، جس کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے:
{وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعِمِّداً فَجَزَائُ ہٗ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَأَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا}                                                        (سورۃ النساء:۹۳)
’’جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور وہ اس پر لعنت کرے گا اور اس کے لیے اللہ نے زبردست عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘
نیز جو غیر مسلم اسلامی ریاست میں امن کے ساتھ رہتے ہیں، انہیں قتل کرنے کے بارے میں نبی کریم a نے یہ سخت وعید بیان فرمائی ہے:
’’من قتل نفساً معاہداً لہٗ ذمۃ اللّٰہ وذمۃ رسولہٖ فقد أخفر بذمۃ اللّٰہ فلایرح رائحۃ الجنۃ۔‘‘                                           (جامع ترمذی، حدیث: ۱۴۰۳)
’’جو شخص کسی غیر مسلم کو جس کے ساتھ (اسلامی حکومت کا ) معاہدہ ہے، اس کی جان کے تحفظ کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول نے لیا ہے، اب جو شخص اللہ کے ذمہ کی بے حرمتی کرے، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔‘‘
پاکستان میں جو خود حملے کیے جارہے ہیں وہ تین طرح کے شدید گناہوں کا مجموعہ ہیں: ایک خودکشی، دوسرا کسی بے گناہ کو قتل کرنا، تیسرا مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت۔ لہٰذا یہ خودکش حملے کسی بھی تاویل سے جائز نہیں ہوسکتے اور ان کی حمایت کرنا گناہوں کے مجموعے کی حمایت کرنا ہے۔
۴:- پچھلے تین نکات سے یہ واضح ہے کہ جو لوگ شریعت کے نام پر یا قومیت کے نام پر حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں کررہے ہیں، وہ شرعاً مسلمان ریاست کے خلاف کھلی بغاوت ہے اور ایسی صورت میں قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ : 
{فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ إِلٰی أَمْرِ اللّٰہِ}                        (الحجرات:۹)
’’جو گروہ بغاوت کررہا ہے‘ اُس سے اس وقت تک لڑو جب تک وہ اللہ کے حکم کی طرف واپس نہ آجائے۔‘‘
لہٰذا حکومتِ پاکستان یا افواجِ پاکستان کا شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان باغیوں کے خلاف لڑنا جائز ہی نہیں، بلکہ قرآنی حکم کے تحت واجب ہے اور اس سلسلے میں ریاستی کوششوں کے تحت جو آپریشن کیے جارہے ہیں، اس میں افواجِ پاکستان کی حمایت اور بقدرِ استطاعت مدد کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔
۵:- مختلف مسلکوں کا نظریاتی اختلاف ایک حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس اختلاف کو علمی اور نظریاتی حدود میں رکھنا واجب ہے۔ اس سلسلے میں انبیاء کرام o ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ازواج مطہرات u اور اہل بیتs کے تقدس کو ملحوظ رکھنا ایک فریضہ ہے، اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم، اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے کا کوئی جواز نہیں اور اس اختلاف کی بناپر قتل وغارت گری، اپنے نظریات کو دوسروں پر جبر کے ذریعہ مسلط کرنا یا ایک دوسرے کی جان کے درپے ہونا بالکل حرام ہے، واللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اعلم۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ’’پیغامِ پاکستان ‘‘ دستاویز کے اجراء کے موقع پر جہاں صدرِ مملکت، ریاستی اداروں کے اراکین، حکومتی وزرائ، اتحادِ تنظیماتِ مدارس دینیہ کے تحت تمام وفاقوں کے صدور وناظمین اور علمائے کرام کی کثیر تعداد شریک تھی، وہاں دوسرے حضرات کے علاوہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے علمائے کرام، مذہبی جماعتوں، پوری پاکستانی قوم اور اُمتِ مسلمہ کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے پرمغز اور پراثر خطاب فرمایا، کسی قدر حک واضافہ کے بعد افادۂ عام کی خاطر اُسے یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ جناب صدر مملکت ، وزراء کرام، علماء ومشائخ عظام ، اس تقریب میں موجود تمام اہلِ علم ، اداروںسے وابستہ اہم شخصیات ، میرے بھائیو اور بہنو!
 ایک مبارک موقع ہے ! جب ریاست کی نگرانی میں مملکت کے زیرِ سایہ یہاں ملک کے تمام مکاتبِ فکر جمع ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے یہاں جمع ہیں، حکومت اور حزب ِاختلاف سے تعلق رکھنے والے حضرات یہاں جمع ہیں، اور ریاست کے ساتھ اپنی بھر پور اور گہری وابستگی و وفاداری کا اظہار کررہے ہیں۔ اِسے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا نام دیاگیاہے ۔ اور یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہو گی کہ ہم عالمی برادری کو اور اسلامی برادری کو یہ باور کراسکیں کہ ہم ایک پُر امن ملک ہیں ، پور ی قوم امن چاہتی ہے، اور امن کو سبوتاژ کرنے والوں کے مقابلہ میں پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔
 میرے محترم بزرگو اوردوستو! انسانی معاشرہ میں اور حیاتِ اجتماعی میں امن و سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فطری زندگی ہے ۔ انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ جب وہ مدنی الطبع ہے، مل جل کر رہتا ہے ‘ ریاستوں کی صورت میں ‘ شہروں کی صورت میں ‘ دیہاتوں کی صورت میں‘ محلوں کی صورت میں تو پھر اِنہیں ایک دوسرے کی عزت اور جان و مال کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہے ، اُس کا احترام کرنا ہے ، اور اِسی لیے تمام قوانین اور تمام دنیا کے دساتیر وجود میں آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت بڑی واضح ہے کہ ربُّ العزت کیا چاہتے ہیں ؟ ! مدینہ منوّرہ میں جو قوتیں فساد برپا کرنے کے لیے سازشیں کرتی تھیں، اللہ تعالیٰ نے اُس کی تعبیر اِن الفاظ میں فرمائی: ’’کُلَّمَا أَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَہَا اللّٰہُ‘‘(المائدۃ:۶۴) جب اِن لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکانا چاہی تو اللہ نے اُس کو بجھایا ہے ، رب کی مشیت ایک پُر امن ماحول دیناہے ۔ حضرتِ انسان کو اللہ نے پیدا کیا تو اسے لفظِ ’’خلیفہ ‘‘سے تعبیر کیا ، اور جب انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نیابت کے عظیم الشّان منصب پر فائز کیا تو مقصود انسانی معاشرہ میں انصاف ،عدل اور امن کا قیام تھا ، حقوق کا تحفظ تھا ، جان و مال اور عزت وآبرو کا تحفظ تھا ۔ لیکن انسانی تخلیق کے عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے ملائکہ نے ضرور اس شبہ کا اظہار کیا : ’’قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ‘‘ (البقرۃ:۳۰) آپ ایک ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِس رائے ، شک ، اور گمان کے علی الرغم فرمایا : ’’قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۳۰) میں جو کچھ کر رہا ہوں‘ ٹھیک کررہا ہوں۔
کیا ہم نے کبھی اپنی اس ذمہ داری کا احساس کیا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ریاست کو وجود میں لاکر قراردادِ مقاصد کے ذریعہ سے ہم نے جو پہلا عہد اپنی قوم کے ساتھ کیا‘ وہ یہی کہ قوم کے نمائندوںکے ذریعہ سے اللہ کی نیابت کرتے ہوئے قومی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے۔ اس حوالہ سے علماء کرام کی اپنی کوششیں ہیں ،مختلف مکاتبِ فکر کی کوششیں ہیں ۔ ریاست نے جب بھی تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام کو اتحاد کی دعوت دی ہے ‘علمائے کرام نے اس پر لبیک کہا ہے ۔ پھر بھی الزام اِنہی کے اوپر ہے کہ آپ ہی لوگ ‘ مذہبی لوگ ہی فساد کی جڑ ہیں۔ ۱۹۵۱ء میں۲۲اسلامی نکات ملکی نظام کے لیے بطور اَساس اور اُصول کے تمام مکاتبِ فکر نے متفقہ طور پر تجویز کیے تھے ۔ حضرت مولانا تنویر الحق تھانوی صاحب تشریف فرما ہیں ، اِنہی کے گھر جیکب لائن پر اجتماع ہوا تھا ، اور آج وہ ہماری دستاویز ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں ہم نے اُن ۲۲ اُصولوں کو کوئی اپنی پالیسی اور نظام کی بنیاد بنانے کے لیے توجہ دی ہے ؟ قراردادِ مقاصد پر اتفاق، ۲۲ اسلامی نکات پر اتفاق ، اور جب ملک کو متفقہ آئین ملا تو پارلیمنٹ کے اندر تمام مکاتبِ فکر نے اِس آئین کوایک متفقہ اسلامی آئین کے طور پر قوم کے سامنے رکھنے میں جو کردار ادا کیا ‘ کس سے مخفی ہے ؟ ! یہاں سوال پید اکیا جاتا رہا کہ اسلام تو ہم سب چاہتے ہیں ، لیکن کس کا اسلام ؟ سنی کا اسلام ، شیعہ کا اسلام ، دیوبندی کا اسلام، بریلو ی کا اسلام ، سلفی کا اسلام ، کس کا اسلام ہمیں چاہیے؟ چناںچہ اِس کا جواب دیاگیا اور باقاعدہ اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی ۔ مسئلہ اعتقادات کا ہوتو اُس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے ، مسئلہ عبادات کا ہو تو اُس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے ، لیکن قوم کو جس نظام کی ضرورت ہے ‘ حیاتِ اجتماعی میں ہمیں جس نظام کی ضرورت ہے ، اُس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آئینی ادارہ قائم کیا گیا ، تمام مکاتبِ فکر اُس میں موجود ہیں ، ماہرینِ آئین اُس میں موجو دہیں ، سینئر وکلاء اُس میں موجود ہیں اور آج تک اُس کی جتنی بھی سفارشات ہیں ‘ تمام مکاتبِ فکر کے جو نمائندے کونسل کے اندر ہیں اُن کے نزدیک بھی متفقہ ہیں اور جو باہر مکاتبِ فکر ہیں اُن کے اندر بھی متفقہ ہیں ، لیکن ۱۹۷۳ء سے لے کر آج تک (جب ہم اور آپ ایک بیانیہ پر اتفاق کا اعلان کر رہے ہیں) پاکستان میں ایک سفارش پر بھی قانون سازی کی نوبت اب تک نہیں آئی ، اِس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کس کو ٹھہرائیں اِس کا ذمہ دار؟ ہمیںآپ مصروف کریں ملک کے لیے ، ریاست کے لیے، تاکہ اِس کو حقیقی معنوں میںہم ایک اسلامی ریاست بناسکیں۔
 ہمار ا مؤقف ہے کہ آج چودہویں پندرہویں صدی کا مسلمان اپنی تمام تر کوتاہیوں ‘ تمام تر فسق و فجو ر کے باوجود بہر حال ! اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ، اور ہم بھی اُسے مسلمان سمجھتے ہیں ، لہٰذا اِن گناہ گاروں کے بشمول اور اِن کی جدّو جہد سے جو ریاست وجود میں آئی ‘ وہ گوکہ عملی طور پر ہزار کمزور، لیکن اُس ریاست کوعقیدہ کے اعتبار سے ایک اسلامی اور مسلمان ریاست کہا جائے گا ، جیسے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے فرمایا کہ: ۲۰۰۴ء میںمَیں نے فتویٰ لکھا اور اُس پر تمام علماء کرام کے دستخط موجود ہیں ‘ یہ ایک کاوش ہے۔ 
 جمعیت علمائے اسلام نے پشاور میں صوبہ خیبرپختون خوا کے ۲۵ہزار علماء کرام کو اکٹھا کیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر اگر چھوٹا سا مدرسہ ہے اُس کے عالمِ دین کو بھی بلایا اور ایک بیانیہ جاری کیا۔ اِن تمام چیزوں سے براء ت کا اعلان کیاگیا۔ اور آئین کے مطابق ملک کے اندرکردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ 
لاہور میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام نے متفقہ اعلامیہ جاری کیا اور اُس کا مسوّدہ میں نے خود لکھا تھا ، مکمل اتفاق کے ساتھ اُس کو قبول کرلیا گیا۔ اُس وقت اُس اجلاس میں ہمارے شہیدمولانا سرفراز نعیمی صاحب بھی موجود تھے ۔
 لاہور میں جامعہ اشرفیہ کے اندر وفاق المدارس العربیہ کے تمام علماء کرام طول و عرض سے اکٹھے ہوئے ، اور ایک جامع اعلامیہ جاری کیا اور تمام علمائے کرام نے اتفاقِ رائے کے ساتھ اُس پر دستخط کردیئے ، جس میں یہاں تک لکھا گیا کہ: پاکستان میں مسلح جنگ غیر شرعی ہے ۔ ہر طرف سے اِس پر اتفاق رہا ہے ، ہمیشہ اتفاقِ رائے رہا ہے ۔ 
ووٹ کی شرعی حیثیت پر سب سے پہلے فتویٰ مفتی ٔاعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع v نے دیاتھا اورآج بھی اُن کے فتاویٰ میں موجود ہے ، انہوں نے ملکی جمہوریت کے لیے علمی رائے پیش کی تھی ۔
 ہمارے تمام اکابرین پارلیمنٹ سے وابستہ رہے ہیں ، پارلیمانی سیاست سے وابستہ رہے ہیں ، ہم آج بھی آج کے اِس بیانیہ پر اتفاق کرتے ہیں ۔ بندوق کے ذریعہ شریعت کا مطالبہ غلط ہے، جو لوگ اِس قسم کا مطالبہ بندوق کے ذریعہ کرتے ہیں، اُن سے ہزار ہزار مرتبہ برأت کا اعلان ! لیکن جمہوریت اور پارلیمان کے راستہ سے ‘جائز راستہ سے مجھے کب شریعت ملے گی ؟ آئینی راستہ سے میری یہ تشنگی کب دور ہوگی ؟ ریاست اس کا بھی احتساب کرے ،اور اپنا بھی احتساب کرے ناں ! میراتو روز روز احتساب ہورہا ہے ، مجھ سے تو روز روز لکھوایا جارہا ہے کہ میں پاکستان کا وفادار ہوں ۔ ریاست اور شہری کے درمیان ایک رابطہ ہوتاہے ، جہاں ریاست شہری کے جان و مال کے حقوق کاتحفظ کرتی ہے ، جہاں ریاست ایک سایہ ہے ، وہاں فرد اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔اس رشتہ میں ہم قائم ہیں ۔
 میں نے آپ کے سامنے صرف اُن تین دستاویزات کی بات کی جس میں ‘ میں خود شریک تھا ۔ حضرت مفتی صاحب کا فتویٰ اُس کے علاوہ ہے ، اور بھی علماء نے بار باراس پر کام کیا ہے ۔ اِس تمام کے باوجود میرا مدرسہ ، میری مسجد ، میرے مدرسہ کا استاذ، میرے مدرسہ کا طالب علم، میرے مدرسہ کا قرآن وسنت کا نظامِ تعلیم ، میرے ملک کی ڈاڑھی اورپگڑی ؛ اُس پر اعتما د کب کیا جائے گا ؟ وہ دن بھی تو ہمیں بتادو ! اعتماد دو طرفہ ہونا چاہیے ۔ مدارس پر روزانہ چھاپے لگائے جار ہے ہیں ، آدھی رات میں طلبہ کو اُٹھا کر میدان میں لایا جاتاہے ، تشدد کیا جاتاہے ، مار اپیٹا جاتاہے ، اب میں اِس پر شاکی ہوںکہ میں نے ساری سیاسی اور مذہبی زندگی اِس بات پرگزاردی کہ میں ان دہشت گردوں ، ان مسلح تنظیموں اور اسلحہ کے ذریعہ شریعت کی بات کرنے والوں کو تنہا کردوں اور ہم نے اِنہیں تنہا کیا ہے ،الحمدللہ ! آج تمام مدارس آپ کے ساتھ ہیں ، تنظیماتِ مدارس آپ کے ساتھ ہیں ، تمام مکاتب ِفکرکی تنظیمیں آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن جب مدرسہ کے اجتماعی نظام پر حملہ کیا جاتاہے اوراجتماعی طور پر پورے ماحول میں تشدُّد کیا جاتا ہے ‘ وہ دو بندے جو مجرم ہوتے ہیں‘ جب اُن کو اُٹھایا جاتاہے، صبح دیکھتے ہیں کہ ساری ہمدردیاں پھر اُن کے ساتھ ہوتی ہیں ، اور ہم پھر تنہا نظر آتے ہیں۔
علماء کرام کو فورتھ شیڈول میں مستقل مجرم قراردیا جارہا ہے ۔ اگر میں نے جناب صدرِ مملکت! آپ پر اعتماد کر ناہے تو آپ نے بھی آج کے بعد ہمیں شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا ، تب بات چلے گی ۔ دونوں طرف اعتماد ہونا چاہیے ! میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں، آپ مجھ پر اعتماد کریں ۔ جس طرح آپ آج مجھے اکٹھا کرسکتے ہیں ، خدا کی قسم ! قیامت تک آپ مجھے اِسی طرح متحد رکھ سکتے ہیں، اگر آپ چاہیں تو کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ ساری تاریخ ہماری ایک ہے۔
 اہل ِبیتؓ بھی ہمارے ہیں ، صحابہ کرامؓ بھی ہمار ے ہیں ۔ اہل ِبیتؓ سے نفر ت کرنے والا بھی اپنے ایمان پر نظر رکھے ، صحابہ کرامؓ سے نفر ت کرنے والا بھی اپنے ایمان پر نظر رکھے ۔ یہ ہماری اساس ہے ، اگر یہ اساس بیچ سے ہٹ گئی تو میں اور آپ کس سند سے دنیا کے سامنے اسلام پیش کریں گے ؟ سند کیا رہ جاتی ہے میری اور آپ کی ؟ تو اِس اعتبار سے بھی ہم نے آج اِس اجتماعیت کو پیدا کرنا ہے ، اِس وحدت کو پیدا کرنا ہے ۔ میرا آپ سے اختلاف ہوسکتا ہے ، آپ کا مجھ سے اختلا ف ہو سکتا ہے ۔ اختلا ف کے اپنے گوشے ہیں ، ہم اسلام کی ترجیح کو اول درجہ میں کیوں نہیں رکھ سکتے ؟ اور مسلکی شناخت کو ہم نے پہلی ترجیح کیوں قراردیا ہے؟ یہ ہے ہمارے سامنے بڑا سوال ! جس کی سزا میں بھی بھگت رہا ہوں ، میرا گریبان بھی پھاڑا جارہا ہے ، وجہ کیا ہے؟ میں ریاست سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔ ناراض نہ ہونا ، آج کی مجلس ہے ہی اِسی لیے، تاکہ ہم تھوڑی چیزیں آپ کے ذہن میں ڈالیں ۔ 
اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارہ میں جب تمام مکاتبِ فکر نے وحدت کا مظاہرہ کرلیا اور آج تک کر رہے ہیں ، اب جمہوری راستہ سے ہم نے ملک میں اسلام لانا ہے ، اب تمام دینی قوتیں یکجا ہوکر ایک بازو بن کر، تو پھر ریاست کے گریبان میں پڑے گا ناں! ریاست بہت ہوشیار ہے ، ریاستی ادارے بہت ہوشیار ہیں ، ایسے حالات پیدا کر لیتے ہیں کہ اسلام کی بات کرنے والے اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں، تاکہ مجتمع ہو کروہ ریاست پر دباؤ نہ ڈال سکیں ۔ یہ ہمارے لیے بھی سبق ہے ، ہم بھی اس بات کو سوچیں کہ ہم آپس میں کیوں لڑرہے ہیں ؟ کیوں شدّت کی طرف جاتے ہیں ؟ اسلام تو ہمیں اعتدال کا راستہ دکھاتا ہے ۔ قرآن کریم ہماری تعلیمات کا منبع ہے جو ہمار ے اندر اُترتا ہے اور ہمیں انسان بناتا ہے ، وہ تو مجھے اعتدال کی امت کہتا ہے : ’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطاً‘‘ (البقرۃ:۱۴۳) تو پھر میری قرآن سے وابستگی کو شدّت پسندی سے کیوں تعبیر کیا جارہا ہے ؟ ہم اعتدال پر آئیں ! تجزیہ میں فرق ہوسکتا ہے ۔جب تک میں مذہب کی بات کروں گا ، دین کی بات کروں گا‘ میری طرف نسبت ہوگی : یہ بڑے شدت پسند ہیں، ملا لوگ بڑے سخت لوگ ہیں ، لیکن یہ تجزیہ شاید صحیح نہیں ہے۔
 ہمارے ملک میں جو لبرلز ہیں ‘ وہ بالکل پانی اور مائع ہوچکے ہیں ، اُن کو ہم کہتے ہیں کہ آپ بہت ہی پگھل گئے ہیں اُن کے سامنے ۔ تم ذرا اپنے اندر صلابت پیدا کرو ، ہم ا پنے اندر نرمی پیدا کریں ، خیر خیریت سے ملک چلے گا ۔ ایک صف میں آجائیں گے سارے لوگ ۔آپ تو عالمی قوتوں کے مقابلہ میں پانی بن جائیں اور خود پانی ہو کر میرے اعتدال کو شدّت سے تعبیر کریں۔ پھر یہ انصاف کا تقاضا نہیں ہوگا ۔ تم بھی پانی مت بنو ناں! مت جھکو اتنا آگے کہ ٹرمپ جیسا آدمی آپ کی گردن پر سوار ہو جائے ۔ اب عقل مند آدمی کا تو آدمی جواب بھی دے سکتا ہے ، ٹرمپ کا کیا جواب دوگے ؟ اِس قسم کی دنیا سے ہمارا واسطہ ہے ۔ 
میں تسلیم کرتا ہوں کہ جس طرح دعوت میں حکمت کا تقاضا ہوتا ہے، دعوت‘ حکمت کا تقاضا کرتی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : ’’اُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ‘‘ (النحل:۱۲۵) حکمت کے ساتھ دعوت دیا کرو، خوبصورت لب ولہجہ کے ساتھ دعوت دیا کرو ، شائستہ اندازِ گفتگو کے ساتھ دعوت دیاکرو ! اور اگر کبھی بحث و مباحثہ کا مسئلہ بھی پیش آجائے تو ’’بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ‘‘  شائستہ انداز کے ساتھ ۔
بین المذاہب مکالمہ کے تصور کی سب سے پہلے ہم نے حمایت کی۔ ہم بین المذاہب مکالمہ کے حق میں ہیں، لیکن بین المذاہب مکالمہ پُر امن ماحول چاہتا ہے ۔ آپ نے میرے سر پر تلوار اُٹھائی ہوئی ہے، آپ میری گردن کو بھی مار رہے ہیں، اور آپ مجھے کہتے ہیں کہ مذاکرہ بھی کرو ، مکالمہ بھی کرو! میرے سر کے اوپر جنگ کے بادل ہیں ، بارود برس رہا ہے، میرے بچوں ‘ میری اُمت کا پور ی دنیا میں خون بہہ رہا ہے، آپ میرا خون بھی بہاتے رہیں ، اور آپ مجھے مجبور بھی کریں کہ آؤ! میرے ساتھ مباحثہ کرو! ہاں ہم مباحثہ کے لیے تیار ہیں، آپ بھی تو جنگ بند کردیں۔
 اور میں ریاست کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں: امن وامان ہمارا داخلی مسئلہ ہے، وزیرِداخلہ تشریف فرما ہیں، روز ِاوّل سے ہم یہ مؤقف دے رہے ہیں، اُس وقت بھی جب۲۰۰۱ء میں عالمی اتحاد کا حصہ بننے کی بات کی جار ہی تھی۔ ہم نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ پاکستان کو اِس دلدل میں مت ڈالو! امن وامان داخلی مسئلہ ہے، ہم پاکستان کے اندر اِن عناصر کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں، لیکن بین الاقوامی جنگ کا حصہ بننے کے بعدپھر آپ اِس جنگ کی حدودکو افغانستان تک محدود نہیں کر سکیں گے۔ پڑوس میں آگ لگ جائے تو اُس کو ٹھنڈ اکرنے کے لیے اُس پر پانی ڈالا جاتا ہے۔ ہماری پالیسی یہ کہ ہم نے افغانستان کے اندر برپا ہونے والی جنگ پر تیل چھڑکنا شروع کردیا، جس کے شعلے پاکستان میں داخل ہوگئے، اور آج ہم اُ س سے نبرد آزما ہیں۔ اپنی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ہماری پالیسی واضح ہے ۔ جو لوگ ہماری بات نہیں مانتے، وہ تنہا ہیں۔ اُن کو تنہا کرنا پڑے گا۔ آج کے اِس اجتماع سے بھی وہ تنہا ہیں۔ لیکن ریاست کی سطح پر بھی اگر ہم سے کوئی غلطیاں ہوئی ہیں ‘ اُ س کے ازالہ کے لیے بھی ہم نے بولڈ اسٹیپس لینے ہوں گے، پالیسی اسٹیٹ منٹ دینا ہوگی ہمیں۔ اور اِس طرح ہم پاکستان کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے ہیں ۔
 مملکتیں امن سے چلتی ہیں،جناب رسول اللہ a نے فرمایا: ’’سَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ ! ‘‘اللہ سے عافیت طلب کیا کرو ! ’’وَلَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ!‘‘ دشمن کے ساتھ آمنا سامناکرنے کی تمنا نہ کیا کرو ، جنگ کی خواہش نہ کیاکرو ! ’’وَإِذَا لَقِیْتُمْ فَاثْبُتُوْا !‘‘ ہاں ! اگر مقدر ہے ، جنگ درپیش ہوجائے، پھر بزدلی نہیں دکھانا،پھر ڈٹ جاؤ اُس کے مقابلہ میں ! تدریج کے ساتھ ، پہلی چیز عافیت ہے ، جنگ کی تمنا کبھی نہ کیا کرو ، اور اگردرپیش ہو جائے تو پھر ڈٹ جایا کرو۔
میں نے کئی مرتبہ علماء کرام کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ: جہاد ایک فریضۂ شرعی ہے اورجہاد کرنے والے کااتنا اجر و ثواب ہے ! اورساری چیزیں اپنی جگہ پر، لیکن جہاد کا تو میدان بڑا وسیع ہے۔ صرف بندوق اور تلوار ‘ اوروہ بھی اپنی ریاست کے ساتھ اور اُس کو جہاد کہنا؛ اِس پرعلماء کرام اتفاق نہیں کررہے آپ کے ساتھ، اِس تصوُّر کے ساتھ اختلاف ہے ۔ تو اِس حوالہ سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے ۔ جو آپ کو وسائل ریاست مہیا کرتی ہے ، آئین مہیا کرتا ہے، اُس میں جو آپ کے بس میں ہے ‘ آپ وہ کرتے جائیں ، اِس سے آگے مت جائیں۔ آپ جلسے کریں، آپ جلوس کریں، آپ پارلیمنٹ میں جائیں، آپ اپنا نظریہ پیش کریں، بحث چلے وہاں پر ۔ اِس اعتبارسے اصل چیز ہے : امن!  
 حضرت ابراہیم m جو شرک کے خلاف لڑتے رہے ، بتوں کوتوڑتے رہے ، اس پاداش میں آگ میں پھینکے گئے، لیکن جب امامتِ کبریٰ ملی : ’’وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ‘‘ اللہ نے امتحانات لیے اور آپ اُس میں کامیاب ہوئے : ’’قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً‘‘(البقرۃ:۱۲۴) اب انسانیت کے امام بن گئے، امر اجتماعی آپ کے ہاتھ میں آگیا، اب آپ اِس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو کا زاویہ دیکھیں: ’’وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَداً آمِناً‘‘ (البقرۃ:۱۲۶) کُرَّۂ ارض کے سب سے بڑے مُوَحِّد ، شرک کے خلاف سب سے بڑے مجاہد، لیکن جب امر اجتماعی کی ذمہ داری آئی تو فوراً آپ نے کہا : ’’رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَداً أٰمِناً وَّارْزُقْ أَہْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ۔‘‘  اب آپ امن کے بھی خواہش مند ہیں اور اقتصادی خوشحالی کے بھی ۔ ریاستیں امن سے چلتی ہیں، ریاستیں اقتصادی خوشحالی سے چلتی ہیں ، اپنے وسائل کو کب ہم استعمال کریں گے؟ تاکہ ہم دنیا کی حاجتوں سے بے نیاز ہوں! ہم کُرَّۂ ارض پر اللہ کے نائب ہیں ، تو جب اللہ ایک ہے تو اس کی نیابت کا تقاضا ہے کہ مؤمن ایک رہے۔ اگر اللہ بے نیاز ہے تو پھر اُس کی بے نیازی کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے، اُن کی مدد اورقرضوں سے بے نیاز ہو جائے ۔ اِن تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ریاست کو کب تشکیل دیں گے ؟ ہمیں پہلی چیز امن چاہیے۔
 پانچ /چھ سال پہلے غالباً میں بنّوں میں تھا، رات کو میں سویا ہوا تھا تو میں خواب دیکھ رہا ہوںکہ: ’’حضرت آدم  علیہ السلام سے فون پربات کررہا ہوں ، اور حضرت آدم m مجھے فرماتے ہیں : تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: امن چاہتا ہوں ۔ اُس کے بعد لائن کٹی نہیں ، لیکن خاموشی کاایک وقفہ آگیا، میں سوچتا ہوں کہ میں کچھ کہوں تو بے ادبی ہے ، خاموش مسلسل رہوں تولائن کٹ جائے گی، تو میں نے سلام عرض کیا ، فرمایا : انتظار نہیں کرسکتے ؟‘‘ انتظار تو کررہے ہیں ہم ، ابا نے کہہ دیا : انتظا ر کرو ! تو اِس انتظار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا ہے ، اتفاق ِرائے سے بڑھنا ہے ۔ 
ہمارے اندر کی روح امن مانگتی ہے ، اسی لیے جب ریاست نے امن کے قیام کے لیے فوج اور اداروں کو میدان میں اُتارا، ہم نے سپورٹ کیا ‘ کیوں کہ ہم امن چاہتے ہیں ۔ حکمت عملی میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے، لیکن ریاست مقدم ہے ، جب اُس نے فیصلہ کیا ، ہم نے پیروی کی ۔ لہٰذ اعلماء کرام اِس بات پر بھی غور کریں کہ ریاست کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے ؟! ریاست کی حاکمیت اور اُس کی اطاعت کا تصور کیا ہے ؟! اور اِس پر اپنے نوجوانوں کو تعلیم دی جائے، تاکہ وہ اِس کی اہمیت کو سمجھیں،اور ریاست کے وفا دار رہیں ، ریاست کی اطاعت کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان کے ساتھ وفادار رہنے ، پاکستان کوعروج و ترقی دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وأٰخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین!
حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے بجا فرمایا ہے کہ: ۱:… ریاست نے جب بھی علمائے کرام کو اتحاد کی دعوت دی ہے ، تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے اس پر لبیک کہا ہے۔ پھر بھی الزام اُنہیں دیاجاتا ہے کہ مذہبی لوگ فساد کی جڑ ہیں۔
۲:… علمائے کرام نے ملکی نظام چلانے کے لیے بطور اساس اور اصول کے جو متفقہ ۲۲ نکات مرتب کیے تھے ان پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟!
۳:… ۱۹۷۳ء سے لے کر آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟
۴:… علمائے کرام تو ہمیشہ اس بیانیہ کی تائید اور توثیق کرتے آئے ہیں اور آج بھی اس کی تائید وتوثیق کررہے ہیں۔
۵:… مولانا نے سوال کیا کہ بندوق کے ذریعہ شریعت کا مطالبہ غلط اور ہم سو بار ایسے لوگوں سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں، لیکن ہمیں جمہوریت کے راستہ اور جائز راستہ سے شریعت کب ملے گی؟ ریاست اس کا بھی احتساب کرے۔
۶:… مولانا نے فرمایا : ریاست اور شہری کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، جہاں ریاست شہری کے جان ومال کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، وہاں فرد اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے، ہم اس رشتہ پر قائم ہیں۔
۷:… مولانا نے سوال کیا کہ علمائے کرام نے ہر موقع پر ریاست کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا، لیکن میرا مدرسہ ، میری مسجد، میرے مدرسہ کا استاذ، میرے مدرسہ کا طالب علم، میرے مدرسہ کا قرآن وسنت کا نظام تعلیم، میرے ملک کی ڈاڑھی اور پگڑی پر اعتماد کب کیا جائے گا؟ 
۸:… مولانا نے واضح طور پر فرمایا: اہل بیتؓ بھی ہمارے ہیں، صحابہ کرامؓ بھی ہمارے ہیں اور یہ دونوں ہمارے دین کی اَساس ہیں، ان میں سے کسی ایک سے نفرت کرنے والا اپنے ایمان پر نظر رکھے۔ ہم اسلام کو اول ترجیح کیوں نہیں بناتے؟ مسلکی شناخت کو ہم نے پہلی ترجیح کیوں دی؟ کیوں ہم شدت کی طرف جاتے ہیں؟ ہم اعتدال کا راستہ کیوں نہیں اپناتے؟ یہ ہے ہمارے سامنے بڑا سوال جس کی سزا ہم سب بھگت رہے ہیں۔ 
۹:… مولانا صاحب نے اُمتِ مسلمہ کی طرف سے مغربی دنیا کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ایک طرف تم اس سے بین المذاہب مکالمہ کی بات کرتے ہو، حالانکہ ہم اس کے قائل ہیں، دوسری طرف ہمارے اوپر بم اور بارود برساتے ہو، تو مکالمہ کیسے ہوگا؟ مسلمانوں پر مسلط جنگ آج تم بند کرو، ہم مکالمہ کے لیے تیار ہیں۔
۱۰:… مولانا نے فرمایا : جہاد ایک فریضۂ شرعی ہے، اس کا میدان وسیع ہے، اس پر بڑا اجروثواب ہے، لیکن اپنی ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانا ، علمائے کرام اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس لیے کہ مکالمہ اور مذاکرہ پرامن ماحول چاہتا ہے۔
مولانا صاحب نے علمائے کرام کو فرمایا کہ: اس پر غور کرلیں کہ ریاست کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ریاست کی حاکمیت اور اس کی اطاعت کا تصور کیا ہے؟ نوجوانوں کو اس کی تعلیم دی جائے، تاکہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھیں اور ریاست کے وفادار رہیں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے تمام ریاستی اداروں کو مستحکم فرمائے، بیرونی دشمنوں سے اس کی حفاظت فرمائے، ہم پاکستانیوں کو اندرونی، نسلی، لسانی، عصبیتی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے بچنے کی توفیق دے اور ہمارے ملک پاکستان کو اسلامی نظام کی برکات اور بہاروں سے جلد از جلد مالامال فرمائے، آمین۔

 

  وصلٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین